وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کی ’’معاشی راہ داری‘‘ بڑی قوتوں کے لئے خطرہ !

پیر 11 جنوری 2016 پاکستان کی ’’معاشی راہ داری‘‘ بڑی قوتوں کے لئے خطرہ !

pathankot-air-base-reuters.jpg.image.975.568

بھارت میں پٹھانکوٹ کے ہوائی اڈے پر ’’نامعلوم افراد‘‘ کے حملے کے بعد خطے میں صورتحال ایک مرتبہ پھر کشیدگی کی جانب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس حوالے سے بھارتی میڈیا ہاؤس نے انتہا پسند ہندو تنظیموں سے بھی زیادہ منفی کردار کا مظاہرہ کیا ہے ۔ اس کا اندازہ اس ایک بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس حملے کے بعد صرف چند گھنٹوں بعد ہی بھارت کی معروف صحافی برکھا دت اپنے ٹیوٹر پیغام میں اس واردات میں احتمال کی انگلی کو پاکستان کی جانب بڑھا دیتی ہیں۔ دونوں ملکوں کے پڑھے لکھے اور سنجیدہ حلقوں میں اس پیغام کو انتہائی حیرت سے دیکھا گیا ہے کہ ابھی جب سیکورٹی ایجنسیاں حملوں آور کے تعین میں کوئی بات دلیل کے ساتھ بیان کرنے سے قاصر ہیں تو پھر کس بنیاد پر الزامات کی انگلیاں پاکستان پر دراز کی جارہی ہیں؟سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان حملوں کا سب سے زیادہ فائدہ کن عناصر یا ملک کو ہے۔

بھارت پر ’’برہمن اشرافیہ‘‘ یا دوسرے الفاظ میں برہمن اسٹیبلشمنٹ کا شروع سے راج ہے ۔ یہی برہمن اشرافیہ بھارت کے عسکری حلقوں پر راج کرتی ہے ۔

جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ پاکستان اس وقت دنیا میں دہشت گردی کے خلاف خود سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے اور اس میں بہت حد تک کامیاب بھی ہے۔ ایسی صورتحال میں جبکہ مشرق وسطی سے لیکر کر افغانستان سمیت ایک آگ لگی ہوئی ہوئی ہے پاکستان میں حالات کسی حد تک پرسکون ہوچکے ہیں جس میں یہاں کی سیکورٹی ایجنسیوں ، پاک فوج اور وطن کی حفاظت کے ضامن دیگر اداروں کی مالی اور جانی قربانیاں سرفہرست ہیں۔ان مخدوش حالات میں بھی پاکستان نے اپنی تاریخ کا سب سے بڑا تجاتی معاہدہ ’’معاشی راہ داری‘‘ کی شکل میں چین کے ساتھ کیا ہے۔ کیا ان حالات میں یہ سوچا جاسکتا ہے کہ پٹھانکوٹ جیسے واقعات کے پیچھے پاکستان ہوسکتا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کی مزاحمت ہی کرسکتا ہے چاہے وہ بھارت میں ہو یا افغانستان میں ، وہ کسی طور بھی دہشت گردی کے الزامات کو بھی افورڈ نہیں کرسکتا۔

Nawaz-Modi-meeting-at-Jati-umra

اب معاملہ آجاتا ہے کہ ایک طرف مودی صاحب پاکستان کا ’’اچانک‘‘ دورہ کرتے ہیں اور بنگلہ دیش اور افغانستان میں پاکستان کے خلاف زہر اگلنے کے باوجود پاکستان میں امن کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں۔ اب اگر بھارت میں تمام ادارے ایک پالیسی پر یکسو ہیں تو یہ چانکیائی سیاست کا عروج ہی کہا جاسکتا ہے یا دوسرے الفاظ میں بغل میں چھری اور منہ میں رام رام۔ لیکن اگر ہندو انتہا پسند حلقے جن میں بھارت کا میڈیا اور صحافتی حلقے بھی شامل ہے وہ پاکستان میں امن وسکون کی صورتحال کو حسد کی نگاہ سے دیکھ کر اس قسم کے ڈرامے پر اتر آئے ہیں تو یہ خود ان کے لئے مستقبل میں سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔لیکن اگر کچھ سنجیدہ بھارتی حلقے اس سلسلے میں انصاف پر مبنی موقف اپنانے کی بات کرتے ہیں تو انہیں اس ’’چور‘‘ کو اپنے ہاں تلاش کرنا ہوگا ۔

بھارت کو افغانستان میں موجود لاکھوں ٹن لوہے کے اسکریپ کی شکل میں معاشی فوائد کی شکل دکھائی جارہی ہے جس کے لئے بھارت کو پاکستان کے اندر سے ایک زمینی راستہ درکار ہے ۔

خطے کے مخدوش ترین حالات میں پاکستان کا چین کے ساتھ اقتصادی راہ داری کا معاہدہ کرکے اس پر تیزی کے ساتھ عملدآمد کرا دینا کسی معجزے سے کم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جس انداز میں پختگی کا ثبوت دیا ہے وہ قابل تعریف ہے لیکن جس وقت یہ معاملہ شروع ہوا تھا اس وقت سے ہم یہ کہتے آئے ہیں کہ یہ منصوبہ بڑے بڑوں کو ہضم نہیں ہوگا خاص طور پر ہمارے پڑوسی بھارت کو ، اس لئے اس کو مکمل کرنے کے لئے پہاڑ جیسے عزم کی ضرورت ہے۔ اب پٹھانکوٹ جیسے واقعات کو استعمال کرکے بھارت کی حقیقی حکمران برہمن اشرافیہ ایک طرف مقبوضہ کشمیر اور پاکستان کے پانی سے دنیا کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے تو دوسری جانب دنیا کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے عمل سے روکنا بھی مقصود ہے۔اس حوالے سے ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ دنیا میں اب جنگیں صرف عسکری میدان میں ہی نہیں لڑی جاتیں بلکہ ان کا بڑا حصہ معاشی میدان بھی بن چکا ہے۔

پاکستان نے جس تیزی کے ساتھ بے پناہ قربانیاں دے کر اپنے آپ کو انتہا پسندی کے گڑھے سے نکالا ہے تو وطن عزیز کے دشمنون کو ایک آنکھ نہیں بھا رہا ۔ اس بات کو بھی ذہن میں رکھا جائے کہ جس وقت 1974ء میں لاہور میں بھٹو دور میں اسلامی سربراہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی تو اس وقت اس بات کا پورا احتمال ہوچلا تھا کہ اب کم سے کم مسلم ممالک خصوصا امیر عرب ملکوں کی توجہ پاکستان کی جانب مبذول ہوجائے گی۔ اس وجہ سے دشمنان اسلام اور پاکستان یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اب اسلامی دنیا پاکستان کی سیاسی وعسکری قیادت میں دنیا کے ساتھ معاملات آگے بڑھائے گی۔ اس کانفرنس کے سب سے بڑے روح رواں سعودی عرب کے شاہ فیصل مرحوم اور پاکستانی وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ مسلم دنیا کے اتحاد اور پاکستان کی معاشی خودمختاری کو خطرہ سمجھتے ہوئے امریکا بہادر نے بھارت کو جوہری دھماکے کا اشارہ کیا تھا۔ یوں اس کانفرنس کے انعقاد کے ٹھیک چار ماہ کے اندر اندر بھارت نے ایٹمی دھماکا کرکے مسلم دنیا کو واضح پیغام دینے کی کوشش کی تھی کہ مسلم اتحاد کو کسی طور بھی عالمی سطح پر ایک طاقت کے طور پر ابھرنے نہیں دیا جائے گا لیکن بعد کی تاریخ نے ثابت کیا کہ بھارت کا یہ ’’پیغام‘‘ خود اس کے گلے میں اس شکل میں گلے پڑ گیا کہ پاکستانی قوم نے خوف میں مبتلا ہونے کی بجائے خود یہ جوہری قوت حاصل کرنے کا اعلان کردیا اور اس وقت کے وزیر اعظم بھٹو نے یہ تاریخی جملہ کہا کہ ’’ہم گھاس کھا لیں گے لیکن جوہری قوت ضرور حاصل کریں گے‘‘۔ اب اگر بھارت پٹھانکوٹ جیسے واقعات کو پاکستان کے خلاف استعمال کرکے اس کی معاشی ترقی کے راستے میں روڑے اٹکانا چاہتا ہے تو یہ بھی اس کی تاریخی بھول ہی ثابت ہوگا ۔

vajpayee

جہاں تک واچپائی اور مودی صاحب کی ’’امن کوششوں‘‘ کا تعلق ہے تو ایک بات بطور پاکستانی ہمیں ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ بھارت میں کانگریس کی حکومت ہو یا بھارتیہ جنتا پرٹی برسراقتدار ہو یا ہندو انتہا پسند جماعتوں کا معاملہ ہو حقیقت میں بھارت پر ’’برہمن اشرافیہ‘‘ یا دوسرے الفاظ میں برہمن اسٹیبلشمنٹ کا شروع سے راج ہے ۔ یہی برہمن اشرافیہ بھارت کے عسکری حلقوں پر راج کرتی ہے ۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ امریکی صدر ہو یا امریکا کے دیگر پالیسی ساز ادارے ہوں لیکن وہاں حکومت درحقیقت صیہونی لابی کی ہوتی ہے جو عالمی سطح پر امریکااور مغرب سے متعلق سارے امور کو اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔جو حالات خطے میں اب پیدا ہوچکے ہیں اس میں پاکستان کی اہمیت میں گزشتہ چند برسوں سے اضافہ ہی ہوا ہے۔ افغانستان میں قیام امن کا معاملہ ہو یا مشرق وسطی میں جاری جنگوں کی صورتحال پاکستان کو اس سارے معاملے میں ایک حصے کے طور پر دیکھا جارہا ہے جبکہ عالمی صیہونی قوتیں پاکستان کے اس کردار کو محدود کرنے کے لئے اسے خطے کے معاملات میں الجھانے کی کوششوں میں ہیں۔

اس چیز کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے کہ بھارت خطے میں امریکا اور اسرائیل کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور چین کی جانب امریکا کی فرنٹ لائن بناہوا ہے ۔ اس لئے بھارت میں ہونے والے ہر معاملے پر امریکا براہ راست نظر رکھے ہوئے ہے ۔ مودی صاحب کا ’’اچانک‘‘ دورہ لاہور میں بھی یہی عالمی قوتیں پس پشت موجود ہیں تاکہ جزوقتی طور پر اسلام آباد اور دہلی کو شیرشکر کروا کر کابل میں اپنے مقاصد حاصل کئے جاسکیں۔ اس سلسلے میں بھارت کو افغانستان میں موجود لاکھوں ٹن لوہے کے اسکریپ کی شکل میں معاشی فوائد کی شکل دکھائی جارہی ہے جس کے لئے بھارت کو پاکستان کے اندر سے ایک زمینی راستہ درکار ہے ۔لیکن اگر اسی قسم کی الزام تراشیاں جاری رہیں تو افغانستان تو دور کی بات بھارتی واہگہ بارڈر تک نہیں پہنچ سکیں گے۔دوسری جانب جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ اس وقت مشرق وسطی ایک بڑی جنگ کے دہانے پر آن پہنچا ہے ۔ شام کے معاملے میں روس کو خطے میں داخل ہونے پر مجبور کردیا گیا ہے ۔ لیکن عالمی سطح پر پاکستان کو اس خطے کے معاملات سے دور رکھنے کی کوششیں بھی جاری ہیں تاکہ پاکستان کی عسکری صلاحیتوں سے خطے کے دوست ممالک فائدہ نہ اٹھا سکیں۔ اس سلسلے میں پاکستان کی سیاسی قیادت بھی حالات کے پورے ادراک سے قاصر رہی ہے۔ہونا تو یہ چاہئے کہ خطے کے موجودہ حالات کے تناظر میں پاکستان کی خارجہ پالیسی سفارتی سطح پر تیز دھار تلوار کی مانند ہو جس کی کاٹ تمام دنیا محسوس کرے ، کیونکہ جن عوامل کے بطن سے موجودہ حالات نے جنم لیا ہے اس میں سب سے زیادہ زخم خوردہ پاکستان ہے۔ پاک فوج اور ملکی دفاع کے ضامن دیگرادارے اس وقت وطن کی حفاظت کی خاطر چومکھی لڑائی لڑ رہے ہیں تو دوسری جانب سیاستدان نما نوسر باز ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں اور جب ان پر ہاتھ پڑنے کا مرحلہ آتا ہے توپاک فوج کو حالات میں پھنسا دیکھ کر اپنی نجات کے راستے تلاش کرتے ہیں۔اس لئے خارجی دشمنوں کے ساتھ ساتھ ریاست پاکستان کو ان داخلی دشمنوں پر بھی ہاتھ ڈالنا ہے اس لئے جہاں افغانستان اور بھارت کے امور پر گہری نظر رکھنا ضروری ہے وہاں مشرق وسطی کے معاملات اور حالات کے پس منظر پر بھی نگاہ رکھنا ہوگی۔ چین اور روس نے شمالی افریقا کے بعد جو بھاری سرمایہ کاری شام میں کی تھی اسے امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادیوں نے خانہ جنگی کی شکل میں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کرا دیا ہے۔ دوسری جانب ایران کوجوہری معاملات میں مذاکرات کا لالی پوپ دے کر اسے روس اور چین سے دورکرنے کی کوشش کی گئی ۔

destruction of syria

پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو یہ بات ذہن میں رکھنا ہوگی کہ اس وقت تمام مشرق وسطی میں فرقہ واریت کی جس جنگ کو جان بوجھ کر ہوا دی گئی ہے وہ بھی منصوبے کی ایک بڑی کڑی ہے۔ ان تمام حالات کی بو سونگھتے ہوئے سعودی عرب نے امریکا کو ہاتھ پکڑانے سے انکار کردیا تھااور روس کی راہ لی تھی۔ سعودی وزیر دفاع کا دورہ ماسکو اس کی ایک اہم کڑی تھا جو خطے میں ایک ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں ایک برس قبل تک سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔یہی وہ حالات ہیں کہ روس چین کے ساتھ مل کر ایشیا میں اپنا بلاک مضبوط کرنا چاہتا ہے اور انہی عوامل کے تحت بہت پہلے شنگھائی تعاون تنظیم کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ اسے بھی ذہن نشین رکھا جائے کہ امریکانے ستر کی دہائی میں پاکستان کے ذریعے چین تک رسائی حاصل کی تھی آج اسی طرح چین کے ذریعے روس پاکستان تک رسائی حاصل کررہا ہے اور غالباً یہی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ امریکا اور اس کے صیہونی صلیبی اتحادی اس بات سے واقف ہیں کہ اگر کریمیا کے راستے روس بحیرہ روم میں داخل ہوکر اسرائیل کے سر پر لٹکتی ہوئی تلوار بن گیا تو مشرق وسطی کا سارا کھیل صیہونی دجالی قوتوں کے ہاتھوں سے نکل جائے گا۔ دوسری جانب پاکستان کو اس بات کا خاص خیال رکھنا ہوگا کہ آنے والے وقت میں پاکستان کو مشرق وسطی کے معاملات سے دور رکھنے کے لئے عالمی صیہونی قوتوں نے بھارت کو ہی پاکستان کے خلاف حرکت دینی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مصلحت اندیش حکومت کی بجائے وہاں انتہا پسندانہ ہندو حکومت قائم کروائی گئی ۔ان حالات کا مقابلہ پاکستان چین اور روس کی مدد سے آسانی کے ساتھ کرسکے گا۔کیونکہ اقتصادی راہ داری اور گوادر کی شکل میں پاکستان میں چین کے مفادات بے پناہ ہوجائیں گے اور پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی شکل میں وہ کبھی اپنی اقتصادی شہہ رگ بھارت کے ہاتھ میں دینے کے لئے تیار نہیں ہوگا۔ دوسری جانب روس کا جغرافیائی پچھواڑایا بیک ڈور ایریا افغانستان ہے جسے پاکستان کی مدد کے بغیر مستحکم نہیں کیا جاسکتا یہ روس کے لئے بہت ضروری ہے۔ اس لئے پاکستان کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے کہ وہ موجودہ حالات کے تناظر میں چین کی طرز پر روس سے بھی انتہائی مضبوط تعلقات استوار کرے۔


متعلقہ خبریں


سعودی عرب اورایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند وجود - اتوار 16 جنوری 2022

مشرق وسطی کی صورتحال میں نیا موڑ آگیا، سعودی عرب اور ایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند ہو گئے۔ایرانی میڈیا کے مطابق سعودی عرب اور ایران اپنے سفارتخانے کھولنے کی تیاری کررہے ہیں، رکن ایرانی پارلیمنٹ جلیل رحمانی نے گفتگو میں سفارتی تعلقات بحالی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ دونو...

سعودی عرب اورایران سفارتی تعلقات بحال کرنے پر رضامند

سانحہ کوئٹہ:"را" اورافغان خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی، کَڑیاں ملنے لگیں وجود - جمعرات 27 اکتوبر 2016

کوئٹہ پولیس ٹریننگ مرکز پر حملے کی نگرانی افغانستان سے کی گئی، مقامی نیٹ ورک کو استعمال کیا گیا حساس اداروں نے تفصیلات جمع کرنا شروع کردیں ، افغانستان سے دہشت گردوں کی حوالگی کا مطالبہ کیا جاسکتا ہے  بھاری ہتھیاروں  کے ساتھ کوئٹہ پولیس کے تربیتی مرکز پر ہونے والے خود کش  حم...

سانحہ کوئٹہ:

سفارتی محاذ پربھارت کو ایک اور شکست,برطانیہ نے بھی پاکستان مخالف پٹیشن مسترد کردی شہلا حیات نقوی - هفته 22 اکتوبر 2016

امریکاکے بعد برطانیہ نے بھی پاکستان کودہشت گردوں کی پناہ گاہ قراردینے کا بھارتی دعویٰ یکسر مسترد کردیا برطانیہ میں مقیم بھارتیوں کی آن لائن پٹیشن پر پاکستان کی قربانیوں کے برطانوی  اعتراف نے بھارتی غبارے سے ہوا نکال دی امریکا اوربرطانیہ دونوں ممالک نے بھارتی حکومت کے اشارے اور ...

سفارتی محاذ پربھارت کو ایک اور شکست,برطانیہ نے بھی پاکستان مخالف پٹیشن مسترد کردی

بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت ایچ اے نقوی - جمعرات 06 اکتوبر 2016

بھارتی فوج کی جانب سیکنٹرول لائن پر دراندازی کے واقعے کے بعدجسے اس نے سرجیکل اسٹرائیک کانام دینے کی ناکام کوشش کی، بھارتی فوج کے سربراہ نے عالمی سطح پر بھارت کی اس مذموم کارروائی کی مذمت سے بچنے کیلیے اعلان کیاتھا کہ کنٹرول لائن پر جو واقعہ ہوا، اس کے بعد اب بھارت پاکستان کے خلاف...

بھارتی جارحیت، مقابلے کے لیے جارحانہ سفارتکاری کی ضرورت

پاک بھارت تنازع، بھارتی سیاستدان منتشراور پاکستانی سیاستدان متحد، خوش کن منظر ایچ اے نقوی - بدھ 05 اکتوبر 2016

اپوزیشن کی تمام جماعتوں نے گزشتہ روز وزیراعظم کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کی اور بھارت کے جنگی جنون سے نمٹنے اور مقبوضہ کشمیر کے مظلوم عوام کی بھرپور مدد کرنے کے حوالے سے کوششوں کیلیے وزیر اعظم کابھر پور ساتھ دینے کا اعلان کیا۔اپوزیشن کے رہنماؤں نے اس ناز...

پاک بھارت تنازع، بھارتی سیاستدان منتشراور پاکستانی سیاستدان متحد، خوش کن منظر

کشمیر میں جاری آپریشن توڑ پھوڑ الطاف ندوی کشمیری - بدھ 05 اکتوبر 2016

یوں توآج کل پورا برصغیر آپریشنوں اور اسٹرائیکوں کے شور سے پریشان ہے مگر کشمیر براہ راست ان کی زد میں ہے۔ یہاں حکومت نے آپریشن ’’کام ڈاؤن‘‘کا آغاز کرتے ہو ئے پورے کشمیر کو بالعموم اور جنوبی کشمیر کو بالخصوص سیکورٹی ایجنسیوں کے رحم و کرم پر چھوڑا ہے۔ انھیں مکمل طور پر کھلی چھوٹ ہے۔...

کشمیر میں جاری آپریشن توڑ پھوڑ

بڑی طاقتوں کی صبر کی تلقین، پاک بھارت جنگ نہیں روک سکتی ایچ اے نقوی - منگل 04 اکتوبر 2016

بھارت کنٹرول لائن پر در اندازی کی کوشش کو پاکستان کے خلاف سرجیکل اسٹرائیک کا نام دے کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام کرکے مقبوضہ کشمیر کے عوام پر اپنے سفاکانہ مظالم پر پردہ ڈالنے کی کوششوں میں ناکامی اور اس ناکامی کے بعد سے مسلسل سرحدوں پر چھیڑ چھاڑ میں مصروف ہے، جس کا اندازہ اس ...

بڑی طاقتوں کی صبر کی تلقین، پاک بھارت جنگ نہیں روک سکتی

پاکستان کی مضبوط سفارتی مہم اور قومی یکجہتی، مودی پسپائی پر مجبور انوار حسین حقی - منگل 04 اکتوبر 2016

وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ان دنوں زبردست سفارتی اور سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بنا ہو اہے ۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستان اور بھارت کے درمیان جاری کشیدگی نے سفارتی حلقوں کو بہت زیادہ سرگرم کیا ہواہے ۔ پاکستان کے دفاعی اور سفارتی حلقوں کی شبانہ روز کاوشوں نے بھارت کو سفارتی اور دفاعی لح...

پاکستان کی مضبوط سفارتی مہم اور قومی یکجہتی، مودی پسپائی پر مجبور

کابل سے القدس تک محمد انیس الرحمٰن - پیر 03 اکتوبر 2016

سولہ ستمبر 1977ء کی ایک سرد رات اسرائیلی جنرل موشے دایان پیرس کے جارج ڈیگال ائر پورٹ پر اترتا ہے، وہ تل ابیب سے پہلے برسلز اور وہاں سے پیرس آتا ہے جہاں پر وہ اپنا روایتی حلیہ بالوں کی نقلی وگ اور نقلی مونچھوں کے ساتھ تبدیل کرکے گہرے رنگ کی عینک لگاکر اگلی منزل کی جانب روانہ ہوتا ...

کابل سے القدس تک

جنگ سے پہلے بھارتی شکست مختار عاقل - پیر 03 اکتوبر 2016

منصوبہ خطرناک تھا‘ پاکستان کو برباد کرنے کیلئے اچانک افتاد ڈالنے کا پروگرام تھا‘ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں فوجی آپریشن سے قبل کراچی‘ سندھ اور بلوچستان میں بغاوت اور عوامی ابھار کو بھونچال بنانے کا منصوبہ بنایا تھا تاکہ مقبوضہ کشمیر میں اس کی سفاکی اور چیرہ دستیاں دفن ہوجائیں اور ...

جنگ سے پہلے بھارتی شکست

سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ، بھارتی فوج اپنے ہی عوام کو اُلو ّ بنانے لگی ایچ اے نقوی - جمعه 30 ستمبر 2016

بدھ کی شب تقریباً ڈھائی بجے یا یوں کہیے کہ جمعرات کو علی الصبح جب کنٹرول لائن کے دونوں طرف کے شہری اپنے گھروں میں آرام سے سو رہے تھے بھارتی فوج نے یہ سوچ کر کہ شاید پاکستانی فوجی بھی خواب غفلت میں کھوئے ہوں گے کنٹرول لائن عبور کرنے کی کوشش کی لیکن پاک فوج نے اس کافوری جواب دیا، ب...

سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ، بھارتی فوج اپنے ہی عوام کو اُلو ّ بنانے لگی

بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کا دباؤ‘ سرجیکل اسٹرائیکس ڈرامے کی وجہ بنا عارف عزیز پنہور - جمعه 30 ستمبر 2016

اوڑی حملے کا الزام پاکستان پر عائد کیے جانے کے بعد بھارتی حکومت پر وہاں کے میڈیا اور انتہاپسند ہندو تنظیموں کا شدید دباؤ تھا کہ اس کا جواب دیا جائے گا۔ ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی نے جوش خطابت میں پاکستان کو دندان شکن جواب دینے کی بڑھکیں تو لگادیں مگر جب انہیں عملی جامہ پہانے ...

بھارتی میڈیا اور انتہا پسندوں کا دباؤ‘ سرجیکل اسٹرائیکس ڈرامے کی وجہ بنا

مضامین
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت وجود هفته 04 مئی 2024
بھارتی انتخابات میں مسلم ووٹر کی اہمیت

ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر