وجود

... loading ...

وجود
وجود

مسئلہ کشمیر کا مستقل حل بھارتی حکومت نکالے گی یا فوجی جنرل ؟؟

اتوار 04 جون 2017 مسئلہ کشمیر کا مستقل حل بھارتی حکومت نکالے گی یا فوجی جنرل ؟؟


تصور کریں کہ ٹی وی اینکر کسی فوجی افسر سے پوچھے کہ آپ کے علاقے میں سرحد پار سے دراندازی ہوئی تو آپ نے اسے روکا کیوں نہیں؟اس کے بعد آٹھ کھڑکیوں میں بیٹھے طرح طرح کے لوگ ایک ساتھ چلانے لگیں۔ اگر آگے چل کر ایسا ہوا تو تعجب کی بات نہیں ہوگی۔اس سمت میں بڑھنے کا آغاز 15 جنوری 2017 ء کو ملٹری ڈے کے موقع پر ہی ہو گیا تھا جب آرمی چیف جنرل بپن راوت نے دوردرشن اور ریڈیو سے ملک کے عوام کو براہ راست خطاب کیا تھا۔ اسے جمہوری بھارت کی تاریخ کا ’ٹرننگ پوائنٹ‘ کہا جانا چاہیے۔23 مئی 2017 ، آزاد بھارت میں پہلی بار کسی میجر سطح کے افسر نے پریس کانفرنس کی۔ میجر گوگوئی نے بتایا کہ انہوں نے ایک کشمیری کو جیپ پر کیوں باندھا تھا۔ یہ پریس کانفرنس جمہوری حکومت کی رضامندی سے ہوئی۔اس کے بعد جنرل راوت نے 28 مئی کو پریس ٹرسٹ آف انڈیا کو دیے گئے انٹرویو میں کہا کہ ’کشمیر میں لوگ پتھر پھینکنے کے بدلے گولیاں چلاتے تو ہمارے لیے اچھا رہتا، پھر ہم بھی وہ کر پاتے جو ہم کرنا چاہتے ہیں۔‘
اس سے چند روز قبل ملک کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا تھا کہ ’وہ مسئلہ کشمیر کا مستقل حل نکالیں گے‘۔ کیا جس مستقل حل کی وہ بات کر رہے تھے وہ جنرل نکالیں گے یا حکومت نکالے گی؟ کشمیر جیسے سیاسی مسئلے پر کسی جنرل کے بولنے پر حکومت کو کافی غیر آرام دہ محسوس کرنا چاہیے تھا۔ہندوستانی فوج سیاسی طور پر نیوٹرل آرمی رہی ہے، حکومت کے ساتھ اس کا ایسا تعلق پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔ ایسا لگنے لگا ہے کہ مودی حکومت فوج کی طاقت اورحب الوطنی دونوں کو اپنی سیاسی طاقت بنانے میں مصروف ہے۔کہانی کچھ اس طرح بنتی جا رہی ہے، مودی حکومت فوج کے ساتھ ہے اور فوج مودی حکومت کے ساتھ۔ پہلی بار حکومت فوج کے ساتھ ایک طرح کا اتحاد بنانے کی کوشش کرتی نظر آرہی ہے۔بھارت میں فوج وہ ادارہ ہے جس کی شبیہہ عوام کی نظروں میں بہت بہتر ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ حکومت دکھانا چاہتی ہے کہ اسے فوج کی حمایت حاصل ہے۔اگر قوم پرستی صرف سیاسی نہیں ہوتی تو ملک میں ایک فل ٹائم وزیر دفاع ہوتا۔ مارچ میں منوہر پاریکر کے گوا کا وزیر اعلیٰ بننے کے بعد سے ارون جیٹلی پارٹ ٹائم وزیر دفاع کی طرح کام کر رہے ہیں۔ پہلے ہی ان پر بھاری بھرکم وزارت خزانہ کی ذمہ داری ہے۔جو کام اب تک ملک کا وزیر دفاع یا ترجمان کرتے رہے ہیں وہ اب فوج کے جنرل اور میجر کے حوالے کر دیا گیا ہے۔
کارگل کی لڑائی کے وقت کے آرمی چیف جنرل وی پی ملک نے برطانوی خبررساں ادارے سے بات چیت میں میجر گوگوئی کی پریس کانفرنس کو غلط قرار دیا۔انہوں نے کہا ’کشمیر جیسے سیاسی اور پیچیدہ مسئلے پر بولنا جنرل کا ذاتی فیصلہ نہیں ہو سکتا، اس کے پیچھے ایک سوچی سمجھی پالیسی کام کر رہی ہے۔ اس سے پہلے جنرل تو کیا، دونوں شعبوں کے مارشل کریپپا اور مانیک شانے بھی کبھی سیاسی امور پر منہ نہیں کھولا۔‘
جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ نے 1971ء کی جنگ جیتنے کے بعد، جنرل سندرجی نے آپریشن بلیو سٹار کے بعد یا جنرل ملک نے کارگل کی جنگ کے بعد بھی پریس کانفرنس کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی۔
اب تک کے انٹرویوز اور پریس کانفرنس ’ٹوٹلی مینیجڈ‘ یعنی مکمل طور پر کنٹرولڈ تھے۔ اس کی عادت اور ٹریننگ نہ ہونے کے باوجود فوجی افسر اپنی بات کہہ کر نکل تو گئے لیکن اس نے فوج کو نیچے اتار کر عوام کے درمیان لا کھڑا کیا ہے۔بھارت ماتاکی تمام حکومتیں میڈیا میں شبیہہ کی لڑائیاں لڑتی رہی ہیں لیکن اس حکومت نے جنگ میں فوج کو اتارنے کا فیصلہ کیا ہے۔ان دنوں تعلیم، ثقافت سے لے کر فوج تک، ہر جگہ ’نئے تجربے‘ کیے جا رہے ہیں۔ پوچھنے والے معصومیت سے پوچھتے ہیں کہ ’اس میں کیا غلط ہے؟‘
جمہوری طریقے سے ملک چلانے کے کچھ اصول ہیں۔ ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ فوج کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رکھا جائے لیکن قوم پرستی کو سیاسی مسئلہ بنانے والی حکومت کو اس سے پرہیز نہیں ہے۔جو فوج بحث مباحثے کا موضوع نہ ہوکر، احترام کی مستحق تھی وہ ’میرا ملک بدل رہا ہے‘ کی منصوبہ بندی کے تحت ٹی وی چینلز پر جنگ لڑنے کے لیے اتاری جا رہی ہے۔کسی بھی جمہوریت میں ہر سرگرمی بنیادی طور سیاسی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’شہری‘ اور ’سروس مین‘ کا فرق بالکل صاف رہا ہے۔بھارت میں یہ بات واضح رہی ہے کہ تینوں افواج کا کمانڈر ان چیف صدر مملکت ہے، وزیر دفاع فوج کی سرگرمیوں کے لیے جوابدہ ہے اور فوج جمہوری طور پر منتخب حکومت کے تابع کام کرتی ہے۔
سنجیدہ وجوہات کے سبب یہ ایک ایسا رسمی نظام ہے پر جس پر اس حکومت سے پہلے تک عمل ہوتا رہا ہے۔ مودی حکومت کا وزیر دفاع یا ان کا ترجمان عوام سے فوج کے بارے میں بات کرتا ہے، اور فوج صرف غیر ملکی دشمنوں سے ملک کی حفاظت کی ذمہ داری اٹھاتی ہے۔لوگوں کی رائے بنانے اور اسے بگاڑنے میں ٹی وی چینلز کے کردار اور ملک کے شہریوں سے لڑنے کے لیے فوج کا اتارا جانا، یہ دو ایسی چیزیں ہیں جنہوں نے حالات کو اور دلچسپ بنا دیا ہے۔ ایسے میں حکومت پر جس ذمہ داری کی توقع کی جاتی ہے وہ نظر نہیں آرہی ہے۔
2017 ء کے مئی کو بھی بھلانا مشکل ہوگا۔

فوج کے ایک میجر نے کشمیر میں ایک نوجوان کو اپنی جیپ کے بونٹ سے باندھ کر گھمایا، اسے انسانی ڈھال کی طرح استعمال کیا، میجر کا دعویٰ ہے کہ وہ انتخابی عملے اور اپنے جوانوں کی جانیں بچا رہے تھے۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ اس نوجوان کے انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوئی ہے اور فوج کو میجر کے خلاف کارروائی کرنی چاہیے۔لیکن فوج کے سربراہ جنرل بپن راوت نے اس میجر کو ایک فوجی اعزاز سے نوازا ہے اور اب ایک غیر معمولی انٹرویو میں کہا ہے کہ کشمیر میں فوج ایک ’گندی جنگ‘ لڑ رہی ہے اور اسے ’انوویٹو‘ یا غیر روایتی طریقوں کا سہارا لینا ہوگا۔انہوں نے بنیادی طور پر تین چار اہم باتیں کہی ہیں جن پر بحث شروع ہوگئی ہے اور آسانی سے ختم نہیں ہوگی کیونکہ ان کے بیانات سے فوج کو یہ اشارہ ملتا ہے کہ اس کی اعلیٰ قیادت کن خطوط پر سوچ رہی ہے۔میجر کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ: ’انہیں کس بات کی سزا دیں؟‘میجر کے خلاف انکوائری مکمل ہونے سے قبل ہی انہیں اعزاز دینے کا مقصد نوجوان افسران کا حوصلہ بلند کرنا تھا جو مشکل حالات میں کام کر رہے ہیں۔’لوگ ہمارے اوپر پتھر، پیٹرول بم بھینک رہے ہیں۔ کیا میں ان سے (اپنے افسران سے) کہوں کہ وہ مرنے کا انتظار کریں؟‘
اس انٹرویو پر اخبار ہندوستان ٹائمز نے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ ’جنرل کا نظریہ غلط ہے۔‘اخبار کے مطابق جنرل راوت کے اس بیان سے جوانوں کا حوصلہ بلند ہونے کے بجائے فوج کے امیج کو نقصان پہنچے گا اور وادی کی صورتحال مزید خراب ہوگی۔اخبار نے یہ بھی لکھا ہے کہ اس ایک افسر کا دفاع کرنا جس نے بظاہر انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے، احتیاط برتنے والے ان ہزاروں افسران کو یہ پیغام دینے کے مترادف ہے کہ ان کی احتیاط غیر ضروری ہے۔’سینا ٹھوکنے والے کاغذی قوم پرستوں کی بات الگ ہے، لیکن فوج کے سربراہ کی جانب سے اس پیغام کے خطرناک مضمرات ہو سکتے ہیں۔‘جنرل راوت کا بیان پڑھ کر ہاشم پورہ اور ملیانا کی خونریزی یاد آگئی۔ پہلے جب لوگ ڈرتے تھے تو فوج کا انتظار کرتے تھے، اب بظاہر پیغام ذرا مختلف ہے۔سیاسی مبصر پرتاپ بھانو مہتا کا کہنا ہے کہ فوج کو سامنے سے پتھر پھینکنے والے ہجوم کے مقابلے میں (فوج کے) پیچھے کھڑے ہوکر نعرے لگانے والے ہجوم سے خطرہ زیادہ ہے۔
راجیش پریادرشی


متعلقہ خبریں


عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پی ٹی آئی کے بانی عمران خان نے اپنی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ اور دیگر سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت دے دی۔پاکستان تحریک انصاف اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کے لیے آمادہ ہے، تحریک انصاف کے رہنما شبلی فراز نے عمران خان کی جانب سے مذاکرات کی اجازت دیے جانے کی تصدیق ک...

عمران خان کا پارٹی قیادت کوگرین سگنل، اسٹیبلشمنٹ، سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کی اجازت

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

امریکا کی مختلف جامعات میں فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف مظاہروں میں گرفتار طلبہ اور اساتذہ کی تعداد ساڑھے پانچ سو تک جا پہنچی ۔ کولمبیا یونیورسٹی نے صیہونیوں کیخلاف نعروں پر طلبہ کو جامعہ سے نکالنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ صہیونی ریاست کیخلاف احتجاج آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گئے ۔ سڈن...

اسرائیل کیخلاف احتجاج،امریکا سے آسٹریلیا کی جامعات تک پھیل گیا

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم وجود - اتوار 28 اپریل 2024

سپریم کورٹ کراچی رجسٹری نے کراچی تجاوزات کیس کا تحریری حکم نامہ جاری کردیاہے۔سپریم کورٹ نے ملک بھر سے سڑکوں اور فٹ پاتھوں سے تجاوزات ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔حکم نامے کی کاپی اٹارنی جنرل، تمام ایڈووکیٹ جنرلز اور تمام سرکاری اداروں کو بھیجنے کا حکم دیا گیا ہے۔پیمرا کو اس ضمن میں ...

سڑکوں، فٹ پاتھوں سے تجاوزات 3دن میں ختم کرنے کا حکم

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی پولیس کا اسپیشلائزڈیونٹ مسروقہ گاڑیاں برآمد کرنے میں ناکام ہو گیا ہے، اے وی ایل سی کی جانب سے شہریوں کی مسروقہ گاڑیوں کو برآمد کرنے میں روایتی سستی کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔کراچی کے علاقے گلشن حدید میں اینٹی وہیکل لفٹنگ سیل(اے وی ایل سی)گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی ...

اے وی ایل سی گاڑی چوروں کی سہولت کار بن گئی،شہری ٹریکر لگی گاڑیاں خود تلاش کرنے لگے

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا وجود - اتوار 28 اپریل 2024

کراچی میں ناکے لگا کر شہریوں کے چالان کرنا ٹریفک پولیس اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا۔تفصیلات کے مطابق ڈی آئی جی ٹریفک پولیس احمد نواز نے ٹریفک پولیس اہلکاروں کی جانب سے غیر قانونی چیکنگ پر ایکشن لے لیا۔ڈی آئی جی نے ایس او محمود آباد اور ریکارڈ کیپر سمیت 17افسران و اہلکاروں کو معطل ...

کراچی ، ناکے لگا کر چالان کرنا ٹریفک اہلکاروں کو مہنگا پڑ گیا

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ وجود - اتوار 28 اپریل 2024

آئی جی سندھ غلام نبی میمن کی ہدایت پر ضلع شکارپور سے کراچی رینج میں تبادلہ کیے جانے والے پولیس افسران کے خلاف شوکاز نوٹس جاری کردیے گئے ہیں۔آئی جی سندھ غلام نبی میمن کے مطابق اِن اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائیگی۔ترجمان پولیس کے مطابق اہلکاروں کے خلاف ملزمان کے سات...

شکارپور اہلکاروں کو کراچی میں کوئی پوسٹنگ نہیں دی جائے گی، آئی جی سندھ

سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا،گاڑی نذر آتش وجود - اتوار 28 اپریل 2024

وزیرستان میں تعینات سیشن جج شاکر اللہ مروت کو نامعلوم افراد نے اغوا کرلیا جبکہ وزیراعلی نے نوٹس لے کر آئی جی کو بازیاب کرانے کی ہدایت جاری کردی۔تفصیلات کے مطابق سیشن جج وزیرستان کو ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگم سے نامعلوم افراد نے اسلحے کے زور پر اغوا کیا اور اپنے ہمراہ لے گ...

سیشن جج وزیرستان کو مسلح افراد نے اغوا کر لیا،گاڑی نذر آتش

پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات، شبلی فراز، شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پاکستان تحریک انصاف میں پبلک اکانٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ کے لیے پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات شدت پکڑتے جارہے ہیں۔تفصیلات کے مطابق چیئرمین پبلک اکانٹس کمیٹی کی تقرری کے معاملے پر تحریک انصاف کے رہنمائوں میں اختلافات اب منظر عام پر آگئے ہیں۔پی ٹی آئی رہنما اور سینیٹر شبلی فرا...

پی ٹی آئی میں پارٹی رہنمائوں کے درمیان اختلافات، شبلی فراز، شیر افضل مروت آمنے سامنے آگئے

پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد وجود - اتوار 28 اپریل 2024

پاکستان مسلم لیگ (ن)کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ تحریک انصاف اسٹیبشلمنٹ سے مذاکرات کا مطلب اور خواہش پوری کرلے جبکہ پاکستان پیپلزپارٹی کے رہنما نے کہا ہے کہ تحریک انصاف ایک بار پھر فوج کو سیاسی میں دھکیل رہی ہے۔تحریک انصاف کے بانی چیئرمین کی جانب سے پا...

پی ٹی آئی فوج کو دوبارہ سیاست میں دھکیل رہی ہے، حکومتی اتحاد

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ وجود - هفته 27 اپریل 2024

مسلم لیگ (ن) پنجاب کے تنظیمی اجلاس میں پارٹی قائد نوازشریف کو پارٹی صدر بنانے کے حق میں متفقہ قرارداد منظور کرلی گئی جبکہ مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ خاں نے کہاہے کہ (ن) لیگ پنجاب کے اجلاس کی تجاویز نواز شریف کو چین سے وطن واپسی پر پیش کی جائیں گی،انکی قیادت میں پارٹ...

نون لیگ میں کھینچا تانی، شہباز شریف کو پارٹی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان وجود - هفته 27 اپریل 2024

سندھ حکومت نے ٹیکس چوروں اور منشیات فروشوں کے گرد گہرا مزید تنگ کردیا ۔ ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شایع کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا۔منشیات فروشوں کے خلاف جاری کریک ڈائون میں بھی مزید تیزی لانے کی ہدایت کردی گئی۔سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔جس میں شرج...

ٹیکس چوروں کے نام اخبارات میں شائع کرانے کا فیصلہ، سندھ حکومت کا اہم اعلان

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار وجود - هفته 27 اپریل 2024

بھارتی ہندو انتہا پسند سیاسی جماعت بی جے پی کے کٹھ پتلی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بڑھتے خدشات کے پیش نظر بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار ہیں۔مسلسل 10 برس سے اقتدار میں رہنے کے بعد بھی مودی سرکار ایک بار پھر اقتدار پر قابض ہونے کے خواہش مند ہیں۔ نری...

مودی کے تیسری بار اقتدار میں آنے کے خدشات، بھارتی مسلمان شدید عدم تحفظ کا شکار

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر