وجود

... loading ...

وجود

ایم کیو ایم اور اس سے وابستہ لوگ

هفته 31 مارچ 2018 ایم کیو ایم اور اس سے وابستہ لوگ

خاص و عام لوگوں کی اکثریت ہرگز یہ نہیں چاہتی کہ ملک کی سیاسی صورت حال اور سیاسی جماعتیں غیر مستحکم ہوں۔ بیش تر لوگ ایم کیو ایم سمیت تمام پارٹیوں کا استحکام چاہنے کے ساتھ انہیں معروف عوامی اصولوں کے تحت فعال دیکھنا چاہتے ہیں۔ تشویش اس وقت ہوتی ہے جب یہ جماعتیں اپنے وقتی مفادات کے لیے سب کچھ اور غلط سلط بھی کرنے لگتیں ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اس کے انجام کو بھی بھلا بیٹھتی ہیں۔

ان دنوں اگر ایم کیو ایم انتشار کا شکار ہوکر بکھر رہی ہے تو اس میں کسی غیر متعلقہ فرد یا افراد کے عمل دخل سے زیادہ خود اس سے وابستہ اہم شخصیات کا قصور ہے۔ ایم کیو ایم نے جب مارچ 1984 میں سیاسی سفر کا آغاز کیا تو اس کی ’’اڑان بھرنے‘‘ ہی سے ظاہر ہورہا تھا کہ یہ کسی بھی وقت زمین پر آگرے گی۔ ’’سیاست میں سب جائز ہے‘‘ کے غلط تاثر کا ایم کیو ایم نے جس قدر فائدہ اٹھایا شاید ہی ملک کی کسی دوسری جماعت نے اس قدر اٹھایا ہو۔ یہ جماعت اپنے حجم میں چھوٹی ہونے کے باوجود اچانک ملک کی تیسری بڑی جماعت بن بیٹھی تو ہر خاص و عام اس کی غیر فطری پرواز پر حیران تھا۔ بعدازاں یہ جلد ہی ملک کی واحد سیاسی جماعت بن گئی جو اپنے اطراف ایک مافیا کا روپ دھار کر خوف پھیلانے کے باوجود عام لوگوں میں مقبول ہورہی تھی۔ اس کے سرگرم کارکنوں کے ہاتھوں میں اسلحہ اس بات کی گواہی تھا کہ یہ ’’سیاست کی آڑ میں کچھ اور ہی کرے گی۔ پھر لوگ جو کچھ دیکھنے اور برداشت کرنے لگے اس سے سب ہی متاثرین کو اس کے عبرت ناک انجام کی فکر ہونے لگی اور وہ اس کا ذکر کرنے لگے‘‘۔

ایم کیوایم الطاف حسین نے بنائی مگر انہوں نے ہی اسے ختم کرنے کے لیے 22 اگست 2016 کو اس پر کاری ضرب لگائی۔ الطاف کے اس وار کا یہ نتیجہ نکلا کہ سب ہی کو یقین ہوا کہ یہ ملک دشمن ایجنڈے پر کام کرنے والی جماعت ہے۔ الطاف کے ملک کے خلاف مکروہ اعلان کے ساتھ ہی اللہ کے حکم سے ایم کیو ایم کے ٹوٹنے کی شروعات ہوگئی تھی۔ لیکن لوگ حیران ہورہے تھے کہ جس نے ایم کیو ایم بنائی وہ خود ہی توڑ رہا ہے۔ دراصل یہی اللہ کی جانب سے مکافات عمل تھا۔ جس کا پوری ’’غیبی طاقت‘‘ کے ساتھ آغاز ہوچکا تھا۔

23 اگست 2016 کو الطاف حسین اپنے لندن میں موجود چند اہم ساتھیوں کے ساتھ ایک نیا اور علیحدہ گروپ بنانے پر مجبور ہوچکے تھے جب کہ ان کی سیاست کا محور ایم کیو ایم پاکستان ان سے بغاوت کرکے مکمل علیحدہ ہونے کے بعد دو واضح گروپوں میں تقسیم ہوچکی ہے۔ (یہ ایم کیو ایم کی تقسیم اور اس کے ساتھ ہونے والے مکافات کا دوسرا بڑا مرحلہ ہے)۔

5 فروری کو دو حصوں میں تقسیم ہونے والی ایم کیو ایم پاکستان کو اگرچہ اس کے بعض مخلص رہنماؤں خواجہ اظہارالحسن، سردار احمد، اور نسرین جلیل نے دوبارہ مستحکم کرنے کے واسطے اختلافات ختم کرانے کے لیے ثالثی کی بھی کوشش کی۔ لیکن 26 مارچ کو الیکشن کمیشن نے دونوں گروپ کے رہنماؤں ڈاکٹر فاروق ستار اور خالد مقبول صدیقی کی درخواستوں پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار کو ایم کیو ایم کی کنوینر شپ سے فارغ کردیا۔ اب جو ایم کیو ایم پاکستان ہے اس کے سربراہ خالد مقبول صدیقی ہیں۔ الیکشن کمیشن کے فیصلے کے بعد اب متحدہ کے ان دھڑوں کے دوبارہ ایک ہونے کی توقعات مزید کم ہوگئی۔ ایم کیو ایم کے قیام سے لیکر اس کے منطقی انجام کی شروعات تک سندھ کے شہری علاقوں خصوصاً کراچی کے لوگوں نے جو صدمات جھیلے ہیں ان کی کوئی نظیر ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس دوران کم و بیش 27 ہزار افراد جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شامل ہے اپنی جانوں سے گئیں۔ ان 34 سال کے دوران جو لسانی فسادات رونما ہوئے اور مہاجروں یا اردو بولنے والوں کے خلاف متنازع بیانات دینے کے ردعمل میں جو معصوم لوگ اپنی جانوں سے گئے وہ الگ ہیں۔

لطاف حسین کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ ہونے کے انکشاف کے لیے قرآن تک سامنے لے آئے تو دوسری طرف سے الطاف حسین نے غلاف میں لپٹی ہوئی کتاب کو قرآن ظاہر کرتے ہوئے لہرایا۔ نتیجے میں ایک ہی روز میں درجنوں افراد نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق اور زخمی ہوگئے۔

ایم کیو ایم کے فعال رہنے کے دوران 2013 سے پہلے تک ہر بے تکی بات کو وقتی ایشو بناکر خون کی ہولی کھیلی گئی۔ خونیں کھیل کھیلنے والے بھی ایسے جانے پہنچانے ’’نامعلوم‘‘ ہوا کرتے تھے جن کی نشاندہی کرنے کا عام آدمی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ دکھ اس بات کا تھا کہ تحریک کے لیے کس بات کی جدوجہد کی جارہی ہے اور کیوں اس قدر انسانوں کو قربان کیا جارہا ہے۔ 34 سال کے دوران مہاجروں کا بیڑہ پار ہونے کے بجائے بیڑہ غرق کردیا گیا۔ اور ایک پڑھے لکھے اور ملک سے وفادار طبقے کو وطن کا غدار قرار دلانے کی سازش کی گئی۔ حالاں کہ ملک کا اصل غدار وہ نکلا جس نے 1992 میں نواز شریف دور کے پہلے آپریشن کے خوف سے ملک سے فرار ہوکر برطانوی شہریت حاصل کرلی تھی۔ ایم کیو ایم میں سب ہی مجرمانہ ذہنیت اور جرائم پیشہ نہیں تھے۔ بہت سے ایسے بھی تھے جو جرائم ہی کیا ہر بری بات سے دور رہنے والے تھے یہ صرف مہاجروں کے مسائل کے سدباب کے لیے ایم کیو ایم کا حصہ بن گئے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو ایم کیو ایم کا ساتھ دینے اور ایم کیو ایم کی حمایت کرنے کے لیے مجبور ہوچکے تھے۔ تاہم 22 اگست 2016 کو صرف ایک پریس کانفرنس کے ذریعے پاکستان کے پارلیمانی اداروں میں موجود شخصیات سمیت متعدد سرگرم رہنما اور کارکن ڈاکٹر فاروق ستار کی قیادت میں الطاف حسین سے بغاوت کرکے باآسانی الگ ہوگئے۔ میں اسی ایم کیو ایم اور الطاف حسین کی بات کررہا ہوں جس میں ’’جو قائد کا غدار ہے وہ موت کا حق دار ہے‘‘ جیسے نعرے تخلیق کیے اور اس پر عمل بھی کیا۔

مجھے حیرت ہوتی ہے ان پڑھے لکھے لوگوں پر جنہوں نے ایم کیو ایم کے تمام ادوار کو دیکھا بھی اور اس کی شرپسندیوں سے واقف ہونے کے باوجود صرف اپنے ذاتی مفادات کے لیے آج بھی الطاف اور اس کی ایم کیو ایم کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ اس ایم کیو ایم کی طرف جس نے ہنستے بستے گھروں کو اجاڑ کر شہدا قبرستان آباد کیا۔ اس ایم کیو ایم جس کا ایک کارکن صولت مرزا اپنے قائد کا وفادار ہونے کے نام پھانسی کی سزا پاکر نوجوان بیوا اور بہنوں کو روتا چھوڑ گیا۔ مگر اب بھی سوال یہی ہے کہ: الطاف حسین سے منحرف ہوکر اسی کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم اور اسی کی بنائی ہوئی خطرناک کراچی تنظیمی کمیٹی کے لوگوں کے ساتھ مل کر اب نجانے کون کیا کرنا چاہتا ہے۔ یقیناًاللہ بڑا معاف کرنے والا ہے لیکن اللہ کا حکم ہے انسانوں کو تکلیف دینے والوں کو میں اس وقت معاف کروں گا جب تکلیف جھیلنے والا شخص معاف کرے گا۔ اللہ کے پیارے نبی ? کا فرمان ہے کہ ’’ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے‘‘۔ کیا کوئی پوری انسانیت کے قاتلوں سے بھی اچھی توقع رکھ سکتا ہے؟۔

ایم کیو ایم کے تقسیم در تقسیم ہونے کے سلسلے کو اسٹیبلشمنٹ کی سازش قرار دیا جارہا ہے مگر یقین ہے کہ یہ سازش نہیں ہے بلکہ اللہ کے نظام کے تحت اس کی گرفت ہے۔ اس لیے اس بات کے امکانات بہت کم ہیں کہ الطاف کی بنائی ہوئی ایم کیو ایم اور اس سے وابستہ مجرم لوگ اب سنبھل پائیں گے۔ الطاف کی ایم کیو ایم ہو یا کوئی اور پارٹی یا گروہ جس میں رہتے ہوئے جس نے جو کچھ غلط کیا اس کو وہی کچھ برداشت کرنے کے لیے تیار رہنا چاہیے کیوں کہ یہ اللہ کا نظام ہے۔ ایسے لوگوں کے لیے مشورہ ہے کہ وہ اپنے عمل کے ردعمل کے لیے تیار رہتے ہوئے توبہ اور استغفار کا ورد بھی کرتے رہیں ساتھ ہی اپنے اعمال سے یہ ثابت کریں کہ ان کے ارادے نیک ہیں۔ یاد رکھیں کہ معاف کرنے والی ذات صرف اللہ کی ہے ’’وہ بہت بڑا مہربان اور نہایت رحم والا بھی ہے‘۔


متعلقہ خبریں


آزادی یا کفن، حقیقی آزادی چھین کرلیں گے ،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا وجود - پیر 15 دسمبر 2025

اس بار ڈی چوک سے کفن میں آئیں گے یا کامیاب ہوں گے،محمود اچکزئی کے پاس مذاکرات یا احتجاج کا اختیار ہے، وہ جب اور جیسے بھی کال دیں تو ہم ساتھ دیں گے ،سہیل آفریدی کا جلسہ سے خطاب میڈیٹ چور جو 'کا کے اور کی' کو نہیں سمجھ سکتی مجھے مشورے دے رہی ہے، پنجاب پولیس کو کرپٹ ترین ادارہ بن...

آزادی یا کفن، حقیقی آزادی چھین کرلیں گے ،وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا

سڈنی حملہ دہشت گردی،یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا، آسٹریلوی وزیراعظم وجود - پیر 15 دسمبر 2025

مرنے والے بیشتر آسٹریلوی شہری تھے، البانیز نے پولیس کی بروقت کارروائی کو سراہا وزیراعظم کا یہودی کمیونٹی سے اظہار یکجہتی، تحفظ کیلئے سخت اقدامات کی یقین دہانی آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز نے سڈنی کے ساحل بونڈی پر ہونے والے حملے کو دہشت گرد قرار دیتے ہوئے اسے یہودیوں...

سڈنی حملہ دہشت گردی،یہودیوں کو نشانہ بنایا گیا، آسٹریلوی وزیراعظم

بھتا خور ریحان کی نشاندہی پر قادری ہاؤس پر چھاپہ مارا،ایس آئی یو پولیس وجود - پیر 15 دسمبر 2025

زخمی حالت میں گرفتار ملزم 4 سال تک بھتا کیس میں جیل میں رہا، آزاد امیدوار کی حیثیت میں عام انتخابات میں حصہ لیا 17 افراد زیر حراست،سیاسی جماعت کے لوگ مجرمان کو پناہ دینے میں دانستہ ملوث پائے گئے تو ان کیخلاف کارروائی ہوگی ایس آئی یو پولیس نے ناظم آباد میں سیاسی جماعت کے سر...

بھتا خور ریحان کی نشاندہی پر قادری ہاؤس پر چھاپہ مارا،ایس آئی یو پولیس

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ہائبرڈ جنگ، انتہاء پسند نظریات اور انتشار پھیلانے والے عناصر سے نمٹنے کیلئے تیار ہیں، سید عاصم منیرکا گوجرانوالہ اور سیالکوٹ گیریژنز کا دورہ ،فارمیشن کی آپریشنل تیاری پر بریفنگ جدید جنگ میں ٹیکنالوجی سے ہم آہنگی، چابک دستی اور فوری فیصلہ سازی ناگزیر ہے، پاک فوج اندرونی اور بیر...

تقسیم پسند قوتوںسے نمٹنے کیلئے تیارہیں ،فیلڈمارشل

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس نہ ہوں ،حکمران طبقہ نے قرضے معاف کرائے تعلیم ، صحت، تھانہ کچہری کا نظام تباہ کردیا ، الخدمت فاؤنڈیشن کی چیک تقسیم تقریب سے خطاب امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ دنیا پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، نوجوان مایوس...

پاکستان سیاستدانوں ، جرنیلوں ، طاقتوروں کا نہیں عوام کاہے ، حافظ نعیم

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

حملہ آوروں کا تعلق کالعدم دہشت گرد تنظیم سے ہے پشاور میں چند دن تک قیام کیا تھا خودکش جیکٹس اور رہائش کی فراہمی میں بمباروں کیسہولت کاری کی گئی،تفتیشی حکام ایف سی ہیڈکوارٹرز پر حملہ کرنے والے دہشتگرد نیٹ ورک کی نشاندہی ہو گئی۔ تفتیشی حکام نے کہا کہ خودکش حملہ آوروں کا تعلق ...

ایف سی حملے میں ملوث دہشتگرد نیٹ ورک کا سراغ مل گیا

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

غذائی اجناس کی خود کفالت کیلئے جامع پلان تیار ،محکمہ خوراک کو کارروائیاں تیز کرنے کی ہدایت اشیائے خوردونوش کی سرکاری نرخوں پر ہر صورت دستیابی یقینی بنائی جائے،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمد سہیل آفریدی نے محکمہ خوراک کو ناجائز منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ...

سہیل آفریدی منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی کیخلاف متحرک

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم وجود - اتوار 14 دسمبر 2025

ادارہ جاتی اصلاحات سے اچھی حکمرانی میں اضافہ ہو گا،نوجوان قیمتی اثاثہ ہیں،شہبا زشریف فنی ٹریننگ دے کر برسر روزگار کریں گے،نیشنل ریگولیٹری ریفارمز کی افتتاحی تقریب سے خطاب وزیر اعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک معاشی بحران سے نکل چکاہے،ترقی کی جانب رواں دواں ہیں، ادارہ جات...

معاشی بحران سے نکل چکے ،ترقی کی جانب رواں دواں،وزیراعظم

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم وجود - هفته 13 دسمبر 2025

عالمی برادری افغان حکومت پر ذمہ داریوں کی ادائیگی کیلئے زور ڈالے،سماجی و اقتصادی ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پاکستان کی اولین ترجیح،موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے تنازعات کا پرامن حل پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون ،فلسطینی عوام اور کشمیریوں کے بنیادی حق...

افغان سرزمین دہشت گردیکی لئے نیا خطرہ ہے ،وزیراعظم

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی وجود - هفته 13 دسمبر 2025

حکومت نے 23شرائط مان لیں، توانائی، مالیاتی، سماجی شعبے، اسٹرکچرل، مانیٹری اور کرنسی وغیرہ شامل ہیں، سرکاری ملکیتی اداروں کے قانون میں تبدیلی کیلئے اگست 2026 کی ڈیڈ لائن مقرر کر دی ریونیو شارٹ فال پورا کرنے کیلئے کھاد اور زرعی ادویات پر 5 فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی لگائی جائیگی، ہا...

پاکستان ، آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر،ا گلی قسط کیلئے بجلی اور گیس مہنگی کرنے کی یقین دہانی کرادی

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف وجود - هفته 13 دسمبر 2025

پارٹی کے اندر لڑائی برداشت نہیں کی جائے گی، اگر کوئی ملوث ہے تو اس کو باہر رکھا جائے آزادکشمیر و گلگت بلتستان میں میرٹ پر ٹکت دیں گے میرٹ پر کبھی سمجھوتا نہیں کیا،صدر ن لیگ مسلم لیگ(ن)کے صدر نواز شریف نے کہا ہے کہ این ایف سی ایوارڈ بھیک نہیں ہے یہ تو حق ہے، وزیراعظم سے کہوں گا...

گلگت بلتستان ، آزاد کشمیر کو این ایف سی میں حصہ ملنا چاہیے، نواز شریف

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو وجود - هفته 13 دسمبر 2025

تمام سیاسی جماعتیں اپنے دائرہ کار میں رہ کر سیاست کریں، خود پنجاب کی گلی گلی محلے محلے جائوں گا، چیئرمین پیپلز پارٹی کارکن اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھیں، گورنر سلیم حیدر کی ملاقات ،سیاسی صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا ،دیگر کی بھی ملاقاتیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیٔرمین بلاول...

ملکی سالمیت کیخلاف چلنے والوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائیگا،بلاول بھٹو

مضامین
مردوں کو گالیاں وجود پیر 15 دسمبر 2025
مردوں کو گالیاں

ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہندوتوا نظریہ امن کے لیے خطرہ

ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال وجود پیر 15 دسمبر 2025
ہائبرڈ نظام اور اس کے خدو خال

وندے ماترم:ایک تیر سے کئی شکار وجود پیر 15 دسمبر 2025
وندے ماترم:ایک تیر سے کئی شکار

مودی سرکار کی سفاکی وجود پیر 15 دسمبر 2025
مودی سرکار کی سفاکی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر