وجود

... loading ...

وجود
وجود

کاش میں فیروزدین ہوتا

اتوار 03 جنوری 2016 کاش میں فیروزدین ہوتا

old-man

چند روز قبل دبئی کی ایک ڈھلتی شام عجوبہ روزگار شاہراہ شیخ زید بن سلطان پر دوستوں کے ہمراہ سیر کو نکلا۔ زرق برق گاڑیوں کے قافلے آنکھوں کو چندھیا رہے تھے۔ سڑک کے اوپر میٹرو کا تنا ہوا چھت اور رنگ برنگی بتیاں شام کے نظارے کو اور بھی دلکش بنادیتے ہیں۔ چائے کی طلب اور لنگر گپ مارنے کا من چاہا توسردار انور خان نے کہا کہ آپ کو چچا فقیر محمد کے ہوٹل کی مصالحے دارچائے پلاتے ہیں۔

سردار انور ایک خدائی خدمت گار ہیں۔ وطن کی محبت ان کے رگ ویشے میں رچی بسی ہے۔ جہاں بھی جاتے ہیں دوستوں کا اور غمگساروں کا ایک جہاں آباد کرآتے ہیں۔ فقیر محمد، جسے وہ پیار سے چچا کہتے ہیں، کے ساتھ رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو نے دلچسپ لیکن تکلیف دہ رخ اختیار کرلیا۔ ستر کی دہائی میں فقیر محمد گجر خان کے گاؤں جاتلی میں اسکول استاد تھے۔ دبئی چلو غربت مٹاؤ کا غلغلہ بلند ہوا تو راتوں رات درجنوں نوجوان گاؤں سے گم ہوگئے۔ پتہ چلا کہ رزق کی تلاش میں وہ دبئی پہنچے چکے ہیں۔ ہر ماہ گھروالوں کو خرچ اور نت نئے تحفے بھیجتے ہیں تو لوگوں کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتیں۔

پھر وہ دن آگیا کہ فقیر محمد ایک صبح کاذب گجر خان ریلوے اسٹیشن سے تیزگام پر سوارہوا اورکراچی جاپہنچا جہاں کچھ دوست پہلے ہی اس کے منتظر تھے۔ رات کے تیسرے پہر وہ ساحل سے ایک لانچ کے ذریعے دبئی روانہ ہوگئے۔ کچھ ساتھی جو دوسری لانچ پرسوار تھے کوبحری قزاقوں نے پکڑ لیااور پھر ان کا آج تلک نام ونشان نہ ملا۔ اس زمانے میں دبئی ایک لق دق صحرا تھا۔ چھوٹی چھوٹی مارکیٹیں تھیں۔ خستہ سڑکیں اور پارک نام کی کوئی شے پائی ہی نہیں جاتی تھی۔

اباجی میرے دبئی جانے کے بعد تنہا ہوگئے تھے۔ کبھی کبھی گجر خان چلے جاتے جہاں ان کی پلٹن کے سنگی ساتھی جمع ہوتے اور گزرے زمانے کی یادیں تازہ کرتے

تیل نکلنے سے دوبئی کی قسمت جاگ اٹھی۔ فقیر محمد نے پہلے پہل ایک عرب کفیل کے ہاں ملازمت کرلی۔ بعدازاں رفتہ رفتہ اپنا کاروبار جمانا شروع کردیا اور اب وہ ایک خوشحال انسان ہیں۔ معمر ہونے کے باوجود ہاتھ میں آئی فون سکس رکھتے ہیں اور زندہ دل ہیں۔ مقوی خوراک اور میک اپ نے ان کی عمر چھپارکھی ہے۔ دبئی میں چھوٹا موٹا کاروبار کرنے والے بھی موج کرتے میں لیکن چچا فقیر محمد کی کامیابی کی داستان دوسروں سے بہت مختلف اور بھرپور ہے۔ دبئی آنے سے قبل ان کی تنخواہ تین سو پچاس روپے تھی۔ فقیر محمد نے سوچا کہ انہیں اپنی اور خاندان والوں کی زندگی میں خوشیوں کا رنگ بکھیرنا ہے تو دیار غیر جانا ہوگا جہاں ریالوں اور دیناروں کی ریل پیل ہے اور جفاکش لوگوں پر قسمت کی دیوی جلد مہربان ہوجاتی ہے۔

شام گہری ہوتی جارہی تھی اور چچا کتھارسس کیے بنا ٹلنے والے نہ تھے۔ ان کی باتوں میں پائی جانے والی سچائی اور دکھ نے ہمیں اپنے سحر میں لے لیا۔ گویا ہوئے: دبئی پہنچاتو چند ماہ بعد بیٹے کی ولادت کی خبر ملی۔ ایسا لگا کہ کائنات سمٹ کر میرے پاؤں تلے آگئی ہو۔ جی چاہتاکہ بھنگڑاڈالوں۔ دبئی کی سڑکوں پر دیوانہ وار ناچوں اور لوگوں کو خبر کروں کہ اللہ تعالے نے چار سال بعد چاند کا ایک ٹکرا میرے آنگن میں ڈالا۔ ہر دوسال بعد چھٹی میں گاؤں جاتا۔ ابا جان کے لیے چار بینڈ والا ریڈیو لے گیا تو ان کی تفریح طبع کا کچھ سامان ہوگیا۔ شوق سے خبریں سنتے اور خاص کر فوجی بھائیوں کا پروگرام پاسبان انہیں بہت پسند تھا۔ بیگم کو ٹیپ ریکاڈرلے کردیا۔ وہ گانے اور قوالیاں سننے کی بہت شوقین ہیں۔ چھٹی آتا تو نئے گانوں کے کیسٹ بھرا کراسے دے جاتا۔ اہلیہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھی لہٰذا وہ گھر کے حالات، محلے کی خبریں اور دل کے دکھڑے ریکارڈ کر بھیجتی۔ گاؤں سے آنے والا کیسٹ لے کرآتا تو کیمپ کے کسی کونے میں چھپ کر سنتاتو گزرے لمحات حافظے کی سکرین پردوڑنے لگتے۔ والدہ محترمہ بھی کچھ نہ کچھ ریکارڈ کراڈالتی لیکن اباجی پرانی وضع کے انسان تھے۔ سنتے سب کی لیکن گفتگو میں شریک نہ ہوتے۔ کوئی بات اچھی لگے تو مسکرادیتے۔ چالیس سالہ فوجی زندگی اور جنگوں میں شرکت نے انہیں خاندان کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں سے لاتعلق کردیا تھا۔

زندگی کے ماہ وسال گزرتے رہے۔ بیگم بتاتی کہ بچے پڑھائی میں اچھے جارہے ہیں۔ ٹیوشن بھی لیتے اور استاد بھی ان کی تعریف کرتے ہیں۔ انہیں زندگی کی ہر آشائش فراہم کرنے کی کوشش کرتا۔ دیدہ زیب لباس، قیمتی گھڑیاں،مہنگے کیمرے اور معقول جیب خرچ۔ میڑک کا رزلٹ آیاتو بتایا گیا کہ بیٹا کالج میں داخل ہوگیا ہے۔ بعدازاں یہ راز کھلا کہ وہ تو فیل ہوچکے ہیں۔ دوسرے بیٹے کا حال بھی اس سے مختلف نہ ہوا۔ فقیر محمد کی آنکھیں ٹپک رہی تھیں اور آواز رندھ گئی۔ میری اور انور صاحب کی آنکھیں بھی بھیگ گئیں۔ کسی کی دکھ بھری کہانی سنتاہوں تو ایسا لگتاہے کہ جیسے یہ میری اپنی بپتا ہو۔ اسی لیے ٹی وی ڈرامے دیکھنا بند کیے لیکن آج چچا نے تو کسر ہی نکال دی۔ فقیر محمد سے جان چھڑانے کی کئی ترکیبیں کیں کہ مزید سننے کا یارا نہ تھا لیکن وہ مُصر تھے کہ کھانا ان کے ساتھ کھائیں تاکہ وہ اپنی بات مکمل کرسکیں۔

گفتگو کا سلسلہ دوبارہ چل نکلاتو کہنے لگے کہ قسمت کی دیوی مہربان تھی کاروبارجلد چمک اٹھا۔ مصروفیت کا سلسلہ بھی شیطان کی آنت کی طرح دراز ہوتاگیا۔ دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ گاؤں میں شاندار کوٹھی تعمیرکرائی لیکن بیگم اور بچے شہر میں رہنا چاہتے تھے۔ راولپنڈی کے پوش علاقے میں ایک خوبصورت مکان خریدا۔ گھر والے راولپنڈی منتقل ہوگئے۔

بچوں کے رشتے کا وقت آیا تو بیگم اور بچے پہلے ہی اپنے اپنے فیصلے صادرکرچکے تھے حتیٰ کہ میری صاحبزادی نے بھی ایک دن فیصلہ سنا دیا کہ وہ اپنی پسند کی شادی کرنا چاہتی ہے اور اگر اس کے راستے میں روڑے اٹکائے گئے تو وہ کورٹ میرج کر سکتی ہے۔ وہ باپ جس نے ساری زندگی خاندان کی خوشیوں کے لیے خون پسینے کی طرح بہایا اچانک تنہاہوگیا۔ قلق اس بات کا تھا کہ فیصلہ کا اختیار دینا تو درکنار مجھے مشورے کے قابل بھی نہ سمجھا گیا۔ بیگم اوربچوں کے ان فیصلوں اور رویے سے میں ٹوٹ پھوٹ گیا۔ ایسا لگا کہ سینہ شق ہوگیا ہو۔ اب ہوٹل میں بچوں کے ساتھ ہنستے کھیلتے جوڑے دیکھتاہوں تولاشعوری طور پر آنکھ نم ہوجاتی ہے۔

اباجی میرے دبئی جانے کے بعد تنہا ہوگئے تھے۔ کبھی کبھی گجر خان چلے جاتے جہاں ان کی پلٹن کے سنگی ساتھی جمع ہوتے اور گزرے زمانے کی یادیں تازہ کرتے۔ فولادی قوت ارادی کے مالک اباجی اس وقت ٹوٹ پھوٹ گئے جب میرا گھر آنا جانا بہت کم ہوگیا۔ بعض اوقات محض چند دن کے لیے گھرجاتا۔ بچوں اور بیگم کے پاس ابا کے پاس بیٹھنے کا وقت نہ تھا۔ ایک دن اباجی حرکت قلب بند ہونے سے اس جہاں فانی سے کوچ کرگئے۔ میں انہیں اپنے ساتھ حج پرلے جانا چاہتاتھالیکن آج کل کرتے کرتے وقت گزرگیااور گزراوقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

یہاں دبئی میں میرا کاروبار دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کرتارہا۔ اوپر والے نے چھپر پھاڑ کردیا لیکن میری روح مطمئن نہیں۔ اپنے اسکول کے کلرک فیروز دین کی قسمت پر رشک آتا ہے۔ اس کی اولاد پڑھ لکھ کراعلیٰ عہدوں پر فائزہو گئی۔ سب سے بڑھ کر اپنے باپ سے محبت کرتے ہیں۔ دکھ سکھ میں اس کے ہم رکاب ہوتے ہیں۔ فیروزدین کا منچلا بیٹا جو راولپنڈی کے ایک بڑے ہسپتال میں ایک شعبہ کا سربراہ ہے۔ میرے بیٹے کی اترن پہنتاتھا۔ وہ سعادت مند بچہ باپ کو اپنے ساتھ نماز فجر کے لیے مسجد لے جاتاہے۔ وہ فیروزدین کی عزت ہی نہیں کرتے بلکہ اُسے دیوتا کی طرح پوجتے ہیں۔ یہ وہی فیروز دین ہے جس کے بچوں کے پاس کالج کی فیس ہوتی تھی نہ ڈھنگ کے کپڑے۔ کاش میں فیروز دین ہوتا۔

فقیر محمد بے تکان بولے جارہے تھے اور ہماری نظریں کھانے کی میز پر گڑی جارہی تھیں۔ چپ سی لگ گئی۔ ایسا لگا کہ ہرطرف سناٹا چھا گیا ہو۔ مزید سننے کی تاب نہ تھی۔ فقیر محمد کو ہماری بے چینی کا احساس تھا۔ اچانک اس کے ہونٹوں پر بے نام سی مسکراہٹ پھیل گئی۔ آنکھوں میں اچھلتے ہوئے آنسو دور سے دکھائی دے رہے تھے۔ جاتے جاتے اس نے میرے کندھے پر تھپکی دی اورکہا آئندہ دبئی آناہو تو غریب خانے پر ضرورتشریف لائیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر