وجود

... loading ...

وجود
وجود

ڈاکٹر عبدالمالک کے پولیٹیکل سیکریٹری کے بھائی کا قتل

منگل 22 دسمبر 2015 ڈاکٹر عبدالمالک کے پولیٹیکل سیکریٹری کے بھائی کا قتل

abdul malik

بلوچستان کے بلو چ شدت پسندوں نے قومی اور اجتماعی مفادات کا تعین کرنے کی بجائے کئی محاذ کھول رکھے ہیں ،جو انہیں مقاصد کے قریب تو نہ لے جا سکے البتہ انہیں کوسوں دور ضرور کر دیا ہے ۔شدت پسند اپنی تحریک کو مرحلہ وار بنانے میں اول روز سے ناکام اورمنتشر الفکر دکھائی دئیے ہیں ۔اپنوں سے جنگ کی ابتدا ان کی جانب سے ہوئی ہے ۔ بلوچ قبائلی و سیاسی معتبرین ،سرکاری ملازمین و اعلیٰ حکام، عالی دماغ اساتذہ،ڈاکٹروں اور ججوں کو موت کے گھاٹ اُتارا۔کئیوں پر جان لیوا حملے کئے۔سیاسی حق اور اظہار رائے پر قدغن کا ہر ممکن حربہ استعمال کیا۔گویا یہ جارحانہ اور بے رحم رویہ خود ان کی راہ میں دیوار بن کر حائل ہوا،مقصد کے حصول میں ان کی پیشرفت کمزور پڑ گئی۔معروف سیاسی و سماجی تنظیمیں،سول سوسائٹی،تاجراور بلوچ مشاہیر متنفر و بد ظن ہو گئے۔اس اندازِ مزاحمت نے انہیں ایک خاص حد و خول میں مقید کر دیا۔

افغانستان کے اندر امریکا دنیا جہان کی افواج اور وسائل کے ساتھ موجود رہا۔سالوں سیاہ و سفید کا مالک تھا جو کہ اب بھی افغانستان کے ذرے ذرے پر اپنا حق جتاتا ہے۔اپنے تئیں ترقیاتی کام کروائے اور افغانستان کو ترقی یافتہ ممالک سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش اور اعلانات کا دعویٰ کیا۔مگر اس سب کے باوجود افغان عوام کا اعتماد ،تعاون اور حمایت میں کلی طور پر ناکام و نا مراد رہا۔اس کی سب سے بڑی وجہ افغان طالبان اور حزبِ اسلامی کا سیاسی اور عسکری طرز سیاست ہے ۔وہ افغان عوام میں اپنا اعتماد اور اہمیت برقرار رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔نہ تعلیم پر قدغن ،نہ علاج معالجے کی سہولیات میں رکاوٹ بنے اور نہ ہی شاہراہوں کی تعمیر پر پابندی لگانے کی کوشش کی۔حتیٰ کہ پولیو قطرے پلانے والی ٹیموں تک کو کبھی ہراساں نہ کیا۔طالبان کی قیادت نے باضابطہ طور پر اعلامیہ جاری کیا کہ جس میں افغان والدین سے اپنے بچوں کو قطرے پلانے کی تاکید کی گئی ۔نام نہاد افغان حکومت شاید ملکی ادارے فعال کر چکی ہو ،پر سچی بات یہ ہے کہ افغان عوام اپنے معاملات کے فیصلے اب بھی طالبان سے کرواتے ہیں۔

ڈاکٹر شفیع کے قتل کو ’’نیشنل پارٹی‘‘کا روگ سمجھنے کے بجائے سبھی سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلاف کی اس مردم کش صورت پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے ۔

وہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اُن سے نا انصافی کی توقع نہیں۔طالبان اپنا وسیع اور مربوط نظامِ جاسوسی رکھتے ہیں ۔لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ افغان عوام بھی انہیں خارجیوں کی نقل و حرکت سے آگاہ رکھتی ہے ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ طالبان کا ہدف معلوم ہے ۔بلوچستان کے اندر شدت پسندوں نے سیاسی جماعتوں کے خلاف جنگ میں پہل کی، میں بات نیشنل پارٹی کی کروں گا، جو ان کی جارحیت کی وجہ سے اب دفاع پر مجبور ہے ۔نیشنل پارٹی خود تو کوئی مسلح جتھہ نہیں۔ چنانچہ سرکار کا تعاون ان کا انسانی اور قانونی حق ہے ۔نیشنل پارٹی ایک عوامی جمہوری جماعت ہے، ان سے سیاسی اختلاف کی بہت گنجائش موجود ہے پر انہیں مارنا ہرگز ’’روا‘‘ نہیں۔لغزشوں ،کوتاہیوں ،تضادات اور ناکامیوں پر گرفت درست پر سیاسی اور قومی مسائل پر ان کی تگ و دو سے انکار بھی نہیں اور وہ ایک بڑی بلوچ جماعت ہے ۔ان کے رہنماؤں کا بلا شبہ بلوچ قبائل سے تعلق ہے اور ہر ایک اپنے اپنے قبیلوں میں معزز ہے۔تو کیا اس (ہدفی قتل)طرزِ عمل سے بلوچ معاشرے کے اندر نفرتوں اور انتقام کے جذبات سرا یت نہیں کریں گے؟

ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے پولیٹیکل سیکرٹری خیر جان بلوچ کے بھائی ڈاکٹر شفیع بلوچ کا قتل 15(دسمبر2015ء )کسی سانحے سے کم نہیں،در اصل یہ حملہ ایک صوبے کے وزیر اعلیٰ اور ایک بڑی سیاسی جماعت کے قائد پر تصور کیا جاتا ہے ۔آواران جیسے شوریدہ علاقوں میں کوئی سرکاری ملازم اول تو جانے کا رسک نہیں لیتا اورجو وہاں موجود ہیں اُن کی زندگیوں کا خاتمہ کیا جاتا ہے ۔ڈاکٹر شفیع بلوچ ایک معا لج اور میڈیکل آفیسر تھے۔ اسی روز ایک اہم فریضہ نبھانے کے بعد یعنی پولیو مہم سے واپسی پر نشانہ بن گئے۔افغان طالبا ن کا متفقہ فیصلہ ہے کہ افغان بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے جائیں حالانکہ وہاں بھی اس مہم پرمامور عملہ سرکار سے تعلق رکھتا ہے جو افغان حکومت یا عالمی اداروں سے تنخواہیں لیتے ہیں اور طالبان کیلئے ان کو ہدف بنانا مشکل بھی نہیں۔مگر وہ ایسا نہیں کرتے کیونکہ ان کی ترجیحات معین ہیں۔ یقیناقاتلوں نے یہ وار نیشنل پارٹی سے بغض کی بنا پرکیا۔اس بنیاد پر ان کے کئی رہنما ،ہمدرد اور رفقا ء نشانہ بن چکے ہیں ۔ ڈاکٹر شفیع کے قتل کو ’’نیشنل پارٹی‘‘کا روگ سمجھنے کے بجائے سبھی سیاسی جماعتوں کو سیاسی اختلاف کی اس مردم کش صورت پر سوچ بچار کرنے کی ضرورت ہے ۔شفیع بلوچ کے قتل کا ارتکاب خواہ کسی نے بھی کیا ہو ، لیکن یہ عمل قومی ، معاشرتی اور سیاسی مفاد کی ضد اور صریح خلاف ہے ۔بندوق کی نوک ،زور اور جبر بالآ خر انتشار اور افتراق پر ہی منتج ہو گا۔چنانچہ واپسی کا راستہ مسدود کرنے کے بجائے کھلا چھوڑنا دراصل حکمت اور دانائی ہے ۔


متعلقہ خبریں


سیکریٹری خزانہ کی بدعنوانی: سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے خود کو احتساب کے لیے پیش کردیا! وجود - اتوار 08 مئی 2016

سیکریٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کے گھر پر نیب چھاپے کے بعد 75 کروڑ روپے کی نقد برآمدگی نے جہاں قومی حلقوں کو ہکا بکا کردیا ہے ، وہیں خودبلوچستان کی منتخب اسمبلی میں بھی عجیب وغریب فضا پیدا کردی ہے۔ بلوچستان میں سیاسی حکومتوں کی بدعنوانیوں کے قصے زباں زد عام وخاص رہے ہیں۔ اور بلوچست...

سیکریٹری خزانہ کی بدعنوانی: سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے خود کو احتساب کے لیے پیش کردیا!

دادا کی برسی پر پوتے کی طرف سے بات چیت کی دعوت جلال نورزئی - اتوار 06 ستمبر 2015

کوئٹہ اور بلوچستان کے بلوچ اضلاع میں 26 ؍اگست2015ء کو نواب محمد اکبر خان بگٹی کی نوویں برسی منائی گئی۔ شہر کوئٹہ میں کہیں کہیں دُکانیں بند نظر آئیں۔ البتہ بعض بلوچ اضلاع میں کاروبار احتجاجاً بند رکھے گئے تھے۔ یہ دن تعزیتی ریفرنسوں میں گزرا۔ احتجاج کی شدت گزشتہ سالوں کی نسبت کم ر...

دادا کی برسی پر پوتے کی طرف سے بات چیت کی دعوت

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر