وجود

... loading ...

وجود
وجود

کشمیر کاز:ہر ایک کو ایجنٹ قراردینے کی نقصان دہ روِش

بدھ 18 جنوری 2017 کشمیر کاز:ہر ایک کو ایجنٹ قراردینے کی نقصان دہ روِش

ایجنٹ انگریزی زبان کا لفظ ہے مگر یہ دنیا کی اکثر زبانوں میں اس قدر بولا جاتا ہے کہ گویا ہر زبان کا لفظ ہو ۔اس کی وجہ شاید صرف یہ ہے کہ اس لفظ کو ہر شخص بلا کم و کاست اپنے دشمن کے لیے استعمال کرتا ہے ۔دنیا میں جتنے بھی انسان رہتے ہیں ان کے ارد گرد صرف ان کے دوست ہی نہیں بستے ہیں بلکہ وہ دشمنوں کی عداوت کو بھی سہتے ہوئے ’’منزلِ حیات‘‘طے کر تے ہیں ۔ آدم ؑکی پیدائش کے ساتھ ہی اس کے وجود میں مختلف اور متضاد خصائل و صفات کو تخلیق کیا گیا یہی وجہ ہے کہ اس میں جہاں بے پناہ رفاقت پائی جاتی ہے وہی یہ عداوت میں بھی بے مثال دکھائی دیتا ہے ۔عالمِ رنگ و بو میں دشمنی کی ایک وجہ جہاں ’’عقائد کا اختلاف ‘‘نظر آتا ہے وہی ’’فکری اختلافات ‘‘کے علاوہ متضاد معیارات بھی اس کی اہم اور بنیادی وجہ نظر آتی ہے ۔نفرتوں اور عداوتوں کے آگ میں جھلسنے والی دنیا میں سب سے زیادہ نقصان ’’انسانی قدروں‘‘کو پہنچا ہے ۔ہزاروں برسوں سے اس دنیا میںجینے والے انسان پہلے بھی ایک دوسرے سے لڑتے تھے اور سلسلہ اس آخری انسان تک قائم رہے گا جس کے مر نے سے پہلے قیامت کا آغاز ہو گا ۔معروف مذاہب کے بیچ یہ سلسلہ بہت قدیم ہے مگر اب ’’ہر مذہب،فکر اور تحریک کے درمیان‘‘بھی نفرتوں کا وہ لاوا پھوٹ پڑا ہے کہ دشمنی اور عداوت کے الفاظ اس کے سامنے بالکل چھوٹے بلکہ حقیر نظر آتے ہیں ۔
ہمارا موضوع بین المذاہب عداوت اور دشمنی نہیں ہے بلکہ وہ نفرت ہے جو بین المسلمین اب اپنی آخری حدود کو چھوتی ہوئی نظر آتی ہے اور ہم ایک دوسرے کو زیر کرنے کے لیے اس قدر بیتاب بلکہ بے باک ہوچکے ہیں کہ اپنے ہر مسلکی،تنظیمی یا فکری مخالف کو بلاغوروفکر ’’دشمن کا ایجنٹ‘‘قرار دیتے ہیں ۔اہل اسلام دو بڑے مسالک ’’شیعہ اور سنی‘‘میں سینکڑوں برسوں سے منقسم ہیں مگر شام،عراق اور یمن کی ہلاکت خیز جنگوں کے بعد خلیج اس قدر بڑھ چکی ہے کہ ہر شیعہ سنی کو اور ہر سنی شیعہ کو یہودیوں،عیسائیوں یا کم سے کم اسرائیل،امریکا اور روس کا ایجنٹ قراردیتا ہے۔عجیب معاملہ یہ کہ عالم اسلام میں مذہبی حلقے کے ساتھ لبرل اور سیکولر کلاس کی بڑھتی دشمنی میں بھی دونوں طبقات ایک دوسرے پر یہی الزام عائد کرتے ہیں ۔مزے کی بات یہ کہ ’’شیعہ اور سنی مذہبی و لبرل ‘‘حضرات اس مسئلے میں ایک دوسرے کے بہت قریب نظر آتے ہیں جس طرح سنی مذہبی اور لبرل طبقہ ایک دوسرے پر ’’دشمن کے ایجنٹ‘‘کا فتویٰ صادر کرتا ہے بالکل اسی طرح شیعہ مذہبی اور لبرل طبقات اس ’’نیکی ‘‘میں کسی ’’سنی ملا یا مسٹر‘‘سے پیچھے نہیں ہیں ۔دور نہ جائیں، سیدھے اپنی سرزمین جموں و کشمیر پر آکر قدم روک کر اس بدتمیزی کا تماشا دیکھیے ۔یہاں بھارت کے حامیوں اور مخالفین کی ایک وسیع آبادی آبادہے۔ یہاں جو بھارت کے خاکوں میں رنگ بھرتا ہے وہ ہندوستانی ایجنٹ کہلاتا ہے اور جو آزادی کی بات کرتا وہ پاکستانی ایجنٹ قرار پاتا ہے ۔اس ایجنٹ کی زد میں صرف یہی چند قسمیں نہیں آتی ہیں بلکہ امریکا، اسرائیل،روس،پاکستان،سعودی عرب اور ایران کے ساتھ ساتھ نیشنلی ،پی،ڈی،پی، کانگریسی ،سنگھی اور حریتی ایجنٹ بھی بہت مستعمل ہے ۔ حیرت انگیز بلکہ المناک یہ کہ ایک ہی مسلک،ایک ہی فکراور ایک ہی تنظیم کے لوگ بھی ایک دوسرے کو غیروں کا ایجنٹ قرار دیکر ’’لفظ ایجنٹ‘‘کی توہین کرتے ہیں ۔
1947ء میں تقسیم کشمیر کے ساتھ ہی ایجنٹ کا لفظ ہر شخص ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے لگا ۔1990ء کے بعد اس کا چلن اس قدر وسیع پیمانے پرہونے لگا کہ کشمیر کی آبادی میں شاید ہی کوئی اس کی زد میں آنے سے بچا ہوگا ۔1990ء میں عسکری دور کے آغاز کے ساتھ ہی درجنوں عسکری تنظیموں کی تخلیق اور پھرنظریاتی اختلافات کے پس منظر میں باہمی کشت و خون نے نہ صرف کشمیر کی سینکڑوں برس پرانی بھائی چارے کی روایات کو پامال کر کے رکھ دیا بلکہ ’’کشمیر کی اخوت و محبت کی روح ‘‘کو بھی کچل کر رکھ دیا ۔ہر تنظیم دوسری تنظیم کو ہندوستانی ایجنٹوں کی جماعت قرار دے کران کے مال و جان کو اپنے لیے حلال کر تی تھی ۔ نیشنلیوں اور کانگریسیوںکے متعلق تو عام بات تھی مگرخود وہ تنظیمیں جو کشمیر کی آزادی کی ترجمانی اور نمائندگی کی دعویدار تھیں بلا خوف و جھجک ایک دوسرے پر ’’انڈین ایجنٹ‘‘ہو نے کا الزام دھرتی تھیں۔عسکریت کی رفتار تھم جانے کے بعد جب معاملات حریت کانفرنس کے ہاتھ میں آنے شروع ہو گئے تو ہر غیر حریتی کے لیے یہی لفظ استعمال ہو نے لگا حتیٰ کہ جب حریت کانفرنس تقسیم ہوگئی تو دونوں کے دارالافتاسے ایجنٹ کا لفظ ایک دوسرے کے خلاف خوب استعمال ہو نے لگا حتیٰ کہ اس کی زد میں وہ لوگ بھی آنے لگے جنہیں آزادی پسند طبقوں میں ایک مقام حاصل تھا۔
’’بے چارہ ایجنٹ ‘‘کا لفظ گرتے گرتے اس قدر گر گیا کہ بلاشبہ اگر اس میں قوت گویائی ہوتی تو چیخ چیخ کر انسانوں کی ملامت کرتا ۔مجھے اس سچائی سے بھی انکار نہیں ہے کہ بعض ایجنٹوں نے اپنے ملک و ملت کے لیے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے ہیںکہ ان ممالک و ملل نے ان ایجنٹوں کا نام اپنے ’’ہیروز‘‘میں شامل کر لیا ہے جن کے تذکرے کا یہ محل نہیں ہے مگر جن معنی اور پس منظرمیں میں بات کر رہا ہوں اس پسِ منظر اور معنی میںیہ لفظ انتہائی شرمناک اور قابل کراہت قرار دینے کے قابل ہے۔ کشمیر میں اس کے توسع کا سہرا 1990ء کے عسکری دور کو جاتا ہے جب سے ایک دوسرے پر ’’شک‘‘کرنا ہماری فطرت ثانی بن گئی اور اب عالم یہ ہے کہ وادی کشمیر کے معروف صحافی اور قلمکار صریرخالد صاحب نے مجھ سے خود کہا کہ8جولائی 2016ء کے ہی دن ایک نجی محفل میں بعض تنگ نظر حضرات نے ان سے کہا کہ ’’شہید برہان وانی‘‘ایجنسیوں کے ساتھ ملا ہوا ہے وجہ پوچھنے پر بتا دیا گیا کہ اب تک کیسے بچا ہوا ہے ؟اور پھر جب اس معصوم کا قتل ہوا تو یہی لوگ اس کی’’ شہادت‘‘ پربہت زیادہ ماتم کرتے ہو ئے نظر آئے ۔صریر صاحب کی اس روایت پر مجھے خود کا ایک مشاہدہ بھی یاد آیا جب 1997ء میں میں کٹھوعہ جیل میں مقید تھا ۔قیدیوں کے پاس باہر کے حالات جاننے کے ذرائع بہت محدود تھے ۔اردوزبان میں صرف ایک فحش اخبار’’روزنامہ ہندسماچار‘‘جوپنجاب سے شائع ہوتا ہے اوردوسراانگریزی زبان میں’’ ڈیلی ایکسل شئیر‘‘جو جموںسے شائع ہوتا ہے، کے علاوہ یہاں چند ایک ریڈیو سیٹ تھے جس سے ریڈیوکشمیر سرینگر کی چھلنی اور تحریف شدہ خبروں کے علاوہ ہم بی بی سی اردو سن پاتے تھے جہاں سے نشر ہونی والی خبروں میںکبھی کبھار ہی کشمیر سے متعلق کوئی خاص خبر ہمارے کانوں سے ٹکراتی تھی کہ اچانک ایک شام ساڑھے سات بجے ایک خبر نے قیدیوں کو ششدر کردیا کہ حزب المجاہدین کے اعلیٰ ترین چار کمانڈرآبی گزر سرینگر میں ایک ساتھ گرفتار ہو گئے جن میں حزب المجاہدین کے ڈپٹی سپریم کمانڈر سیف اللہ ،حزب المجاہدین کے فائنانشل چیف انجینئر فردوس کرمانی ،حزب المجاہدین میں مدغم شدہ عسکری تنظیم اللہ ٹائیگرز کے کمانڈر انچیف غازی الیاس اور حزب المجاہدین کے شمالی کشمیر کے ڈیویژنل کمانڈر منظور احمد خان شامل تھے ۔فوج اور پولیس ترجمان نے اس خبر کو ایک بے مثال کامیابی قرار دیتے ہو ئے کاروائی میں شامل حضرات کی زبردست حوصلہ افزائی کی جو ہر ایسی خبر کی خصوصیت ہو تی ہے ۔قیدیوں میںننانوے فیصدلوگ وہ نوجوان تھے جنہیں عسکری پس منظر میں گرفتار کر کے جیل بھیج دیا گیا تھا ،ان میں اکثر کی زبان سے ایک ہی بات سنائی دے رہی تھی کہ ہمارے کمانڈروں نے سرنڈر کیا ہوگا!
حیرت کی بات اس سانحہ کے حوالے سے یہ تھی کوئی بھی فرد ’’سرنڈر‘‘کی کہانی ثابت نہیں کر سکتا تھا مگر رات بھر اس کے چرچے جاری رہے اور پورے جیل میں یہی ایک موضوع چھایا رہا حتیٰ کہ اگلے دن صبح سویرے آل انڈیا ریڈیو سے نشر ہونے والی خبروں میں بھی سرنڈر کے برعکس گرفتاری کا ہی دعویٰ کیا گیا ۔اس خبر کے ٹھیک ڈیڑھ گھنٹہ بعد اسی واقعہ کے حوالے سے پولیس ترجمان کے حوالے سے یہ خبر نشر کی گئی کہ فوج کو مجبور ہو کر ان چاروں کمانڈروں پر اس وقت گولی چلانی پڑی جب سیکورٹی فورسز کے ساتھ چھاپے پر جاتے ہو ئے انھوں نے بھاگنے کی کوشش کی ۔ یہ خبر سنتے ہی جیل میں سناٹا چھاگیا اور وہی لوگ آنسو بہانے لگے جنہوں نے بارہ گھنٹے قبل ایک دوردراز مقام پر چار دیواری میں ان کی گرفتاری پر شک کیا تھا ۔میں نے ان نوجوانوں کو وہ شکوہ یاد دلایا جس ’’شکوے‘‘کے جیل کی کال کوٹھریوںمیں روز چرچے رہتے تھے کہ باہر والے ’’ہر گرفتار ہونے والے کو سرنڈر کرنے والا ‘‘کیوں قراردیتے ہیں ؟میں نے کہاکہ یہی وہ مرض ہے جو باہر والوں کو لگ چکا ہے اور آج معلوم ہوا کہ ہم سب اس مرض میں بری طرح مبتلا ہیں۔ جب حزب المجاہدین کی اعلیٰ ترین قیادت پر بلا تحقیق اتنا بڑا شک کیا جاسکتا ہے تو پھر کوئی اور کس کھیت کی مولی ؟یہی حال جیل میں دوسری تنظیموں سے وابستہ نوجوانوں کا تھا کہ وہ اپنے ہر چھوٹے بڑے کے متعلق سرنڈر کہانی خود ہی اختراع کرتے تھے ۔
اب توکشمیرکی آبادی کا بڑا حصہ اس ’’مہلک مرض‘‘میں بر ی طرح مبتلا ہو چکا ہے ۔جو لوگ اس وقت برسرِ جدوجہد ہیں اور زندہ ہیں وہ ہمارے نزدیک اس لیے مشکوک ہیں کہ وہ ابھی تک ’’قتل‘‘نہیں کیے جا چکے اور جب کبھی کبھار کوئی گرفتار ہو جاتا ہے وہ ’’سرنڈر‘‘کہلاتا ہے !حیرت یہ کہ پولیس ذرائع کبھی بھی کسی بھی شخص کی سرنڈر یا گرفتاری کی کہانی خفیہ نہیں رکھتے ، الا یہ کہ کوئی خاص ریاستی ضرورت ہو اور اس کے وجوہات اور اسباب بعد میںمعلوم ہو ہی جاتے ہیں ۔حیرت یہ کہ اب یہ بیماری کشمیر کی سرحدوں سے نکل کر آزاد کشمیر میں پھیلنے لگی ہے ۔سوشل میڈیا کے ذریعہ بالعموم اور فیس بک کے ذریعے بالخصوص یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ آزاد کشمیر یا پاکستان میں جو دینی یا جہادی جماعتوں کے حوالے سے مخصوص رائے رکھتے ہیں انھیں امریکی یا بھارتی ایجنٹ قرار دینے میں دیر نہیں لگائی جاتی ہے ۔مجھے اس حقیقت سے بھی انکار نہیں ہے کہ ہر ملک میں دشمن ملک کے ایجنٹ ہوتے ہیں مگر کیا آبادی کا بڑا حصہ ایجنٹ قرار دیا جاسکتا ہے ؟یا جن کی آرأ اور رائے سیاسی اور مذہبی مسائل میں کچھ بھی مختلف ہو ہم اور آپ بلا توقف انھیں دشمن کا ایجنٹ قرار دیدیں، کیا یہ ’’گناہِ عظیم ‘‘نہیں ہے ؟دو تین ماہ قبل پاکستان کے ایک معروف صحافی ارشاد محمود صاحب نے کشمیر میں جاری ایجی ٹیشن کے موقع پر پاکستان میں ایک مذہبی تنظیم کے ’’امدادی مہم ‘‘پر چند سوالات اٹھائے کہ کیا بھارت اس چندے ،ادویات اور دیگر اشیاء کو ہندوستانی کشمیر پہنچانے کی اجازت دے دے گا؟نہیں اور یقیناََ جمع کرنے والے بھی جانتے ہیں کہ نہیں، تو پھر چندہ جمع کرنے کی ضرورت کیوں؟اس پر اس تنظیم نے ان پر ’’دشمن کا ایجنٹ‘‘ہونے کا لیبل چسپاں کردیا ؟اسی طرح آزاد کشمیر کے ایک نوجوان صحافی دانش ارشاد نے’’آزاد کشمیر کے حریت چیپٹر پر سید علی گیلانی کے تنقیدی تقریر ‘‘کے پس منظر میں ایک مضمون لکھا اور حیرت یہ کہ لوگ گیلانی صاحب پر برہم ہونے کے بجائے دانش پر برہم نظر آئے ؟آخر یہ کینسر جیسی مہلک بیماری ہمیں کیوں لگی ہے ۔
تنقید کرنا نہ گناہ تھا نہ ہی مستقبل میں گناہ قرار پائے گامگر اس کے حدود قیود کا لحاظ کرتے ہو ئے اگر کوئی شخص مجھے آئینہ دکھاتا ہے تو اس میں برائی کیا ہے ؟کہیں ہم عدم برداشت کی بیماری میں مبتلا تو نہیں ہو ئے ہیں ؟یہ بھی سچ ہے کہ بعض ناقدین حدود قیود توڑتے ہو ئے انتہائی پستی تک آجاتے ہیں مگر ہمیں دلائل کا جواب دلائل سے دینے کا گر سیکھنا چاہیے، بدتمیزی اور اپنوں کو مفت میں غیروں کے ایجنٹ قرار دینے سے باز آنا چاہیے ورنہ خطرہ اس بات کا ہے کہ ناقد جان کے خوف سے تنقید ترک کر دے گا اور سماج ایک ناسور زدہ لاش کی صورت اختیار کرے گا ۔میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ ’’اسلام پسند‘‘تنقید کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہیں مگر جب یہی ہتھیار ہمارے خلاف کوئی دوسرااستعمال کرتا ہے تو ہماری بوکھلاہٹ دیدنی ہوتی ہے ۔خود کئی کمانڈران اور حریت لیڈران نے کئی اخباری مدیروں کو فون کر کے میرے مضامین نہ چھاپنے کا حکم صادرفرمایا ،برعکس اس کے ہماری توپوں کا رُخ99.99فیصدغیر مسلم حکمرانوں اور سیکولرو لبرل لیڈروںکی جانب ہی رہتا ہے اور ان کا صبر اس مسئلے میں قابل رشک ثابت ہوا ہے آخر کیوں؟کیا ہم ان انبیاء علیہم السلام سے نعوذ باللہ کوئی بڑی چیز ہیں جن پر اپنی قوموں نے غضب ڈھایا تھا اور خود حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ان واقعات سے بھری پڑی ہے جن میں تنقید حتیٰ کہ توہین تک برداشت کرنے کے آخری درجے کے واقعات موجود ہیں ۔آخر ہمیں ہی ان بیماریوں نے کیوں گھیر لیا ہے ؟
دو چیزوں میں فرق کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں، ایک خواہ مخواہ شک کر کے ہر ’’فکری یا نظری‘‘مخالف کو دشمن کا ایجنٹ قرار دینا۔ دوم غیر ضروری تنقید کا شغل اختیار کرنا یا مخلص ناقد کو تنقید سے روکنا ۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ ہم اس ’’مفت کے دھندے‘‘کو ترک کر کے اپنے آپ کو اُخروی خسارے سے بچالیں ۔نہیں تو ہم کوئی کارنامہ انجام دینے کے برعکس ایک دوسرے کو ہی کوستے رہیں گے یہاں تک کہ غیر کئی سو سال مزیدآگے نکل جائیں گے۔ رہی آخرت تو وہاں ہمیں نقصان سے کوئی بچا نہیں پائے گا ۔8 جولائی 2016ء کو برہان کی شہادت کا سانحہ پیش آیا 9جولائی کو ایک ’’تنگ نظر دانشور‘‘نے میرے ایک دوست سے کہا کہ حریت کانفرنس بک چکی ہے!سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ایسی تنگ نظری اور کوتاہ اندیشی کی کسی بھی سماج میں گنجائش پیدا ہو سکتی ہے ؟اگر ہم نے اپنی نئی نسلوں میں بھی یہ جراثیم منتقل کر دیے تو ان کا کیا بنے گا ؟ہم وطن کی آزادی کے متمنی ہی نہیں بلکہ اس کے لیے برسر جدوجہد بھی ہیںتو کیا ایسی صورتحال میں کسی قوم کو آزادی مل سکتی ہے جس میں ایک دوسرے پر بھروسے اور اعتماد کا اس قدر فقدان ہو کہ ہمیں ہر دوسرا دشمن کا ایجنٹ نظر آئے اور اپنی ذات کے سوا ہر دوسرا بد خواہ یا وطن اور دین دشمن ۔ہمارے لیے ضروری ہے کہ جہاں نظریات اور افکار کا ہجوم ہو وہاں ’’ایجنٹ ‘‘قرار دینے کے بجائے اپنی دلیل مؤثر انداز میں پیش کریں اور جہاں ہم خود غلط ہوں وہاں غلطی قبول کریں نہ کہ کسی دوسرے کے سر موڑنے کی ناکام کوشش کریں ۔
دوسروںکو ایجنٹ قراردینے کے دھندے کو ترک کرنے سے ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد بڑھ جائے گا ۔ریاستیں بے رحم ہوتی ہیں وہ اپنے سراغ رساں اداروں کو افراد پر نظر رکھنے کے لیے متعین تو کرتی ہیں ،پر جہاں مقصد واضح اور جدوجہد جائز ہو وہاں کسی ’’جاسوس‘‘سے خوف زدہ ہو نے کی چنداں ضرورت نہیں رہتی ہے بلکہ وہ خود ہی مایوس ہو کر شرمندہ ہو جاتے ہیں ۔اس مہلک مرض سے باز آنے اور بچنے کا اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ پر سکون زندگی ہمارا مقدر بن جائے گی اور اپنے بھائیوں کے حرکات و سکنات پر اعتماد کرتے ہو ئے ان کی خطا کو’’ خطائِ بشری‘‘کے کھاتے میں ڈال دیں گے۔ نہیں تو اختلاج قلبی اور ذہنی پراگندگی کے مرض میں مبتلا ہونے کے ساتھ ساتھ سوئِ ظن،غیبت،حسد،کینہ،شک،نفرت،عداوت اور وہم جیسے مہلک روحانی امراض میں مبتلا ہو جائیں گے جن کا علاج ناممکن ہے اور ہم میں بشمول قیادت و عوام یہ بیماریاں بڑی حد تک سرایت کر چکی ہیں۔ مجھے ایک’’ لطیفہ ‘‘ہاں جی ’’لطیفہ‘‘ اب تک یاد ہے کہ مجھے ایک روز ایک بین الاقوامی سطح کے مذہبی ادارے کے مؤذن نے ایسا واقعہ سنایا کہ اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکا اور مجھے احساس ہوا کہ جب کسی قوم میں کسی بھی طرح کا فوبیا پیدا ہو جائے تو وہ رائی کو بھی پہاڑ بنا دیتی ہے ۔مؤذن کا کہنا تھا کہ مجھے نمازکے بعد ایک روز امام جامع نے بلا کر کہا کہ RSSمجھے مارنا چاہتی ہے ۔مؤذن ہکابکا رہ گیا اس لیے کہ امام صاحب بلاشبہ بہت بڑی شخصیت تھی پر اتنی نہیں کہ RSSاس کے قتل کی سازش کرتی۔ مؤذن نے پوچھا وہ کیسے ؟تو امام صاحب نے مصلیٰ کا کونا الٹ کر دکھایا جس کے نیچے ’’شیونگ بلیڈ‘‘کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا کسی بچے نے چھپا رکھا تھا!یہ تھی امام صاحب کی قتل کی سازش کا خلاصہ ۔
ہمیں چاہیے کہ آپ اپنا محاسبہ کریں ۔دوسروں پر اگر بھروسہ بھی نہیں کر سکتے ہیں تو بھی انھیں خواہ مخواہ دشمن کی جھولی میں نہ ڈالیں ۔ہمارے بیچ مذہبی، مسلکی، فکری اور نظریاتی اختلافات موجود ہیں مگر ان کو بنیاد بنا کر ہم ’’دوسروں کو غلط اور صرف میں ٹھیک ‘‘کہہ کر سچے ثابت نہیں ہو سکتے ہیں ۔ہمارے درمیان سیاسی اختلافات کا ایک سمندر موجود ہے مگر اسی کو دلیل بنا کر ہم اپنے بھائیوں کو اپنوںہی کی نگاہوں میں گرا کر کوئی قلعہ تعمیر نہیں کر سکتے ہیں ۔مسلکی یا فکری اختلافات کی بنیاد پر ’’کفرو شرک اور فسق و فجور‘‘کے فتوے داغنے سے کوئی نہ اپنا مسلک ترک کرتا ہے نہ ہی’’ تطہیر فکر ‘‘کرتا ہے بلکہ اس میں پہلے سے بھی زیادہ شدت پیدا ہو جاتی ہے ۔ہر فرد’’ مفتیانہ مزاج‘‘اپنا کر دوسروں کو دق اور زچ کرنے سے کوئی نہ ہی خوف زدہ ہوتا ہے نہ ہی اپنی اصلیت ترک کرتا ہے اس لیے کہ انسانی جذبات اور احساسات میں انیس بیس کا فرق ہوتا ہے ۔مسلک ،فکر ، نظریہ اور اپروچ کو تبدیل صرف دلائل سے ہی کیا جا سکتا ہے ڈراور خوف سے نہیں۔نا ہی ’’ایجنٹ‘‘قرار دینے سے کوئی شخص اپنے عقائد تبدیل کرتا ہے اور اس کے درست اعدادوشمار کے لیے آپ اور مجھے کسی سرکاری محکمے سے رجوع کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے بلکہ یہ ہمیں ہمارے محلے اور بستی میں ہی اچھی طرح نظر آسکتا ہے بشرطیکہ ہم ٹھنڈے پیٹوں تحمل کے ساتھ مثبت انداز میں مسائل کو دیکھنا گوارا کر لیں ۔
٭٭


متعلقہ خبریں


شہید برہان وانی بھارت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن گیا! اشتیاق احمد خان - هفته 08 جولائی 2017

کشمیری پاکستانیوں سے سینئر پاکستانی ہیں کہ پاکستان کا قیام14 اگست 1947 کو وجود میں آیا اس سے قبل تمام لوگ ہندوستان کے شہری تھے جو ہندوستان سے ہجرت کر کے جب پاکستان میں داخل ہوئے وہ اس وقت سے پاکستانی کہلائے لیکن کشمیریوں نے 13 جولائی1947کو پاکستان سے الحاق کا اعلان کرتے ہوئے ریا...

شہید برہان وانی بھارت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ بن گیا!

برہان وانی کی شہادت ۔تحریک آزادیٔ کشمیر کا سنگ میل بن گئی وجود - هفته 08 جولائی 2017

اکتوبر2015ء میں جب کشمیر میں تاریخی معرکے لڑنے والے ابوالقاسم عبدالرحمن شہادت کی خلعت فاخرہ سے سرفراز ہوئے توابوالقاسم شہیدکے قافلہ جہاد سے متاثر برہان مظفروانی نامی ایک چمکتا دمکتاستارہ جہادی افق پرنمودارہوا۔اس نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی رُوح پھونک دی۔ برہان وانی ایک تو با...

برہان وانی کی شہادت ۔تحریک آزادیٔ کشمیر کا سنگ میل بن گئی

صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے کشمیر ی عسکریت کے گلوبلائزد ہونے کا امکان وجود - جمعه 30 جون 2017

امریکا نے بھارتی وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے دورۂ امریکا کے موقع پر بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے مسلح رہنما محمد یوسف شاہ عرف سید صلاح الدین کو ’خصوصی طورپر نامزد عالمی دہشت گرد‘ قرار دے دیا ہے۔بھارت نے جہاںامریکا کے اس اعلان کا خیرمقدم کیا ہے، وہیں پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اپنے ...

صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دینے سے کشمیر ی عسکریت کے گلوبلائزد ہونے کا امکان

کشمیریوں کے بدلتے تیور ‘ذمہ دار کون؟ الطاف ندوی کشمیری - جمعرات 16 مارچ 2017

پرنٹ میڈیا سے لے کر الیکٹرانک میڈیا تک آج ہر جگہ ایک ہی بات موضوع بحث بنی ہوئی ہے کہ آخر فوج اور دوسری سیکورٹی ایجنسیوں کے’’ہتھیار بندمجاہدین‘‘کو گھیرنے کے بعدکشمیر کی نہتی عوام انہیں بچانے کے لیے اپنی زندگی کیوں داؤ پر لگا دیتی ہے ؟حیرت یہ کہ عوام کچھ عرصے سے تمام تر تنبیہات ...

کشمیریوں کے بدلتے تیور ‘ذمہ دار کون؟

کشمیر میں جاری نسل کشی الطاف ندوی کشمیری - جمعرات 23 فروری 2017

اب اورجنازے اٹھانے کی سکت نہیں رہی ہے ہم میں ۔کشمیر گزشتہ دو سو برس میں کئی بار جلا،اس کے گام و شہرکو کھنڈرات میں تبدیل کر دیاگیا ۔اس کی عزتیں لوٹی گئیں۔ اس کے بزرگوں کو بے عزت کیا گیا ۔اس کی بیٹیاں لا پتہ کر دی گئیں ۔اس کی اکثریت کے جذبات کو بوٹوں تلے روندا گیا ۔اس کی اقلیت کو و...

کشمیر میں جاری نسل کشی

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے رضوان رضی - جمعه 03 فروری 2017

جس دن اہلِ پاکستان کشمیریوں کے ساتھ یومِ یکجہتی کشمیر منا رہے ہیں اور مظفر وانی شہید کی شہادت سے شروع ہونے والی مزاحمتی تحریک ایک نیا جنم لے چکی ہے،عین اُسی دن بھارت کے وزیر اعظم نریندرا مودی امریکا یاترا کوپدھاریں گے۔ جہاں اہلِ نظر مودی اور ڈونلڈ ٹرمپ میں یکسانیت ڈھونڈنے میں مصر...

حافظ صاحب کی نظر بندی۔۔۔۔کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے

کشمیری مجاہدین کا فدائی حملہ، 2افسران سمیت 7بھارتی فوجی ہلاک وجود - بدھ 30 نومبر 2016

فدائین نے رنگروٹہ کے اس فوجی کیمپ پر دھاوا بولا جس میں ایل او سی اور پاکستانی علاقے پر بلااشتعال فائرنگ کی منصوبہ سازی ہوتی تھی ،ذرائع۔درجنوں بھارتی فوجی زخمی۔3فدائین کی شہادت کی بھی اطلاعات ۔بھارتی فوج مظالم سے جذبہ آزادی کو ختم نہیں کرسکتی ،حریت رہنما ۔۔۔مقبوضہ کشمیر میں بڑھتی...

کشمیری مجاہدین کا فدائی حملہ، 2افسران سمیت 7بھارتی فوجی ہلاک

صبر کے امتحان میں ناکام ہوا۔۔۔تاہم امیدبہار قائم ہے شیخ امین - بدھ 23 نومبر 2016

میں 16سال7مہینے سے اپنے وطن ،اپنے گا ؤں ،اپنے محلے ،اپنے گھر ،اپنے رشتے ،اپنے دوستوں اور اپنے ہم وطنوں سے دورجوانی کا سفر طے کرکے بڑھاپے میں داخل ہو چکا ہوں ۔۔۔۔۔۔یہ دوری کتنی تکلیف دہ ہے اس کا بہتر اندازہ وہی لوگ کرسکتے ہیں،جو ایسے حالات سے یا تو دوچار ہوئے ہوں یا دوچار ہیں ۔کئ...

صبر کے امتحان میں ناکام ہوا۔۔۔تاہم امیدبہار قائم ہے

کشمیر ، جہاں انسانیت شکست کھاگئی الطاف ندوی کشمیری - هفته 19 نومبر 2016

8 جولائی 2016ءسے اب تک ہم پر کیا گزری اور کیا گزر رہی ہے ،دنیا کے لوگ کیسے سمجھ سکتے ہیں جبکہ ہمارے پاس انھیں سنانے کے ذرائع بالکل معدوم ہیں۔خبروں کی ترسیل کے تیز ترین ذرائع دلی کے پاس ہیں۔ سینکڑوں نیوز چینلز کے مالکان اُن کے غلام ہیں۔معروف نیوز ایجنسیاں ان کی مرضی سے چلتی ہیں ۔ا...

کشمیر ، جہاں انسانیت شکست کھاگئی

مودی سے ٹرمپ تک شیخ امین - اتوار 13 نومبر 2016

28فروری2002ء جب گجرات میں مسلم کش فسادات پھوٹ پڑے اور بی جے پی ،شیو سینا،بجرنگ دل کے غنڈوں نے گجرات کے ہزاروں مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگ لیے، عفت مآب خواتین کی عصمت دری کی۔ اورمحتاط اندازے کے مطا بق ایک لاکھ لوگوں کو بے گھر کردیا ۔ نریندر مودی اس وقت گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے...

مودی سے ٹرمپ تک

وطن ہمارا آدھا کشمیر شیخ امین - منگل 01 نومبر 2016

کالم کے عنوان پر بعض لوگ مسکرانے پر اکتفا کریں گے ،بعض قہقہے بھی لگا سکتے ہیں لیکن شاید یہ بھی ممکن ہے کہ بعض لوگ اسے اپنی توہین سمجھ کر ،نا زیبا زبان کا استعمال کرتے ہوئے راقم کو ریاست دشمن بھی قرار دے سکتے ہیں۔لیکن میری گزارش ہے کہ یہ الفاظ استعمال کرنے کی صرف میں ہی گستاخی نہی...

وطن ہمارا آدھا کشمیر

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام الطاف ندوی کشمیری - منگل 25 اکتوبر 2016

امام الانبیاء جناب محمد عربی ﷺ کی اپنی اولاد میں صرف بیٹیاں ہی زندہ رہیں بیٹے حضرت ابراہیمؓ کا بچپن میں ہی انتقال ہوگیا۔ بیٹیوں میں سب سے پیاری سیدۃالنساء حضرت فاطمۃالزھرارضی اللہ عنہا تھیں ۔ان کا نکاح آپﷺ نے حضرت علی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ سے کیا۔ان کی اولاد میں حضرت حسن وحضرت حسی...

کربلا ،کشمیر اور عالم اسلام

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر