... loading ...
معصوم مرادآبادی
ایران پر اسرائیلی حملے کو ایک عشرہ بیت چکا ہے ۔اس عرصے میں دنیا کو سب سے بڑا سبق یہ ملا ہے کہ وہ اسرائیل جس نے خود کو ناقابل تسخیر قراردے رکھا تھا، خود بارود کے ڈھیر پر بیٹھا ہوا ہے اور کسی بھی وقت اس کے پرخچے اڑسکتے ہیں۔ ایران کے بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل میں جو تباہی مچائی ہے وہ امریکہ اور ان تمام مغربی ملکوں کے لیے ایک سبق ہے جو اسرائیل کو مشرق وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت سمجھنے کی غلطی کربیٹھے تھے ۔ حالانکہ اسرائیل کے دفاعی نظام کی پول اسی دن کھل گئی تھی جب بیس ماہ قبل حماس نے اسرائیل پر نہایت کامیاب حملے کرکے وہاں تباہی مچائی تھی اور اس کے سیکڑوں باشندوں کو یرغمال بنالیا تھا۔ حماس کے اس حملے میں اسرائیل کے ایک ہزار سے زیادہ شہری ہلاک ہوئے تھے ۔اسرائیل آج بھی غزہ میں اپنے یرغمالیوں کو تلاش کررہا ہے ۔ سنا تھا کہ اسرائیل نے اپنی فضاؤں میں آئرن ڈوم نصب کرکے خود کو تمام بیرونی حملوں سے محفوظ کرلیا ہے ، لیکن جب ایران نے اسرائیل پر بیلیسٹک میزائلوں سے تابڑتوڑ حملے کئے تو یہ دفاعی نظام دھرا کا دھرا رہ گیا۔ یہ میزائل اتنے طاقتور تھے کہ انھوں نے ایران سے اسرائیل تک دوہزار کلومیٹر کی مسافت تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے پوری کی اور اپنا ہدف حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔
اسرائیل مسلسل ایران کے ان مقامات کو نشانہ بنارہا ہے جہاں اس کے خیال میں جوہری ہتھیار تیار ہورہے ہیں۔ جوہری ہتھیاروں کو کنٹرول کرنے والی بین الاقوامی ایٹمی ایجنسی نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل کا اصل ہدف ایران کی جوہری طاقت کو ختم کرنا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی حملے میں ایران کے جوہری سائنسدانوں کو ہلاک کردیا گیا تھا۔ اسرائیل کاخیال تھا کہ وہ اس طرح ایران کو بے دست وپا کرکے اسے گھٹنوں پر لے آئے گا اور پھر وہ ایران کی اعلیٰ روحانی اور سیاسی قیادت کو ختم کرکے وہاں عراق جیسی کٹھ پتلی حکومت قائم کردے گا جو پوری طرح اسرائیل اور امریکہ کے رحم وکرم پر ہوگی۔اس کے لیے ایران کے سابق حکمراں رضا شاہ پہلوی کے اسرائیل نواز بیٹے کی مارکیٹنگ بھی شروع کردی گئی تھی۔ اسرائیل کا یہ بھی خیال تھا کہ حملہ ہوتے ہی ایران کے باغی سڑکوں پر نکل آئیں گے اور وہ اپنے جاسوسوں کی مدد سے ایران کے اقتدار اعلیٰ پر قبضہ کرلے گا۔لیکن اسرائیل کی یہ ساز ش ناکام ہوگئی ہے اور اب وہ اپنے زخموں کو چاٹ رہے ہیں۔
ایران نے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور اسرائیل کے باشندے ایرانی حملوں کے خوف سے بنکروں میں چھپ گئے ہیں۔کئی مقامات پر بلند وبالا عمارتیں ملبے کے ڈھیر میں تبدیل ہوگئی ہیں۔ پناہ کی تلاش میں بھاگتے ہوئے بدحواس یہودیوں کے چہروں پر سیکڑوں کہانیاں گردش کررہی ہیں۔ اسرائیلی شہریوں کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس قسم کی تباہی وبربادی کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔یہ دلخراش مناظر عرب اور ایرانی میڈیا نے نہیں بلکہ امریکی نیوز چینلوں سی این این اور فوکس نیوز نے اپنی براہ راست رپورٹنگ میں دکھائے ہیں کہ کس طرح اسرائیلی شہروں میں اہم عمارتیں اور شہری علاقے کھنڈروں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ اب مہذب دنیا یہ کہہ رہی ہے کہ ایران بے گناہ شہریوں کی ہلاکت کا مجرم ہے او ر اسرائیل کے شہری علاقوں میں میزائلوں کی بوچھار روک دی جانی چاہئے ۔یہ وہی مہذب دنیا ہے جو گزشتہ بیس مہینوں سے غزہ میں ہزاروں نہتے اور بے گناہ فلسطینیوں کی وحشیانہ ہلاکت پر مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔ وہاں ہرروز سیکڑوں عورتیں، بچے ، بوڑھے اور جوان دردناک موت کا شکار ہورہے ہیں اور مغربی ممالک اس پر مگرمچھ کے آنسو بہارہے ہیں، لیکن آج جب ایران کے بلیسٹک میزائلوں نے اسرائیل پر قہر ڈھایا ہے تویہی ممالک انسانی حقوق کی دہائی دینے لگے ہیں۔حالانکہ ایران میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے ۔ اسرائیلی حملوں میں سیکڑوں بے گناہ ایرانی شہری ہلاک ہوچکے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہیں، لیکن کسی کو ان کی فکر نہیں ہے ۔
امریکہ گزشتہ دوماہ سے ایرانی سائنسدانوں کے ساتھ اس کے ایٹمی پروگرام سے متعلق مذاکرات کررہا تھا۔ بظاہر اس کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح ایران اپنا ایٹمی پروگرام ٹھنڈے بستے میں ڈال دے ۔ اسرائیل اور امریکہ کا خیال ہے کہ ایران نے یورونیم افزودگی میں اتنی مہارت حاصل کرلی ہے کہ وہ عنقریب پندرہ ایٹم بم بناسکتاہے ۔اگرایسا ہوا تو اسرائیل کے بعد مشرق وسطیٰ میں دوسری ایٹمی طاقت بن جائے گا۔یہی وجہ ہے کہ پہلے ہی حملے میں اسرائیل نے ایران کے یورونیم افزودگی کے مرکز نتانز کو نشانہ بنایا۔ عالمی نیوکلیائی ایجنسی نے بھی ایرانی حملے میں اس نیوکلیائی مرکز کو نقصان پہنچنے کی تصدیق کی ہے ۔درحقیقت ایران کا نیوکلیائی پروگرام زمین سے 26منزلنیچے ہے اور اسے ختم کرنا اسرائیل کے بس کا روگ نہیں ہے ۔
امریکہ کسی بھی صورت یہ نہیں چاہتا کہ ایران ایٹمی طاقت بن کر اسرائیل کو چیلنج کرے ۔ اسی لیے امریکہ نے ایرانی سائنسدانوں سے مذاکرات شروع کئے تھے ، لیکن ان کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہورہا تھا۔کیونکہ ایران کا کہنا تھا کہ اس کا ایٹمی پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے ۔وہ توانائی کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے یورونیم افزودگی کررہا ہے ۔لیکن امریکہ نے ایران کی ایک نہیں سنی اور اسرائیل نے پہلے ہی حملے میں جوہری سائنسدانوں کو نشانہ بنایا۔ہلاک شدگان میں ایران کے وہ جوہری سائنسداں بھی شامل تھے جو امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں شریک تھے ۔ حالانکہ مذاکرات ابھی پورے نہیں ہوئے تھے اور اس کا اگلا دور اتوار کو ہونا تھا، لیکن اس کے باوجود اسرائیل نے جمعہ کی رات دوسو جنگی جہازوں سے ایران پر حملہ کیا اور گھات لگاکر اس کی صف اوّل کی پوری فوجی اور جوہری قیادت کا خاتمہ کردیا۔اسرائیل کا اگلا نشانہ ایران کی سیاسی اور روحانی قیادت ہے ۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ انھوں نے ایران کے سپریم روحانی لیڈر خامنہ ای کو قتل کرنے کے اسرائیلی منصوبے کو منظوری نہیں دی۔صدرڈونالڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا ہے کہ”اب ہمیں ایران کی فضائی حدود پر مکمل کنٹرول حاصل ہے ۔فی الحال ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کو مارنے نہیں جارہے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر کہاں چھپے ہیں۔’ صدرٹرمپ کی یہ زبان کسی ملک کے سربراہ کی تو ہرگز نہیں معلوم ہوتی۔ افسوس کہ دنیا کے سب سے طاقتور اور ترقی یافتہ ملک کی قیادت ایسی بازاری زبان استعمال کررہی ہے ۔حالانکہ خامنہ ای کے بارے میں یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ انھوں نے ایران کے جوہری پروگرام کو منظوری نہیں دی ہے اور ایٹم بم کی تیاری کو غیراسلامی قراردے کرمسترد کردیا ہے ، لیکن اس کے باوجود وہ اسرائیل اور امریکہ کے نشانے پر ہیں۔ ٹرمپ کے بیان کے بعد خامنہ ای کی حفاظت کے غیرمعمولی انتظامات کئے گئے ہیں اور وہ فی الحال کسی نامعلوم مقام پر بنکر میں چھپے ہوئے ہیں۔صدرٹرمپ نے آئندہ دوہفتوں تک ایران پر حملہ نہ کرنے کی بات ضرور کہی ہے ، لیکن وہ کب کیا کربیٹھیں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔
سوال یہ ہے کہ آخر اسرائیل اور امریکہ ایران کی روحانی اور سیاسی قیادت کو کیوں ختم کرنا چاہتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میں ایران اکیلی طاقت ہے جو اسرائیل اور امریکہ کو بیک وقت چیلنج کرتا ہے اوران کے آگے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں ہے ۔یہ دونوں شیطانی طاقتیں ایران کو عراق بنانا چاہتی ہیں۔آپ کو یادہوگا کہ عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے پہلے بھی یہی بہانہ تراشا گیا تھا کہ اس کے پاس عام تباہی کے ہتھیار ہیں، لیکن سب کچھ تہس نہس کرنے کے بعد وہاں کچھ بھی نہیں ملا۔ سوائے اس جوتے کے جو ایک عراقی صحافی نے سابق صدر بش کے منہ پر دے مارا تھا۔ شاید یہی عام تباہی کا سب سے خطرناک ہتھیار تھا۔ سبھی جانتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ میں اس وقت اسرائیل اور ایران ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہیں۔ ایک دور ایسا بھی گزرا ہے جب یہ دونوں ایک دوسرے کے سب سے قریبی دوست تھے ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ایران میں رضا شاہ پہلوی برسراقتدار تھے ۔ 1979میں ایران کے اسلامی انقلاب کے بعد صورتحال یکسر بدل گئی۔ ایران نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرکے اسرائیلی سفاتخانہ پر فلسطین کا پرچم لہرادیا اور یہ سفارتخانہ فلسطین کے حوالے کردیا۔تب سے ایران اور اسرائیل کے درمیان دشمنی چلی آرہی ہے ۔ ماضی میں ایران غزہ میں حماس، لبنان میں حزب اللہ اور یمن میں حوثیوں کی مدد کرکے اسرائیل کی ناک میں دم کرتا رہا ہے ۔ لیکن غزہ پر اسرائیلی قبضے اور شام میں اقتدار کی تبدیلی کے بعد صورتحال بدل گئی ہے ۔ اسرائیل اور امریکہ یہ چاہتا ہے کہ وہ ایران میں بھی اسلامی انقلاب کی جڑیں کھودکر وہاں رضا شاہ پہلوی کے اسرائیل نواز بیٹے کو اقتدار میں لے آئے ۔مغربی ملک بھی اس خطرے کو محسوس کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فرانسیسی صدر میکروں نے کناڈا میں جی سیون اجلاس کے دوران کہا ہے کہایران کی حکومت کو زبردستی گرانے کی کوشش ایک بڑی اسٹر یٹجک غلطی ہوگی۔ماضی میں بھی ایسی کوششیں ناکام رہی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔