وجود

... loading ...

وجود
وجود

دہشت گردی کی جڑیں

بدھ 20 جنوری 2016 دہشت گردی کی جڑیں

quetta attack

بدھ 13جنوری2016ء کی صبح ہی شہر کوئٹہ پولیس جوانوں کے خون سے رنگ دیا گیا۔ حملہ خودکش تھا جو سیٹلائٹ ٹاؤن میں حفاظتی ٹیکوں کے مرکز کے سامنے ہوا ، یہاں سے پولیو ٹیموں نے روانہ ہونا تھا۔ ڈسٹرکٹ پولیس اور بلوچستان کانسٹیبلری کے اہلکار ان کی حفاظت کیلئے ساتھ جانے کو تیار تھے۔ کسی ظالم نے خود کو اُڑا کر دھماکا کیا اور ٓان واحدمیں پندرہ لاشیں گرگئیں۔ ان میں ایک سیٹلائٹ ٹاؤن تھانے کاسب انسپکٹر تھا ،ایک فرنٹیئر کور کا اہلکار تھا ، باقی 11اہلکار بلوچستان کانسٹیبلری کے جوان تھے۔ ان شہیدوں میں تین سب انسپکٹر اور چاراسسٹنٹ سب انسپکٹر تھے۔ دوشہری تھے۔ حملہ یقینا پولیس پر تھا۔ ازیں پیش آٹھ جنوری کو ملتانی محلہ میں دو پولیس اہلکاروں اور اس سے قبل 4جنوری کو سریاب میں بی بی نانی زیارت کے مقام پر بھی دو اہلکار ہدف بنے ۔ بلاشبہ پولیو ٹیم پر بھی جان لیوا حملے ہوچکے ہیں۔ دہشت گرد زندگی کے نظام کو ناکام بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالیہ خودکش حملہ اس امر کا پتہ دیتا ہے کہ دہشتگرد وں کا گروہ پھر سے فعال اور سرگرم ہوچکا ہے۔

پاکستان کے اندر دہشتگردی ایک گمبھیر مسئلہ ہے ۔ خطے کی سیاست یعنی علاقائی اور بین الاقوامی سے ان گروہوں کے تانے بانے ملتے ہیں۔ ایران اور سعودی عرب کی چپقلش ، پاک بھارت اور پاک افغان جیسے تنازعات سے دہشتگردی کو مہمیز مل رہی ہے۔ امریکی بالادستی اور مسلم دنیا کے استحکام کو متزلزل کرنے کی پالیسیاں ان گروہوں کو ایندھن فراہم کررہی ہیں۔ ریاست کے اندر حکومت اور اداروں کی کمزوریوں و خامیوں سے ان خطر ناک برائیوں کو بڑھا وا مل رہا ہے ۔ سعودی حکومت نے شیخ النمر کو پھانسی دی۔ ادھر ایران میں سعودی سفارتخانہ نذر آتش کیا گیا۔ ادھرپاکستان میں ’’شیعان سعودیہ ‘‘اور ’’شیعان ایران ‘‘ سڑکوں پر نکل آئے ۔ یہی گرما گرمی تو قتل و غارت گری کو شہ دیتی ہے ۔ بھارت پٹھان کوٹ حملے کا محرک بادی النظر میں پاکستان کو سمجھتا ہے۔ بھارتی وزیر دفاع حملے کے بعد کہہ چکا ہے کہ ’’اب ہم اپنی مرضی کا محاذ کھولیں گے ‘‘۔ دشمن کو درد دینے کی دھمکی بھی دی۔ اب یہ دشمن ان کی نظر میں پاکستان ہی ہے۔ حالانکہ اب تک پٹھان کوٹ واقعہ کی مکمل تفتیش و تحقیق ہونا باقی ہے کہ آیا حملہ آوروں کے قدموں کے نشان کہاں جاتے ہیں ۔ چنانچہ افغانستان کے شہر جلال آباد میں پاکستانی قونصل خانے پر خودکش حملہ کرایا گیا۔ افغانستان امریکا کی کالونی ہے اور افغان حکومت بھارت کے بھی زیر اثر ہے۔ پاکستان کے خلاف افغانوں کے جذبات کو کمال حکمت عملی سے مشتعل کیا جارہاہے بلکہ اس میں کسی حد تک کامیابی بھی ملی ہے۔ سو ، جلال آباد خودکش حملے کی ذمہ داری داعش نے قبول کرلی ۔ افغانستان میں داعش کے چاہنے والے کون ہیں؟ سوال یہ ہے تحریک طالبان پاکستان کے گروہ آپریشن ضرب عضب کے بعد افغانستان میں روپوش ہیں ۔ گویا انہی لوگوں کا دوسرا نام داعش ہے ۔ چند کمانڈر افغان طالبان سے کٹ کر اس گروہ سے خود کو جوڑتے ہیں۔ افغان حکومت کی ایک بڑی شخصیت نے پارلیمنٹ میں الزام لگایا ہے کہ کابل کے اندر داعش کے کمانڈر رہائش پذیر ہیں۔ اگر فی الواقعی ایسا ہے تو افغان سرزمین پر موجود داعش کا لبادہ اوڑھے یہ گروہ بھارت کی سرپرستی میں پھل پھول رہا ہے اور جلال آباد حملے کے تانے بانے کہاں ملتے ہیں کی کھوج لگانا بھی کوئی مشکل نہیں ۔ تحریک طالبان پاکستان کو کس نے گود لے رکھا ہے ، یہ بھی راز نہیں ۔ کوئٹہ کے اندر پولیس جوانوں کی شہادت خطے کی اسی سیاست کا شاخسانہ ہے۔

بلوچستان میں عسکریت پسندی کی پشت پر بھارت اور افغان حکومت ہے۔ ستر کی دہائی میں بلوچ پشتون عسکریت پسندوں کوافغانستان میں تربیت دی جاتی تھی۔ بڑے نامور بلوچ و پشتون قوم پرست رہنما افغانستان میں روپوشی و خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی بسر کررہے تھے۔ نوجوانوں کو عسکری تربیت دی جاتی ، تربیت مکمل ہوتی تو پاسنگ آؤٹ پریڈ ہوتی ۔ اگرچہ بلوچستان اپنے حق سے محروم ہے۔ گوادر پورٹ کی مکمل فعالیت کے بعد کیا ہوگا ۔ اس بابت صوبے کے عوام خوف اور مایوسی کی کیفیت سے دوچار ہیں ۔ بہر حال کسی کا خون کسی کے لئے بھی روا نہیں۔ بلوچستان میں مذہبی ، مسلکی اور لسانی بنیادوں پر ہونے والی دہشتگردی کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں۔ خودکش حملے ، دھماکے ، راکٹ داغنے اور ٹارگٹ کلنگ کرنے والے بلا تمیز دہشتگرد ہی ہیں گویا ان میں فرق کیا ہی نہیں جاسکتا ،یہ گروہ عوام کے مفادات پر ضرب لگا رہے ہیں ۔ مذہبی دہشتگردی پر گرفت اور باقیوں کیلئے جواز ڈھونڈنے والے دراصل ان کے حامی و مددگار ہیں۔ نیشنل پارٹی فاٹا میں طالبان کے خلاف فوجی آپریشن کا مطالبہ کرتی اور بلوچستان کی عسکریت پسندی پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی تھی گویا ایک قسم کی حمایت اور تعاون کا تاثر مل رہا تھا۔ اور پھر جب ان کی بندوقوں کا رخ نیشنل پارٹی کی طرف ہوا تو انہیں دہشتگرد کہنا شروع کردیا اور نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ان کے لئے نا گزیر بن چکا ہے ۔ آمر پرویز مشرف نے نواب بگٹی کو قتل کیا تو عسکریت پسندوں نے کئی سفید پوش زعماء کو موت کے گھاٹ اتارا۔ نوابوں کو ہٹ لسٹ پر رکھا ،حتیٰ کہ نوابزادوں کو قتل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پرویز مشرف اور ان میں کوئی فرق باقی رہتا ہے ؟بات پولیس اہلکاروں کی شہادت کی ہو رہی تھی جن میں سات تو تازہ دم آفیسر تھے ۔پولیس کی لاکھ خامیاں سہی ،لیکن یہ ہمارے وجود کا حصہ ہی تو ہیں ۔


متعلقہ خبریں


طوفانی بارش کے باعث کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ، عوام کو بائی پاس پر جمع ہونے کی ہدایت وجود - جمعه 26 اگست 2022

مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا ء لانگو نے خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں افراد کے سیلاب زدہ علاقوں میں پھنسنے کی تصدیق کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے ہر ممکن تعاون کا مطالبہ کیا ہے۔مشیر داخلہ بلوچستان میر ضیا لانگو اور ڈی جی پی ڈی ایم اے نے بارش سے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے تصدیق کی ک...

طوفانی بارش کے باعث کوئٹہ میں سیلاب کا خدشہ، عوام کو بائی پاس پر جمع ہونے کی ہدایت

کوئٹہ میں ایف آئی اے سائبر کرائم کی کارروائی ،سوشل میڈیا پرچائلڈ پورنو گرافی پھیلانے والا ملزم گرفتار وجود - بدھ 03 نومبر 2021

کوئٹہ میں ایف آئی اے سائبر کرائم نے کارروائی کرتے ہوئے سوشل میڈیا پرچائلڈ پورنو گرافی پھیلانے والا ملزم گرفتار کرلیا۔ ایف آئی اے سائبر کرائم سیل کے مطابق ایف آئی اے نے کوئٹہ کے علاقے فقیر محمد روڈ پر کارروائی کرتے ہوئے واٹس ایپ پر چائلڈ پورنو گرافی پھیلانے والے ملزم جاوید اقبال و...

کوئٹہ میں ایف آئی اے سائبر کرائم کی کارروائی ،سوشل میڈیا پرچائلڈ پورنو گرافی پھیلانے والا ملزم گرفتار

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار جلال نورزئی - جمعه 12 اگست 2016

8 اگست 2016 کا دن کوئٹہ کے لئے خون آلود ثابت ہوا۔ ظالموں نے ستر سے زائد افراد کا ناحق خون کیا ۔یہ حملہ در اصل ایک طویل منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھا جس میں وکیلوں کو ایک بڑی تعداد میں موت کے گھاٹ اُتارنا تھا ۔یو ں دہشت گرد اپنے غیر اسلامی و غیر انسانی سیاہ عمل میں کامیاب ہو گئے۔ اس ...

سانحہ کو ئٹہ: دہشت گردوں کا سفاکانہ وار

کوئٹہ میں پھر دھماکا: زرغون روڈ پر دھماکے میں 14 افراد زخمی وجود - جمعرات 11 اگست 2016

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں زرغون روڈ پر الخیر ہسپتال کے قریب دھماکا ہوا ہے، جس میں اینٹی ٹیررزم فورس (اے ٹی ایس) کے اسکواڈ کی گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق اب تک دھماکے میں 14 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ تاہم کسی جا نی نقصان کی اطلاع نہیں۔ اطلاعات کے مطابق دھم...

کوئٹہ میں پھر دھماکا: زرغون روڈ پر دھماکے میں 14 افراد زخمی

سانحہ کوئٹہ: قومی سلامتی کی صورت حال کے لیے اعلیٰ سطح کا جائزہ اجلاس ، اہم فیصلے وجود - جمعرات 11 اگست 2016

سانحہ کوئٹہ کے بعد 10 اگست کو ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں ملکی سلامتی کی اندرونی صورت حال کا جائزہ لیا گیا ۔ اور کوئٹہ دھماکے کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد کے لیے اہم فیصلے کیے گئے۔ یہ اس اعتبار سے ایک اہم اجلاس تھا کہ سانحہ کوئٹہ کے ب...

سانحہ کوئٹہ: قومی سلامتی کی صورت حال کے لیے اعلیٰ سطح کا جائزہ اجلاس ، اہم فیصلے

چودھری نثار پھر ناراض! آخر وفاقی وزیرداخلہ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟ وجود - منگل 09 اگست 2016

وفاقی وزیرداخلہ چودھری نثار مسلم لیگ نون کی حکومت میں مستقل ایک مسئلہ اور موضوع تنازع بنے رہتے ہیں۔ ملک میں کوئی بھی المنا ک واقعہ پیش آجائے، وہ منظر سے غائب ہوتے ہیں۔ اور اچانک خبر آتی ہے کہ وہ وزیراعظم نوازشریف سے یا وزیرا عظم نوازشریف اُن سے ناراض ہیں۔ اُن کا روٹھنا اور اُنہیں...

چودھری نثار پھر ناراض! آخر وفاقی وزیرداخلہ کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی! اصل حقائق کیا ہیں؟ باسط علی - منگل 09 اگست 2016

کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے جماعت الاحرار گروپ نے کوئٹہ میں حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گرد گروہوں کے نام پر ذمہ داری قبول کرنے کا یہ عمل درست بھی ہے یانہیں۔ ایک غیر ملکی خبر رساں ادارے نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ سول اسپتال کی ایمرجنسی میں کیے ج...

کوئٹہ دھماکے کی ذمہ داری جماعت الاحرار نے قبول کرلی! اصل حقائق کیا ہیں؟

جنرل راحیل شریف نے ملک بھر میں آپریشن کومبنگ کا حکم دے دیا! وجود - پیر 08 اگست 2016

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے کوئٹہ کے لرزہ خیز واقعے کے بعد فوراً ہی کوئٹہ کا دورہ کیا ۔ اور کور ہیڈکوارٹر میں ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں پاک فوج کے سربراہ نے انٹیلی جینس اداروں کو ملک بھر میں اسپیشل کومبنگ آپریشن شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔ واضح رہے کہ پا...

جنرل راحیل شریف نے ملک بھر میں آپریشن کومبنگ کا حکم دے دیا!

کوئٹہ دھماکا: فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کوئٹہ پہنچ گئے، وزیراعظم نوازشریف روانہ وجود - پیر 08 اگست 2016

کوئٹہ دھماکے کے بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف فوراً ہی کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ جبکہ وزیراعظم نواز شریف بھی سانحہ کوئٹہ کے بعد اپنی تمام مصروفیات منسوخ کرکے کوئٹہ روانہ ہو رہے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق سانحہ کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس نے...

کوئٹہ دھماکا: فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف کوئٹہ پہنچ گئے، وزیراعظم نوازشریف روانہ

کوئٹہ لہو لہو، سول ہسپتال میں دھماکا، 97 جاں بحق وجود - پیر 08 اگست 2016

کوئٹہ میں سول ہسپتال کے اندر ہونے والے ایک دھماکے میں 97 افراد جاں بحق ہوگئے ہیں جبکہ زخمیوں کی تعداد 171 ہے۔ یہ خوفناک دھماکا اس وقت ہوا جب بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے صدر بلال انور کاسی نامعلوم افراد کے حملے میں جاں بحق ہوئے اور ان کی لاش سول ہسپتال لائی گئی تھی۔ اس موقع پر وکل...

کوئٹہ لہو لہو، سول ہسپتال میں دھماکا، 97 جاں بحق

کوئٹہ میں دہشت گردی: چار ایف سی اہلکار جاں بحق، ایک راہ گیر زخمی! وجود - جمعرات 30 جون 2016

كوئٹہ كے علاقے ڈبل روڈ پر رئیسانی سینٹر كے باہر ایف سی اہلكار سوئی سے گاڑی مرمت كرانے كیلئے آئے تھے كہ نامعلوم موٹرسائیكل سواروں نے اچانك ان پر فائرنگ كردی جس سے چاروں اہلكار موقع پر ہی جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے مطابق جاں بحق اہلکاروں کی شناخت نائیك اول دراز خان، سپاہی شریف، نائ...

کوئٹہ میں  دہشت گردی: چار ایف سی اہلکار جاں بحق، ایک راہ گیر زخمی!

سچ تو یہ ہے جلال نورزئی - جمعرات 17 مارچ 2016

چند روز قبل یکے بعد دیگرے دو بڑی خبریں قومی میڈیا پر نشر ہوئیں۔ ایک سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے بیٹے کی بازیابی اور دوسری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے انتہائی اہم کمانڈر اسلم اچھو کی آپریشن میں ہلاکت۔ شہباز تاثیر کا ساڑھے چار سال بعد کوئٹہ کے نواحی علاقے کچلاک میں ظاہر ہون...

سچ تو یہ ہے

مضامین
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے! وجود هفته 20 اپریل 2024
سعودی سرمایہ کاری سے روزگار کے دروازے کھلیں گے!

آستینوں کے بت وجود هفته 20 اپریل 2024
آستینوں کے بت

جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی وجود هفته 20 اپریل 2024
جماعت اسلامی فارم 47والی جعلی حکومت کو نہیں مانتی

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ وجود هفته 20 اپریل 2024
پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

'ایک مکار اور بدمعاش قوم' وجود هفته 20 اپریل 2024
'ایک مکار اور بدمعاش قوم'

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر