وجود

... loading ...

وجود
وجود

الوداع

هفته 14 جنوری 2017 الوداع

اوباما کے پیشرو صدر بش جونیئر رخصت ہورہے تھے تو دسمبر 2008ء میں اُنہیں عراق میں ایک جوتے کا سامنا کرنا پڑاتھا ۔ البغدادیہ چینل کے نمائندے منتظر الازیدی نے اُن پر یکے بعد دیگرے دوجوتے اُچھالے اور ساتھ یہ فقرہ بھی کہ
’’ا ے کتے! یہ تیرے لیے ایک الوداعی تحفہ ہے‘‘۔
اوباما کا معاملہ قدرے مختلف ہے۔ وہ شاید یہ موقع کسی اور کو نہ دیں، مگر تاریخ نے ایک جوتا اُن کے ساتھ خود اُن کی قوم کے سامنے اُچھالا ہے۔ ایک ناکام صدر کے طور پر اُن کے الوداعی خطاب کا یہ فقرہ ہمیشہ اپنی ناکامی کے تاسّف کے ساتھ یادداشتوں میں طنزیہ طور پر محفوظ رہے گا کہ ’’ مستقبل ہمارا ہونا چاہئے‘‘۔ تاریخ کے پلٹا کھانے والے حقائق عجب نہیں کہ امریکیوں کے خلاف اس فقرے کو ایک جوتے کے طور پر استعمال کریں۔دنیا امریکا کے ہاتھوں سے ریت کی مانند نکل رہی ہے۔ہوا مٹھیوں میں قید نہیں ہوتی، تاریخ کی لگامیں کبھی ایک ہاتھ میں نہیں رہتیں۔ کائنات کا رب ایاّم کے اُلٹ پھیرمیں افراد کی ہی نہیں اقوام کی بھی تقدیر بدلتا رہتا ہے۔ دنیا اوباما کے صدر رہتے ہوئے بدل گئی ۔ وہ دانشور اب شرمندگی کا اشتہار بنے ہوئے ہیں جو اوباما کے اندر مارٹن لوتھر کی روح تلاش کرتے پھرتے تھے۔ اوباما کچھ بھی نیا نہیں کرسکے۔
عالمی شہرت یافتہ مصنّف اور نیوزویک کے مدیرفرید زکریا نے اپنی کتاب ’’دی پوسٹ امریکن ورلڈ‘‘ میں امریکا کے بعد کی دنیا پر غور کیا تو حیرت انگیز نتائج اخذ کیے۔
’’اِدھر اُدھر نظردوڑائیں، دنیا کی سب سے اونچی عمارت جو اس وقت نیویارک میں ہے جلد اُس کی جگہ دبئی میں تعمیر ہونے والی عمارت لے لے گی۔ دنیا کا امیر ترین شخص میکسیکن ہے اور سب سے عوامی تجارتی کارپوریشن چینی ہے۔ دنیا کا طویل الحجم جہاز روس اور یوکرائن میں بنایا گیا۔ دنیا کی سب سے بڑی فیکٹریوں میں سے تمام کی تمام چین میں ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا لوہے کا پہیہ سنگاپور میں ہے۔ فلمی دنیا کی سب سے بڑی انڈسٹری بالی وڈ ہے ہالی وڈ نہیں۔ دنیا میں چوٹی کے دس مالز میں سے صرف ایک امریکا میں ہے ۔ دنیا کی سب سے بڑی شاپنگ مارکیٹ بیجنگ میں ہے۔‘‘
فرید زکریا نے اپنی کتاب میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ معیشت ، سیاست کو بھی شکست دے دیتی ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ امریکا اب اسی سے شکست آشنا ہورہا ہے۔ ایک دہائی قبل سامنے آنے والی اس کتاب میں بیان کردہ حقائق اب زیادہ سنگین ہو کر امریکا کے سامنے آچکے ہیں۔ دنیا کی معیشت پر امریکا نے اپنی ایک استحصالی جکڑ بندی کے ساتھ تقریباً 144 سال تک راج کیا جو، اب ختم ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق 1872 کے بعد ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ امریکی معیشت کا حجم سب سے بڑا نہیں رہا۔ چین نے امریکا کو پیچھے دھکیلتے ہوئے اپنی معیشت کا حجم 11 ٹریلن برطانوی پاؤند کر لیا ہے جب کہ امریکی معیشت اس کے مقابلے میں 8ء10 ٹریلن برطانوی پاؤند تک محدود ہوگئی ہے۔ محتاط اندازا یہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ 2019ء تک اس چینی معیشت کا حجم سولہ ٹریلن پاؤند سے بھی تجاوز کرجائے گا۔ اگر معیشت ہی سیاسی حقائق تخلیق کرتا ہے تو پھر چین اس کی قدرت حاصل کرچکا ہے۔ مگر وہ اپنی اس طاقت کو شور شرابے میں بیان کرنے کا امریکا کی طرح عادی نہیں۔چین نے دفاعی اور سیاسی میدان میں بھی اپنے نئے حقائق تخلیق کیے ہیں اور امریکا کو اس سے باہر کردیا ہے ۔ مگروہ یہاں موضوع نہیں۔
چین دنیا کا نقشہ معیشت کے قلم سے نئے سرے سے تشکیل دے رہا ہے۔ دنیا میں اُبھرنے والے تمام معاشی حقائق اس وقت کسی اور کی نہیں چین کی دسترس میں ہے۔چین مشرق سے مغرب تک اقتصادی راہداریوں کا ایک جال بچھا رہا ہے۔ چین نے سیاسی حقائق کو غیر موثر بناتے ہوئے یورپ کے اُن ممالک سے اپنے ریل رابطے قائم کرلیے ہیں جو سرد جنگ کے عرصے میں لکیر کی دوسری طرف کھڑے ہوتے تھے۔ چین کی مال گاڑی اب براہ راست لندن تک پہنچ سکے گی۔ پہلے ہی متعدد یورپی ممالک کے لیے یہ مال گاڑی چلائی جاچکی ہے۔ جو چین کے یورپ سے تجارتی روابط کو مستحکم کرنے کا ایک وسیلہ بن چکی ہے۔ اندازا کیجیے صنعتی اور گھریلو استعمال کی تقریباً تمام اقسام کی اشیاء یہ مال گاڑیاں لاد کر تقریباً بارہ ہزار میل کا سفر طے کرکے دوہفتوں میں لندن پہنچا کریں گی جو فضائی سفر سے سستی اور سمندری سفر سے تیزرفتار ہوںگی۔ چین نے قدیم شاہراۂ ریشم کے راستے کو ازسرنوبحال کرکے اِسے پندرہ یورپی شہروں کے ساتھ منسلک کردیا ہے۔ بارک اوباما کو یہ پتا ہی نہیں چلا کہ یہ سب کچھ اُن کے عرصۂ صدارت میں ہوا ہے۔ نئی دنیا میں امریکا اپنے مستقبل کی تشریح اپنی مرضی سے کرنے پر قادر نہیں رہا۔اوباما کا یہ فقرہ کہ ’’مستقبل ہمارا ہونا چاہئے‘‘۔ ایک آرزو سے بڑھ کر اب ایک ایسا جوتا ہے جو اُنہیں الوداعی خطاب میں خود اپنی قوم کے ساتھ کھانا پڑا ہے۔ بش کو عراق میںپڑنے والا جوتا تو سب نے دیکھا تھا مگر اوباما کوپڑنے والا جوتا تو کسی کوابھی نظر ہی نہیں آیا۔ ایک بات اس سے آگے بڑھ کر یہ بھی ہے کہ بش پہ اُچھالے جانے والے جوتے کی مار سے وہ محفوظ رہے تھے مگر یہ ایک ایسا جوتا ہے جو تاریخ کے ہاتھوں اُنہیں اور اُن کی قوم کو ہر روز ہی پڑتا رہے گا۔
اوباما نے اپنے الوداعی خطاب کو جذبات کے دھارے میں بہاتے ہوئے تاریخ کے تھپیڑوں سے بچنے کا راستا نکالنے کی کوشش کی مگر تاریخ کا معاملہ بھی کچھ عجب ہے کہ اس سے بچنے والا ہر شخص تاریخ میں عبرت کی مثال بن کر جیتا ہے۔ اوباما کا مقدر بھی یہی ہے۔
٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

فری فری فلسطین فری فری فلسطین!! وجود منگل 07 مئی 2024
فری فری فلسطین فری فری فلسطین!!

تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت وجود منگل 07 مئی 2024
تحریک خالصتان کی کینیڈا میں مقبولیت

کچہری نامہ (٣) وجود پیر 06 مئی 2024
کچہری نامہ (٣)

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر