وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں ایک اور خنجر گھونپ دیا

هفته 08 اکتوبر 2016 بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں ایک اور خنجر گھونپ دیا

india-pakistan-warبھارتی حکومت نے پاکستان کی پیٹھ میں ایک اور چھرا گھونپ دیاہے اور پاکستانی حکام ابھی تک اس کی سنگینی محسوس نہیں کررہے ہیں، اطلاعات کے مطابق بھارت نے پاکستان کے شدید اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کے مغربی علاقے میں کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مکمل کرلیا ہے یہی نہیں بلکہ گزشتہ اگست میں ڈیم میں ابتدائی طورپر ڈیڈ لیول تک پانی بھی بھر دیاگیاہے۔ پاکستان نے کشن گنگا ڈیم کی تعمیر پر شدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے اس مسئلے کو ثالثی عدالت میں لے جانے کافیصلہ کیاتھا اور اس حوالے سے پانی وبجلی کی وفاقی وزارت کے ماہرین تیاریاں کررہے تھے ،اطلاعات کے مطابق بھارت انڈس واٹر کمشنر پی کے سکسینا نے پاکستان میں اپنے ہم منصب کو کشن گنگا ہائیڈروپاور پراجیکٹ کی تکمیل کی باقاعدہ اطلاع دیدی ہے تاہم ابھی تک ا س ضمن میں حکومت پاکستان کی جانب سے ایسا کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔800px-akosombo_dam_is_spilling_water_ghana

پاکستان میں انڈس واٹر کے کمشنر مرزا آصف بیگ نے ابھی تک کشن گنگا کی تکمیل کی خبر عام ہی نہیں کی ہے،اور اب جبکہ صحافیوں کو اس کی اطلاع مل گئی ہے وہ اس حوالے سے صحافیوں کے تند وتیز سوالوں سے بچنے کے لیے نہ تو فون اٹھارہے ہیں اور نہ ہی ان کے میسیج کاجواب دینے کی زحمت کررہے ہیں۔اطلاعات کے مطابق مرزا آصف بیگ نے کشن گنگا ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کی تکمیل کے حوالے سے ابھی انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) پنجاب اریگیشن ڈیپارٹمنٹ اور واٹر اینڈ پاور ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو بھی اعتماد میں نہیں لیا ہے۔جس کا اظہار اس حقیقت سے ہوتاہے کہ جب ارسا کے چیئرمین راؤ ارشادعلی سے رابطہ قائم کیاگیا تو انھوں نے اس سے قطعی لاعلمی کااظہار کیا، راؤ ارشاد کاکہناتھا کہ اصل واٹر ریگولیٹر کی حیثیت سے ارسا کو اس پراجیکٹ کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر کے ہر مرحلے سے آگاہ کیاجانا چاہئے تھا۔پنجاب اری گیشن ڈیپارٹمنٹ کے ایک سینئر افسر نے اس رپورٹ پر حیرت اور تعجب کااظہار کیا۔اس نے کہا کہ اصولاً مغربی دریاؤں پر ہر طرح کے انفرااسٹرکچر کی تعمیر سے آگاہ رکھاجانا چاہئے تھا۔وزارت پانی وبجلی کے ایک سابق افسر نے کہا کہ متعلقہ محکموں کو کشن گنگا میں پانی بھرے جانے کی تمام اسٹیک ہولڈرز کو اطلاع دی جانی چاہئے تھی۔ہمیں انتہائی سرگرمی اور مستعدی کے ساتھ بھارت سے اس مسئلے پر مذاکرات کرنے چاہئے تھے۔انھوں نے کہا کہ اگرچہ بھارت کو کشن گنگا ہائیڈرو پراجیکٹ میں پانی بھرنے کا حق حاصل ہے لیکن اس پر پاکستان کی جانب سے تحفظات اور اعتراضات کے بعد اس مسئلے کو حل کئے بغیر بھارت کو اس کی تعمیر مکمل نہیں کرنا چاہئے تھی۔واضح رہے کہ حکومت پاکستان اس مسئلے کو ثالثی عدالت میں لے جانے کی تیاری کررہی تھی۔لیکن اس حوالے یہ حقیقت نظر انداز کی جاتی رہی ہے کہ عالمی بینک اس حوالے سے طاس سندھ معاہدے کے دونوں فریقوں میں سے کسی کی بھی مدد کرنے سے قاصر ہے اور یہ محض خوش فہمی ہے کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دو طرفہ معاہدہ ہے جس میں فریقین افہام و تفہیم سے معاملات طے کر سکتے ہیں اور اگر وہ ایسا نہ کر پائیں تو ورلڈ بینک تنازع کو حل کرنے کے لئے ایک محدود کردار ادا کرسکتا ہے۔ اگر فریقین میں سے کوئی بھی معاہدے کو توڑنے کا فیصلہ کر لے تو ورلڈ بینک کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ اسے روک سکے۔ اس طرح کی صورت حال میں فریقین عالمی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔
اگرچہ سندھ طاس معاہدہ ورلڈ بینک کی کوششوں سے 1960میں طے پایا تھا لیکن ورلڈ بینک قانونی طور پر اس معاہدے کا ان معنوں میں ضامن نہیں ہے کہ اگر فریقین میں سے کوئی ایک معاہدے کی خلاف ورزی کرے تو وہ اسے معاہدے کی پاسداری کے لئے مجبور نہیں کر سکتا۔ معاہدے میں کوئی شق ایسی نہیں ہے جس کے مطابق ورلڈ بینک معاہدے کی خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف تادیبی کارروائی کر سکے۔ ورلڈ بینک خلاف ورزی کرنے والے کے خلاف معاشی اقدامات اٹھانے کا بھی پابند نہیں ہے۔ البتہ ورلڈ بینک فریقین میں ثالثی کے فرائض سرانجام دے سکتا ہے لیکن اس کی بھی حدود ہیں۔ اول تو یہ کہ اگر فریقین میں تنازع کھڑا ہو جائے تو معاملہ غیر جانبدار ماہر (نیوٹرل ایکسپرٹ) کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح کے غیر جانبدار ماہر کی تقرری کے لئے ورلڈ بینک کردار ادا کر سکتا ہے۔ اگر معاملہ غیر جانبدار ماہر سے حل نہ ہو سکے یا فریقین میں سے کوئی ایک غیر جانبدار ماہر کو ناکافی سمجھے تو معاملہ ثالثی عدالت (کورٹ آف آربیٹریشن) میں لے جایا جا سکتا ہے۔ثالثی عدالت کی تشکیل کے لئے ورلڈ بینک ثالثوں کے چناوٗ کے لئے بہت معمولی کردار ادا کر سکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدے کے لئے کئی سال مذاکرات ہوتے رہے اور آخر کار ورلڈبینک اور امریکہ کی کوششوں سے اس معاہدے پر 19ستمبر 1960کو بھارت کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو اور پاکستان کے صدر ایوب خان نے دستخط کئے۔ اس معاہدے سے پہلے آئے دن ہندوستان اور پاکستان میں پانی کا تنازع کھڑا ہو جاتا تھا۔ معاہدے کے مطابق تین مشرقی دریاوٗں، ستلج، بیاس اور راوی کا پانی ہندوستان کے تصرف میں رہے گا جبکہ چناب، جہلم اور سندھ کے پانی پر پاکستان کا حق ہوگا۔ ہندوستان چناب، جہلم اور سندھ پر پانی کے بہاوٗ پر بجلی پیدا کرنے کیلئے پروجیکٹس بنا سکتا ہے لیکن پانی کو ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم نہیں بنا سکتا۔ اس کے علاوہ ہندوستان ان دریاوٗں پر بسنے والی آبادی کے استعمال کے لئے زیادہ سے زیادہ بیس فیصد پانی لے سکتا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ کافی پائیدار ثابت ہوا ہے کیونکہ پاک ہند جنگوں کے باوجود کسی فریق نے معاہدے کی تنسیخ نہیں کی۔ ہندوستان نے چناب اور جہلم پر بجلی پیدا کرنے کے لئے تنصیبات کھڑی کی ہیں۔ پاکستان کا موقف ہے کہ یہ تنصیبات پانی کے بہاوٗ کے راستے میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں اورہندوستان معاہدے کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ ہندوستان کا دعویٰ ہے کہ وہ سندھ طاس معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئیصرف بجلی پیدا کرنے کے پروجیکٹس بنا رہا ہے۔ ان تنازعات کے سلسلے میں ہندوستان کا موقف ہے کہ یہ غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کئے جا سکتے ہیں جبکہ پاکستان اسے ثالثی عدالت میں لے کر جانا چاہتا ہے۔
ابھی تک پاکستان اور ہندوستان کے درمیان کئی ہائیڈرو پرو جیکٹوں پر تنازع کھڑا ہوا ہے۔ جب بگلیہار پر تنازع کھڑا ہوا تو اس کا فیصلہ غیر جانبدار ماہر نے ہندوستان کے حق میں کیا۔ اسی طرح پاکستان نے کشن گنگا کا معاملہ عالمی عدالت کے سامنے اٹھایا۔ عدالت نے عمومی طور پر ہندوستان کے حق میں فیصلہ دیا لیکن اس پر یہ شرط عائد کردی کہ وہ بیس کیوبک فٹ پانی دریائے نیلم میں چھوڑنے کا پابند ہوگا۔ اب پاکستان نے ہندوستان کے ریتلے ہائیڈرو پروجیکٹ پر سوال اٹھا دیا ہے۔ پاکستان نے لاکھوں ڈالر دے کر ایک قانونی فرم کی خدمات بھی حاصل کی ہیں۔ پچھلے دنوں پاکستان کے اٹارنی جنرل اور سیکریٹری پانی و بجلی ورلڈ بینک کو اس بات پر آمادہ کرنے کے لئے آئے تھے کہ وہ کشن گنگا اور ریتلے پر ثالثی عدالت بنانے میں پاکستان کی مدد کرے۔ ورلڈ بینک کے حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر ہندوستان ثالثی عدالت بنانے پر تیار نہیں ہوتا تو بینک کے پاس کوئی ایسی طاقت نہیں ہے کہ وہ اسے ایسا کرنے پر مجبور کر سکے۔ہندوستان کا موقف ہے کہ اس دو طرفہ معاہدے میں معاملہ غیر جانبدار ماہر کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں میں اس قدر زہر آلود ماحول ہے کہ سندھ طاس معاہدے کے تنازعات افہام و تفہیم سے حل نہیں ہو پاتے۔ پاکستان میں سندھ طاس معاہدے سے متعلق ارباب اختیار یہ کہنے کا حوصلہ نہیں کرسکتے کہ ہندوستان نے بجلی پیدا کرنے کی تنصیبات معاہدے کے مطابق تعمیر کی ہیں۔ اس طرح کے خیالات کا اظہار پاکستان کے سندھ طاس کے کمشنر جماعت علی شاہ نے کیا تھا جس پر انہیں غدار وطن قرار دیا گیا تھا۔ اب پاکستان کے ارباب اقتدار خود فیصلے کرنے کی بجائے یہ معاملات عدالتوں میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں تاکہ ان پر تنقید نہ ہو۔ قانونی فرموں کی خدمات حاصل کرنے میں بھی مال پانی بنایا جاتا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب تک تنازع عدالت تک پہنچتا ہے تو ہندوستان اپنا پروجیکٹ مکمل کر چکا ہوتا ہے اورکشن گنگا ہائیڈوپاور پراجیکٹ کے بارے میں بھی بالکل یہی ہواہے ۔ ان حالات کے تناظر میں پاکستان کو حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب سند ھ طاس معاہدہ ہوا تھا تو امریکہ پاکستان کی زبردست پشت پناہی کرتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے۔امریکیوں نے پاک ہند معاملات میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا ہے۔ پاکستان کو سندھ طاس معاہدے کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے اور کسی غلط فہمی میں وسائل ضائع نہیں کرنے چاہئیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر