وجود

... loading ...

وجود
وجود

بھارت کی کئی ریاستوں میں ’’انتخابی موسم ‘‘ مسلمانوں اوردلتوں کو رام کرنے کی کوششیں

هفته 11 فروری 2017 بھارت کی کئی ریاستوں میں ’’انتخابی موسم ‘‘ مسلمانوں اوردلتوں کو رام کرنے کی کوششیں

بھارت کے سب سے بڑے صوبے اترپردیش میں اسمبلی کے انتخابات آج سے شروع ہونگے جو 7مراحل میں8 مارچ تک جاری رہیں گے جبکہ منی پور میں انتخابات2مرحلوں میں 8 فروری سے شروع ہوگئے ہیں،اگلا مرحلہ 4 مارچ کو منعقد ہوگا۔یہ انتخابات اترپردیش (403 سیٹوں)، پنجاب (117)، گوا (40)، اترکھنڈ (70) اور شمال مشرقی ریاست منی پورمیں 60نشستوں پر ہو رہے ہیں۔منی پور ہر چند کہ چھوٹی ریاست ہے لیکن شورش کے سبب وہاں 2 مرحلوں میں انتخابات کرائے جا رہے ہیں۔گو ا میں سب سے کم نشستوں پر انتخابات ہیں اس لیے 4فروری کو ابتدائی طور پہ گوا میں انتخابی عمل مکمل کر لیا گیا ہے ۔چیف الیکشن کمیشن نسیم زیدی نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انتخابات کی تاریخوں اور دوسری تفاصیل کا اعلان کرتے ہوئے بتایا کہ اتراکھنڈ میں ووٹنگ ایک مرحلے میں ہوگی اور 15 فروری کو ووٹ ڈالے جائیں گے۔تمام ریاستوں میں ہونے والے انتخابات میں ووٹوں کی گنتی 11 مارچ کو ہوگی۔
یہ ریاستی انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اترپردیش اور پنجاب جیسی ریاستوں کے نتائج 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے سمت کا تعین کریں گے۔یہ انتخابات اس لیے بھی اہم ہیں کہ دہلی میں اقتدار میں آنے کے بعد اروند کیجریوال کی جماعت عام آدمی پارٹی پہلی بار پنجاب اور گوا میں انتخابات میں حصہ لیں گے جہاں وہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے۔یہ انتخابات اس لیے بھی دلچسپ ہو گئے ہیں کہ 20 کروڑ سے زیادہ آبادی والی ریاست اترپردیش کی حکمراں جماعت سماج وادی پارٹی آپس کی پھوٹ کا شکار ہے اور جہاں باپ بیٹے آمنے سامنے ہیں۔گزشتہ دنوں سپریم کورٹ نے انتخاب سے متعلق اپنے ایک فیصلے میں کہا ہے کہ انتخاب ایک سیکولر عمل ہے اور اس میں مذہب کا استعمال نہیں کیا جا سکتا ہے۔عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ اگر کوئی امیدوار مذہب اور ذات پات کے نام پر ووٹ مانگتا ہے تو اسے نااہل قرار دیا جائے گا۔جبکہ نسیم زیدی نے کہا ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنے کی حتی الامکان کوشش کریں گے۔
انتخابات قریب آتے ہی مختلف سیاسی جماعتوںکے رہنمائوں نے جن میں حکمراں بی جے پی کے رہنمابھی شامل ہیں مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کے لیے بھارت کے نامور اور طاقتور مدرسوں کے چکر کاٹنا شروع کردیے ہیں، بھارتی ریاست اترپردیش کے دارالحکومت لکھنومیں واقع دارالعلوم ندوۃ العلما کا دنیا کے مشہور تعلیمی مراکز میں شمار ہوتا ہے اور مسلمانوں میں بہت قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔شاید اسی لیے بی جے پی کے علاوہ بھی تمام سیاسی پارٹیاں ندوہ کے وائس چانسلر سے مدد مانگنے کے لیے سب سے پہلے ان کے پاس پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اطلاعات کے مطابق بہوجن سماج پارٹی کے لیڈر ستیش چندر مشرا اسی ارادے سے گزشتہ دنوں وائس چانسلر مولانا رابع حسنی ندوی سے ملنے مدرسہ پہنچے تھے تاکہ ان کے ذریعے مسلمانوں کا ووٹ حاصل کیا جا سکے۔
ندوہ میں 5ہزارطالب علم ہیں۔ پہلے تو انڈونیشیا، ملائشیا اور سعودی عرب سے بھی طالب علم یہاں آتے تھے۔خود کو ندوۃ العلما کا خادم کہنے والے ہارون رشید کا کہنا ہے کہ گزشتہ دس برس سے غیر ملکی طالب علموں کویہاں آنے کے لیے ویزا نہیں دیا جاتا۔ہارون کہتے ہیں کہ ندوے کے علما سیاسی معاملات سے دور رہتے ہیں۔ آج تک صرف ایک بار ندوے کے کسی بھی وائس چانسلر یا مہتمم نے کھل کر کسی سیاسی پارٹی یا لیڈر کی مخالفت کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ بعض حلقوں میں مسلمانوں کے ووٹ سے نتائج بہت حد تک متاثر ہوتے ہیں۔
1992 میں جب بابری مسجد شہید گئی، اس وقت یہاں کے وائس چانسلر مولانا علی میاں نے کانگریس کی کھل کر مخالفت کی تھی۔آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن ظفریاب جیلانی نے ایک دوسرے واقعے کا ذکر کیا جب مولانا علی میاں نے سیاسی مسئلے میں اپنی رائے دی تھی۔جیلانی کے مطابق جس وقت ملائم سنگھ یادو کلیان سنگھ کے ساتھ مل کر انتخابات میں آئے تھے تو مسلمان ان سے کافی ناراض تھے۔لیکن پرسنل لا بورڈ کی ایک میٹنگ کے بعد علی میاں نے باتوں باتوں میں صرف اتنا کہا کہ اس شخص (ملائم سنگھ) کے علاوہ کوئی دوسرا نظر نہیں آتا، ان کا اتنا کہنا ہی کافی تھا۔
اسلامی تعلیم کا ایک بڑا مرکز دارالعلوم دیوبند بھی ہے۔ اس کا قیام 1866 میں سلطنت برطانیہ کے روز افزوں اثرات اور عیسائی مذہب سے لڑنے کے لیے ہواتھا۔ندوے کے اساتذہ کے مقابلے میں یہاں کے اساتذہ سیاست میں زیادہ دخل رکھتے ہیں۔ لیکن گجرات سے تعلق رکھنے والے مولانا وستانوی کو دیوبند اس لیے چھوڑنا پڑا کیونکہ انھوں نے نریندر مودی کے حق میں بیان دیا تھا۔
بی جے پی کے صدر راج ناتھ سنگھ لکھنو سے امیدوار ہیں اور انھوں نے گزشتہ روز شیعہ عالم مولانا کلب جواد سے ملاقات کی ہے۔جبکہ حال ہی میں عام آدمی پارٹی کے منیش سیسودیا نے دیوبند کے مولانا خالق سنبھلی سے ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے بعد دیوبند کی طرف سے بیان جاری ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ دیوبند سیاست سے دور رہتا ہے۔
ان کے علاوہ حیدرآباد کا جامعہ نظامیہ بھی مسلمانوں کا ایک قدیمی تعلیمی مرکز ہے۔ انتخابات کا موسم آتے ہی ان تمام مراکز میں سیاسی رہنمائوں کی آمد و رفت بڑھ جاتی ہے۔تاہم فی الحال ستیش چندر مشرا کے علاوہ ابھی دیگر کسی پارٹی کے لیڈر نے مولانا رابع سے ملاقات نہیں کی ہے۔شاید ملائم سنگھ یادو کو وہاں جانے کی ضرورت نہ پڑے کیونکہ ان دنوں ظفریابجیلانی سماج وادی پارٹی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے مسلمانوں کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں۔ جیلانی کی رائے بھی مسلم دانشوروں میں اہمیت کی حامل ہے۔ ملائم سنگھ کے وہاں نہ جانے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ پہلے ہی دیوبند کی حمایت حاصل کر چکے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سماجوادی پارٹی کو گزشتہ انتخابات میں مسلمانوں کی حمایت حاصل رہی ہے۔
عام طور یہ کہا جاتا ہے کہ کانگریس کے لیڈروں کو ندوے جانے یا نہ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پارٹی اب بھی مکمل طور پر ان کا اعتماد حاصل نہیں کر پائی ہے۔دوسری جانب یہ خیال ظاہرکیا جاتا ہے کہ شیعہ مذہبی رہنما مولانا کلب جواد سے بی جے پی کے قومی صدر راج ناتھ سنگھ کی ملاقات کے بعد شیعہ مسلمانوں کا ووٹ بی جے پی کو جائے گا۔لیکن یہ کہنا توآسان ہے کہ لکھنئو کے مسلمان صرف ظفریاب جیلانی اور مولانا کلب جواد کے کہنے کے مطابق ہی اپنا ووٹ دیں گے،لیکن ایسا ضروری نہیں ہے ،جہاں تک عباس جیلانی کاتعلق ہے تووہ کہتے ہیں کہ اس برادری کا بنیادی مقصد بی جے پی کو روکنا ہے۔ اس کے لیے ووٹنگ سے ایک دن پہلے بھی وہ فیصلہ کر سکتے ہیں کہ کون بی جے پی کو شکست دے سکتا ہے اور ووٹ اسی کو جائے گا۔
جیلانی کے مطابق لکھنوسے کانگریس کی امیدوار ریتا بہوگنا جوشی ’مقابلے میں نہیں ہیں‘، اس لیے سماج وادی پارٹی کے ابھیشیک مشرا کی حمایت کی جا رہی ہے۔راج ناتھ اور جواد کی ملاقات کو بھی وہ سنجیدگی سے نہیں لیتے ہیں کیونکہ ان کا خیال ہے کہ مسلمان کسی بھی صورت میں بی جے پی کو ووٹ نہیں دیں گے۔بہوجن سماج پارٹی کی سربراہ مایاوتی کو اگر آپ ٹوئٹر پر تلاش کریں تو کچھ مایوسی اور کچھ فرضی اکائونٹ ہی ہاتھ لگیں گے لیکن جن لوگوں کے بل بوتے پر وہ چار مرتبہ بھارت کی شمالی ریاست اتر پردیش کی وزیر اعلیٰ بنیں، ان کے پاس سوشل میڈیا پر گزارنے کے لیے زیادہ وقت نہیں۔یہ سماج کا وہ انتہائی غریب طبقہ ہے جسے دلت کہا جاتا ہے، وہ لوگ جنھیں صدیوں سے بھید بھائو کا سامنا رہا ہے اور جن کی آواز بلند کرنے کا بیڑا مایاوتی نے اٹھا رکھا ہے۔اتر پردیش کی تقریباً بیس فیصد آبادی دلت ہے، اور اس کی ایک بڑی اکثریت مایاوتی کا ووٹ بینک مانی جاتی ہے۔ مایاوتی کی ہمیشہ سے کوشش مسلمانوں اور دلتوں کا ساتھ حاصل کرنے کی رہی ہے۔ ریاست میں مسلمانوں کی تعداد تقریباً دلتوں کے برابر ہی ہے اور اس مرتبہ مایاوتی نے انھیں اپنی طرف راغب کرنے کے لیے 403 میں سے 97 ٹکٹ مسلمان امیدواروں کو دیے ہیں۔
لیکن مسلمانوں کی محبتوں کے دعویدار اور بھی ہیں، خاص طور پر سماج وادی پارٹی، جس کے بانی ملائم سنگھ یادو کو رام مندر کی تحریک کے دوران مولانا ملائم سنگھ کہا جاتا تھا، اور کانگریس جو بابری مسجد کی مسماری تک زیادہ تر مسلمانوں کی پہلی پسند ہوا کرتی تھی۔ مایاوتی کا کام کرنے کا انداز دوسرے سیاستدانوں سے مختلف ہے۔ ان سے انٹرویو حاصل کرنا تقریباً ناممکن مانا جاتا ہے۔ وہ انتخابی جلسوں میں بھی لکھی ہوئی تقریریں پڑھتی ہیں، کوئی شعلہ بیانی نہیں کرتی، بس تقریر پڑھی ہاتھ ہلایا اور ہیلی کاپٹر میں بیٹھ کر دوسرے جلسے کے لیے روانہ ہوگئیں۔ ان کی پارٹی کے ترجمان مشکل سے ہی ٹی وی پر نظر آتے ہیں، انھیں بدعنوانی کے مقدمات کا سامنا ہے لیکن عام طور پر مانا جاتا ہے کہ وہ ایک موثر ناظم ہیں، ان کے دور اقتدار میں امن و قانون کا سختی سے نفاذ کیا جاتا ہے۔
سماجوادی پارٹی اور کانگریس کے اتحاد کے بعد ایک نظریہ یہ ہے کہ اس کا براہ راست نقصان بہوجن سماج کو ہوگا، لیکن ریاستی اسمبلی کے انتخاب میں، جہاں حلقے چھوٹے ہوتے ہیں اور عام طور پر چند ہزار ووٹوں سے ہار جیت کا فیصلہ ہوجاتا ہے، سہ فریقی مقابلوں میں کوئی پیش گوئی کرنا خطرے سے خالی نہیں۔میڈیا میں اس وقت ذکر سماجوادی پارٹی اور بی جے پی کا زیادہ ہے، لیکن ایک نظریہ یہ بھی ہے کہ اس دوڑ میں بی ایس پی ’ڈارک ہارس‘ ہے، وہ خاموشی سے دوڑ رہی ہے اور اس سے نظر ہٹانا غلط ہوگا۔
ایک طرف بھارت میں انتخابی شیڈول کااعلان ہونے کے ساتھ ہی تمام سیاسی جماعتوںکے رہنما خواب غفلت سے جاگ اٹھے ہیں اور اب مسلمانوں او ر دلتوں کومنانے کے لیے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کررہے ہیں لیکن دوسری طرف ان انتخابات میں کالے دھن کے استعمال کے حوالے سے بھی ایک طویل بحث چھڑ گئی ہے اور عام طورپر کہاجارہاہے کہ ان انتخابات میں کامیابی کے لیے بڑے پیمانے پر کالا دھن استعمال کیاجائے گا،کیونکہ اس کاحساب کتاب اور آڈٹ کرنے کاکوئی طریقہ کار الیکشن کمیشن یا حکومت کے پاس نہیں ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کانگریس اور بی جے پی کی زیادہ تر آمدن کے ذرائع کا علم نہیں،انڈیا میں نیشنل الیکشن واچ اور ایسوسی ایشن فار ڈیموکریٹک ریفارمز (اے ڈی آر) کا کہنا ہے کہ گزشتہ 11 سال میں سیاسی جماعتوں کی تقریبا 70 فیصد آمدنی نامعلوم ذرائع سے رہی ہے۔حال ہی میں دہلی میں جاری کی جانے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 2004 سے لے کر مارچ2015 تک تمام قومی اور علاقائی سیاسی جماعتوں کی کل آمدنی 11،367 کروڑ روپے تھی جس میں سے تقریبا 30 فیصد آمدنی کے ذرائع کا پتہ دیا گیا ہے۔
بھارت میں موجودہ ضابطے کے مطابق اگر کسی سیاسی جماعت کو کسی شخص یا ادارے سے 20 ہزار روپے سے کم کا چندہ ملتا ہے تو ایسی صورت میں اس شخص یا ادارے کے نام کے اندراج کی ضرورت نہیں۔ گزشتہ چند سال کے دوران بہت سے ماہرین نے اس ضابطے میں فوری طور پر تبدیلی لانے کی ضرورت پر زور دیا ہے جس سے انتخابی اخراجات اور سیاسی جماعتوں کے کام کاج میں مزید شفافیت آ سکے۔سابق چیف الیکشن کمشنر شہاب الدین یعقوب قریشی نے اپنے دور اقتدار میں اس کے متعلق سخت تبصرے بھی کیے تھے۔انھوں نے کہا تھا: ہماری تو کوشش رہی ہے کہ سیاسی جماعتیں کیش (نقد) لینے کے چلن کو بند کریں مگر اس پر بہت کام کرنا ابھی باقی ہے۔
پنجاب میں اکالی دل اور بی جے پی اتحاد کی حکومت ہے،علاقائی جماعتوں میں سماج وادی پارٹی کا ریکارڈ قدرے حیرت انگیز ہے کیونکہ تازہ رپورٹ کے مطابق سماجوادی پارٹی کی کل آمدن کا 94 فیصد جو 766 کروڑ 27 لاکھ روپے ہے اس کے ذرائع کا علم نہیں جبکہ پنجاب کی اہم پارٹی شرومنی اکالی دل کی 86 فیصد آمدن یعنی 88 کروڑ 6 لاکھ روپے کے ذرائع کا علم نہیں۔تاہم سماجوادی پارٹی ان دنوں باپ بیٹے کے درمیان انتشار کا شکار نظر آتی ہے۔ بھارت میں سیاسی جماعتوں اور انتخابات پر نظر رکھنے والے ان دونوں اداروں کے مطابق نامعلوم ذرائع میں کوپن کی فروخت، تاحیات امداد، اور ریل آف فنڈ سے ہونی والی آمدن وغیرہ بھی شامل ہوتی ہیں۔جبکہ سیاسی جماعتوں کی آمدنی کے معلوم ذرائع میں نقد رقم اور جائیداد، رکنیت کی فیس اور بینک سے ملنے والے منافع وغیرہ کا ذکر ہوتا ہے۔


متعلقہ خبریں


فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف وجود - اتوار 05 مئی 2024

وزیر اعظم محمد شہبا ز شریف نے کہا ہے کہ فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے سب کو مل کر ملک کی بہتری کیلئے کردار ادا کرنا ہوگا، پاکستان کو آج مختلف چیلنجز کا سامنا ہے ریونیوکلیکشن سب بڑا چیلنج ہے ،جزا ء اور سزا کے عمل سے ہی قومیں عظیم بنتی ہیں،بہتری کارکردگی دکھانے والے افسران کو سراہا جائے گا...

فیصلہ کن گھڑی آچکی، ریونیوکلیکشن بڑا چیلنج ہے ، شہبا ز شریف

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند وجود - اتوار 05 مئی 2024

امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں، ادارے آئین کی تابعداری کے لیے تیار ہیں تو گریٹر ڈائیلاگ کا آغاز ہوسکتا ہے ، ڈائیلاگ کی بنیاد فارم 45ہے ، فارم 47کی جعلی حکومت قبول نہیں کرسکتے ، الیکشن دھاندلی پر جوڈیشل کمیشن بنے جس کے پاس مینڈیٹ ہے اسے حکومت بنانے د...

احتجاجی تحریک میں شمولیت کی دعوت، حافظ نعیم الرحمان رضامند

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف وجود - اتوار 05 مئی 2024

ملک میں 8؍فروری کے الیکشن کے بعد نئی حکومت آنے کے بعد بھی 98 ارب51 کروڑ روپے کی گندم درآمد کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے ۔تفصیلات کے مطابق ذرائع نے بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں بھی 6 لاکھ ٹن سے زیادہ گندم درآمد کی گئی، ایک لاکھ13ہزار ٹن سے زیادہ کا کیری فارورڈ اسٹاک ہونے کے باوجو...

شہباز سرکار میں بھی 98ارب51 کروڑ کی گندم درآمد ہوئی، نیا انکشاف

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت وجود - اتوار 05 مئی 2024

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی(پی ٹی اے ) نے نان ٹیکس فائلر کے حوالے سے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے اٹھائے گئے اقدام کی مخالفت کرتے ہوئے 5لاکھ سے زائد سمز بند کرنے کی معذرت کر لی۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق فیڈرل بورڈ آف ریونیو(ایف بی آر) نے 2023 میں ٹیکس ریٹرن فائل نہ کرنے والے 5...

ٹیکس نادہندگان کی سم بلاک کرنے سے پی ٹی اے کی معذرت

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف وجود - اتوار 05 مئی 2024

کراچی میں پیپلزبس سروس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف کروا دیا گیا ۔ کراچی میں پیپلز بس سروس کے مسافروں کیلئے سفر مزید آسان ہوگیا۔ شہری اب کرائے کی ادائیگی اسمارٹ کارڈ کے ذریعے کریں گے ۔ سندھ حکومت نے آٹومیٹڈ فیئر کلیکشن سسٹم متعارف کرادیا۔ وزیراعلیٰ سندھ مرادعلی ش...

پیپلز بس کے کرائے کی ادائیگی کے لیے اسمارٹ کارڈ متعارف

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا وجود - اتوار 05 مئی 2024

گندم درآمد اسکینڈل کی تحقیقاتی کمیٹی نے سابق نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا۔ذرائع کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بنائی گئی تحقیقاتی کمیٹی کا اجلاس ہوا۔ذرائع کے مطابق تحقیقاتی کمیٹی نے اجلاس میں نگراں دور کے سیکریٹری فوڈ محمد محمود کو بھی طلب کیا تھا، جوکمیٹ...

گندم ا سکینڈل، تحقیقاتی کمیٹی نے انوار الحق کاکڑ کو طلب کرلیا

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان نے خلائی تحقیق کے میدان میں اہم سنگ میل عبور کرلیا، تاریخی خلائی مشن ’آئی کیوب قمر‘چین کے وینچینگ خلائی سینٹر سے روانہ ہو گیا جس کے بعد پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا ہے ۔سیٹلائٹ آئی کیوب قمر جمعہ کو2 بجکر 27 منٹ پر روانہ ہوا، جسے چینی میڈیا ...

تاریخی سنگ میل عبور، پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ مشن چاند پر روانہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی چیئرمین عمران خان نے عدالتوں سے ان کے مقدمات کے فیصلے فوری طور پر سنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ چیف جسٹس قاضی پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں۔بانی چیئرمین پی ٹی آئی نے اڈیالہ جیل سے اہم پیغام میں کہا ہے کہ میں اپنے تمام مقدمات س...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پی ٹی آئی کے خلاف بی ٹیم بنے ہوئے ہیں،عمران خان

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان وجود - هفته 04 مئی 2024

پاکستان تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے کہا ہے کہ بس مجھے قتل کرنا رہ گیا ہے لیکن میں مرنے سے نہیں ڈرتا، غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا۔برطانوی جریدے دی ٹیلی گراف کے لیے جیل سے خصوصی طور پر لکھی گئی اپنی تحریر میں سابق وزیر اعظم نے کہا کہ آج پاکستانی ریاست اور اس کے عوام ایک دوسرے...

بس مجھے قتل کرناباقی رہ گیا ہے ،غلامی پر موت کو ترجیح دوں گا، عمران خان

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ وجود - هفته 04 مئی 2024

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ کسی سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں۔نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر عطا تارڑ کا کہنا تھا کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پاکستان میں کیوں دفتر نہیں کھولتے ، سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو پاکستان میں دفاتر کھولنے چاہئی...

سوشل میڈیا پلیٹ فارم کی بندش کے حق میں نہیں، عطا تارڑ

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق وجود - هفته 04 مئی 2024

یوم صحافت پر خضدار میں دھماکا، صحافی صدیق مینگل سمیت 3 افراد جاں بحق ہوگئے ۔پولیس کے مطابق خضدار میں قومی شاہراہ پر سلطان ابراہیم خان روڈ پر ریموٹ کنٹرول دھماکے سے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا گیا۔ایس ایچ او خضدار سٹی کے مطابق ریموٹ کنٹرول دھماکے میں ایک شخص جاں بحق اور 10 افراد زخمی ...

یوم صحافت پرخضدار دھماکا،صحافی صدیق مینگل سمیت 3افراد جاں بحق

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ وجود - جمعه 03 مئی 2024

ایرانی تیل کی پاکستان میں اسمگلنگ پر سیکیورٹی ادارے کی رپورٹ میں اہم انکشافات سامنے آگئے ۔پاکستان میں ایرانی تیل کی اسمگلنگ کے بارے میں رپورٹ منظرعام پر آگئی ہے جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں سالانہ 2 ارب 80 کروڑ لیٹر ایرانی تیل اسمگل کیا جاتا ہے اور اسمگلنگ سے قومی خزانے کو سالان...

انتخابات کے بعد ایرانی تیل کی ا سمگلنگ میں اضافہ

مضامین
اک واری فیر وجود اتوار 05 مئی 2024
اک واری فیر

جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5) وجود اتوار 05 مئی 2024
جناح کا مقدمہ ( قسط نمبر 5)

سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی وجود اتوار 05 مئی 2024
سہ فریقی مذاکرات اوردہشت گردی

دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا ! وجود هفته 04 مئی 2024
دوسروں کی مدد کریں اللہ آپ کی مدد کرے گا !

آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی وجود هفته 04 مئی 2024
آزادی صحافت کا عالمی دن اورپہلا شہید صحافی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر