وجود

... loading ...

وجود
وجود

افغانستان سے امریکی پسپائی

هفته 18 ستمبر 2021 افغانستان سے امریکی پسپائی

(مہمان کالم)

مشیل گولڈ برگ

مجھے یہ بات ہمیشہ یا درہے گی کہ نائن الیون حملے شام کے وقت ہوئے تھے۔اس دن میں شمالی بھارت کے ایک قصبے میں تھی کہ میں نے ٹی وی پر ٹوئن ٹاورز کو گرتے ہوئے دیکھا۔چونکہ میں وطن سے کوسوں دور تھی اس لیے نہیں جانتی کہ اس دن نیویارک اور واشنگٹن کے باسیوں کا خوف اور دہشت سے کیا حال تھا۔ان پر مزید حملوں کا خو ف طاری تھا۔یوں لگ رہا تھا کہ 1990ء کی دہائی کی ہولناک موویز حقیقت کا روپ دھار کر آگئی ہوں مگر مجھے پورا یقین ہے کہ ان تباہ کن لمحات کے دوران عوام کی اکثریت نے امریکا کے تحمل اور برداشت پربھرپور اعتماد محسوس کیا ہوگا۔ہاں القاعدہ نے ایک بہت بڑے ٹریڈ سنٹر کو گرا دیا تھا۔اس حملے نے القاعدہ کوہمارے لیے توقع سے کہیں بڑا خطرہ بنا دیا۔اکثر لوگوں نے سمجھا کہ جنگ عظیم دوم جیسی کوئی خوفناک تہذیبی جنگ شروع ہو گئی ہے۔بااثرشخصیات کی اکثریت نے شاید سرد جنگ کے بعد کی بیزاری کو اتار پھینکا تھا تاکہ قوم ایک مرتبہ پھر سے ایک نئے مقصد سے سرشار نظر آئے۔
مصنف کرسٹوفر ہچنز نے 2003ء میں عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا تھا ’’ نیویارک کے ٹاورز کو گرتے ہوئے دیکھنا جبکہ جہازوں اور عمارتوں میں لوگ بھی موجود تھے‘ پہلے تومجھے بالکل نہ سمجھ ا?یا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔مجھے ا?پ کو یہ بتاتے ہوئے پریشانی ہو رہی ہے کہ مجھے ایک خوشگوار سااحساس ہو رہا تھا۔ میں نے سوچا کہ اب ہم یہ جنگ اس کے انجام تک لڑیں گے۔ سن لو! یہ جنگ صرف ہم جیتیں گے اور وہ یقینا ہاریں گے ‘‘۔مگر ہم یہ جنگ نہ جیت سکے۔ ہمارے دشمنون نے ہمارے ملک پر جو خطرہ مسلط کیا تھا‘ وہ کبھی اتنا حقیقی وجود نہیں رکھتا تھا۔اپنی سب سے بڑی فتح کے بعد القاعدہ کے ٹکڑے ٹکڑے ہوگئے تھے؛ تاہم نائن الیون حملوں نے امریکا کو جو نقصان پہنچا یا تھا وہ بہت سے قنوطیت پسندوں کی توقع سے کہیں زیادہ تھا۔ان حملوں اور ہمارے جوابی ردعمل نے ہمارے زوال کی رفتار کو تیز کردیا اور آج ہماری حالت ایک زوال پذیر سپر پاور کی سی ہے۔امریکا نے اسلامی ممالک میں جمہوریت کا بیج بونے کے لیے جو جنگ شروع کی تھی اس نے انجامِ کار ہماری اپنی ہی جمہوریت کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ القاعدہ نے تو وہ کنواں کھودا ہی نہیں تھا جس میں ہم گر گئے۔ہم نے اپنے لیے یہ کنواں خود کھوداہے۔۔نائن الیون حملوں نے امریکا کوجتنا نقصان پہنچایا‘ یہ اتنا نہیں تھا جتنا وہ چاہتے تھے۔
نیو امیریکن انٹر نیشنل سکیورٹی پروگرام کی سینئر فیلو، نیلی لاہوڈ نے اسامہ بن لادن کی ان ہزاروں دستاویزات کا تجزیہ کیا ہے جو 2011ء میں آپریشن کے بعد ہمارے فوجیوں نے اپنے قبضے میں لی تھیں۔ اس نے حال ہی میں ’’فارن افیئرز‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ یہ سب کچھ مبالغہ آمیز مفروضات،بدنظمی اور خود فریبی کے ایک سلسلے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ لاہوڈ لکھتی ہیں ’’اسامہ بن لادن نے کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ ان حملوں کے بعد امریکا جنگ شروع کردے گا۔اس کا خیال تھا کہ ایک بڑی جنگ مخالف تحریک شروع ہو جائے گی جو مطالبہ کرے گی کہ امریکا مسلم ممالک سے اپنی فوجیں باہر نکالے۔وہ امریکا سے شدید نفرت کرتا تھا مگر اسے ا س حوالے سے کچھ زیادہ سمجھ بوجھ نہیں تھی۔نائن الیون حملے القاعدہ کے لیے ایک عظیم فتح بن گئے تھے مگر جونہی طالبان کی حکومت ختم ہوئی‘ فوراً بعد القاعدہ بھی منتشر ہو گئی۔اس کی اعلیٰ قیادت ماری گئی تھی یا گرفتار ہو گئی ‘‘۔جو بچ بھی گئے تھے وہ جانیں بچانے کے لیے چھپتے پھرتے تھے اور ان کی کوئی بڑا حملہ کرنے کی صلاحیت ملیامیٹ ہو چکی تھی۔2001ئ￿ کے ا?خر میں امریکا بجا طور پر خود کو اس جنگ کا فاتح قرار دے سکتا تھا اور اس طرح ہزاروں زندگیاں، کھربوں ڈالرز اور ہمارا قومی وقار‘ سب کچھ بچ جاتا مگر ہم نہ صرف افغانستان میں موجود رہے بلکہ عراق پربھی حملہ کر دیاجہا ں ہم نے بدامنی کے ایسے بیج بوئے جس نے داعش جیسے خطرے ابھرنے کا موقع فراہم کر دیا۔داعش‘ جو القاعدہ ہی کی ذیلی شاخ تھی‘ ایک وقت ایسابھی آیا کہ القاعدہ چندھیانے لگی اور داعش نے دوسری تمام شدت پسند تنظیموں کو خوفزدہ کر دیا۔القاعدہ کے اصل لیڈر عمررسیدہ ہونے یا داعش کی زیادتیوں کی وجہ سے منظر عام سے غائب ہو گئے تھے مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ القاعدہ ناکام ہو گئی۔آج القاعدہ نے خود کو پھرسے منظم کر لیا ہے جوآج سے دو عشرے قبل والی القاعدہ سے کہیں بڑی اور طاقتور بن چکی ہے۔ اور امریکا ستمبر 2021ء میں‘ پہلے سے کہیں خوفناک حالات سے دوچار نظر آتا ہے۔ 20 سال پہلے ہم سیدھے سادے اور غلطیوں کا ارتکاب کر رہے تھے مگر آج ہم تلخی اور شکوک میں مبتلا اور اپنے آئیڈیلز سے محروم ہیں۔
صدر جارج بش نے 2003ء میں کہا تھا کہ ’’وقت کی پکار ہے کہ ہم اپنی آزادی کے لیے آگے بڑھیں،یہ ہمارے وطن کی صدا ہے‘‘۔ مگر ہماری یہ جنونی قوم پرستی،نسلی تعصب اور بڑھتا ہوا خوف ایک ایسے دور میں ڈھل چکا ہے جس میں تشدد،خفیہ عقوبت خانے،معذور فوجی جوان اور مردہ سویلینز ہی نظر آتے ہیں جبکہ ہمارے استعماری خوابوں نے ہماری آزادی کو ملکی اور عالمی سطح پر ذلت آمیز پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا ہے۔ صدر بش کی اپنی سیاسی جماعت جمہوریت کے خلاف صف آرا ہو چکی ہے۔ انسانی آزادی پر ایمان اور یقین اب اَنا پرستی کی آڑ میں ویکسین کی مخالفت کا روپ دھار چکا ہے۔نائن الیون کے بعد انتہا پسندوں سے زیادہ ہمارے اپنے دائیں بازو کے دہشت گردوں نے امریکی شہریوں کا خون بہایا ہے۔
نائن الیون حملوں کی بیسویں برسی عین اس وقت آئی ہے جب طالبان ایک بار پھر افغانستان پر قابض ہو چکے ہیں اور امریکا کو اپنی شکست کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ امریکا کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے فوری خاتمے سے بہت سے افغانوں کی زندگی بچ گئی ہے۔ہمارے انٹیلی جنس تجزیہ کاروں کا کہنا تھا کہ طالبان کی فتح یقینی اور ناگزیر ہے‘ یہ اچھا ہو ا کہ انہیں یہ فتح کابل کا طویل محاصر ہ کیے بغیر ہی مل گئی مگر امریکا کے انخلا اور طالبان کے افغانستان پرقبضے کے درمیان کوئی مناسب وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے امریکا کی اس طویل ترین جنگ کا اختتام انتہائی فضول اور بدترین انداز میں ہوا ہے۔ہم نے طالبان سے صر ف ذلت آمیز شکست ہی نہیں کھائی بلکہ ہم انہیں پہلے سے کہیں مضبوط اور طاقتور حالت میں چھوڑ کر آئے ہیں۔ہم نے اپنے دشمن کا قد کاٹھ اتنا اونچا کردیا ہے کہ اس پرہم یقینا سزا کے مستحق ہیں۔ہم تو سمجھتے تھے کہ ہمیں اس بات کا مکمل احساس ہے کہ ہم نے نائن الیون کو کیا کھویا تھا۔مگر ہم تو کچھ بھی نہیں جانتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی وجود منگل 30 اپریل 2024
قرض اور جوا ۔ ۔ ۔پھر سہی

بھارتی مسلمانوں کی حالت زار وجود منگل 30 اپریل 2024
بھارتی مسلمانوں کی حالت زار

مودی کاجنگی جنون اورتعصب وجود منگل 30 اپریل 2024
مودی کاجنگی جنون اورتعصب

پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر