وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارتی جنگی بیانیے کا جواب ۔۔۔۔۔(2)

جمعه 07 اکتوبر 2016 بھارتی جنگی بیانیے کا جواب ۔۔۔۔۔(2)

indian-mediaبھارتی ذرائع ابلاغ کی طرف سے گزشتہ آٹھ روز سے جاری پاکستان مخالف ہرقسم کی ابلاغی مہم میں ایک ہی بات یوں تسلسل سے کہی جا رہی ہے کہ اتنے تواتر سے اگر جھوٹ بولا جائے تو وہ بھی سچ لگنا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اب تو اسے ایک بیانیہ بنا دیا گیا ہے کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکزاور برآمد کنندہ ہے‘‘۔ اور تو اور بھارت کے سوشل میڈیا ٹرولز نے تو اس موضوع پر ایک باقاعدہ آن لائن درخواست بنا کر سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر بھر پور دستخطی مہم بھی چلا دی جس پر لاکھوں لوگوں کے دستخط بھی ثبت ہونے کے دعوے کیے گئے ۔ وہ توقبول کرنے والوں نے یہ درخواست اس بنا پر مسترد کر دی کہ اس درخواست پر کیے گئے بیشتر دستخط جعلی ہیں۔ لیکن بہرحال اس عرضی کو پیش کرنے والوں نے اپنے مقاصد حاصل کر لیے اور یہ فقرہ لوگوں کے اذہان میں ثبت کر دیے گئے اور اسی کے لیے یہ ساری جدوجہد تھی ۔
اس کے جواب میں اسی سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر سب سے زیادہ سرگرم اور باقاعدہ دندنانے والی جناب عمران خان کی پاکستان تحریکِ انصاف کی ٹیم نے جوابی درخواست تیار کی جس کا بیانیہ تھا کہ ’’بھارت ایک دہشت گرد ملک ہے ‘‘ اور سرگرم ہوگئی۔ انا للہ واناالیہ راجعون۔ یعنی بھارتی بیانیے کی تردید۔ہم دنیا بھر میں ایک تردیدی قوم کے طور پر پہچانے جانے لگے ہیں، جو ابلاغ کا سب سے گھٹیا معیار جانا جاتا ہے اور حالیہ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ تردید کے بعد ہم اس واقعے کوقبول بھی کر لیتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ابلاغ کی دنیا میں کسی بھی امر کی تردید دراصل اس کی تصدیق ہی سمجھی جاتی ہے۔ ابلاغی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کسی دعوے کی جس قدر شدت سے تردید کی جائے گی وہ ’’ابلاغی صارف ‘‘کے لاشعور میں اسی قدر شدت سے ایک حقیقت کے طور پر چپک جائے گا اور ’’کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے‘‘ کے مصداق لوگ نہ جانتے ہوئے بھی اس پر کچھ حد تک ہی سہی، یقین ضرور کر لیں گے۔اب پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے اعلیٰ دماغوں کی موجودگی میں کسی دشمن کی ضرور ت تو باقی نہیں رہ جاتی۔
بھارت کے اس بیانیے کو ہماری فوجی اور سیاسی قیادت میں موجود واضح اور شدید تقسیم سے مزید ہوا مل رہی ہے اور ہر دو فریق میں سے کوئی بھی اختلاف کے اس تاثرکودور کرنے کے موڈ میں نظر نہیں آتابھلے اس سے ملک کو جتنا مرضی نقصان ہی کیوں نہ ہو جائے۔
سماجی رابطے کی ویب سائیٹس پر مصروفِ عمل بھارتی ’ٹرولز‘ بھی اسی بات کی جگالی کرتے پائے جا رہے ہیں کہ ’’پاکستان دہشت گردی کا مرکز اور برآمد کنندہ ہے‘‘۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی پاک فوج سے ریٹائر ہو کر صحافت کا پیشہ اختیار کرنے والے سید اعجاز حیدر نے دارالحکومت اسلام آباد میں بیٹھ کر اسی بیانیے کو ہوا دی ہے کہ ’’اگر پاکستان غیر ریاستی عناصر سے جان چھڑا لے تو خطے میں امن ہو سکتا ہے‘‘۔ اگرچہ شاہ جی کی بیشتر تحریریں بھارت اور امریکا کے ذرائع ابلاغ میں ہی جگہ لے پاتی ہیں لیکن جن کوان کی ’’دلیلی مدد ‘‘ درکار تھی ان تک مسلسل پہنچ رہی ہے اور وہ اچھل اچھل کر داد بھی دے رہے ہیں۔لیکن ہمیں یقین ہے کہ ہمارے پیارے دوست پر ذرہ برابر آنچ نہیں آئے گی کیوں کہ ادارہ اپنے سابقین کی بھی دل و جان سے حفاظت کرتا ہے۔ پھر ملکی مفاد کہاں گیا؟۔
دوسری طرف جناب حسین حقانی اور ان کے ہم نوا، بیرونِ ملک بیٹھ کر پہلے ہی اسی دَھن پر اپنا اپنا ’’ٹھیکا‘‘ لگا رہے ہیں اور دنیا بھر میں پھیلی پاکستان مخالف ذہنیت سے ہر قسم کی ڈھیروں داد وصول فرما رہے ہیں۔ ان کے ساتھ متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) لندن کی قیادت اور اس قیادت کے متاثرین بھی رو بہ عمل ہیں ’’تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے‘‘۔ غور کریں کہ پاکستان کا ایک سابق سفیر جس سے ملکی معاملات کا کچھ بھی چھپا نہیں ہوتا، جب وہ یہ کہے گا تو اس پر یقین کرنے میں کسے عار ہوگا۔ بھارت کتنا خوش قسمت ملک ہے کہ اسے ہردفعہ بہت کم پیسوں پر مکتی باہنی دستیاب ہو جاتی ہے۔
بھارت میں کسی بھی حملے کی صورت میں اس کی بالواسطہ ذمے داری قبول کرنے کا ’’انوکھا اور نادر‘‘ طریقہ جناب آصف علی زرداری نے اپنے دور میں یہ کہہ کر نکالا کہ ’’یہ سب کچھ غیر ریاستی عناصر کاکام ہے‘‘۔ جی ہاں وہی زرداری صاحب جنہوں نے جناب حسین حقانی صاحب کو امریکا میں سفارت کاری کی ذمے داری سونپی تھی۔ جی ہاں وہی زرداری صاحب جنہوں نے ممتاز صحافی اور تجزیہ نگار امتیاز گل کے بقول ممبئی حملوں کے بعد بھارت کو مرید کے میں سرجیکل اسٹرائیک کی اجازت بھی دے دی تھی ۔اب جب غیر ریاستی عناصر کی بات ہوئی تو پوری دنیا یہ کہہ کر ہم پر چڑھ دوڑی کہ ’’اچھا تو پھر ان غیر ریاستی عناصر کو ختم کرنا بھی تو آپ کا ہی کام ہے‘‘۔ یعنی ڈو مور۔ اور پھر اللہ نے ڈو مور کے اس نعرے میں اس قدر برکت ڈالی کہ اب بات یہاں تک پہنچ گئی کہ گلی میں سائیکل ریڑھی پر آئس کریم والا بھی ’ڈو مور، ڈومور‘ کی صدائیں لگاتا سنائی دینے لگا۔ وہ تو اللہ بھلا کرے پسرِ عزیز جناب محمد مائد رضی کا جنہوں نے اپنے باپ کی تصحیح کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ڈو مور نہیں ’او مور‘ کی صدائیں لگا رہا ہے ، اس لیے نکالیں پیسے میں اپنے لیے آئس کریم لے کر آؤں۔ ویسے آئس کریم بنانے والے ادارے میں جن کی سرمایہ کاری ہے تو ان کا ’ڈو مور‘ کہنا ہی بنتا تھا۔ اس کو کہتے ہیں ہمارے جوتے ہمارے ہی سر!
ادھر جب جب پاکستان میں فلاحِ عامہ کے کاموں میں مصروف مذہبی گروہوں کو دھڑا دھڑ دہشت گرد قرار دیا اور دلوایا جا رہا تھا تو زرداری صاحب کے زیر استعمال ہمارا دفترِ خارجہ اس کو بڑے سکون سے دیکھ رہا تھا اور اس پر ذرہ برابر بھی مزاحمت کرنے کی کوشش نہیں ہو رہی تھی ۔تو اب یہ حالت ہے مسعود اظہر اور حافظ سعید جیسے تزویراتی اثاثوں کو چھپانے اور بچانے میں مشکل کا سامنا ہے۔ اور بھارت اقوامِ متحدہ کو ڈانٹ پلاتا پایا جا رہاہے کہ اس نے ان کو دہشت گرد قرار دینے میں اس قدر تاخیر کیوں کر دی ہے۔ اور تو اور ان تزویراتی اثاثوں کے خلاف کارروائی رکوانے کے لیے ہمیں آواز لگانا پڑ رہی ہے کہ ’’چین بھائی جان! ذرا ویٹو ماریے گا ایک‘‘۔
بھارت کی سفارتی جارحیت تو اس قدر بڑھ گئی کہ اس نے کئی دہائیوں سے امریکا میں کشمیر کے موضوع پر لابی میں مصروف ، مقبوضہ کشمیر کے جناب ڈاکٹر غلام نبی فائی کو بھی نہ صرف گرفتار کروایا بلکہ اس کو آئی ایس آئی سے رقم وصول کرنے کا مجرم قراردلوا کر سزا بھی دلوائی۔ حالاں کہ کیا آج کل حسین حقانی اور طارق فتح بھارت کے حق میں لابنگ ’بھگوان‘ کے نام پر تو نہیں کر رہے؟ لیکن نزلہ محض بے چارے غلام نبی فائی پر گرا اور ہمارے دفترِ خارجہ اور اداروں نے بھی اس کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت بھی کیا۔ اس وقت امریکا میں کشمیر کے موضوع پر جس کو سب سے زیادہ سرگرم ہونا چاہیے تھا وہ ڈاکٹر غلام نبی فائی تھے، لیکن ان کو امریکا کے کسی دور دراز گھرکے ایک کونے میں دھکیل دیا گیا ہے اور ہمیں لاکھوں ڈالرز خرچ کرنے کے بعد بھی اس محاذ پر ہزیمت کا سامنا ہے۔بظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے کشمیر پر جاری ساری کی ساری پالیسی کو بھی فوج کے کھاتے میں ڈال کر اس پرسے ہاتھ اٹھا لیاہے لہٰذا نتیجہ اب ہمارے سامنے آ رہا ہے۔
بھارت میں پٹھان کوٹ کے فوجی ہوائے اڈے پر حملے کے کچھ دن بعد وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے اپنے کچھ چنیدہ صحافیوں کے سامنے اعتراف کیا کہ یہ حملہ ’’ہمارے اداروں ‘‘ کا کام ہے اور یہ پاک بھارت تعلقات کو بہتری کی طرف آتے نہیں دیکھ سکتے۔خیر اس کے ثبوت کے طور پر بھارت کی طرف سے پاکستان کے ایک علاقے سے لینڈ لائن سے حملہ آوروں کو کال کرنے کا ریکارڈ بھی ہمارے حوالے کیا اور جس کو پاکستان کے وزیر اعظم درست سمجھ رہے تھے۔ آئی ٹی کے اس دور میں اس طرح کے ثبوت گھڑنا بہت آسان ہے۔ امریکا سے فون کال کرنے والا نظام میں موجود ’’سہولیات ‘‘ کی مدد سے بڑی آسانی سے آپ کو یہ ثابت کرسکتا ہے کہ وہ یہ کال آپ کے ہمسائے میں بیٹھ کر کررہا ہے۔ بات اس قدر بڑھی کہ اداروں نے وزیر اعظم کو دعوت دے کر بلایا اور ثبوت دکھا کر بتایا کہ وہ اس حملے میں ملوث نہیں تھے اور بعد ازاں بھارت کی اپنی تحقیقات نے یہ بات ثابت بھی کردی۔
لیکن ان اداروں کا بھی کیا کریں؟ جب سرحدوں پر جنگ کے بادل منڈلا رہے ہیں تو یہ ادارے ملک کا بیانیہ تشکیل دینے یا درست کرنے کی بجائے اپنے ادارے کا امیج بحال کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اسی سلسلے میں پاک ائیرفورس سے ریٹائر شدہ اور بعد ازاں پاکستانی سفارت کاری میں نام بنانے والے ارشد سمیع کا بعد از مرگ ایک بیان گھڑ کے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ پر چلایا جا رہا ہے کہ کس طرح وہ ’(طاہرالقادری کے) عالمِ رویا سے اپنے بیٹے عدنان سمیع کو عاق کرنے کا اعلان فرما رہے ہیں۔2009 میں مرنے والے ارشد سمیع نے اپنی موت تک اس طرح کے کسی جذبات کا اظہار نہیں کیا جس طرح کے جذبات اس خط میں تحریر کیے گئے ہیں، لیکن بیٹے کی طرف سے بھارتی شہریت لینے اور اپنے سابقہ ملک پاکستان (جہاں ان کی نانی ،جنرل رانی کسی دور میں سیاہ و سفید کی مالک رہ چکی ہیں اور جہاں ان کا ایک کزن حالیہ دنوں تک سنسر بورڈ کا چیئرمین بھی تھا) کے خلاف واہی تباہی بکنا ایک طرف لیکن جس طرح ہمارے ادارے ایک خیالی خط کے ذریعے اپنے ادارے کا امیج بچانے کی کوشش میں نکلے ہیں کاش وہ کبھی پاکستان کے قومی مفادات کا تحفظ کرنے میں بھی ایسے ہی کرتے؟ ان کا ایک ہی نعرہ لگتا ہے کہ ملکی دفاع کا بیانیہ توجائے بھاڑ میں ،ہم اپنے ادارے اوراپنے افراد کا امیج تو بچا لیں۔ تو ایسے میں بہت سے پاکستانی سوچتے ہیں کہ ہمارا ملک اور اس کا دفاعی بیانیہ کہاں کھڑا ہے؟اور کیا ایسے شدید تقسیم معاشرے میں قومی دفاعی بیانیے کی تشکیل کبھی ممکن ہو سکے گی یا یہ ایک دوسرے سے اسی طرح باہم دست و گریبان رہیں گے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر