وجود

... loading ...

وجود

میرے فکری اُستادڈاکٹر منظور احمد۔۔۔چند یادیں

اتوار 28 دسمبر 2025 میرے فکری اُستادڈاکٹر منظور احمد۔۔۔چند یادیں

جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔
زریں اختر

پہلی ملاقات ،پہلاسوال: حقیقت کسے کہتے ہیں؟
ڈاکٹر صاحب : کس چیز کی حقیقت ؟ اس میز کی حقیقت،(گلاس میں رکھے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس پانی کی حقیقت۔ کسی چیز کی حقیقت ایک سے زائد ہوتی ہیں مثلاً اس میز کی ایک حقیقت تو یہ ہے کہ یہ لکڑی سے بنی ہے اور ایک حقیقت یہ کہ یہ لکھنے پڑھنے کے کام آتی ہے ،اس پانی کی ایک حقیقت یہ کہ یہ آکسیجن اور ہائیڈروجن سے مل کر بنا ہے اور ایک یہ کہ زندہ رہنے کے لیے ضروری ہے ،اشیاء کی کئی حقیقتیں ہوتی ہیں۔
اس جواب کو سننے کے بعد حقیقت کی کھوج سے متعلق اگلی بات کئی برس بعد کی کہ جب ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ حقیقت کسے کہتے ہیں تو اس کا مطلب میز یا پانی کی حقیقت جاننے سے متعلق نہیں ہوتا بلکہ اس کا مطلب ہوتاہے کائنات کی حقیقت،ذات (انسان) کی حقیقت اور وجود(خالق) کی حقیقت، ڈاکٹر صاحب نے اس بات سے اتفاق کیا،شاید دل میں سوچا ہو کہ اس کو خود اپنے سوال کا مطلب اب سمجھ میں آیا۔ اور اس کے بھی کئی سال بعدڈاکٹر صاحب کی کتاب ”اسلام ، چند فکری مسائل” کا آخری باب بعنوان ”خدا” زیرِ مطالعہ ہے۔
اُن دنوں ڈاکٹر صاحب عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی(یو آئی ٹی) کی تعمیر میں مصروف تھے، ادارہ قائم ہوگیا۔ ڈاکٹر صاحب نے بلامعاوضہ اپنا وقت اس ادارے کو بنانے میں دیا۔ڈیفنس میں اپنے گھر گفتگو میں اس استفسار پر کہ اب آپ یو آئی ٹی نہیں جاتے ، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ عثمان میرا شاگرد تھا ، وہ نیپا سے گھوڑے پر سوار ہوکر جامعہ کراچی کیمپس اتوار کی صبح ملنے آتا تھا،ساتھ ناشتا کرتاتھا ، ایک دن وہ گھوڑے سے گر کر جاں بحق ہوگیا۔ اس کے لواحقین میرے پاس آئے اور کہا کہ یہ زمین ہے، آپ اس کے نام سے یہ ادارہ بنائیں اور آپ ہی چلائیں، یہ سب زبانی طے ہوا ۔ اور پھر ایک دن وہ آیا جب عثمان کے لواحقین ڈاکٹر صاحب کے دفتر آئے اور ڈاکٹر صاحب وہاں سے اپنا بریف کیس اٹھا کر گھر آگئے۔
ڈاکٹر عبدالقدیر کے متعلق ڈاکٹر منظور احمد کاخیال تھا کہ وہ نرگسیت کا شکار ہوگئے ہیں۔ وہ کسی جگہ گئے تو وہاں ڈاکٹر عبدالقدیر کی قد ِآدم تصویر آویزاں تھیں، انہوں نے کہا کہ میں نے مسکراتے ہوئے پہلے دائیں طرف اور پھر بائیں طرف موجود اصحاب کی جانب دیکھا تو ان کے چہروں پر بھی مسکراہٹ تھی ۔ وہ وقت جب ڈاکٹر عبدالقدیر کو ان کے گھر نظر بند کردیا گیا تھا، ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ” مجھے کچھ اطلاعات تھیں کہ ایسا کچھ ہونے جارہا ہے ،میں اپنے ذاتی خرچے پر اسلام آباد گیا اور ان سے یہ کہنے کہ آپ ملک سے چلے جائیں ،لیکن وہ نہیں مانے ،شاید ان کو یقین نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ایسا کچھ کیا جاسکتاہے۔
ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ زرداری سے میرا براہِ راست رابطہ ہے ۔ نواز شریف کے مقابلے میں شہباز شریف کو معقول سمجھتے تھے ، محمود قریشی کے متعلق انہوں نے کہا کہ وہ تیز آدمی ہے، عمران خان ان کے نزدیک بد عنوان نہیں ۔ایم کیو ایم کے رہنما ان سے ملنے آئے تو انہوں نے مشورہ دیاکہ اس جماعت کا نام مہاجر قومی موومنٹ درست نہیں ۔ مشرف صاحب سے ملاقات میں (اب مجھے وہ بات یاد نہیں جو ڈاکٹر صاحب نے کہی تھی) لیکن ڈاکٹر صاحب نے چودھری شجاعت حسین کے بولنے کی نقل اتارتے ہوئے بتایا کہ اس نے میری بات سے اختلاف کیا تو تھوڑی دیر بعد پرویز مشرف نے کہا کہ ڈاکٹر صاحب صحیح تو کہہ رہے ہیں۔مجھے ڈاکٹر صاحب کے اس طرح نقل اتارنے پر خوش گوار حیرت ہوئی۔
ایک مرتبہ وہ مولانا مودودی سے ملنے گئے ۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں آدھا ایک گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور ملاقات میں مولانا صاحب نے پانچ دس منٹ دیے تو اس کے بعد میں نے دوبار ہ ان سے ملاقات کی کوشش نہیں کی ۔ ان دنوں ڈاکٹر پیرزادہ قاسم جامعہ کراچی کے شیخ الجامعہ کے طور پر اپنا دوسرا دورگزار رہے تھے جب ڈاکٹر صاحب سے ملنے یو آئی ٹی آئے ۔ مجھ سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب نے بتایاکہ وہ کہہ رہے تھے کہ میں یہ کروں گا ، میں وہ کروں گا، میں نے کہا کہ ضرور کریں ،آ پ کو یہ سب ضرور کرنا چاہیے۔ اور ڈاکٹر صاحب نے مجھ سے کہا کہ اب تک ان کو یہ سب کرلینا چاہیے تھا،پتا نہیںکب کریں گے۔
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم کے دور میں ایک سلیکشن بورڈ میں پیرزادہ قاسم صاحب نے مجھ سے کہا کہ(الفاظ مختلف ہوسکتے ہیںمطلب وہی ہے) اب نتائج کا نظام تبدیل ہوگیا ہے ۔ میں نے یہ بات ڈاکٹر صاحب کو بتائی تو انہوں نے کہا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ پہلے اوزان مختلف تھے اب مختلف ہیں، پہلے سیر تھا اب کلو،اسی طرح جب گریڈ اور ڈویژن تھے تو ان کو اس وقت کے حساب سے دیکھا جائے گا ناکہ آج کے حساب سے۔
ایک مرتبہ گئی تو بتانے لگے کہ ان کی جامعہ کے ایک ہم کار ملنے آئے تھے ، وہ حج پر جارہے تھے او ر ڈاکٹر صاحب سے یہ کہنے آئے تھے کہ اگر ان کی کسی بات یا کسی عمل سے ڈاکٹر صاحب کی دل آزاری ہوئی ہوتو،ڈاکٹر صاحب بتانے لگے کہ اس وقت یہ میرے خلاف وائس چانسلر کو خطوط لکھا کرتے تھے ،میں نے ان سے کہا کہ نہیں نہیں آپ کے لیے میرے دل میں ایسی کوئی بات نہیں،اور پھر ڈاکٹر صاحب کہنے لگے کہ میں نے اپنے دل میں کہا کہ آپ جائیں اور پاک صاف ہوکر آجائیں ۔
ہمارے شعبے میں بھی پرچہ بازی (شکایتی خط) بہت ہوتی تھی ۔ کہنے لگے اس کا اثر ہمیشہ برعکس ہوتاہے ، لوگوں سے کام لینے کا طریقہ یہ نہیں کہ ان خلاف خطوط لکھے جائیں، انہوں نے بتایا کہ جب وہ جامعہ کراچی میں رئیس کلیہ فنون تھے تو وہ لوگوں کو بلاتے تھے اور کہتے تھے کہ مجھے اس کام کے لیے آ پ ہی موزوں معلوم ہوتے ہیں، وہ خوش بھی ہوجاتے تھے اور کام بھی ہوجاتا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ جب بہ حیثیت رئیس کلیہ فنون ان کی دور ختم ہوا تو وہاں کا عملہ باقاعدہ رو رہا تھا۔
بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر کا دور ختم ہوا تو بتایا کہ میں پہلے سے عہدے کی منتقلی کا خط بنو ا کے دراز میں رکھ لیتا ہوں ، ڈاکٹر فتح محمد ملک ایک دن پہلے ہی آگئے ، وہ سمجھ رہے ہوں گے کہ ایسا نہ ہو فیصلے میں کچھ تبدیلی ہوجائے ، وہ دفتر آئے اور میں نے دراز سے خط نکال کران کو دے دیا۔
ڈاکٹر صاحب کا کہامیرا عمل بنا۔ لوگ دھڑا دھڑ پی ایچ ڈی کررہے تھے ۔ بیدل لائبریری میں ایک صاحب نے کہا کہ تحقیق تو اِن تحقیقات پر ہونی چاہئیں ۔ میں نے اس خیال کو عملی جامہ پہنانے کے غرض سے اپنے کمپیوٹر پر کسی کا پی ایچ ڈی مقالہ ڈائون لوڈ کرلیا ۔ پھر ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی اور یہ خیال ان کے گوش گزار کیا ۔ انہوں نے کہا کہ جوجو کر رہا ہے اسے کرنے دو ، انسان کو صرف اپنے حصے کا کام کرنا چاہیے۔
ان کے خیال میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے ہائر ایجوکیشن کمیشن بنا کر تعلیم کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ الٹا ایک دوڑ مچوا دی۔
ایک معاملے کے بیان پر انہوں نے کہا کہ میں جھگڑے کی کسی چیز میں نہیں پڑتا۔ میں نے کہا کہ اپنے حق کے لیے بھی نہیں،انہوں نے جواب دیا کہ نہیں،میں نے کہا کہ یہ آپ اس لیے کہہ رہے ہیں کہ آپ ڈیفنس میں بیٹھے ہیں اور باہر دو گاڑیاں کھڑی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ میرے پاس نہیں ہوتا میں تب بھی جھگڑا نہ کرتا۔
کوئی ڈاکٹر صاحب کے ایسا کہنے پر یقین کرے یا نہ کرے ،میرا ان کے کہے پر ایمان ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پنجاب کی انگڑائی وجود اتوار 28 دسمبر 2025
پنجاب کی انگڑائی

تاریخ کے زخم وجود اتوار 28 دسمبر 2025
تاریخ کے زخم

بھارتی مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی وجود اتوار 28 دسمبر 2025
بھارتی مسلمانوں میں تعلیمی پسماندگی

میرے فکری اُستادڈاکٹر منظور احمد۔۔۔چند یادیں وجود اتوار 28 دسمبر 2025
میرے فکری اُستادڈاکٹر منظور احمد۔۔۔چند یادیں

بانی پی ٹی آئی 17سالہ سزاکے بعد وجود هفته 27 دسمبر 2025
بانی پی ٹی آئی 17سالہ سزاکے بعد

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر