وجود

... loading ...

وجود
وجود

آصف زرداری اور بلاول بھٹو

پیر 02 جنوری 2017 آصف زرداری اور بلاول بھٹو

16 دسمبر 1971کے’’سانحہ‘‘ مشرقی پاکستان کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو نے باقی ماندہ پاکستان کا اقتدار صدر اور سول چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے سنبھالا تھا۔ انہوں نے آرمی چیف جنرل یحییٰ خان کو سبکدوش کیا تھا۔ اپنی قابلیت اور عوامی مقبولیت کے زعم میں انہوں نے پہلا فون سندھ میں اپنے حریف حاکم علی زرداری کو کیا تھا، سول سی ایم ایل اے اور صدر پاکستان نے اسلام آباد سے کراچی فون کرکے حاکم علی زرداری کو دھمکی دی تھی کہ وہ 24گھنٹوں کے دوران دنیا کے کسی بھی کونے میں جاکر روپوش ہوجائیں، اگر مقررہ وقت کے بعد ملک میں کہیں بھی نظر آئے تو انہیں گرفتار کر کے عبرت کا نمونہ بنایا جائے گا۔ اس ٹیلیفون کال میں انہوں نے حاکم علی زرداری کو ’’حاکو‘‘ کہہ کر مخاطب کیا تھا، چنانچہ رات ہی کو حاکم علی زرداری نے لندن کا ٹکٹ کٹایا اور پاکستان کی سرحد پار کر گئے تھے‘ آج حاکم علی زرداری کے صاحبزادے آصف علی زرداری اسی پیپلز پارٹی کے’’کرتا دھرتا جو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی ۔ اقتدار کے نشے بعض اوقات حکمران ایسی بات کہہ جاتے ہیں یا کر جاتے ہیں جو مالکِ دو جہاں کو پسند نہیں ہوتی اور مکافاتِ عمل راندہ درگاہ کو اقتدار کے سنگھاسن پر بٹھا دیتا ہے۔ قرآن مجید کی سورۃ العصر کے مطابق ہر زمانے کا انسان خسارے میں ہے اور خسارے کی وجہ یہ ہے کہ وہ وقت اور اس کے مصرف دونوں کی قیمتوں میں موازنہ نہیں کرتا۔ وہ اشرفیاں لٹاتا ہے اور کوئلوں پر مہر لگاتا ہے۔ جواہرات دے کر سنگریزے خریدتا ہے۔ کانٹوں کو چنتا ہے اور پھولوں کو پھینک دیتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کو کیا معلوم تھا کہ حاکم علی زرداری کا بیٹا ان کا داماد اور پیپلز پارٹی کا وارث بنے گا۔ گوکہ موجودہ پیپلز پارٹی اب وہ جماعت نہیں رہی ہے جو 30نومبر 1967ء کو ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کی تھی۔ مسلم لیگ (ن) اور پاکستان تحریک انصاف نے اس پنجاب پر قبضہ کر رکھا ہے جس نے 1970ء کے عام انتخابات میں پی پی کو فتحیاب کرکے اقتدار تک پہنچایا تھا۔ اس پنجاب میں اپنے قدم جمانے اور اسٹیبلشمنٹ کو منانے کے لیے آصف علی زرداری کی کشمیر اور بھارت دشمنی کو پنجاب میں راستہ ہموار کرنے کے لیے استعمال کررہے ہیں۔ بھٹو مرحوم نے بھی بھارت میں ہزار سال جنگ لڑنے کا اعلان کیا تھا، لیکن برسر اقتدار آنے پر بھارت سے جنگ کرنے کی بجائے انہوں نے دوستی کا ہاتھ بڑھادیا تھا۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف پیپلز پارٹی کو پنجاب میں راستہ نہیں دے رہی ہیں۔ آصف علی زرداری کی ڈیڑھ سال از خود جلا وطنی کے بعد 23دسمبر کو وطن واپسی کا ایک مقصد پنجاب میں اثرو رسوخ بڑھانا بھی ہے۔ نوجوان بلاول بھٹو پنجاب میں کئی کئی دن مورچہ زن ہونے کے باوجود آگے پیش قدمی نہیں کرسکے تھے۔ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو کی گڑھی خدا بخش(لاڑکانہ) میں برسی کے اجتماع میں بھی پنجاب سے حوصلہ افزا حاضری نہیں تھی۔ اس مایوس کن صورتحال میں 2018ء کا الیکشن جیتنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے۔ یہ معرکہ اب قومی اسمبلی میں جیتنے کی کوشش کی جائے گی ۔ سینیٹ میں پہلے ہی پی پی پی کی اکثریت ہے۔ پیپلز پارٹی کے دو ارکان قومی اسمبلی نے استعفے پیش کرکے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں داخلے کی گنجائش پیدا کی گئی ہے۔ آصف زرداری کی ہمشیرہ عذرا پیچوہو نے نواب شاہ اور ایاز سومرو نے لاڑکانہ کی سیٹ خالی کردی ہیں ۔ ضمنی الیکشن کا اعلان ہو نے والا ہے۔ دونوں باپ بیٹا ان دو سیٹوں پر الیکشن لڑ کر اسمبلی کے رکن منتخب ہوں گے۔ وہاں بیٹھ کر داؤ پیچ لڑائیں گے۔ وزیر اعظم نواز شریف اور عمران خان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں گے۔ پی پی پی کے اپوزیشن پارلیمانی لیڈر سید خورشید شاہ اپنے کمزور ماضی کے باعث یہ فرض ادا کرنے سے قاصر تھے ۔ ان کے بارے میں یہ بھی شنید ہے کہ وہ میاں نواز شریف کی وکٹ پر کھیل رہے تھے حکومت سے جنگ کو عمران خان سے محاذ آرائی میں تبدیل کرنے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں پہنچنے سے لڑائی کا رخ تبدیل ہو جائے گا۔ اگر آصف زرداری اور عمران خان نے مل کر حکومت کے خلاف مورچہ لگا لیا تو وزیر اعظم نواز شریف کی حکمرانی خطرے میں پڑ جائے گی۔ پنجاب میں پی پی پی کے لیے جگہ اور مقام بنانے کے لیے برادران سے تو ٹکرانا ہی پڑے گا جن کی پنجاب پرمضبوط گرفت ہے۔ بلدیاتی اداروں کے سربراھان کے چناؤ میں مسلم لیگ ن نے کامیابی کے تازہ جھنڈے گاڑے ہیں فتح کے شادیانے بجائے ہیں۔ آصف زرداری اور بلاول نے عوام کے حقوق اور انصاف کے لیے قومی اسمبلی جانے کا فیصلہ قوم کو سنایا ہے لیکن اصل مقصد تو پنجاب میں پی پی کے لیے جگہ قومی اسمبلی میں بیٹھ کر پنجاب کے اراکین سے رابطے ہوں گے اقتدار کے کھیل میں ان کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی ۔ کسی ’’ان ہاؤس‘‘ تبدیلی کے لیے بھی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ آصف زرداری سیاست کے جادو گر ہیں ۔ انہوں نے سندھ میں دوسری بڑی پارلیمانی پارٹی ہونے کے باوجود ایم کیو ایم کو پویلین سے باہر بٹھا رکھا ہے ن لیگ کے ٹکٹ پر ایم این اے منتخب ہونے والے عبدالحکیم بلوچ کو واپس پیپلز پارٹی میں شامل کرکے فنکشنل مسلم لیگ کے اوپننگ بیٹسمین امتیاز شیخ اور جام مدد علی نے بھی پیپلز پارٹی کا پرچم اوڑھ لیا ہے اور آصف زرداری کی مالا جپ رہے ہیں ۔ سندھ کی دیہی اور شہری علاقوں کی پہلی سیاسی جماعت ایم کیو ایم نے 30 دسمبر کو کراچی کے نشتر پارک میں بڑا جلسہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم لندن اور پاکستان دو حصوں میں منقسم ہے۔ اس کے باوجود جلسہ کامیاب گیا ہے۔ سندھ کی شہری آبادی کے بڑے مسائل ہیں لیکن سیا سی پارٹی دوحصوں میں تقسیم ہے۔ یہ صورتحال پیپلز پارٹی کی سندھ میں ہے۔ حیدرآباد اور اندرون سندھ کی’’مہاجر آبادی بڑی حد تک اپنا وزن پاک سر زمین پارٹی کے قائد مصطفی کمال اور انیس احمد قائمخانی کے پلڑے میں ڈالا ہے۔ پی ایس پی نے حیدرآباد کے پکا قلعہ گراؤنڈ میں بڑا جلسہ کرکے اپنی مقبولیت ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ سندھ کی شہری آبادی اب بھی کنفیوژ ہے۔ وہ خود کو فکرِ الطاف سے علیحدہ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے۔ یہ وہی فکر ہے جو ڈاکٹر فاروق ستار نے نشتر پارک اور مصطفی کمال انیس احمد قائمخانی نے پکا قلعہ حیدرآباد میں قائم کی ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا ہے کہ ہمیں اقلیت بننا قبول نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اقلیتوں کے بھی حقوق ہیں سندھ اور وفاق کی سطح پر حکمرانی میں بھی شریک ہیں۔ سندھ کی شہری آبادی کا صوبائی ‘ وفاقی اور انتظامیہ پر کوئی کردار نہیں ہے۔ ان سے زیادہ مراعات توحاصل ہیں جن کی قومی اسمبلی میں سیٹوں کی تعداد ان کے مقابلے میں ایک چوتھائی بھی نہیں ہے۔ فرق سیاست میں مولانا فضل الرحمان اور آصف زرداری اقتدار میں رہے ہیں۔’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کا کھیل بھی کھیل نہیںرہا۔مسلم لیگ ن‘ فوج‘ کشمیر کے موضوعات پر حکومت میںاتفاق نہیں ہے۔ پاکستان میں سیاست کے لیے الزام تراشی ‘جھوٹ دھوکہ دہی‘ فریب کاری ضروری ہیں ۔ یہ کامیاب سیاست کے گر ہیں ایم کیو ایم ہو یا پی ایس پی انہیں سسٹم کے ساتھ چلنے کا راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے بلدیاتی جمہوریت کی بات کی ہے ۔ صدر ایوب خان مرحوم نے بنیادی جمہوریت کا بلدیاتی نظام متعارف کرایا تھا جو کامیابی سے چلا تھا۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اگر منصفانہ مردم شماری ہوئی توآئندہ وزیر اعلیٰ اردو آبادی کا نمائندہ ہوگا۔ یہ ملین ڈالرکا سوال ہے ۔ مردم شماری میں 1973ء سے ڈنڈی ماری گئی ہے۔ دیہی علاقوں کی زائد آبادی دکھا کر اسمبلی میں سیٹیں بھی زیادہ رکھی گئی ہیں سندھ کی شہری آبادی زیادہ ہونے کے باوجود حقوق سے محروم ہے ۔ان کی حق تلفی نے ایم کیو ایم کو جنم دیا تھا صورتحال آج بھی مختلف نہیں ہے ۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے طرز سیاست میں فرق ہے۔ یہاں میاں نواز شریف ‘ چوہدری شجاعت ‘ آصف زرداری اور مولانا فضل الرحمان کا سیاسی طریقہ کار کامیاب اور مروج ہے ۔ یہاں شخصی مفادات کا فارمولا چلتا ہے لوگ ووٹ بھی ان ہی کو دیتے ہیں ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا!!!
یارب تو نے مجھے کس دیس میں پیدا کیا
جس دیس کے بندے ہوں غلامی پر رضامند
٭٭


متعلقہ خبریں


حکومت سندھ کا نیب زدہ افسران کو ہٹانے سے انکار الیاس احمد - جمعه 01 ستمبر 2017

حکومت سندھ نے نیب کے قوانین سندھ سے ختم کردیے مگر سندھ ہائی کورٹ نے نیب کو اپنا کام جاری رکھنے کی ہدایت کی ہے جس کے بعد حکومت سندھ کے تمام خواب چکنا چور ہونا شروع ہوگئے کیونکہ حکومت سندھ نے جن کرپٹ افراد کو بچانے کے لیے نیب کے قوانین ختم کرنے کی قانون سازی کی تھی اس میں کامیاب نہ...

حکومت سندھ کا نیب زدہ افسران کو ہٹانے سے انکار

ملک اسد سکندر جھکنے پر مجبور ۔ آصف زرداری کی ایک اور کہانی سامنے آگئی! الیاس احمد - منگل 08 اگست 2017

جس کا ڈر تھا وہ سب کچھ ہوگیا ملک اسد سکندر بآلاخر اپنے سے زائد طاقتور شخص آصف علی زرداری کے سامنے جھک گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسے جھکنا تھا تو پھر یہ تنازع ہی کیوں لیا؟ کیونکہ ملک اسد سکندر کو یہ پتہ تھا کہ آصف علی زرداری جب ضد پر آئیں تو سب کچھ قربان کرسکتے ہیں جو لوگ ...

ملک اسد سکندر جھکنے پر مجبور ۔ آصف زرداری کی ایک اور کہانی سامنے آگئی!

نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!! الیاس احمد - هفته 05 اگست 2017

ملک میں ایک بھونچال آگیا ہے وزیراعظم کو تاحیات نااہل قرار دے کر گھر بھیج دیا گیا ہے اورعبوری وزیراعظم شاہ خاقان عباسی بنائے گئے ہیں ان کی کابینہ نے حلف بھی اٹھالیا ہے ۔ اب یہ بات بھی واضح ہو چکی ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف وزیراعظم کی دوڑ سے دور رہیں گے اور شاید شاہد خاقان ...

نواز شریف کے بعد آصف زرداری کی باری !!!

فریال تالپر کے خواب چکنا چور، وزارت اعلیٰ کا منصب حسرت ہی رہی الیاس احمد - بدھ 26 جولائی 2017

جس طریقے سے کٹھ پتلی کی طرح حکومت سندھ کوچلایا جاتا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ ماضی میں جام صادق ، مظفر شاہ، لیاقت جتوئی، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم ایسے وزرائے اعلیٰ تھے جو مخلوط حکو مت چلاتے تھے یوں ان کی پوزیشن کمزور ہوتی تھی تاہم اس کے باوجود وہ اچھے فیصلے کر جا...

فریال تالپر کے خواب چکنا چور، وزارت اعلیٰ کا منصب حسرت ہی رہی

ملک اسد سکندر اور آصف زرداری میں جنگ چھڑ گئی! الیاس احمد - هفته 22 جولائی 2017

یوں تو سندھ میں کئی افراد آج بھی ایک طاقت رکھتے ہیں لیکن چند افراد ایسے ہیں جن کی طاقت کا اندازہ حکومت کو بھی نہیں ہوتا۔ ان میں ملک اسد سکندر بھی ایک ہیں۔ضلع جامشورو کے علاقہ تھانہ بولا خان سے تعلق رکھنے والے ملک اسد سکندر حقیقت میں ایسے ہی طاقتور ہیں جیسے قبائلی سردار ہوتے ہیں ...

ملک اسد سکندر اور آصف زرداری میں جنگ چھڑ گئی!

پی پی میں شمولیت سے انکار ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش الیاس احمد - هفته 17 جون 2017

پاکستان پیپلز پارٹی نے 2008 کے بعد اپنی پالیسی تبدیل کی ہے اور نظریاتی سیاست کو عملی طور پر دفن کردیا ہے ۔ یہ کوشش کی گئی کہ ہر سیاسی شخصیت اور ہر سیاسی خاندان کو پی پی میں شامل کیا جائے چاہے اس کے لیے کچھ بھی قربانی دینا پڑے۔ جام مدد علی ،امتیاز شیخ، اسماعیل راہو، جاموٹ خاندان ک...

پی پی میں شمولیت سے انکار  ارباب خاندان میں دراڑڈالنے کی سازش

وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا الیاس احمد - پیر 29 مئی 2017

2008 ءسے 2016 ءتک جب قائم علی شاہ نے آٹھ سال یکمشت اور مجموعی طو رپر دس سال تک وزارت اعلیٰ کے منصب پر برقرار رہنے کا اعزاز حاصل کیا تو اس وقت دنیا نے ان کی حکمرانی کے بارے میں کوئی اچھی رائے قائم نہیں کی، بس وہ پہلے دور میں 1988ءمیں امن امان قائم نہ کرسکے اور 2008 ءمیں بھی کرپشن ...

وزیراعلیٰ سندھ نے قانون کی دھجیاں اڑادیں، قائم علی شاہ کو بھی پیچھے چھوڑ دیا

کھیل کا آخری راؤنڈ شروع‘پی پی کے کرم فرماؤں کا وزیراعلیٰ سندھ پرعدم اعتماد الیاس احمد - جمعرات 25 مئی 2017

پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت 27دسمبر 2007ءکوکیا بدلی سارے اصول، ساری پالیسیاں ،ساری حکمت عملی ،سارے حالات ہی تبدیل ہوگئے۔ جو اصول ذوالفقار علی بھٹو کے دور سے طے کیے گئے تھے اور محترمہ بینظیر بھٹو نے بھی ان کو برقراررکھا مگرآصف علی زرداری نے ان سب کوملیا میٹ کردیا اورتمام ضابطے اص...

کھیل کا آخری راؤنڈ شروع‘پی پی کے کرم فرماؤں کا وزیراعلیٰ سندھ پرعدم اعتماد

آصف زرداری کے خلاف ثبوتوں کے انبار دوبارہ جیل جانے کے امکانات بڑھ گئے الیاس احمد - منگل 18 اپریل 2017

[caption id="attachment_44159" align="aligncenter" width="784"] نواب لغاری، اشفاق لغاری اور غلام قادر مری کی گمشدگی پر کئی افواہیں زیر گردش،آصف زرداری کی پریشانی عیاں ہوگئی ان تینوں لاپتہ افراد کی زندہ بازیابی ہویا مسخ شدہ لاشوں کی شکل میں، صورتحال آصف زرداری کے لیے پریشان کن ہو...

آصف زرداری کے خلاف ثبوتوں کے انبار دوبارہ جیل جانے کے امکانات بڑھ گئے

آصف زرداری کے تین ساتھی اغواء‘ ماضی اور حال کی کہانی الیاس احمد - پیر 10 اپریل 2017

[caption id="attachment_44054" align="aligncenter" width="784"] آصف زرداری اپنے دوستوں کو دل کھول کر نوازتے ہیں ،جب اپنی مرضی اور ضد پر آتے ہیں تو انہیں دل کھول کر برباد کرتے ہیں حضور بخش کلوڑ، آفتاب پٹھان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا، اب نواب لغاری‘ اشفاق لغاری اور غلام قادر مری ک...

آصف زرداری کے تین ساتھی اغواء‘ ماضی اور حال کی کہانی

تکبّر وجود - بدھ 29 مارچ 2017

باسمہ تعالیٰ ۔۔۔۔۔۔ زمانے کی ہوا بگڑتی جارہی ہے مگر جنابِ زرداری کے ماتھے پر غرور کی شکنیں ختم ہونے میں نہیں آرہیں۔ کیا وہ اُس حالت کو پہنچ گئے جہاں عالم کے پرورگار کی ناراضی متوجہ ہوتی ہے۔ الامان والحفیظ! الامان والحفیظ!!!!! کیسا غرور ہے جواُن کے ایک فقرے میں چھلکتا ہی جارہا...

تکبّر

صوبائی خزانے میں سالانہ 50ارب روپے سے زائد ہیراپھیری کا انکشاف الیاس احمد - بدھ 15 مارچ 2017

نیب نے پچھلے سال کوئٹہ سے گریڈ 20 کے افسر اور صوبائی سیکریٹری مشتاق رئیسانی کے گھر پر چھاپہ مارکر 65 کروڑ روپے نقد اور ڈیڑھ سے دو ارب روپے کی املاک برآمد کرکے چونکا دیا تھا اور پھر اس کے اثاثوں کی تحقیقات میں کئی ہفتے لگ گئے ۔مجموعی طورپر مشتاق رئیسانی تین چار ارب روپے ظاہر کرچکا...

صوبائی خزانے میں سالانہ 50ارب روپے سے زائد ہیراپھیری کا انکشاف

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر