وجود

... loading ...

وجود
وجود

تاریخ تحریک آزادی کشمیر

پیر 05 فروری 2018 تاریخ تحریک آزادی کشمیر

جموںو کشمیر جسے جنت ارضی بھی کہا جاتا ہے تقریباً 48,471 مربع میل پر پھیلی ہوئی ریاست ہے۔ یہ علاقہ براعظم ایشیاء کے تقریباً وسط میں اور برصغیر کے شمال میں واقع ہے۔ اس مناسبت سے اسے ایشیاء کا دل اور برصغیر کا تاج بھی کہتے ہی۔ جغرافیائی اعتبار سے اس نہایت اہم خطے کے شمال میں سابق سوویت یونین کی ریاست تاجکستان جو کہ اب آزاد اسلامی ملک ہے اور چین کا علاقہ سنکیانگ ہے۔ اس کے مشرق میں تبت، جنوب میں بھارت ، جنوب مغرب میں پاکستان اور مغرب میں افغانستان واقع ہے۔ اگر داخلی طور پردیکھا جائے تو ریاست جموں و کشمیر تین طبقات پر مشتمل ہے۔ بقول چراغ حسن حسرت پہلی منزل جموں، دوسری منزل وادی کشمیر اور تیسری منزل بلتستان ہے۔ اس کے دائیں ہاتھ لداخ اور بائیں ہاتھ گلگت کا علاقہ ہے۔

خطہ کشمیر ماضی میں بدھ مت کا مرکز رہا جبکہ مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ آٹھویں صدی عیسوی میں برصغیر پر مسلمانوں کے حملے کے بعد شروع ہوا۔ پہلی اسلامی حکومت کا آغاز چودھویںصدی کے آغاز میں اس وقت ہوا جب بدھ مت کے حکمران رنچن شاہ نے اسلام قبول کیا اور اسلامی نام صدر الدین اختیار کیا۔ پہلی باقاعدہ اسلامی حکومت کی بنیاد شاہ میر نے رکھی جو بعد میں سلطان شمس الدین کے لقب سے تخت نشین ہوا۔اس خاندان نے کشمیر پر لمبا عرصہ حکومت کی اور کشمیر کو اسلامی تشخص میں رنگ دیا جو آج تک کشمیر کی پہچان ہے۔

اس خاندان کے بعد 1555ء میں ایک اور مسلمان خاندان ’’چک‘‘ کی حکمرانی قائم ہوئی لیکن یہ خاندان اپنے اختلافات پر قابو نہ رکھ سکا چنانچہ صرف 31 برس بعد ہی 1586ء میں مغل بادشاہ اکبر نے کشمیر کو سلطنت مغلیہ کا حصہ بنا لیا۔ جب مغلیہ سلطنت روبہ زوال ہوئی تو احمد شاہ ابدالی کے پنجاب پر حملوں کے دوران 1752ء میں کشمیر افغانوں کے قبضے میں چلا گیا جو 1819ء تک قائم رہا۔ 67 برس پر محیط اس عہد کے بعد کشمیر پر رنجیت سنگھ کی فوجوں نے حملہ کر کے قبضہ کر لیا اور یوں کشمیر پر سکھوں کا تسلط قائم ہو گیا۔ سکھوں کا یہ عہد کشمیر کی تاریخ میں ظلم و سربریت کا سیاہ دور ہے۔ سکھ کشمیریوں سے نفرت کرتے تھے اور ان کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے تھے۔ اگر کوئی کشمیری کسی سکھ کے ہاتھوں قتل ہو جاتا تو قاتل کو صرف 16 سے 20 روپے تک جرمانہ کیا جاتا تھا۔ جس میں سے مقتول کے ورثاء کو 2 روپے ادا کر کے بقیہ رقم سرکاری خزانے میں جمع کرا دی جاتی تھی۔

1842ء میں جب سکھوں کو انگریزوں کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنا پڑا تو 9 مارچ1842ء کو فریقین میں معاہدۂ لاہور طے پایا۔ اس کے تحت کشمیر کا علاقہ انگریزوں کے حوالے کر دیا گیا جنھوں نے چند روز بعد اپنے ایک وفادار گلاب سنگھ ڈوگرہ کو 75لاکھ نانک شاہی سکوں کے عوض فروخت کر دیا۔ اس سلسلے میں ایک معاہدہ انگریزوں اور گلاب سنگھ ڈوگرہ کے درمیان بھی طے پایا جس کے تحت وادی کشمیر اور اردگرد کے علاقے اپنی آبادی اور تمام اسباب و وسائل کے ساتھ گلاب سنگھ ڈوگرہ کے حوالے کر دیے گئے۔ اسے ’’معاہدۂ امر تسر‘‘ کہا جاتا ہے۔
اقبال نے اس انسانیت سوز واقعہ کو یوں بیان کیا ہے:
دہقاں و کشت و جوئے و خیابان فروختند
قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند
ہر کشمیری کو صرف 7 سکوں کے عوض ڈوگرہ کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا جبکہ زمین رشک فردوس بریں 155 روپے فی مربع میل کے حساب سے پڑی۔ ڈوگرہ حکمران بھی اپنے پیشروئوں کی مانند مسلمانوں سے بے انتہا تعصب رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ دوپہر سے پہلے مسلمانوں کی شکل دیکھنا بھی گوارا نہ کرتے تھے۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو دوپہر سے پہلے کسی ڈوگرہ حکمران کے سامنے جانے کی اجازت نہ تھی۔ اس دور میں بھی مسلمانوں نے اس ظلم و ستم کے خلاف آواز بلند کی کہ جب مساجد کو اصطبلوں اور بارود خانوں کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا اور اذان دینے اور خطبہ پڑھنے پر پابندی تھی۔ پونچھ کے مسلمان لیڈروں سردار سبز علی خان اور ملی خان کی کھالیں زندہ ہی اتروا دی گئیں، محض اس جرم میں کہ وہ ڈوگرہ حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مزاحمت کرتے تھے۔

انھی مظالم کے باعث 1929ء میں سرینگر میںشیخ عبداللہ نے ریڈنگ روم پارٹی کے نام سے ایک تنظیم قائم کی۔ اسی زمانے میں جموں میں چودھری غلام عباس، اے آر ساغر اور دیگر چند ساتھیوں سے مل کر ’’ینگ مینز ایسوی ایشن‘‘ کی بنیاد رکھی۔ ینگ مینز نے بھی مسلمانوں کے حقوق کے لیے خاطر خواہ جدوجہد کی لیکن یہ دونوں تحریکیں تحریک آزادی کا روپ نہ دھار سکیں۔
1931ء میں بریلی کے علاقے میں ایک مسجد شہید کر دی گئی اور ایک پولیس اہلکار نے جان بوجھ کر قرآن پاک کی بے حرمتی کی۔ ان واقعات سے مسلمانوں میں غم و غصہ پھیلنے لگا اور وہ اس کا اظہار سڑکوں پر مظاہروں کی صورت میں کرنے لگے۔ پولیس نے بہت سے مظاہرین کو گرفتار کر لیا۔ جب ان کا مقدمہ عدالت میں چلا تو بہت سے مظاہرین عدالت کے باہر جمع ہوئے اور کارروائی سننے پر زور دیا۔ پولیس نے ان مظاہرین پر گولی چلائی اور یوں 13 جولائی 1931ء کو 27 افراد شہید اور بے شمار زخمی ہوئے۔ ان واقعات کی خبر ہندوستان کے طول و عرض میں پھیل گئی اور مسلمانوں میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ انھی حالات کے باعث کشمیر کے مسلمانوں میں اتحاد کی فضا ابھری اور 14 اگست 1931ء کو پہلی بار جموں میں کشمیر ڈے منایا گیا۔
یہ بھی حسن اتفاق تھا کہ ٹھیک 16 سال بعد اسی دن پاکستان آزاد ہوا۔ بہرحال ان واقعات کے ہندوستان بھر میں پھیلنے کے بعد مسلمانوں میں اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کا جذبہ شدومد سے پیدا ہواجو کہ آج بھی زندہ ہے۔ اس وقت اکتوبر1931ء میں پورے پنجاب میں چلو چلو کشمیر چلو کی صدائیں گونجنے لگیں۔ اس موقع پر برطانوی حکومت نے مداخلت کی اور ڈوگرہ راج کے مظالم کو روکنے کا کہا گیا۔ یوں یہ تحریک بھی تحریک آزادی کی مکمل شکل نہ اختیار کر سکی۔ انھی دنوں 1933ء میں سرینگر پتھر مسجد میں جموں و کشمیر ’’مسلم کانفرنس‘‘ کی بنیاد رکھی گئی۔

یہ تحریکیں اگرچہ تحریک آزادی کی شکل اختیار نہ کر سکیں لیکن اس کے باوجود ان تحریکوں کے باعث مسلمانوں میں ایک بیداری کی لہراٹھی تھی اور وہ منظم ہو رہے تھے۔ یہ سب دیکھ کر ہندوئوں کو شدید تکلیف ہوئی چنانچہ انھوں نے بھی ہندو انتہا پسند تنظیم راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کو کشمیر میں دعوت دی کہ وہ یہاں اپنے اڈے قائم کرے۔ چنانچہ 1934ء میں آر ایس ایس نے اپنا کام شروع کر دیا اور جابجا اس تنظیم کے مراکز کھل گئے۔ یہ مراکز بظاہر ورزش گاہ اور اکھاڑے کی مانند تھے کہ جہاں ہندو نوجوان جسمانی ورزشیں کرتے تھے لیکن درحقیقت یہ ریاست کی ہندو اقلیت کو مسلمانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی تربیت فراہم کرنے کے مراکز تھے۔ یہی مراکز بعد ازاں مسلمانوں کے خلاف منظم مظالم اور قتل عام کے لیے استعمال کیے گئے۔

ایک طرف وادی کشمیر میں ڈوگرہ رائے کے خلاف کاوشیں جاری تھیں جبکہ دوسری طرف ہندوستان بھر میں تحریک آزادی کو ایک نیا رخ مل چکا تھا۔ علامہ محمد اقبالa کی طرف سے ایک الگ وطن کا نظریہ پیش کیا جا چکا تھا۔ برصغیر میں جوں جوں مطالبہ پاکستان زور پکڑتا گیا ریاست میں بھی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت کی حیثیت سے مسلم کانفرنس کا پلہ بھی اسی رفتار سے بھاری ہوتا گیا۔

3 جون 1947ء میں جب تقسیم ہند کا فارمولا منظور ہوا تو برصغیر کی 562 ریاستوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ اپنی جغرافیائی اور معاشیاتی حقائق کے پیش نظر اپنی اپنی آبادی کی خواہشات کے مطابق بھارت یا پاکستان سے الحاق کر لیں۔ ریاست جموں و کشمیر کی 80 فیصد آبادی مسلمانوں پر مشتمل تھی اس کی 600میل لمبی سرحدپاکستان سے ملتی تھی۔ ریاست کی واحد ریلوے لائن سیالکوٹ سے گزرتی تھی اور بیرونی دنیا کے ساتھ ڈاک اور تار کا نظام بھی پاکستان سے جڑا تھا۔ ریاست کی دونوں پختہ سڑکیں راولپنڈی اور سیالکوٹ سے گزرتی تھیں۔ ان سب حقائق کے پیش نظر ریاست جموں و کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق لازمی طور پر ایک قدرتی اور منطقی فیصلہ ہونا چاہیے تھا لیکن مہا راجہ ہری سنگھ اور کانگریسی لیڈروں کے عزائم اس فیصلہ کے بالکل برعکس تھے۔ مقاصد کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے انھوں نے لارڈ مائونٹ بیٹن کے ساتھ مل کر سازش کا جال بنا جس کے پھندے میں مقبوضہ ریاست کے بے بس اور مظلوم باشندے آج تک بری طرح گرفتار ہیں۔

جب 14 اگست 1947ء کو تقسیم ہند کے منصوبے کا اعلان ہوا تو ریڈ کلف نے و اضح طور پر جانبداری کا مظاہرہ کیا اور ناانصافی پر مبنی کئی فیصلے کیے۔ ان سب میں وادی کے حوالے سے اہم یہ تھا کہ گور داسپور کا علاقہ جو مسلم اکثریت کا حامل تھا اسے بھارت کے ساتھ شامل کر دیا گیا تاکہ بھارت کو ریاست تک پہنچنے کا زمینی راستہ دیا جا سکے۔ مہاراجہ بھی پہلے ہی یہ سازباز کانگریسی لیڈروں کے ساتھ کر چکا تھا۔ لیکن اس بات کی خبر جب غیور کشمیری باشندوں کو ہوئی تو انھوں نے طے کیا کہ وہ ڈوگرہ راج سے لڑیں گے اور ریاست کا الحاق پاکستان سے کروائیں گے۔ لیکن ا س سے قبل ڈوگرہ فوج نے صوبہ جموں میں مسلمان اکثریت کو ختم کرنے کا منصوبہ بنایا اور مسلمانوں کے قتل عام اور ریاست بدری کا طریقہ کار اپنایا گیا۔ چنانچہ اس وقت جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور بہت سوں کو اغوا کر لیا گیا۔ بہت سی عورتیں جنھیں پاکستان لے جانے کا کہہ کر ٹرکوں میں بٹھایا گیا، وہ آر ایس ایس کے غنڈوں کے حوالے کر دی گئیں۔ جنھوں نے ان کی عصمت دری کی اور بعد ازاں انھیں قتل کر دیا۔ یوں جموں میں لاکھوں مسلمانوں کو قتل کیا گیا۔

جموں کے بعد مہاراجہ کو پونچھ کی فکر سوجھی۔ پونچھ میں 95 فیصد مسلمان تھے۔ یہاں بہت سے ریٹائرڈ فوجی بھی تھے۔ ان تک جب مسلمانوں کے قتل عام کی اطلاع پہنچی تو یہ فوراً لڑنے کا تیار ہو گئے۔ یہاں سردار عبدالقیوم نے دھیر کوٹ سے گوریلا جنگ کا آغاز کیا۔ وادی کے لوگوں نے عورتوں او ربچوں کو پاکستان منتقل کرنا شروع کیا اور خود سر پر کفن باندھ کر ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کر دیا۔ چنانچہ راولاکوٹ، وادی جہلم اور بہت سے علاقوں سے ڈوگرہ فوج فرار ہو گئی۔

کشمیر کے لوگوں کی رشتہ رادیاں افغانوں اور پٹھانوں کے محسود اور دیگر قبائل سے تھیں۔ عورتیں اور بچے جب وہاں پہنچے تو ان پر ظلم کی داستانیں سن کر ان کے خون کھول اٹھے۔ چنانچہ ان علاقوں سے لشکروںکے لشکر کشمیر کی طرف روانہ ہوئے۔ چنانچہ چند ہی دنوں میں مظفر آباد اور ایبٹ آباد کے درمیان ہٹ راوی کے جنگل میں ایک بڑا لشکر جمع ہو گیا۔ خورشید انور نے اس لشکر کی کمان سنبھالی اور انھوںنے ڈوگرہ فوج سے لڑنا شروع کیا۔ چنانچہ مظفر آباد، کوٹلی، راولاکوٹ اور موجودہ آزاد کشمیر کو نہ صرف ڈوگرہ بلکہ ہندوستانی فوج سے بھی آزاد کروا لیا گیا۔ کیونکہ مہاراجہ اس وقت بھارت فرار ہوچکا تھا۔اس نے بھارت سے مدد مانگی تھی۔ بھارت نے اس شرط پر مدد فراہم کی کہ وہ الحاق کی دستاویزات پر دستخط کر ے۔ مہاراجہ نے فوراً حامی بھر لی چنانچہ بھارتی فوجیں بھی سرینگر اور وادی کے دیگر حصوں میں پہنچنا شروع ہو گئیں تھیں۔

یوں جو حصہ مجاہدین نے آزاد کرواا لیا وہ آزاد کشمیر کہلایا جبکہ باقی ماندہ کشمیر پر بھارت نے اپنا غاصبانہ قبضہ جما لیا۔ چونکہ بھارت اپنی گھنائونی کارروائیوں سے واقف تھا سو اس نے دنیا کے سامنے یہ اعلان کرنا شروع کیا کہ کشمیر کا بھارت کے ساتھ الحاق محض عار ضی اور وقتی ہے۔ الحاق کا حتمی فیصلہ جموں و کشمیر کے باشندوں کی آزادانہ، منصفانہ اور غیر جانبدازنہ رائے شماری کے ذریعے کرا یا جائے گا۔ اس بات کا اعلان پنڈت جواہر لعل نہرو نے کیا۔ چنانچہ اقوام متحدہ میں بھارت کی طرف سے دائر کردہ جنگ بندی کی اپیل منظور کر لی گئی اور بھارت نے اقوام متحدہ میں قرار داد پیش کی کہ کشمیر کا فیصلہ استصواب رائے سے کیا جائے گا اور انھیں حق خودارادیت دیا جائے گا۔ یوں 15اگست 1948ء کو اقوام متحدہ میں قرار داد حق خود ارادیت منظور کی گئی لیکن بھارت آج تک اس پر عمل کرنے سے گریزاں ہے اور مسلسل عذر تراشیوں بلکہ ہٹ دھرمی سے کام لے رہا ہے۔

تقسیم ہند کے بعدبھی کشمیریوں نے اپنی جدوجہد آزادی کو جاری رکھا اور اس میں حالات کے مطابق عروج و زوال آتے رہے۔ 1966 ء میں محمد مقبول بٹ نے نیشنل لبریشن فرنٹ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد بھی کشمیریوں کو آزادی دلوانا تھا۔ سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تحریک آزادی کشمیر کو ایک نئی جہت ملی۔ یہاں بھی گوریلا جنگ کا آغاز ہو ااور بہت سے مسلح آزادی کی تنظیمیں وجود میں آئیں اور1990ء میں تحریک آزادی کشمیر میںبہت تیزی آئی۔ دوسری طرف بھارت سرکار اور فوج نے اس تحریک کو دبانے کے لیے ہر طرح کے مظالم اختیار کیے اور ہلاکو و چنگیز خان کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا۔ 1999ء میں جب کارگل کے مقام پر جنگ چھڑی تب بھی مسئلہ کشمیر حل ہونے کے قریب تھا لیکن بھارت نے ایک بار پھر اقوام متحدہ میں جنگ بندی کی دہائی دی جس کو پاکستان نے مان لیا اور یوں تب بھی مسئلہ کشمیر حل نہ ہو سکا۔

9/11 کے بعد جب دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کا آغاز کیا گیا اور امریکہ افغانستان میں آیاتو بھارت نے خطے میں اس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے۔ جس کے باعث تحریک آزادی کشمیر کمزور ہوئی لیکن وہ مکمل طور پر ختم نہ کی جا سکی۔ اس کے مظاہر وقتاً فوقتاً ہمیں دیکھنے کو ملتے رہے۔

آج بھی کشمیریوں کے حوصلے اسی طرح بلند ہیں اور بھارت سے حد درجہ بیزاراور آزادی کے اسی قدر متوالے ہیں جس قدر ان کے آبائو اجداد تھے۔ اس کی واضح مثالیں کشمیر میں بھارتی افواج پر ہونے والے حملے اور بھارت کے یوم جمہوریہ کو ایک بار پھر یوم سیاہ کے طور پر منانے جیسے اقدامات ہیں۔ اسی طرح 5 فروری کو دنیا بھر میں کشمیریوں اور اہل اسلام نے مظاہروں، جلسے جلوسوں کے ذریعے کشمیر سے یکجہتی کا ثبوت دیا۔ کشمیریوں نے ایک بار پھر پوری دنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم ہر صورت بھارت سے آزادی حاصل کر کے رہیں گے اور پاکستان سے الحاق ہی کشمیریوں کی منزل ہے۔


متعلقہ خبریں


حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گرا دی وجود - هفته 18 مئی 2024

حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گرا دی ، قیمت میں مزید ایک روپے 47 پیسے اضافے کی منظوری دے دی گئی۔نیپرا ذرائع کے مطابق صارفین سے وصولی اگست، ستمبر اور اکتوبر میں ہو گی، بجلی کمپنیوں نے پیسے 24-2023 کی تیسری سہ ماہی ایڈجسمنٹ کی مد میں مانگے تھے ، کیپسٹی چارجز کی مد میں31ارب 34 ک...

حکومت نے ایک بار پھر عوام پر بجلی گرا دی

واجبات ، لوڈشیڈنگ کے مسائل حل کریں،وزیراعلیٰ کے پی کا وفاق کو 15دن کا الٹی میٹم وجود - هفته 18 مئی 2024

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے وفاقی حکومت کو صوبے کے واجبات اور لوڈشیڈنگ کا مسئلہ حل کرنے کے لیے 15دن کا وقت دے دیا۔صوبائی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈا پور نے کہا کہ آپ کا زور کشمیر میں دیکھ لیا،کشمیریوں کے سامنے ایک دن میں حکومت کی ہوا نکل گئی، خیبر پخ...

واجبات ، لوڈشیڈنگ کے مسائل حل کریں،وزیراعلیٰ کے پی کا وفاق کو 15دن کا الٹی میٹم

اڈیالہ جیل میں سماعت ، بشری بی بی غصے میں، عمران خان کے ساتھ نہیں بیٹھیں وجود - هفته 18 مئی 2024

اڈیالہ جیل میں 190 ملین پائونڈ کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی شدید غصے میں دکھائی دیں جبکہ بانی پی ٹی آئی بھی کمرہ عدالت میں پریشان نظر آئے ۔ نجی ٹی و ی کے مطابق اڈیالہ جیل میں بانی پاکستان تحریک انصاف کے خلاف 190 ملین پائونڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی جس سلسلے می...

اڈیالہ جیل میں سماعت ، بشری بی بی غصے میں، عمران خان کے ساتھ نہیں بیٹھیں

اداروں کے کردارکا جائزہ،پی ٹی آئی کاجوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ وجود - هفته 18 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف نے انتخابات میں اداروں کے کردار پر جوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کرانے کا مطالبہ کردیا۔ ایک انٹرویو میں قائد حزب اختلاف عمر ایوب نے کہا کہ متحدہ قومی موومنٹ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن)نے فارم 47 کا فائدہ اٹھایا ہے ، لہٰذا یہ اس سے پیچھے ہٹیں اور ہماری چوری ش...

اداروں کے کردارکا جائزہ،پی ٹی آئی کاجوڈیشل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کا مطالبہ

پی آئی اے کی نجکاری ، 8کاروباری گروپس کی دلچسپی وجود - هفته 18 مئی 2024

پاکستان انٹر نیشنل ایئر لائن(پی آئی اے ) کی نجکاری میں اہم پیش رفت ہوئی ہے اور مختلف ایئرلائنز سمیت 8 بڑے کاروباری گروپس کی جانب سے دلچسپی ظاہر کرتے ہوئے درخواستیں جمع کرادی ہیں۔پی آئی اے کی نجکاری میں حصہ لینے کے خواہاں فلائی جناح، ائیر بلیولمیٹڈ اور عارف حبیب کارپوریشن لمیٹڈ سم...

پی آئی اے کی نجکاری ، 8کاروباری گروپس کی دلچسپی

لائنز ایریا کے مکینوں کا بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج وجود - هفته 18 مئی 2024

کراچی کے علاقے لائنز ایریا میں بجلی کی طویل بندش اور لوڈشیڈنگ کے خلاف احتجاج کیا گیا تاہم کے الیکٹرک نے علاقے میں طویل لوڈشیڈنگ کی تردید کی ہے ۔تفصیلات کے مطابق شدید گرمی میں بجلی کی طویل لوڈشیڈنگ کے خلاف لائنز ایریا کے عوام سڑکوں پر نکل آئے اور لکی اسٹار سے ایف ٹی سی جانے والی س...

لائنز ایریا کے مکینوں کا بجلی کی بندش کے خلاف احتجاج

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

جمعیت علمائے اسلام کے امیر مولانا فضل الرحمٰن نے پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا۔بھکر آمد پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انتخابات میں حکومتوں کا کوئی رول نہیں ہوتا، الیکشن کمیشن کا رول ہوتا ہے ، جس کا الیکشن کے لیے رول تھا انہوں نے رول ...

مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کا اشارہ دے دیا

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم وجود - جمعه 17 مئی 2024

وزیراعظم محمد شہبازشریف نے کہا ہے کہ آزاد کشمیر میں احتجاجی تحریک کے دوران شر پسند عناصر کی طرف سے صورتحال کو بگاڑنے اور جلائو گھیرائوں کی کوششیں ناکام ہو گئیں ، معاملات کو بہتر طریقے سے حل کر لیاگیا، آزاد کشمیر کے عوام پاکستان کے ساتھ والہانہ محبت کرتے ہیں، کشمیریوں کی قربانیاں ...

شر پسند عناصر کی جلائو گھیراؤ کی کوششیں ناکام ہوئیں ، وزیر اعظم

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی وجود - جمعه 17 مئی 2024

ہائی کورٹ کے جج جسٹس محسن اختر کیانی نے شاعر احمد فرہاد کی بازیابی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے ہیں کہ میری رائے ہے کہ قانون سازی ہو اور گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، اصل بات وہی ہے ۔ جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے مقدمے کی سم...

گمشدگیوں میں ملوث افراد کو پھانسی دی جائے ، جسٹس محسن اختر کیانی

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے وجود - جمعه 17 مئی 2024

رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا ہے کہ جج کے پاس وہ طاقت ہے جو منتخب وزیراعظم کو گھر بھیج سکتے ہیں، جج کے پاس دوہری شہریت بہت بڑا سوالیہ نشان ہے ، عدلیہ کو اس کا جواب دینا چاہئے ۔نیوز کانفرنس کرتے ہوئے رہنما ایم کیو ایم مصطفی کمال نے کہا کہ کیا دُہری شہریت پر کوئی شخص رکن قومی...

جج کی دُہری شہریت، فیصل واوڈا کے بعد مصطفی کمال بھی کودپڑے

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام وجود - جمعه 17 مئی 2024

شکارپور میں کچے کے ڈاکو2مزید شہریوں کواغوا کر کے لے گئے ، دونوں ایک فش فام پر چوکیدرای کرتے تھے ۔ تفصیلات کے مطابق ضلع شکارپور میں بد امنی تھم نہیں سکی ہے ، کچے کے ڈاکو بے لگام ہو گئے اور مزید دو افراد کو اغوا کر کے لے گئے ہیں، شکارپور کی تحصیل خانپور کے قریب فیضو کے مقام پر واقع...

شکار پور میں بدامنی تھم نہ سکی، کچے کے ڈاکو بے لگام

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا وجود - جمعه 17 مئی 2024

سندھ کے سینئروزیرشرجیل انعام میمن نے کہاہے کہ بانی پی ٹی آئی کی لائونچنگ، گرفتاری، ضمانتیں یہ کہانی کہیں اور لکھی جا رہی ہے ،بانی پی ٹی آئی چھوٹی سوچ کا مالک ہے ، انہوں نے لوگوں کو برداشت نہیں سکھائی، ہمیشہ عوام کو انتشار کی سیاست سکھائی، ٹرانسپورٹ سیکٹر کو مزید بہتر کرنے کی کوشش...

اورنج لائن بس کی شٹل سروس کا افتتاح کر دیا گیا

مضامین
اُف ! یہ جذباتی بیانیے وجود هفته 18 مئی 2024
اُف ! یہ جذباتی بیانیے

اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟ وجود هفته 18 مئی 2024
اب کی بار،400پار یا بنٹا دھار؟

وقت کی اہم ضرورت ! وجود هفته 18 مئی 2024
وقت کی اہم ضرورت !

دبئی لیکس وجود جمعه 17 مئی 2024
دبئی لیکس

بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟ وجود جمعه 17 مئی 2024
بٹوارے کی داد کا مستحق کون؟

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر