وجود

... loading ...

وجود
وجود

کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

اتوار 22 نومبر 2015 کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے

PAEC

پاکستان کی سول اور عسکری قیادت کے واشنگٹن کے پے درپے دورے بے سبب نہیں۔گزشتہ کچھ عرصہ سے صدر بارک اوباما نے پاکستان کے حوالے سے لچک دار پالیسی اختیار کی۔افغانستان میں اس کے نقطہ نظر کو ایک حد تک قبول کیا۔اس کے خلاف عالمی بیان بازی جو معمول بن چکی تھی کو روکا گیا۔پاکستان کا جوہری پروگرام جو عالمی رائے عامہ کو خوف زدہ کرنے اور اسے پاکستان کے خلاف اکسانے کا ایک بہترین ہتھیارہے ‘پر بھی امریکی اور مغربی دنیا نے نہ صرف نرم رویہ اختیار کیا بلکہ دبے لفظوں پاکستان کے جوہری پروگرام کو ایک حقیقت تسلیم کرنے اور اس کے تحفظ کے حوالے سے غیر ضروری خدشات کے اظہار کے بجائے اطمینان کا اظہارکیاجانے لگا۔

واشنگٹن میں قائم تحقیقی مراکز بالخصوص ا سٹمسن سنٹر اور کارنیگی انسٹی ٹیوٹ کے سینئر تجزیہ کاروں نے پاکستان کے جوہری پروگرام کو کامیابی کی ایک داستان قراردیا جو دنیا کی مخالفت کے علی الرغم مکمل کیاگیا۔ان ماہرین نے تسلیم کیا کہ پاکستان کا جوہری پروگرام بھارت کے مقابلے میں زیادہ معیاری اور اگلے لیول پر ہے۔ان اداروں نے تجویز پیش کی کہ اگرپاکستان عدم پھیلاؤ کے عالمی معاہدے پر دستخط کردے تو اسے عالمی سپلائرگروپ کا حصہ بنادیا جائے۔یاد رہے کہ اس رپورٹ کے شریک مصنف مائیکل کریپون پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور دفاعی حکمت عملی کے سخت ترین نقاد رہے ہیں۔واشنگٹن کے پالیسی ساز حلقوں میں مائیکل نے ہمیشہ پاکستان کے نقطہ نظر کو آڑے ہاتھوں لیا لیکن اب وہ نہ صرف ایک مختلف موقف کا اظہار کررہے ہیں بلکہ گزشتہ دنوں اسلام آباد بھی تشریف لائے جہاں انہوں نے وزارت خارجہ کے زیر اہتمام چلنے والے ایک تھنک ٹینک میں ایسے ہی دوستانہ خیالات کا اظہارکرکے سب کو حیران کردیا۔

گزشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بڑی شدت سے یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کو قائل کیا جائے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کردے۔ مزید ہتھیاروں کی پیداواراور تجربات روک دے اور ایٹمی پروگرام کو سویلین کنٹرول میں دے دیں

واشنگٹن میں بتدریج یہ نقطہ نظر غالب آرہاہے کہ پاکستان کو مذاکرات اور مفاہمت کے ذریعے عالمی نظام کا حصہ بنایاجائے تاکہ وہ دنیا کے لیے خطرہ بننے کے بجائے عالمی امن میں شراکت دار بن جائے۔خاص طور پر جنرل راحیل شریف نے امریکی اداروں کو کافی متاثر کیاہے کیونکہ وہ لگی لپٹی رکھے بغیر دہشت گردوں کے خلاف بروئے کار آئے۔پاکستان سے دہشت گردوں کے ٹھکانے اور محفوظ پناہ گائیں اکھاڑ پھینکیں ۔چنانچہ دنیا کو ا ب یقین ہوتاجارہاہے کہ پاکستان کی موجودہ سیاسی اور عسکری قیادت میں یہ استعداد ہے کہ وہ ماضی کی غلط پالیسیوں کو دفن کرتے ہوئے مستقبل کی پیش بینی کریں۔

کچھ عالمی حالات نے بھی پاکستان کے لیے نسبتاً فضا سازگار بنائی ۔خاص طور پر جس غیر معمولی تیزی سے مشرق وسطیٰ کا خطہ غیر مستحکم ہوا اور داعش کا سنگین خطرہ اُبھرا ،اُس نے واشنگٹن کے ہاتھ روکے اور پاکستان کو سانس لینے کا موقع فراہم کیا۔ امریکی گزشتہ چند برسوں سے پاکستان کے جوہری پروگرام میں آنے والے مسلسل پھیلاؤ اور چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں پیش رفت سے پریشان ہیں کیونکہ پاکستان کا جوہری اسلحہ خانے کا حجم بھارت کے مقابلے میں بڑھ گیا ہے۔عالمی اداروں کے مطابق پاکستان کے پاس سو کے لگ بھگ ایٹم بم موجود ہیں اور وہ طویل فاصلہ تک مار کرنے والے میزائلوں کی تیاری میں بھی مصروف ہے۔چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کی مسلسل پیداوار سے بھی امریکاسخت اضطراب کا شکا رہے۔

پاکستان کے عسکری ماہرین کا نقطہ نظر ہے کہ چونکہ بھارت اور پاکستان کے درمیان فوجی طاقت کا توازن برقرار نہیں رکھاجاسکا لہٰذا ان کے پاس چھوٹے ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔آخر انہیں بھارت کو پاکستان کے خلاف جارحیت سے روکنا ہے اور اسے موثر جواب بھی دینا ہے لہٰذا چھوٹے جوہری ہتھیاروں کا حصول ناگزیر ہوچکاہے۔امریکیوں کو پاکستان کی اس ضرورت اور مجبوری کی سمجھ ہے کہ اسے ایک طاقت ور ہمسائے کا سامنا ہے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسا راستہ نکالاجائے کہ پاکستان کا دفاعی ڈیٹرینس بھی برقرار رہ سکے اور وہ مزید جوہری ہتھیاروں کے تجربات پر پابندی قبول کرلے۔ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کے بعد اوباما انتظامیہ کافی پرامید ہے کہ مذاکرات کے ذریعے پیچیدہ مسائل کا حل نکالاجاسکتاہے۔چنانچہ گزشتہ چند ماہ سے واشنگٹن میں بڑی شدت سے یہ بحث جاری ہے کہ پاکستان کو قائل کیا جائے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کردے ۔مزید ہتھیاروں کی پیداواراور تجربات روک دے ۔ ایٹمی پروگرام کو سویلین کنٹرول میں دے،بآلفاظ دیگر ایک سویلین ادارے کے انتظام میں دے دے۔

ظاہر ہے کہ پاکستان محض امریکی خوشنودی کے لیے اس معاہدے پر دستخط کرنے سے رہا۔چنانچہ اسے ترغیب دی جارہی ہے کہ جوابی طور پر اسے عالمی نیوکلیئر سپلائی گروپ کا رکن بنایاجاسکتاہے ۔یوں بھارت کی طرح وہ بھی سویلین مقاصد کے لیے جوہری توانائی کا استعمال کرنے کا مجاز بن جائے گا۔ پاکستان کا تشخص یا امیج عالمی سطح پر ایک ذمہ دار ملک کے طور پر ابھرے گا۔پاکستان کے پاس اپنی ضرورت کے مطابق ایٹمی ہتھیاروں کا پہلے ہی کافی ذخیرہ موجود ہے جو برقرار رہے گا۔پاکستان معاہدے کی توثیق اس وقت تک موخر کرسکتاہے جب تک بھارت ایسا نہیں کرتا۔

پاکستان میں اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں ان امور پر کافی بحث ومباحثہ جاری ہے۔یہ بھی سوچا جارہاہے کہ کس طرح امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کو قائل کیا جائے کہ وہ پاکستان کو جوہری معاملات میں بھارت کے مساوی مرتبہ اور مقام دیں۔ علاوہ ازیں کشمیر کے مسئلہ کے حل میں پاکستان کی مدد کریں تاکہ پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کم ہوسکیں۔

بعض دفاعی مبصرین لیفٹیننٹ جنرل (ر)ناصر خان جنجوعہ کی بطور مشیربرائے قومی سلامتی کے تقرر ی کو بھی اسی پس منظر میں دیکھتے ہیں۔انہوں نے بلوچستان میں سویلین حکومت کے ساتھ زبردست شراکت داری قائم کی۔ وزیراعلیٰ اورصوبائی حکومت کے تعاون سے جنگجوؤں کے خلاف کامیاب آپریشن کیے اور انہیں قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے کامیاب کوششیں بھی کیں۔ان کے تقرر کا ایک مطلب یہ ہے کہ وہ حکومت اور عسکری قیادت کے مابین رابطہ کا کردار اداکریں۔اہم قومی امور بالخصوص دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ اور دفاعی امور پر اداروں کے مابین ہم آہنگی پیداکریں ۔ناصر خا ں جنجوعہ کی شہرت ایک صلح جو اور علم دوست شخصیت کی ہے۔انہوں نے بلوچستان میں بھی بندوق کے بجائے حکمت اور سیاست سے کام لینے کو ترجیح دی۔اسی لیے کہتے ہیں کہ محبت ہے فاتح عالم۔

یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ پاکستان امریکا کی طرف سے پیش کی جانے والی تجاویز کے جواب میں کیا حکمت عملی اختیار کرتاہے لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے لیے نئے افق وا ہورہے ہیں جن سے فائدہ اٹھایا جانا چاہیے۔


متعلقہ خبریں


پاکستان کا امریکا میں جمہوریت سے متعلق کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ وجود - جمعرات 09 دسمبر 2021

پاکستان نے امریکا میں جمہوریت سے متعلق سمٹ میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے،ڈیموکریسی ورچوئل سمٹ 9 اور 10 دسمبر کو ہوگا۔ امریکا کی جانب سے سمٹ میں شرکت کے لئے چین اور روس کو دعوت نہیں دی گئی۔ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم سمٹ برائے جمہوریت میں شرکت کے لیے پاکستان کو مدعو کرنے پر ...

پاکستان کا امریکا میں جمہوریت سے متعلق کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ

پاکستان کے تحفظات اور تشویش کو سمجھتے ہیں،امریکی نائب وزیر خارجہ وجود - هفته 09 اکتوبر 2021

امریکا کی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن نے کہا ہے کہ افغان عوام کی انسانی بنیادوں پر مدد کے لیے پاکستان اور امریکا کا موقف یکساں ہے ، پاکستان کے سرکاری ٹی وی(پی ٹی وی ) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ پاکستان اورامریکا کے گزشتہ کئی دہائیوں سے مضبوط اور بہترین تعلقات ہیں۔ ...

پاکستان کے تحفظات اور تشویش کو سمجھتے ہیں،امریکی نائب وزیر خارجہ

امریکا نے پاکستان کی دفاعی امداد روک دی! وجود - جمعرات 04 اگست 2016

امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو کولیشن فنڈ سپورٹ کے تحت ملنے والی 30 کروڑ ڈالر کی دفاعی امداد روک لی ہے۔ پینٹاگون کے ترجمان کے مطابق پاکستان کو دی جانے والی دفاعی امداد امریکی کانگریس کو وزیردفاع کی سفارش نہ ملنے کی وجہ سے روکی گئی۔امریکی وزیردفاع کی جانب سے کانگری...

امریکا نے پاکستان کی دفاعی امداد روک دی!

پاکستان کی امداد بند کرنے کا نیا امریکی مطالبہ باسط علی - جمعرات 14 جولائی 2016

یوں لگتا ہے کہ امریکا کے اندر پاکستان کے خلاف ایک منظم ماحول جنم دیا جارہا ہے۔ اور مختلف طریقوں سے پاکستان پر دباؤ پیداکیا جارہا ہے۔ رواں ہفتے امریکی ایوان نمائندگان کی دہشت گردی ، جوہری عدم پھیلاؤ، ، تجارت اور ایشیا پیسفک سے متعلق ذیلی کمیٹیوں نے ایک مشترکہ مباحثے کا عنوان ہی یہ...

پاکستان کی امداد بند کرنے کا نیا امریکی مطالبہ

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش محمد انیس الرحمٰن - بدھ 13 جولائی 2016

امریکی سینیٹر جان مکین کی اسلام آباد آمد سے ایک روز قبل وزیراعظم کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا بھارتی جوہری اور روایتی ہتھیاروں کی تیاری کے حوالے سے بیان خاصا معنی خیز ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ سب کچھ اس وقت ہوا ہے جب امریکی سینیٹر جان مکین ’’ڈو مور‘‘ کی لمبی لسٹ ساتھ لائے جو یقینی بات...

افغانستان میں ہاری جنگ اسلام آباد میں جیتنے کی کوشش

پاکستان کو دوسرا شمالی کوریا بنانے پر زور وجود - پیر 11 جولائی 2016

پاکستان کے خلاف مختلف سرگرمیوں میں معروف سمجھے جانے والے امریکی قانون ساز ایک مرتبہ پھر پاکستان کے خلاف محاذ بنانے میں مصروف ہو گئے ہیں۔ اور یہ سب کچھ بلاوجہ نہیں ہو رہا۔ امریکا کے پاکستان مخالف قانون سازوں نے کیپٹل ہِل میں ایک مرتبہ پھر جمع ہو کر اپنا پسندیدہ سوال دُہرایا ہے کہ ...

پاکستان کو دوسرا شمالی کوریا بنانے پر زور

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟ محمد انیس الرحمٰن - اتوار 26 جون 2016

گزشتہ دنوں جب امریکہ کی جانب سے ایک تیسرے درجے کا پانچ رکنی وفد اسلام آباد آیا تھا تو ہم یہ سمجھے کہ شاید امریکہ کو نوشکی میں کی جانے والی واردات پر اظہار افسوس کا خیال آگیا ہے لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ وفد جن افراد پر مشتمل تھا ان کی حیثیت بااختیار وفد سے زیادہ ایک ’’ڈاکیے‘‘ کی...

کیا جنوبی ایشیا بڑی تبدیلی کی زد میں آنے والا ہے؟

امریکی پالیسیوں سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا، سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ وجود - منگل 14 جون 2016

پاکستان نے امریکا پر واضح کر دیا ہے کہ اس کی پالیسیوں سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا۔ جب کہ عالمی برادری کو بتا دیا ہے کہ پاکستان اپنا میزائل پروگرام کسی صورت بند نہیں کرے گا۔ ان خیالات کا اظہار سیکریٹر ی خارجہ اعزاز چودھری نےپارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں سینیٹ کی خارجہ اور...

امریکی پالیسیوں سے خطے میں عدم استحکام پیدا ہوگا، سیکریٹری خارجہ کی بریفنگ

جزیہ محمد انیس الرحمٰن - پیر 30 مئی 2016

میڈیا ذرائع کے مطابق امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون کا کہنا ہے کہ امریکی فوج نے افغان طالبان کے سربراہ ملا اختر منصور پر فضائی حملہ کیا اورممکنہ طور پر وہ اس حملے میں مارے گئے ہیں، تاہم حکام اس حملے کے نتائج کاجائزہ لے رہے ہیں۔ امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ حملہ صدر باراک اوباما کی م...

جزیہ

امریکا نے حملے سے پہلے اطلاع نہیں دی،ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کر سکتے: چودھری نثار وجود - بدھ 25 مئی 2016

طالبان کے امیر ملا اختر منصور کی مبینہ ہلاکت پر دو روز بعد پاکستان کی طرف سے پہلا ردِ عمل وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار کی پریس کانفرنس کی صورت میں آیا ہے۔ جسے تجزیہ کاروں نے پاکستان کے سرکاری ردِ عمل سے زیادہ پاکستانی رائے عامہ کی تسلی کی نیم دلانہ کاوش قرار دیا ہے۔ وفاقی وزیر ...

امریکا نے حملے سے پہلے اطلاع نہیں دی،ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں کر سکتے: چودھری نثار

پاکستان کی خود مختاری پر حملہ: مشرف سے زرداری کے ادوارِ حکومت تک شور مچانے والے کہاں ہیں؟ وجود - پیر 23 مئی 2016

امریکا نے بلوچستان میں پہلا ڈرون حملہ کر کے "ریڈ لائنز" کو پار کیا ہے۔ مگر حیرت انگیز طور پر مشرف سے لے کر زرداری کے ادوارِ حکومت تک پاکستان کی خود مختاری اور اقتدار اعلیٰ کا شور مچانے والے دانشور، کالم نگار ، اینکر پرسنز اور تجزیہ کار چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ امریکا نے واضح کردیا ہے...

پاکستان کی خود مختاری پر حملہ: مشرف سے زرداری کے ادوارِ حکومت تک شور مچانے والے کہاں ہیں؟

امریکا کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد مخصوص شرائط کے ساتھ منسلک کرنے کا بل منظور وجود - جمعه 20 مئی 2016

امریکی ایوان نمائندگان نے پاکستان کی فوجی امداد پر پابندیوں میں اضافے کے ایک بل کو منظور کر لیا ہے۔ ایوان کے277 میں سے 147 ارکان نے مخصوص شرائط کے پورا نہ ہونے تک پاکستان کی فوجی امداد پر پابندیوں میں اضافے کے ایک بل کو امریکا کی طرف سے عائد مخصوص شرائط کے پورا نہ ہونے تک منظور ک...

امریکا کی طرف سے پاکستان کی فوجی امداد مخصوص شرائط کے ساتھ منسلک کرنے کا بل منظور

مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر