وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستان کی 1999ء سے2015ء تک کشمیر کُش پالیسی

جمعه 01 جنوری 2016 پاکستان کی 1999ء سے2015ء تک کشمیر کُش پالیسی

پاکستان کی کشمیر پالیسی ویسے تو من حیث المجموع تضادات کا مجموعہ رہی ہے ۔لیکن 1999ء سے ،اس نے ایک نئی شکل اختیار کی ،جسے کشمیر کش پالیسی کا نام دینا زیادہ بہتر محسوس ہورہا ہے۔ٹریک سے چڑھتی اُترتی اس پالیسی کا نقصان سب سے زیادہ ان مجاہدین کو ہوا جنہوں نے چند ہی سالوں میں دہلی کی چو لیں ہلا کر رکھ دی تھیں۔دہلی کے سنجیدہ حلقے یہ محسوس کرنے لگے تھے کہ اگر جہادی ،کشمیر کے منظر نامے میں اسی طرح چھائے رہے تو بھارتی معیشت بیٹھ جائیگی اور ایک ارب سے زائد آبادی کو سنبھالنا مشکل ہوجائیگا۔ اس دوران پاکستانی وزیر اعظم جناب محمد نواز شریف کو مزاکرات اور پیس پروسیس کے ذریعے سے مسئلہ کشمیر حل کرنے کا خیا ل آیا۔اس سلسلے میں دہلی لاہور بس سروس قائم کرنے اور پھر اس بس سروس کے ذریعے بھارتی وزیر اعظم کو پاکستان لانے اور لاہور میں بیٹھ کے مزاکرات کرنے کا پروگرام طے ہوا۔

Nawaz-Vajpayee2

20 فروری 1999ء کو بھارتی وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی اور نواز شریف کے درمیان اعلان لاہور ہوا،جس میں پر امن ذرائع سے مسئلہ کشمیر حل کرانے کا اعادہ کیا گیا ، تاہم اس اعلان نامے کی گونج ابھی فضا میں ہی معلق تھی کہ پتہ چلا کہ بھارت کے زیر انتظام کارگل کی چوٹیوں پر پاکستانی افواج نے قبضہ کر لیا ہے۔پاکستانی وزارت خارجہ اس چڑھائی کو حریت پسندوں کے کھاتے میں ڈالتی رہی ۔لیکن جب بھارتی فورسز نے کارگل کی چوٹیوں پر بوفورس توپوں سے گولے برسانے شروع کئے اور جیٹ طیاروں سے بمباری شروع کی تو اس کا جواب دینا پاک آرمی کیلئے مشکل ہوگیاکیونکہ انہوں نے وہاں لڑ رہے فوجی جوانوں کو مجاہدین کشمیر قرار دیا تھا۔ ا گرچہ بھارت کا بھی اس میں کافی جانی نقصان ہورہا تھا لیکن معاملہ اب کھلی جنگ کی طرف بڑھنے لگا۔اُس وقت کے وزیراعظم محمد نواز شریف کو (جو اس کیلئے تیار نہیں تھے اوربقول ان کے وہ اس آپریشن سے قطعی بے خبر بھی رکھے گئے تھے) واشنگٹن جانا پڑا اور یوں امریکی مداخلت سے ان چوٹیوں کو پھر بھارت کے حوالے کیا گیا اور ا س طرح جنگ تو ٹل گئی لیکن آپریشن نہ صرف ناکام ہوا بلکہ جو سیز فائر لائن ،کنٹرول لائن میں شملہ سمجھوتے کی وجہ سے تبدیل ہوئی تھی ،کلنٹن نواز سمجھوتے کے نتیجے میں اسے بین الاقوامی سرحد جیسا تقدس فراہم ہوگیا۔کارگل آپریشن کی ناکامی سے اس پورے علاقے کی حریت پسند تحریکوں پر منفی اثرات پڑے۔پاکستانی عوام اور پاکستانی دانشوروں نے اس آپریشن کی ناکامی پر سخت ناپسندیدگی کا اظہار کیا ۔

وزیر اعظم پاکستان ظفراﷲ خان جمالی نے صدر مشرف کی ہدایات کے عین مطا بق نومبر2003ء کوبھارت کو کنٹرول لائن پر سیز فائر کی پیشکش کی جسے بھارت نے قبول کیا۔

محمد نواز شریف کو اس ناکامی کے انجام کا سامنا کرنا پڑا ،اور اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑا۔اگرچہ وہ بار بار اس بات کی وضاحت کررہے ہیں کہ وہ اس آپریشن سے لاعلم تھے ،لیکن جس شرمناک انداز میں انہوں نے اپنی افواج کو یہ آپریشن ختم کرنے کیلئے امریکا سے مدد لی ،وہ ایک آزاد اور خود مختار مملکت کے حکمران کے شایان شان نہیں تھا۔

ممتاز تجزیہ نگار اور دانشور نسیم زہرہ اپنے کالمAn Assessment of Pakistanis Kargil Diplomacy
(The Daily News 12.07.99)میں لکھتی ہیں کہ

ـ’’صحیح یا غلط پاکستانیوں کی اکثریت نے کلنٹن نواز شریف معاہدے ،جس میں حکومت پاکستان کو مکلف ٹھہرایا گیا ہے کہ مجاہدین کے انخلا کو وہ ممکن بنائے اپنی تحقیر اور ہتک عزت سمجھا۔امریکاکے سامنے اس طرح سر بسجود ہوکر اپنی خودی کو پاش پاش کرنیکے اس عمل سے پاکستانی شرمندگی محسوس کررہے ہیں،لوگ سمجھ رہے ہیں کہ اس معاہدے سے ہماری غیرت کو للکارا گیا ہے۔۔۔کیا ہم واقعی امریکی پیادے ہیں اور سوچنے ، سمجھنے سے عاری ہیں اور کیا ہم خود فیصلے کرنے کی صلاحیت سے محروم ہوچکے ہیں۔کشمیر کے حوالے سے ہماری کوششیں اس شہاب ثا قب سے مماثلت رکھتی ہیں جو کچھ دیر کیلئے آسمان میں چکا چوند پیدا کرتا ہے لیکن پھر کچھ دیر بعداچانک نیچے آگرتا ہے ۔۔۔بھارتی اب ہمارے مرحلہ وار انخلا کو ہماری ایک اورشکست سے تشبیہہ دے رہے ہیں جو 1971سے زیادہ شرمناک اور ذلت آمیز ہے‘‘

معروف دانشور ،تجزیہ نگارڈاکٹر رفعت حسین نواز کلنٹن معاہدے کو اپنے کالمImplications of the July 4 deal جو 11جولائی99 اخبار ڈیلی نیوز میں شائع ہوا ،کے اثرات کو ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں

’’کلنٹن نواز ملاقات کے بعد جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا،اس پر پورے ملک میں ایک سخت رد عمل دیکھنے میں آیاہے۔اعلامیہ میں لائن آف کنٹرول کے تقدس کو شملہ سمجھوتے کی روشنی میں بحال کرنے کیلئے ٹھوس اقدامات اٹھانے اور پوری طرح کنٹرول لائن کے تقدس کی بحالی کے بعد یہ وعدہ کہ صدر کلنٹن خود بھارت اور پاکستان کے درمیان دو طرفہ مذاکرات میں دلچسپی لیں گے کو سفارتی حلقے جلد بازی میں لیا گیا اقدام اور اس پر شدید ناراضگی اور غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں”

سیز فائر کے ذریعے بھارت کو ایک مکمل آہنی باڑھ کھڑی کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔اس کی آڑ میں دو خطوں کے درمیان ایک دیوار قائم کی گئی جس کے بعد نہ صرف مجاہدین کی نقل و حرکت کو روکا گیا بلکہ بھارتی مظالم سے تنگ آکر مہاجر ین کی حیثیت سے یہاں داخل ہونے والے کا راستہ بھی روک دیا گیا۔

معروف اسٹریٹجسٹ اور تجزیہ نگار ڈاکٹر شیریں مزاری اپنے کالمIndia’s New Kashmir Offensiveجو12اگست 99کو ڈیلی نیوز میں شائع ہوا ،پاکستانی حکمرانوں کی عقل پر ماتم ہی کرتی ہیں۔لکھتی ہیں۔۔”پاکستان کشمیر کے معاملے پر ایک اچھی اورمضبو ط حیثیت رکھنے کے باوجود دفاعی پوزیشن اختیار کئے ہوئے ہے،اس کے برعکس بھارت جس کو اخلاقی اور نہ سیاسی جواز حاصل ہے وہ جارحانہ سفارتی مہم چلا رہا ہے۔ہم اپنی روش بدل تو سکتے ہیں لیکن کیا ہم بدلنا چاہتے ہیں۔۔۔”

معروف صحافی اور تجزیہ نگار شاہین صہبائی ڈیلی ڈان اخبار 13جولائی 99کے شمارے میں اپنے کالم Blair House to Kargilمیں نواز شریف کو کنٹرول لائن کو بین الا قوامی سرحد بنانے اور قومی موقف ترک کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ،لکھتے ہیں:

’’یہ نشست اور اسکا نتیجہ دونوں ہی تاریخی تھے۔پاکستان ایسے اقدامات اٹھانے پر رضامند ہو گیا جن پر اگر مکمل طور پر عمل درآمد ہو جائے تو کشمیر کی تاریخ کا دھارا ہی بدل جائے گا اور نواز شریف ایک پچاس سالہ تنازعہ حل کرنے والے لیڈر کے طور پر تاریخ کا حصہ بن جائیں گے۔یہ الگ بات ہے کہ اب وہ پاکستان کے حق میں ہو یا نہیں یہ بھی ہمیشہ کے لیے متنازع اور بحث طلب ہوگا‘‘

کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانے کا خواب دیکھنے والوں کیلئے اس کا یہ سمجھوتہ حوصلہ افزا تھا ،لیکن آزادی کے متوالوں کیلئے اس میں مزید غلامی برداشت کرنے کا پیغام تھا۔ کارگل آپریشن کی ناکامی سے نہ صرف کشمیری قوم بلکہ کشمیری قیادت پر بھی منفی اثرات پڑے۔یہ ناکام آپریشن نہ صرف نواز شریف کو لے ڈوبا بلکہ کشمیریوں کی مقامی طاقتور تنظیم حزب المجا ہدین کی قیادت میں بھی انتشار ڈالنے کا باعث بنا ۔حزب کے اہم رہنما عبد المجید ڈار اسی روز سے عملاََ عسکریت سے تائب ہوگئے ۔اور مشرف نے ڈار صاحب کی اس سوچ کو پروان چڑھاکر اسے بھی تاریخ کا ایک حصہ بنادیا اور خود بھی تاریخ کے کٹہرے میں کھڑے ہوگئے۔

دور مشر ف میں تحریک آزادی پر کیا بیتی؟

Pervez_Musharraf

جنرل مشرف جو کارگل کی مہم جوئی کا کریڈٹ لینے میں کبھی ہچکچا تے نہیں تھے۔ 9/11کے حملوں کے بعد امریکی جارحانہ عزائم کے سامنے بالکل سر بسجود ہوچکے تھے۔وہ اب ہر وہ اقدام اُٹھانے کے لئے تیار تھے ،جس سے نہ صرف امریکا بلکہ بھارت کی خوشنودی انہیں حاصل ہوجائے۔

Zafarullah_Khan_Jamali

نومبر2003ء کو وزیر اعظم پاکستان ظفراﷲ خان جمالی نے صدر مشرف کی ہدایات کے عین مطا بق ،بھارت کو کنٹرول لائن پر سیز فائر کی پیشکش کی ،جسے بھارت نے قبول کیا اور باقاعدہ 25نومبر 2003ء کو سیزفائر کے نفاذکا اعلان ہوا۔حیرت کی بات یہ ہے کہ 17جولائی 1972ء کو دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر ہوا تھا اور جسکے نتیجے میں سیزفائر عمل میں آیا تھا اور وہی سیز فائرلائن 11دسمبر1972ء کو کنٹرول لائن میں تبدیل ہوئی تھی۔

کشمیری عوام کی اکثریت نے مشرف فامولے اور میر واعظ گروپ کی طرف سے بھارتی آئین کے اندر مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوششوں کی مزاحمت کی اور اسے مسترد کیا۔

تب سے پاکستان اور ہندوستان کے درمیان نہ کوئی جنگ ہوئی اور نہ ہورہی تھی تو اب سیز فائر کا کیا مطلب تھا۔اصل میں اس سیز فائر کے ذریعے بھارت کو ایک مکمل آہنی باڑھ کھڑی کرنے کا موقع فراہم کیا گیا۔سیز فائر کی آڑ میں دو خطوں کے درمیان ایک دیوار قائم کی گئی اوراس دیوار کے بعد نہ صرف مجاہدین کی نقل و حرکت کو روکا گیا بلکہ ان لوگوں کاراستہ بھی بند کیا گیا جو بھارتی مظالم سے تنگ آکر مہاجر ین کی حیثیت سے یہاں داخل ہونا چاہتے تھے۔کیا مضحکہ خیز صورتحال ہے، ایک طرف دیوار برلن گرائی جاچکی تھی اور دوسری طرف دیوار کشمیرکھڑی کی جارہی تھی۔ عسکریت پسند اس صورتحال کے نتیجے میں تنہائی اور مشکلات و مسائل کا شکار ہورہے تھے ۔حیرت کی بات یہ تھی کہ حریت کانفرنس کے بعض مایوس لوگوں کو ٹنل کے اس پار روشنی کی کوئی کرن نظر آرہی تھی۔ادھر دوسری طرف پاکستانی فوجی حکمران پرویز مشرف کوایسے ہی لوگوں کی تلاش تھی جو اس کی ہاں میں ہاں ملادیں۔

25اکتوبر2004 ء کوسابق صدر مشرف نے ایک افطار پارٹی میں مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اپنے چار نکاتی فارمولے کا اعلان کیا ۔ جن کے مندرجات اس طرح تھے۔

1۔جموں و کشمیر کو سات ضلعی خطوں ڈسٹرکٹ ریجنز میں تقسیم کر دیا جائے۔

2۔ان خطوں کی نشاندہی کی جائے جن میں فوجی انخلا ء شروع کیا جائے۔

3۔جموں وکشمیرمیں سیلف گورننس ہو۔

4۔بھارت اور پاکستان ، ریاست کا مشترکہ انتظام سنبھالنے پر اتفاق کریں۔

مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے لیے سابق صدر کا چار نکاتی فارمولا پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ یہ حق خود ارادیت کی تحریک کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں تھا کیونکہ اس کو مسلمہ دو قومی نظریے اور بین الاقوامی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر پیش کیا گیا تھا۔ اس میں کشمیریوں کے مفادات کی نہیں بلکہ مغربی اور مشرقی حکمرانوں کے مفادات کی عکاسی ہو رہی تھی۔

Manmohan Singh_3C--621x414

بھارت کے وزیر اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے مشرف فارمولہ کو مثبت قرار دے کر مزید اقدامات کرنے کی تجاویز پیش کیں ۔اُنہوں نے 24 مارچ2004 کو اپنے خیالات کا اظہار یوں کیا:

1 ۔سرحدوں کو دوبارہ نہیں کھینچا جاسکتالیکن ان کو غیر موثر Irrelevent بنایاجاسکتا ہے ۔

2 ۔ ایل او سی کے دونوں طرف رہنے والوں کو آر پار نقل و حرکت اور تجارت کی آزادی دی جانی چاہیے۔

3 ۔اس طرح ایک ایسی صورت حال کا تصور سامنے آسکتا ہے جس میں بھارت اور پاکستان کی عملی حوصلہ افزائی سے ان منصوبوں پر کام ہو گا تاکہ باہمی تعاون کے فوائد خطے کی سماجی اور معاشی ترقی کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال میں لائے جائیں۔

جنرل (ر) پرویز مشرف نے ان نکات کا بھی خیر مقدم کیا ، حالانکہ یہ خالص تجارتی نکات ہیں اور وہ بھی مسئلہ کشمیر کے لحاظ سے بھونڈے قسم کے۔ سیاسی اغراض و مقاصد کے پردوں میں چھپے ان تجارتی نکات میں سیاسی مسئلے کے حل کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔۔

جنرل مشرف کی کشمیر پالیسی کو پاکستانی صحافیوں اور دانشوروں نے کس نظر سے دیکھا۔چند اقتباسات آپ بھی ملاحظ فرمائیں۔

معروف کالم نگاراور ٹی وی اینکرجاوید چودھری مشرف کی کشمیر پالیسی پرحیرت کا اظہار کرتے ہوئے روزنامہ ایکسپر یس کے کالم “زیرو پو ائنٹ”میں یوں رقمطراز ہیں۔۔

” پاکستان کے لوگوں کو سمجھ نہیں آرہی یہ اس جنرل پرویز مشرف کا ملک ہے جس نے کشمیر کیلئے دو جنگیں لڑی تھیں اور ان جنگوں میں بہادری اور شجاعت کے تمغے حاصل کئے تھے۔ لوگ حیران ہیں یہ اسی جنرل مشرف کاملک ہے جس نے 99ء میں کشمیر کیلئے کارگل کی جنگ لڑی تھی اوراس جنگ میں اپنے دو شہیدوں کو نشان حیدر دیا تھا ۔لوگ پوچھتے ہیں کیا یہ اسی قائد اعظم محمد علی جناح ؒکا ملک ہے جس نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیاتھا۔۔۔کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کے لوگ ساٹھ برس سے اس پتھرتک پہنچناچاہتے ہیں جس کے بطن سے دریائے جہلم نکلتا ہے”

معروف شاعر ،کالم نگار اور دانشور خالد مسعود خان اس صورتحال پر خون کے آنسوبہارہے ہیں ۔اپنے کالم “کٹہرا”میں اس طرح صورتحال پر اپنا تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ک ہیں ” بھارت سے بات چیت اور مذاکرات سے مسائل کو حل کر نے کے شوق نے ہمیں اپنے بنیادی موقف سے اتنی بار ہٹایا کہ اب حقیقت میں ہمارے پاس کوئی بنیادی موقف ہی نہیں رہا۔ آج صورتحال یہ ہے کہ کشمیری قیادت ہم پر مزید اعتبار کرنے کیلئے تیار نہیں ۔مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج سے برسرپیکارمجاہدین تو ہماری بے وفائی اور یو ٹرن کا مزہ اچھی طرح چکھ ہی چکے ہیں ۔مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادیت کی جنگ لڑنے والے سیاسی رہنما انفرادی طور پر پاکستانی حکمرانوں کی کشمیر پر اوپر کے اشاروں پر روز تبدیل ہونے والی پالیسیوں کے طفیل مایوسی کی آخری حدوں تک پہنچ چکے ہیں۔یہ پاکستانی حکومت کی کشمیر پالیسیوں پر آئے روز کی تبدیلیوں ،یو ٹرنز اور گومگو کا نتیجہ ہے کہ آج حریت کانفرنس کی قیادت بھی اس گومگو اور بے سمتی کے باعث دو دھڑوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔۔اس بات چیت اور مذاکرات کے فریب میں ہم نے پایا تو کچھ نہیں البتہ کھویا بہت کچھ ہے اور اس میں سب سے قیمتی چیز جو ہم نے کھوئی ہے وہ کشمیری عوام اور قیادت میں اپنا اعتبار کھویا ہے۔اپنا اعتماد کھویا ہے اور عالمی سطح پر ہم نے اپنا اصولی موقف کھویا ہے”

معروف دانشور و کالم نگار عرفان صدیقی بھی جنرل مشرف کے اقدامات کو سرینڈر کے مترادف قرار دے رہے ہیں۔اپنے کالم “نقش خیال” میں لکھتے ہیں

” افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کشمیر کے حوالے سے پاکستان کا مقدمہ خا صا کمزور ہوچکا ہے ۔ہم بہ ر ضا و رغبت کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں سے دستبرداری کا عندیہ دے چکے ہیں۔ہم جنگ آزادی کو در اندازی تسلیم کرچکے ہیں ۔ہم عملاـََ کشمیر میں بپا تحریک حریت سے کنارہ کشی اختیار کرچکے ہیں ۔ہم خود ہی رنگا رنگ آپشنز دیکر اپنے دیرینہ موقف کی دھجیاں اڑا چکے ہیں۔۔۔جنوری 2004ء کے اعلان اسلام آباد”پر دستخط کرتے ہوئے بھی بھارت کی حکمت عملی یہی تھی کہ وہ باہمی دوستی اور اعتماد افزاء اقدامات کی پھلجڑیاں چھوڑتا رہے گا ۔ لاری اڈوں اور بسوں کے تماشے لگاتا رہے گا ،کشمیر میں خون کی ہولی کھیلتا رہے گا ،چینی ،پیاز ،ٹماٹر اور لہسن بیجتا رہے گا ،مذاکرات کا سرکس سجاتا رہے گا لیکن جونہی بات کشمیر کے مدار میں داخل ہوگی،وہ کوئی بہانہ بناکر دور جا کھڑا ہوگا ۔یہ بات پاکستان کے کے وہ لوگ کہہ رہے تھے جو برہمنی سامراج کی نیت سے آگاہ ہیں۔نامرادی کا یہ بانجھ سفر جلتے دہکتے صحراؤں تک آن پہنچا ہے اور آسمان پر بادل کا ایک ٹکڑا بھی دکھائی نہیں دے رہا ہے”

معرف کالم نگار ،وصحافی حامد میرنے “یہ قوم اتنی بھی کمزور نہیں “کے عنوان سے روزنامہ جنگ میں 6اگست 2009 کواپنے کالم میں لکھا کہ

” جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاکھوں کشمیر یوں کی قربانیوں کا سوداکرنے کے علاوہ پاکستان کوامریکا کی جنگ میں جھونک کر جگہ جگہ آگ لگادی گئی۔”

نا مورکا لم نگار،دانشور اور صحافی ،ہارون الرشید پاکستان کی کشمیرپالیسی پر بر انگیختہ ہیں۔اپنے کالم بعنوان دشمن سے درخواست میں لکھتے ہیں

“جنرل مشرف ہر روز ایک نیا منصوبہ پیش کرتے ہیں اور ایک ایک زینہ کرکے نیچے اترتے چلے جارہے ہیں۔حتیٰ کہ دفتر خارجہ کی ترجمان نے بھی کہہ دیا کہ پاکستان کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتا۔اگر پاکستان کشمیر پر کوئی دعویٰ نہیں رکھتا تھاتو1948ء1965,ء1971ء کی جنگیں کیوں لڑی گئیں؟۔۔۔۔جنرل پرویز مشرف کے مسلسل اظہار خیال سے پاکستان کی پوزیشن کمزور تر ہوتی جارہی ہے،گستاخی معاف کی جاسکے تو عرض کیا جائے کہ صدر صاحب غیر ضروری اور طویل اظہار خیال کے عادی ہوتے جارہے ہیں”

معروف دانشور ومصنف پروفیسرخورشید احمد ماہنامہ ترجمان القرآن میں مشرف صاحب کی کشمیر کے حوالے سے سوچ اور اپروچ کو ان الفاظ میں بیان کررہے ہیں۔

” ستم یہ ہے کہ آج وہ جرنیل جن کا فرض منصبی ہی یہ ہے کہ ایک انچ زمین کی حفاظت کیلئے جان دیں ،جموں و کشمیر کی جنت نشان زمین ہی نہیں ایک کروڑ انسانوں کی مقبوضہ ریاست کو تحفتاً بھارت کی غاصب قیادت کو پیش کرنے اور امت مسلمہ کے ایک حصے کا سودا کرنے کو تیار ہے ”

syed ali geelani

سید علی گیلانی کی قیادت والی حریت کانفرنس نے جنرل مشرف کے چار نکاتی فارمولے کو مسترد کردیا،لیکن اسی سودے کو میر واعظ حریت نے فوراً قبول کرکے جدوجہد آزادی کی تحریک کو شیخ عبد اﷲ کے راستے پر گامزن کرنے کا باقاعدہ بیڑا اٹھایا۔
کشمیری قیادت تقسیم

mirwaiz-umar-farooq

میر واعظ حریت مشرف کی آنکھ کا تارہ بن گئے ۔انہیں 2005ء میں پاکستان آنے کی دعوت دی گئی۔اگرچہ یہ دعوت گیلانی صاحب کو بھی دی گئی تھی ،لیکن انہوں نے اس دعوت کو مسترد کیا۔میرواعظ حریت کانفرنس کا وفد 2جون 2005 کوبراستہ کنٹرول لائن آزاد کشمیر میں داخل ہوا۔وفد میں اور لوگوں کے علاوہ میر واعظ عمر فاروق،پروفیسر عبد الغنی بٹ،محمد یٰسین ملک اور بلال غنی لون شامل تھے۔اس طرح حریت رہنماؤں کو پاکستان دیکھنے اور ساتھ ساتھ یہاں کی قیادت سے ملنے کا موقع بھی فراہم ہوا۔دورے کے دوران ان کی اس بات کو مان لیا گیا کہ ان کی حریت ہی اصلی اور خالص حریت ہے۔ سرکاری ٹیلی ویژن نے فوراََ اپنے نیوز بلیٹنز میں میر واعظ کو حریت چیئرمین کی حثییت سے متعارف کروایا۔حریت کانفرنس کے زعماء خوشی خوشی جب واپس اپنی سرزمین پر پہنچے تو ان کے پاس قوم کو سنانے کیلئے یہی ایک خوشخبری تھی کہ انکی حریت کانفرنس ہی اصلی اور حقیقی حریت کانفرنس ہے اور میرواعظ صاحب ہی اصل میں چیر مین آل پارٹیز حریت کانفر نس ہیں۔جون 2005 کے بعد اب حریت رہنما جب بھی پاکستان آنا چاہیں آسکتے ہیں اور اب ان کے آنے جانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

میر واعظ گروپ کا حریت آئین سے انحراف ،ان کیلئے مہنگا سودا ثابت ہوا۔کشمیری عوام کی اکثریت نے چار نکاتی فارمولے کو مسترد کرتے ہوئے ،گیلانی صاحب کے موقف کی تائید کی۔پاکستانی فوجی حکمران نے گیلانی کو دیوار سے لگانے کی تمام کوششیں کیں لیکن ،کشمیری عوام نے سید علی گیلانی کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیا۔ان کی اپنی تنظیم تحریک حریت جموں و کشمیر نے عملاََ وہاں تحریک مزاحمت کا محاذسنبھال لیا ہے۔پوری ریاست میں اس کے یونٹس قائم ہوچکے ہیں ۔ تاہم اس صورتحال کو صرف اسی حد تک محدود کرنا ،حقائق سے چشم پوشی کے مترادف ہوگا۔معروف دانشور اور بزرگ کشمیری صحافی زیڈ جی محمد اس خطرناک صورتحال کا ان الفاظ میں احاط کرتے ہیں”یہ بعید از فہم بات ہے کہ موجودہ صوتحال کا 1971ء سے موازنہ کیا جائے جس نے ہمارے رہنماؤں کو حواس باختہ کیا تھا۔ حواس باختگی کے عالم میں اْن کا ایک کے بعد ایک قدم غلط پڑتا گیا۔بالآخر وہ گرپڑے۔ یہ کسی فرد یا گروپ کا گرنانہیں تھا۔ اْن کا موزوں وقت پر ایک صحیح قدم نہ پڑنا بالکل اسی طرح ہے جیسے کسی نیوکلیائی تنصیب کا انچارج غلط بٹن دبائے او رتباہی پھیلائے۔صحیح تناظر میں نظر ڈالتے ہوئے خطے میں 1971ء کی صورتحال کے ردعمل اور ہماری سیاسی قیادت کی بے عملی کی وجہ سے ریاست میں 1973ء کے بعد عوام پر مصائب وآلام کا آسمان ٹوٹ پڑا۔ میں اْس وقت کی قیادت کی بے عملی کو اس کی جماعتی وابستگی سے قطع نظر مجموعی طورپر 1990ء کے مابعد واقعات کے لئے ذمہ دارٹھہراتا ہوں جس کی وجہ سے لاتعداد ہلاکتیں ہوئیں اور ریاستی عوام کو تباہی اور مصائب کے ایک لامتناہی دورسے گزرنا پڑا۔ اگر اْس وقت کی قیادت نے حواس باختگی کے عالم میں اپنے ہی بیانیہ سے دغا نہ کی ہوتی تو شاید نوجوانوں کا پیمانہ صبرلبریز نہ ہوتا او رایک پوری نسل آگ وآہن کا شکار ہونے سے بچ جاتی ؟1973کی صورتحال عصر حاضر کے لیڈروں کے لئے سبق ہے کہ یہی صورتحال ایک بڑی ،اچھی منظم اور مستحکم سیاسی تنظیم کو تواریخ کے صفحات میں دھکیلنے کا باعث بن گئی اور سیاسی ناکامی کی کہانی کے طور پر تاریخ میں درج ہوگئی”بہر صورت کشمیری عوام کی اکثریت نے مشرف فامولے اور میر واعظ گروپ کی طرف سے بھارتی آئین کے اندر مسئلہ کشمیر حل کرانے کی کوششوں کی مزاحمت کی اور اسے مسترد کیا۔جسکا ثبوت 2008,2009، 2010،2015میں بھارت کے خلاف بھر پور عوامی احتجاج ہیں۔جنہوں نے نہ صرف بھارتی پالیسی سازوں بلکہ پاکستانی ارباب اختیار کو بھی حیرت زدہ کردیا۔کیا نواز شریف بھی عالمی استعمار کی ایما پر 2016میں مشرف والا کردار دُہرانا چا ہتے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتا دے گا ۔ تاہم انہیں یہ ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ مشرف نے تحریک آزادی کشمیر کو بے وقعت کرکے کچھ حاصل نہیں کیا بلکہ اپنی آنکھوں سے اپنا زوال دیکھاہے۔یہ شا ید سزائے موت سے بھی خطرناک سزا ہے۔


متعلقہ خبریں


بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری وجود - پیر 18 اپریل 2022

امریکا کے محکمہ خارجہ نے بھارت کو انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کا مرتکب قرار دیتے ہوئے اپنی رپورٹ میں مسلمانوں کے خلاف بدترین انسانی حقوق کی خلاف وزریوں کی نشاندہی بھی کر دی۔ انسانی حقوق سے متعلق امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ میں بھارت اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کا ماورائے عدالت ق...

بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی محکمہ خارجہ کی رپورٹ جاری

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد نماز جمعہ کیلئے کھولنے پر جذباتی مناظر وجود - هفته 05 مارچ 2022

مقبوضہ جموں و کشمیر میں 30ہفتوں بعد تاریخی جامع مسجد سرینگر کونماز جمعہ کے موقع پرنمازیوں کیلئے کھولنے کے موقع پر جذباتی اور روح پرور مناظر دیکھے گئے ۔ جمعہ کو 30ہفتے بعد تاریخی جامع مسجد کے منبر و محراب وعظ و تبلیغ اور خبطہ جمعہ سے گونج اٹھے اور کئی مہینے بعد اس تاریخی عبادت گاہ...

مقبوضہ کشمیر: تاریخی جامع مسجد سرینگر 30ہفتوں بعد  نماز جمعہ کیلئے کھولنے  پر جذباتی مناظر

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی وجود - بدھ 02 مارچ 2022

بھارت میں کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی نے 2019میں دفعہ 370 (جس کے تحت جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت حاصل تھی) کی منسوخی پر مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہاہے کہ یہ ایک ایسا اقدام ہے جواس سے پہلے کبھی نہیں کیا گیا اوراب اتر پردیش اور گجرات جیس...

آزادی کے بعد پہلی بار ریاست جموں وکشمیر کے اختیارات چھین لیے گئے،راہول گاندھی

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ وجود - اتوار 13 فروری 2022

بھارتی ریاست گجرات میں سینکڑوں ہندو انتہا پسند مظاہرین نے سوشل میڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیرسے اظہار یکجہتی کی پاداش میں متعدد ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملکیت والے اسٹورز کو بند کرادیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پانچ فروری (یوم کشمیر) کے موقع پر پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں ہنڈائی موٹرز...

کشمیر سے اظہارِیکجہتی، بھارت میں ملٹی نیشنل کمپنیوں پرہندو انتہا پسندوں کا حملہ

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ وجود - پیر 17 جنوری 2022

جینو سائیڈ واچ کے بانی اور ڈائریکٹر گریگوری اسٹینٹن نے خبردار کیا ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے۔ الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق گریگوری اسٹینٹن نے امریکی کانگریس کی بریفنگ کے دوران کہا کہ بھارت کی ریاست آسام اور مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کے ابتدائی علامات اور عمل موج...

بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی ہونے والی ہے، امریکی کانگریس کو بریفنگ

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ وجود - اتوار 09 جنوری 2022

امریکا میں قائم صحافیوں کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹ (سی پی جے) نے بھارت سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکومت کے خلاف مظاہرے کی ویڈیو بنانے والے زیر حراست صحافی کو رہا کرنے کا مطالبہ کردیا۔غیر ملکی میڈیا کے مطابق سی پی جے نے کہا کہ ایک آزاد صحافی اور میڈیا کا طالب عل...

صحافیوں کی عالمی تنظیم کا بھارت سے کشمیری صحافی کی رہائی کا مطالبہ

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان وجود - هفته 08 جنوری 2022

بھارت نہایت پُرکاری سے مقبوضہ کشمیر کی تحریک آزادی کو مسلم ممالک کی اخلاقی حمایت سے محروم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ اس ضمن میں بھارت نے عرب ممالک کو خاص ہدف بنا رکھا ہے۔ پاکستان کے ابتر سیاسی نظام اور خارجہ محاذ پر مسلسل ناکامیوں نے اب مقبوضہ کشمیر کے حوالے سے عالم اسللام کے متفقہ م...

مقبوضہ کشمیر کی تحریکِ آزادی نظر انداز، دبئی حکومت کی زیر ملکیت کمپنی کا مقبوضہ کشمیر میں ڈرائی پورٹ تعمیر کرنے کا اعلان

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ وجود - جمعرات 06 جنوری 2022

مقبوضہ کشمیر میں 6جنوری 1993ء کو بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں سوپور میں نہتے کشمیریوں کے قتل عام کے سانحہ کو29برس کا عرصہ گزرنے کے باوجود اس کی تلخ یادیں لوگوں کے ذہنوں میں آج بھی تازہ ہیں۔کشمیر میڈیا سروس کے مطابق 1993میں اس دن سوپور میں اندھا دھند گولیاں برسا کر 60 سے زائد بے گناہ ک...

مقبوضہ کشمیر'29برس گزرنے کے باوجود لوگوں کے ذہنوں میں سوپور قتل عام کی یادیں آج بھی تازہ

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف وجود - جمعرات 25 نومبر 2021

بھارت نے اسرائیل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے جدوجہد کے دوران شہید ہونے والے کشمیریوں کے جسد خاکی لواحقین کے حوالے کرنے کے بجائے خود دور دراز مقامات پر دفنانا شروع کر دیے ہیں،ایک میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی جریدے ہاریٹز کی ایک رپورٹ کے مطابق ا...

بھارت مقبوضہ کشمیر میں اسرائیل کے نقش قدم پر، اسرائیلی اخبار کا انکشاف

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا وجود - جمعرات 21 اکتوبر 2021

بھارتی فوجی کی بیوہ حق خود ارادیت کی جدوجہد کرنے والے کشمیریوں کی حمایت میں میدان میں آگئیں اور کہا کہ وزیروں کی اولادوں کو ایک مرتبہ ضرور سرحد پربھیجیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر' پر ایک ویڈیو وائرل ہوئی ہے جس میں پونچھ سیکٹر میں ہلاک ہونے والے بھارتی ...

علیحدہ کشمیر مانگ رہے ہیں تو دے دو، فوجی کی بیوہ مودی کے خلاف صف آرا

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں تیزی لانے کا منصوبہ وجود - هفته 09 اکتوبر 2021

بھارت نے اپنے نام نہاد انسداد دہشت گردی کے سرکردہ ماہرین کو مقبوضہ جموں و کشمیر بھیج دیا ہے تاکہ جاری مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کو ختم کرنے کیلئے مقامی پولیس کی مدد کی جا سکے۔ کشمیر میڈیا سروس کے مطابق ''ہندوستان ٹائمز'' کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ پیش رفت بھارتی وزی...

مزاحمتی تحریک سے وابستہ کشمیریوں کے خلاف بھارتی کارروائیوں میں  تیزی لانے کا منصوبہ

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری وجود - جمعه 27 ستمبر 2019

یورپی پارلیمنٹ کی ریسرچ سروس نے مقبوضہ کشمیرکی تازہ ترین صورتحال پر ایک تحقیقی دستاویز جاری کی ہے ،اس دستاویز میں مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور وہاں کرفیوکے نفاذ سے ابتک کے تمام واقعات کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے ، چیئرمین کشمیرکونسل ای یو نے کہا ہے کہ یورپی پارلیمنٹ کی یہ ...

یورپی پارلیمنٹ ریسرچ سروس کی مقبوضہ کشمیر پر تحقیقی دستاویز جاری

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر