وجود

... loading ...

وجود

امریکہ پاکستان تعلقات اور دفاعی معدنی پیش رفت

بدھ 24 دسمبر 2025 امریکہ پاکستان تعلقات اور دفاعی معدنی پیش رفت

منظر نامہ
پروفیسر شاداب احمد صدیقی

بھارت کے جنگی جنون اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے پاکستان اپنی دفاعی صلاحیتوں کو مستحکم اور مضبوط کر رہا ہے ۔امریکہ پاکستان دفاعی تعلقات اور ایف سولہ ریکوڈک منصوبے نے بھارت کی تشویش میں اضافہ کر دیا ہے ۔
انسانی تاریخ میں طاقت کے توازن کی تبدیلیاں ہمیشہ صرف ہتھیاروں یا معاہدوں تک محدود نہیں رہتیں بلکہ ان کے سائے میں خوف، بے یقینی اور سفارتی اضطراب بھی جنم لیتا ہے ۔ جنوبی ایشیا اس وقت اسی کیفیت سے گزر رہا ہے جہاں امریکہ اور پاکستان کے درمیان دفاعی اور معدنی تعاون کی نئی صورت نے نئی دہلی میں تشویش کی ایک لہر پیدا کر دی ہے ۔ یہ تشویش محض عسکری معاملات تک محدود نہیں بلکہ اس کے پس منظر میں معاشی مفادات، عالمی سیاست اور خطے میں بالادستی کی کشمکش بھی کارفرما ہے ، جس نے بھارت کو ایک غیر یقینی ذہنی کیفیت میں مبتلا کر دیا ہے ۔امریکہ اور پاکستان کے تعلقات تاریخ کے مختلف ادوار میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں، مگر حالیہ برسوں میں ان تعلقات کی ازسرِنو ترتیب نے ایک نیا رخ اختیار کیا ہے ۔ واشنگٹن کی جانب سے پاکستان کے ایف سولہ جنگی طیاروں کی اپ گریڈیشن کی منظوری اور بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے میں امریکی کمپنیوں کی شمولیت نے نہ صرف اسلام آباد کے لیے سفارتی و معاشی مواقع پیدا کیے ہیں بلکہ نئی دہلی کے لیے سوالات اور خدشات بھی جنم دیے ہیں۔ بھارت اس پیش رفت کو خطے میں عسکری اور تجارتی توازن پر اثر انداز ہونے والا ایک سنجیدہ معاملہ سمجھ رہا ہے ، خاص طور پر ایسے وقت میں جب وہ خود امریکہ کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم ستون قرار دیتا رہا ہے ۔
ساؤتھ چائنہ مارننگ پوسٹ کے مطابق واشنگٹن نے پاکستان کے ایف سولہ طیاروں کی اپ گریڈیشن کے لیے 686 ملین ڈالر کی منظوری دی، جسے امریکہ کی جانب سے محض دفاعی نوعیت کا اقدام قرار دیا جا رہا ہے ۔ امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ اس اپ گریڈیشن کا مقصد پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی صلاحیتوں کو بہتر بنانا ہے ، نہ کہ کسی ہمسایہ ملک کے خلاف جارحانہ توازن قائم کرنا۔ تاہم بھارت میں اس وضاحت کو مکمل طور پر تسلیم نہیں کیا جا رہا۔ بھارتی دفاعی تجزیہ کاروں کے نزدیک ایف سولہ جیسے جدید جنگی طیاروں کی اپ گریڈیشن خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے ، خاص طور پر ایسے ماحول میں جہاں پاکستان اور بھارت کے تعلقات پہلے ہی کشیدہ ہیں۔اسی طرح بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے میں امریکی سرمایہ کاری نے بھارتی تشویش کو مزید گہرا کر دیا ہے ۔ ریکوڈک منصوبہ نہ صرف پاکستان کے لیے معاشی اہمیت کا حامل ہے بلکہ یہ عالمی سطح پر اہم معدنی وسائل، خصوصاً تانبے اور سونے کے ذخائر، سے وابستہ ہے ۔ امریکا کی جانب سے اس منصوبے کے لیے 1۔25 ارب ڈالر کی مالی سہولت کی منظوری کو بھارت میں ایک اسٹریٹجک پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے ۔
ریکوڈک منصوبے میں تقریباً 5۔9 بلین ٹن معدنی خام موجود ہے ، جس میں 41 ملین اونس سونا اور 22 ملین ٹن تانبا شامل ہے ۔ بھارتی حلقوں کا خیال ہے کہ یہ سرمایہ کاری امریکہ کو پاکستان میں طویل المدتی معاشی اور جغرافیائی اثر و رسوخ فراہم کر سکتی ہے ، جو بھارت کے علاقائی مفادات کے لیے ایک چیلنج بن سکتی ہے ۔صدر ٹرمپ کی جانب سے پاک فوج کے سربراہ سے ملاقات نے بھی بھارت کی فکرمندی میں اضافہ کیا ہے ۔ یہ ملاقات بظاہر دوطرفہ عسکری روابط کے تناظر میں تھی، مگر نئی دہلی میں اسے ایک علامتی پیغام کے طور پر دیکھا گیا۔ بھارت کے لیے یہ امر تشویش کا باعث ہے کہ امریکہ ایک طرف بھارت کو اسٹریٹجک شراکت دار قرار دیتا ہے اور دوسری جانب پاکستان کے ساتھ دفاعی و معدنی تعاون کو فروغ دے رہا ہے ۔ اگرچہ واشنگٹن مسلسل یہ یقین دہانی کرا رہا ہے کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن متاثر نہیں ہوگا، مگر بھارتی پالیسی سازوں اور میڈیا میں خوف اور الجھن کی کیفیت برقرار ہے ۔ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹی ٹیوٹ کی جنوبی ایشیا امور کی ڈائریکٹر فروہ عامر کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں یہ ازسرِنو ترتیب امریکہ اور بھارت کے تعلقات میں ایک الجھن پیدا کر رہی ہے ، جو پہلے ہی کئی نشیب و فراز سے گزر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک بھارت کے لیے یہ صورتحال اس لیے بھی پیچیدہ ہے کہ وہ خود کو خطے میں امریکہ کا قدرتی اتحادی سمجھتا ہے ، مگر حالیہ پیش رفت نے اس تصور کو چیلنج کیا ہے ۔ بھارت کو یہ اندیشہ لاحق ہے کہ امریکہ کی ترجیحات میں توازن کی یہ پالیسی مستقبل میں نئی دہلی کی علاقائی بالادستی کے دعوؤں کو محدود کر سکتی ہے ۔
اس پورے منظرنامے میں چین کا کردار بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ چین اور امریکہ کے درمیان اگرچہ عالمی سطح پر مسابقت موجود ہے ، مگر بعض خطوں میں ان کے مفادات کا ایک نکتۂ اشتراک بھی پایا جاتا ہے ، خاص طور پر معدنی وسائل اور تجارتی راستوں کے حوالے سے ۔ پاکستان اس اشتراک میں ایک اہم جغرافیائی حیثیت رکھتا ہے ، جہاں چین پہلے ہی سی پیک کے ذریعے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کر چکا ہے ۔ امریکہ کی ریکوڈک منصوبے میں شمولیت کو بعض مبصرین چین امریکہ مسابقت کے تناظر میں بھی دیکھ رہے ہیں، جہاں واشنگٹن پاکستان میں معاشی موجودگی کے ذریعے اپنے اثر و رسوخ کو متوازن کرنا چاہتا ہے ۔ اس صورتحال میں بھارت خود کو ایک ایسے دباؤ میں محسوس کر رہا ہے جہاں اس کی علاقائی بالادستی محدود ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔
بھارت کی تشویش کا ایک پہلو داخلی سیاست سے بھی جڑا ہوا ہے ۔ نئی دہلی میں موجودہ سیاسی قیادت نے برسوں سے یہ بیانیہ تشکیل دیا ہے کہ بھارت خطے میں ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے اور امریکہ اس کا فطری شراکت دار ہے ۔ ایسے میں امریکہ پاکستان تعلقات میں گرمجوشی
اس بیانیے کے لیے ایک سوالیہ نشان بن رہی ہے ۔ بھارتی میڈیا میں اس پیش رفت کو کبھی امریکہ کی دوغلی پالیسی قرار دیا جا رہا ہے اور کبھی
اسے بھارت کی سفارتی ناکامی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ، جس سے عوامی سطح پر بھی بے چینی بڑھ رہی ہے ۔یہ حقیقت بھی قابلِ غور ہے کہ
امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ مفادات کے گرد گھومتی رہی ہے ۔ واشنگٹن کے لیے پاکستان کے ساتھ دفاعی اور معدنی تعاون کا مطلب خطے
میں استحکام، انسدادِ دہشت گردی اور اہم وسائل تک رسائی ہے ، جبکہ بھارت کے ساتھ شراکت داری کا مقصد چین کے بڑھتے اثر و رسوخ
کا مقابلہ کرنا ہے ۔ امریکہ ان دونوں اہداف کو بیک وقت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، مگر یہی کوشش بھارت کے لیے الجھن اور خوف کا
باعث بن رہی ہے ۔ نئی دہلی اس توازن کو اپنے حق میں کم اور پاکستان کے حق میں زیادہ محسوس کر رہی ہے ۔آخرکار یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ
امریکہ پاکستان دفاعی اور معدنی تعاون نے جنوبی ایشیا میں طاقت کے توازن کے سوال کو ایک بار پھر زندہ کر دیا ہے ۔ بھارت کی تشویش
محض وقتی ردِعمل نہیں بلکہ اس کے پیچھے علاقائی بالادستی کے خدشات، معاشی مفادات اور عالمی سیاست کی پیچیدگیاں کارفرما ہیں۔ اس
صورت حال میں خطے کے لیے ضروری ہے کہ سفارتی مکالمے کو فروغ دیا جائے ، عسکری خدشات کو شفافیت کے ذریعے کم کیا جائے ، معاشی
تعاون کو تصادم کے بجائے ترقی کا ذریعہ بنایا جائے ، اعتماد سازی کے اقدامات کو ترجیح دی جائے ، اور عالمی طاقتوں کو یہ احساس دلایا جائے کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ باہمی احترام، معاشی شراکت اور سیاسی بصیرت سے ممکن ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
امریکہ پاکستان تعلقات اور دفاعی معدنی پیش رفت وجود بدھ 24 دسمبر 2025
امریکہ پاکستان تعلقات اور دفاعی معدنی پیش رفت

مسلم خاتون کا نقاب نوچنا بیمارذہنیت وجود بدھ 24 دسمبر 2025
مسلم خاتون کا نقاب نوچنا بیمارذہنیت

قوموں کی اصل پہچان آسائش یا آزمائش میں؟ وجود بدھ 24 دسمبر 2025
قوموں کی اصل پہچان آسائش یا آزمائش میں؟

پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں وجود منگل 23 دسمبر 2025
پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں

طاقت اور جہالت وجود منگل 23 دسمبر 2025
طاقت اور جہالت

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر