وجود

... loading ...

وجود
وجود

مشرف کا مشورہ

منگل 29 ستمبر 2015 مشرف کا مشورہ

Raheel-Sharif

پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کو توسیع کب ملنی ہے؟ کون دے گا؟ کیوں دے گا؟ اس کی دلیل کیاہے، نظیر کیاہے؟ اس کے پاک فوج کے مورال پر کیا اثرات ہوں گے؟ قوم اس پر کیا سوچے گی؟ ان سوالوں کے علاوہ بھی بہت سےسوال ہیں جو اپنی جگہ موجود رہیں گے۔ ان پر بات ہونی بھی چاہیے۔ہو نٹوں نکلی بات کو ٹھوں جاچڑھتی ہے،سوجو بات ملکی میڈیا نے شروع کی اب عالمی ذرائع ابلاغ میں بھی اس پر بات ہورہی ہے۔

برطانوی جریدے اکانومسٹ نے اپنی رپورٹ میں پہلا موازنہ جنرل راحیل شریف اور نوازشریف کاکیاہے کہ سپہ سالار اس قدر مقبول ہیں کہ اب منتخب وزیراعظم نوازشریف کےلیےانہیں نظرانداز کرنا ممکن نہیں رہے گا اور دوسرا موازنہ یہ کیاہے کہ جنرل راحیل اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں فرق یہ ہے کہ فوج کا مورال اس وقت بہت ڈاؤن تھا، جوانوں کو عوامی مقامات پروردی میں نکلنے سے روک دیا گیاتھا اور اب ان کے سرفخر سے بلند ہیں۔

برطانوی جریدے کا تجزیہ یک رخا اور اس کے موازنے بھی بے جوڑ اورزمینی حقائق سے بہت دور ہیں جنرل راحیل شریف کا وزیراعظم نوازشریف سے موازنہ نہیں ہوسکتا۔ مختصر بات یہ کہ دونوں کی الگ الگ خصوصیات اورمختلف ترجیحات ہیں۔ ان کے اختیارات کہیں لامحدود بھی ہیں تو کہیں وہ مجبور بھی ہیں، رہی بات مشرف سے موازنے کی تو جنرل راحیل شریف اردو محاورے کے راجہ بھوج ہیں محاورہ کچھ یوں ہے کہ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی۔۔۔

جنرل پرویز مشرف کے دور میں نہ تو کوئی پروفیشنل فوجی فل ٹائم پاک فوج کا سربراہ تھانہ ہی کو ئی سویلین فل ٹائم صدراور نہ ہی کوئی با اختیار وزیراعظم۔ ایسی اندھیرنگری میں را ج چوپٹ ہی ہوجاتاہے۔ مقبولیت اور توسیع کو علیحدہ علیحدہ ہی دیکھا جانا چاہیے کیونکہ جو مقبول ہوئے انہوں نےمدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کی، جنہوں نے توسیع لی وہ مقبولیت کھو بیٹھے۔

پاک فوج میں ترقیاں، تقرراور تبادلے معمول کی بات ہیں۔ یہ امر خوش آئندہےکہ پاک فوج میں یہ عمل اپنے طے شدہ داخلی نظام الاوقات کے مطابق باقاعدگی سے ہوتاہے۔ سول بیوروکریسی میں بھی یہ معمول ہے مگر پاک فوج کو اس پر کئی درجےفضیلت حاصل ہے۔ پاک فوج میں ترقیاں، تقرراور تبادلے سیاستدانوں کا میدان ہے نہ انہیں اس کے بیچ کودنا چاہیےلیکن سیاست اورصحافت کے لبادے میں بعض سیاست کاروں کے وفاداروں نے پاک فوج میں اعلی سطح کے حالیہ تقرر وتبادلوں کے موسم سے ذرا پہلےایسا طوفان اٹھانے کی کوشش کی ہی اوراتنی گرد اڑائی ہے کہ منظر دھندلانے لگے ہیں۔

جو مقبول ہوئے انہوں نے مدت ملازمت میں توسیع قبول نہیں کی، جنہوں نے توسیع لی وہ مقبولیت کھو بیٹھے

خیر، اب تو پاک فوج کے مضبوط نظام نے سارامعاملہ ہی صاف کردیا۔ جو لوگ افواہوں کا بازار گرم کیے ہوئے تھےان کے ارمان بھی ٹھنڈے ہوگئے۔ان عناصرنے تبادلے اور تقرر کے موسم کا فائدہ اٹھاکر پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بارے میں خوب خبریں پھیلائیں، وہ اب بھی یہی کررہے ہیں۔ ان کا نہ اُس وقت کوئی محل تھا، نہ اب ہے۔ کیونکہ جنرل صاحب 30 نومبر 2016ء کو ریٹائر ہوں گے۔ ان کے مطابق اگر توسیع ہونی ہے اس پر کم ازکم اس سال تو غور نہیں ہونا پھر خود جنرل راحیل شریف توسیع لینے کے حق میں نہیں۔ وہ ایک خالص پیشہ ور سپاہی ہیں اور جانتے ہیں کہ پاک فوج میں بہرحال کسی اعلیٰ عہدے پر تو سیع کو مثبت نہیں لیاجاتا کیونکہ بعض اوقات اس کے نتیجے میں اس عہدے اور اس سے نچلےعہدوں پراس توسیع کے باعث ترقی کا عمل متاثر ہوجاتاہے تو کوشش کے باوجود کچھ افسران دل سے یہ بات نہیں نکال پاتے کہ فلاں اپنے عہدے سے پر اتنے سال نہ رہتے تو شاید وہ اس سے اعلی عہدے پر سے ریٹائر ہوتے۔

جنرل ضیاالحق اور جنرل پرویز مشرف کے دور میں بہت سی مثالیں موجود ہیں۔جنرل شاہد عزیز کی کتاب “یہ خاموشی کہاں تک” میں اس کا احساس ملتاہے۔ اور جنرل ضیا الحق کے قریبی ساتھی جنرل خالد محمود عارف نے بھی سب کچھ کھل کے ہی لکھ دیاہے۔

پاک فوج کے افسران کی داخلی تبدیلیوں پر بات کرنا نہ تو موضوع ہے نہ ہی موزوں۔ اس لیے اپنے سوال کی طرف آتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کی مدت ملازمت میں توسیع اور مقبولیت،جنرل راحیل کے مقبول ہونے کی بھی ایک سے زائد وجوہات ہیں اور توسیع قبول نہ کرنے کی بھی۔

جنرل راحیل شریف کے خاندان میں دو نشان حید ر ہیں پاکستان میں کسی جرنیل کاایسا خاندان نہیں۔ پاکستان کی دو بڑی جنگوں میں ان کے گھر انے نے ملک کا سب سے بڑا فوجی اعزاز حاصل کیا۔خود انہوں نے دہشت گردی کے خلاف سرحدوں کے اندر جنگ میں اوربیرونی دشمن بھارت کےرویئےکے خلاف ایک شیردل جرنیل کا رویہ اختیارکیا۔توسیع لینے والوں کی مثالیں جنرل راحیل شریف کے سامنے موجود ہیں اس کی زندہ مثال تو جنرل مشرف ہیں، جنہیں آصف زرداری بزدلی کاطعنہ دیتے ہیں کہ جیل جانے سے کیوں ڈرتے ہو؟ اس پر خود کو کمانڈو کہنے والے پرویز مشرف کی زبان گنگ ہوجاتی ہے۔

جنرل مشرف خود اپنے دور میں دلیرانہ فیصلے نہیں کر سکے وہ کیسے کسی کو اچھا مشورہ دے سکتے ہیں بہتر یہی ہے کہ وہ اپنے مشورے سنبھال کے رکھیں نوازشریف ان کا مشورہ سننا نہیں چاہتے اور جنرل راحیل شریف تو سیع لینے کے حامی نہیں۔ جنرل مشرف کےلیے بہتر یہی ہے کہ وہ اپنی سیاسی جماعت کو منظم کریں اور مقدمات پر توجہ دیں کسی بڑے کھیل کے لیے نہ تو وہ فٹ ہیں نہ انکی ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں


دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو وجود - پیر 06 فروری 2023

جنرل (ر) پرویز مشرف کی موت محض تعزیت کا موضوع نہیں، یہ تاریخ کا موضوع ہے۔ تاریخ بے رحمی سے حقائق کو چھانتی اور شخصیات کے ظاہر وباطن کو الگ کرتی ہے۔ تعزیت کے لیے الفاظ درد میں ڈوبے اور آنسوؤں سے بھیگے ہوتے ہیں۔ مگر تاریخ کے الفاظ مروت یا لحاظ کی چھتری تلے نہیں ہوتے۔ یہ بے باک و سف...

دیکھو مجھے جو دیدۂ عبرت نگاہ ہو

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم وجود - پیر 30 مئی 2022

اسلام آباد ہائیکورٹ نے لاپتہ افراد کے کیس میں وفاقی حکومت کو پرویزمشرف سے لیکر آج تک تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم دے دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے 15 صفحات کا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں آئینی خلاف ورزیوں پر اٹارنی جنرل کو دلائل کیلئے آخری موقع...

لاپتہ افراد کیس، عدالت کا مشرف سے لے کر آج تک کے تمام وزرائے اعظم کونوٹس جاری کرنے کا حکم

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط رکھنے کا فیصلہ وجود - پیر 16 مئی 2022

(رانا خالد قمر)گزشتہ ایک ہفتے سے لندن میں جاری سیاسی سرگرمیوں اور نون لیگی کے طویل مشاورتی عمل کے بعد نیا لندن پلان سامنے آگیا ہے۔ لندن پلان پر عمل درآمد کا مکمل دارومدار نواز شریف سے معاملات کو حتمی شکل دینے کے لیے ایک اہم ترین شخصیت کی ایک اور ملاقات ہے۔ اگر مذکورہ اہم شخصیت نو...

نون لیگ کا نیا لندن پلان سامنے آگیا، حکومت برقرار رکھنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کے سامنے شرائط  رکھنے کا فیصلہ

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا وجود - پیر 15 نومبر 2021

سابق چیف جسٹس گلگت بلتستان رانا ایم شمیم نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز کی ضمانت پر رہائی نہ ہونے کے لیے اُس وقت کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے ہائیکورٹ کے ایک جج کو خصوصی حکم دیا تھا۔ انصاف کے تقاضوں کے منافی اس مشکوک طرزِ عمل کے انکشاف نے پاکستان کے سیاسی ، صحافتی اور عد...

نواز شریف اور مریم نواز چھوٹنے نہیں  چاہئے، (ثاقب نثار کا جج کو حکم) سابق چیف جج گلگت بلتستان نے بھانڈا پھوڑ دیا

نواز دور میں طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کا تعاون نہیں ملا تھا،سینیٹر عرفان صدیقی وجود - هفته 13 نومبر 2021

2013 میں نواز شریف کے دورِ حکومت میں تحریک طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے والی حکومتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ اس وقت طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوران عسکری قیادت کی جانب سے حکومت کو تعاون نہیں ملا تھا۔ایک انٹرویو میں سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ حکومت بننے کے ...

نواز دور میں طالبان سے مذاکرات میں عسکری قیادت کا تعاون نہیں ملا تھا،سینیٹر عرفان صدیقی

میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں۔نوازشریف کا نام اور تصویر ہٹائی جانے لگی وجود - هفته 29 جولائی 2017

سابق وزیراعظم نوازشریف کی نااہلیت کے بعد اب اُن کا نام تمام قومی اور سرکاری جگہوں سے بتدریج ہٹایا جانے لگا ہے۔ تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کی ویب سائٹ سے رکن اسمبلی کے طور پر اُن کا نام ہٹا دیا گیا ہے۔ اسی طرح کراچی ائیرپورٹ پر قائداعظم اور صدرِ مملکت ممنون حسین کے ساتھ اُن کی ...

میں کوئی حرفِ غلط ہوں کہ مٹایا جاؤں۔نوازشریف کا نام اور تصویر ہٹائی جانے لگی

پاناما فیصلہ کب کیا ہوا؟اہم واقعات تاریخ کے آئینے میں وجود - هفته 29 جولائی 2017

٭3 اپریل 2016۔پاناما پیپرز (گیارہ اعشاریہ پانچ ملین دستاویزات پر مبنی ) کے انکشافات میں پہلی مرتبہ وزیراعظم نوازشریف اور اْن کا خاندان منظر عام پر آیا۔ ٭5 اپریل 2016۔وزیراعظم نوازشریف نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپنے خاندان کے حوالے سے ایک جوڈیشل کمیشن کی تشکیل کا عندیہ دیاتاکہ وہ...

پاناما فیصلہ کب کیا ہوا؟اہم واقعات تاریخ کے آئینے میں

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹہرے مولانا فضل الرحمان ، عمران خان کا اگلانشانہ انوار حسین حقی - هفته 29 جولائی 2017

عدالت ِ عظمیٰ کے لارجر بنچ کی جانب سے میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے نااہلی کے فیصلے نے پاکستان تحریک انصاف اور اُس کی قیادت کی اُس جدو جہد کو ثمر بار کیا ہے جو 2013 ء کے عام انتخابات کے فوری بعد سے چار حلقے کھولنے کے مطالبے سے شروع ہوئی تھی۔ عمران خان کی جانب سے انتخابات میں د...

صبح کے تخت نشیں شام کو مجرم ٹہرے  مولانا فضل الرحمان ، عمران خان کا اگلانشانہ

نوازشریف کی نااہلی عوامی جلسوں کے ذریعے طاقت ظاہر کرنے کا فیصلہ رانا خالد محمود - هفته 29 جولائی 2017

پاناما کیس کا فیصلہ آنے کے بعدعمومی طور پر پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں شدید رد عمل سامنے آیا ہے جیسے ہی سپریم کورٹ آف پاکستان میں5رکنی بینچ نے اپنا فیصلہ سنایا اور میڈیا کے ذریعے اس فیصلے کی خبر عوام تک پہنچی تو ان کا پہلا رد عمل وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے سات...

نوازشریف کی نااہلی  عوامی جلسوں کے ذریعے طاقت ظاہر کرنے کا فیصلہ

پاک فوج کے نئے سربراہ کا تقرر، حکومت کے لئے کڑا امتحان ایچ اے نقوی - جمعرات 06 اکتوبر 2016

جوں جوں نومبر کامہینہ قریب آرہا ہے، پاک فوج کے ممکنہ نئے سربراہ کے حوالے سے قیاس آرائیوں کاسلسلہ بھی دراز ہوتا جارہاہے، تاہم بھارت کے موجودہ جنگی جنون کے بعد پیداہونے والی صورت حال میں عوام اور تجزیہ کاروں کی اکثریت کاخیال یہی ہے کہ وزیر اعظم اس نازک وقت میں آرمی چیف تبدیل کرنے ک...

پاک فوج کے نئے سربراہ کا تقرر، حکومت کے لئے کڑا امتحان

سیاسی قائدین کا اجلاس‘ عمران خان اور اسفند یار کی عدم شرکت سے کیا پیغام گیا؟ عارف عزیز پنہور - منگل 04 اکتوبر 2016

پارلیمان میں نمائندگی رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے ساتھ وزیراعظم نواز شریف کے اہم مشاورتی اجلاس میں پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، جماعت اسلامی کے امیر سینیٹر سراج الحق، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے...

سیاسی قائدین کا اجلاس‘ عمران خان اور اسفند یار کی عدم شرکت سے کیا پیغام گیا؟

کشمیر کی گونج اقوام متحدہ میں الطاف ندوی کشمیری - بدھ 28 ستمبر 2016

وزیراعظم پاکستان محمد نواز شریف کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 71ویں اجلاس سے خطاب کو جو پذیرائی کشمیر میں حاصل ہوئی ہے ماضی میں شاید ہی کسی پاکستانی حاکم یا لیڈر کی تقریر کو ایسی اہمیت حاصل ہوئی ہو۔ کشمیر کے لیڈر، دانشور، صحافی، تجزیہ نگار، علماء، طلباء اور عوام کو اس تقریر کا...

کشمیر کی گونج اقوام متحدہ میں

مضامین
اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر