وجود

... loading ...

وجود

نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟

هفته 01 نومبر 2025 نریندر مودی اور موہن بھاگوت میں اَن بن کیوں؟

ڈاکٹر سلیم خان

بھاگوت اور مودی کی درمیان تعلقات اس قدر خراب ہیں کہ وزیر اعظم نے آر ایس ایس کی تعریف کردی سالگرہ پر مضمون لکھ دیا اس کے باوجود سرسنگھ چالک نے مودی کے جنم دن پرمبارکباد کا دو سطری پیغام تک نہیں لکھا ایسے میں کس منہ سے یہ پروچن کیا جارہا ہے ؟ بھاگوت کا اعتراف درست ہے کہ سیاست لوگوں کو متحد نہیں کر سکتی اور نہ انہیں متحد کرنے کاآلہ ٔکار بن سکتی ہے بلکہ وہ اتحاد کو بگاڑنے کا ہتھیار ہے ۔ یہ بات اس ہندوتوا کی سیاست پر ہو بہو صادق آتی ہے جس کی کمان بھاگوت اور مودی کے ہاتھ میں ہے ۔بھاگوت جی نے جب یہ انکشاف کیا کہ ہم جمہوری ملک میں رہتے ہیں یہاں ہندو یا مسلمانوں کا غلبہ نہیں ہوسکتا ،صرف اور صرف ہندستانیوں کا ہی غلبہ ہوسکتا ہے تو یہ سن کر سنگھ پریوار کی شاکھا میں تربیت پانے والوں کو حیرت کا جھٹکا لگا ہوگا ۔ گرو گولوالگر اور روحانی پیشوا ساورکر کی آتما کو تکلیف پہنچانے کے لیے موہن بھاگوت نے یہ بھی کہہ دیا کہ ‘ اگر کوئی ہندو یہ کہتا ہے کہ مسلمانوں کو یہاں نہیں رہنا چاہیے تو وہ ہندو نہیں’کیونکہ ساورکر نے تو شیواجی کے ہندو نواب کی بہو کے ساتھ حسنِ سلوک پربھی اعتراض کیا تھا ۔خطاب کے بعد سوال و جواب کے دوران بھاگوت نے یہ انکشاف کردیا کہ:”ہندو اور مسلمان ایک ہیں… اس لیے ان کے درمیان اتحاد کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا؛ صرف ان کی عبادت کا طریقہ بدل گیا ہے۔ ہم پہلے ہی ایک ہیں۔ اتحاد کس بات کا کرنا ؟ کیا بدلا ہے ؟ صرف عبادت کا طریقہ بدلا ہے ؛ کیا یہ واقعی کوئی فرق پیدا کرتا ہے ”؟
بھاگوت جی نہیں جانتے کہ عبادت اور اس کے طور طریقہ پر عقائد کو سبقت حاصل ہوتی ہے اور جب وہ بدل جاتا ہے تو انسان کی زندگی کا نصب العین اور مقصد حیات تک ساری چیزیں بدل جاتی ہیں ۔انہوں نے کہا کہ” اسلام زمانہ قدیم سے ہندوستان میں ہے اور آج تک قائم ہے ، اور مستقبل میں بھی قائم رہے گا۔یہ خیال کہ اسلام باقی نہیں رہے گا، ہندو سوچ نہیں ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے ”۔ بھاگوت ایک طرف تو سارے مسلمانوں کو ہندو کہتے ہیں اور پھر اسلام کے باقی رہنے کی پیشنگوئی بھی فرماتے ہیں ۔ اس تضاد بیانی پر غالب کا یہ شعر یاد آتا ہے
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
بھاگوت مسلم ناموں والی سڑکوں اور شہروں کے نام تبدیل کرنے کے خلاف ہیں لیکن یوگی تو دور ان کی گود میں پلے بڑھے اور سنگھ کی شاکھا سے نکلے ہوئے فڈنویس تک ان کی سن کر نہیں دیتے تو کوئی غیر کیوں مانے ؟ آر ایس ایس کے سربراہ نے فرمایا کہ ان کااصرار اس بات پر ہے کہ سڑکوں یا شہروں کے نام جابر حملہ آوروں کے نام پر نہ رکھے جائیں تو کیا سارے ہندو راجہ مہاراجہ انصاف پسند تھے ۔ انہوں نے ایک دوسرے پر اور اپنی رعایہ پر ظلم نہیں کیا۔ بھاگوت جی کیا ایسے پیشواوں کے نام پر شہروں اور سڑکوں کو رکھنے کی مخالفت کریں گے جنھوں شودروں پر فرعون اور ہٹلر سے زیادہ مظالم کیے ۔ وہ بولے اے پی جے عبدالکلام، عبدالحمید کے نام ہونے چاہئیں لیکن سوال یہ ہے کہ گجرات میں لاشوں کے سوداگر نریندر مودی کو احمد آباد میں ولبھ بھائی پٹیل اسٹیڈیم کا نام بدل کر اپنا نام رکھنے کی اجازت کس نے دی اور کم از کم بھاگوت نے علی الاعلان اس کی مخالفت کیوں نہیں کی ؟ دوسروں کو نصیحت کرنے سے قبل بھاگوت جی کو اپنے اور پریوار کے گریبان میں جھانک کر دیکھ لینا چاہیے ۔
آر ایس ایس کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ مسلم قیادت کو بنیاد پرستی کے خلاف بات کرنے کی ضرورت ہے ،اس کام کے لیے طویل المدتی کوششوں اور صبر کی ضرورت ہو گی۔ یہ ہم سب کے لیے ایک طویل اور سخت امتحان بھی ہو گا۔ جتنی جلدی ہم شروع کریں گے ، ہمارے معاشرے کو اتنا ہی کم نقصان پہنچے گا”۔ یہ صدی کا سب سے بڑا لطیفہ ہے کیونکہ بنیاد پرستی کی خاطر منافرت کو سنگھ پریوار فروغ دے رہا ہے اور یہ مرض اس قدر بڑھ گیا ہے کہ خود بھاگوت کو یہ کہنا پڑ جاتا ہے کہ ہر مسجد کے نیچے شیولنگ ڈھونڈنا ضروری نہیں ہے مگر یوگی تک ان کی نصیحت پر کان نہیں دھرنے کے بجائے سنبھل کی مسجد کا تنازع کھڑا کرکے اپنی سیاست چمکاتے ہیں ۔ بھاگوت کے کنفیوژن کا یہ عالم ہے کہ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ کاشی اور متھرا تنازع میں سنگھ ملوث نہیں ہوگا مگر پھر مسلمانوں کو یہ دونوں عباتگاہیں ہندووں کے حوالے کردینے کا مشورہ بھی دے دیتے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا انہوں نے مسلم سماج کو بھی اپنی طرح بیوقوف سمجھ رکھا ہے ؟
دن رات ہندو راشٹر کے قیام کی مالا جپنے والے سنگھ پریوار کا سر براہ جب کہتا ہے کہ ”ہمیں بھارتی غلبے کے حوالے سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے ، مسلمانوں کے غلبے کے بارے میں نہیں”۔ جب وہ فرماتے ہیں کہ” مسلم برادری کے سمجھدار رہنماؤں کو انتہا پسندی کی مخالفت کرنی چاہیے ” تو بیک وقت ہنسی اور رونا دونوں آتا ہے ۔ موہن بھاگوت کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں کے ذریعہ آیا۔ سچ تو یہ ہے ہندوستان میں اسلام حملہ آوروں نے نہیں بلکہ صوفیاء کرام کی سعیٔ جمیل سے پھیلا۔ مسلم حکمرانوں کی آمد سے بہت پہلے ملک کی جنوبی ریاست کیرالا میں پہلی مسجد تعمیر ہوگئی تھی جبکہ وہاں مسلم حکمرانوں نے کوئی حملہ نہیں کیا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مسلم حکمرانوں نے ہندووں پر عقیدے کے معاملے کوئی زور زبردستی نہیں کی ۔ ہندو راجاوں اور مسلم بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگوں کو مذہبی رنگ دینے کا کام ہندوتوا نوازوں نے کیا ہے ۔ سر سنگھ چالک سمیت وزیر اعظم واسودھیو کٹمبکم یعنی ساری دنیا ایک کنبہ ہے کی بات تو بہت کرتے ہیں مگر دراندازی یعنی گھس پیٹھیا کی سیاست اور این آر سی کے ذریعہ اپنے ہی ملک کے باشندوں کو شہریت سے محروم کرنے کی سازش کرنے میں بھی پیش پیش رہتے ہیں۔
موہن بھاگوت نے ویسے تو طبِ حیوانی کی پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی ہے مگر کبھی کبھار وہ بڑی دانشورانہ باتیں کرنے لگتے ہیں مثلاًانہوں نے ہندوستان کی فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ یہاں کا مزاج جدوجہد یا ٹکراؤ کا نہیں بلکہ افہام و تفہیم کا ہے ۔ہندوستان کی اکائی زمین، وسائل اور معرفتِ ذات کی وجہ سے ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ بھارت ماتا اور ہمارے بزرگوں کے تئیں عقیدت ہی سچے ہندو کی پہچان ہے ۔ان بلند بانگ دعووں کا معروضی جائزہ لینا ضروری ہے ۔ ہندوستان میں جنم لینے والے بودھ مت کا دیش نکالا کس نے کیا ؟ اس معاملے کو افہام تفہیم کے ذریعہ سلجھانے کے بجائے بودھوں کو نسل کشی سے ڈراکر ملک بدری کے لیے کیوں مجبور کیا گیا؟ آج کے دور میں علی
الاعلان نسل کشی کی ترغیب کون دے رہا ہے ؟ کیا نیپال میں چند سال قبل اقتدار کی خاطر اپنے خاندان کو موت کے گھاٹ اتارنے والا ولیعہد ہندو نہیں تھا ۔ اس وقت تو وہ دنیا کی واحد ہندو ریاست تھی؟ ا بھی حال میں نیپال کے سابق وزیر اعظم کی بیوی کو زندہ جلا دینے والے کون تھے ؟ اس سے قبل بنگلہ دیش اور سری لنکا میں بھی اقتدار تبدیل ہوا مگر ایسی سفاکی کا مظاہرہ کہیں نہیں ہوا۔ لداخ میں اپنے ہی نوجوانوں پر گولی چلانے کا حکم دینے والے ہندو ہے یا نہیں؟
آر ایس ایس کے سربراہ ڈاکٹر موہن بھاگوت نے عصرِ حاضر میں اپنی تنظیم کی غرض و غایت اس طرح بیان کی کہ سنگھ کی حقیقی معنویت تبھی ہے ، جب بھارت وشوگرو (عالمی رہنما) بنے ۔ عالمی قیادت کے تناظر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو مایوس کن صورتحال سامنے آتی ہے ۔ وہ بغیر چیلوں کے وشو گرو دکھائی دیتے ہیں ۔ عالمی سیاست کی بساط چین اور امریکہ مودی جی سے کھیل ر ہے ہیں ۔ ٹرمپ ایک دن ڈانٹتے ہیں تو دوسرے دن دوست کو گنوانے پر افسوس کا اظہار کرکے امید جگاتے ہیں ۔ تیسرے دن تعریف کرکے پچکارتے ہیں اور چوتھے دن اپنے وزیر خزانہ نے مزید ٹیرف کے بڑھانے کی دھمکی دے دیتے ہیں۔
یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی شریر بچے کو پہلے ڈانٹا جائے اور وہ منہ بسور کر بیٹھ جائے تو لالی پاپ پکڑا کر خوش کردیا جائے ۔وہ اسے لے کر اچھلنے کودنے لگے اور پھر سے شرارت کا خطرہ لاحق ہوجائے تو دوبارہ ڈانٹ ڈپٹ دیا جائے ۔ امریکہ یہی کررہا ہے اور اسی لیے وزیر اعظم نے اس بار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں شرکت کے لیے بذاتِ خود امریکہ جانے کے بجائے وزیر خارجہ کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے لیکن یہ حل نہیں ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کو پنڈت نہرو نے غیر جانبدار ممالک کا عالمی رہنما بنایا تھا مودی جی جیسے نام نہاد وشوگرو نے اس مقامِ بلند سے بھی ہندوستان کو محروم کردیا ہے ۔ اس انحطاط میں آر ایس ایس کا بھی حصہ ہے کیونکہ وزیر اعظم ملک کے نہیں بلکہ سنگھ کے سیوک( خادم ) ہیں۔کاش کے یہ بات موہن بھاگوت کی سمجھ میں آجائے کہ ملک کو وشو گرو بنانا کم از کم مودی جی کے بس کا روگ نہیں ہے ۔موہن بھاگوت نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک سپر پاور ہے اور وہ کسی کی بھی پروا نہیں کرے گا لیکن سوال یہ کہ کون ہماری پروا کرتا ہے ۔ چین، امریکہ، روس اور سعودی عرب سبھی تو پاکستان کے ہمنوا بنے ہوئے ہیں۔ بھاگوت اپنے آپ کو بہلانے کے لیے کہتے ہیں لوگ ہماری ترقی سے حسد کرتے ہیں حالانکہ ‘دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے ‘۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں وجود منگل 23 دسمبر 2025
پاک بنگلہ دو قومی نظریہ سے جڑے ہیں

طاقت اور جہالت وجود منگل 23 دسمبر 2025
طاقت اور جہالت

آخراس سے نیچے ہم کہاں جائیں گے! وجود منگل 23 دسمبر 2025
آخراس سے نیچے ہم کہاں جائیں گے!

یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے ! وجود منگل 23 دسمبر 2025
یہ کھیل اب اختتام چاہتا ہے !

سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ وجود پیر 22 دسمبر 2025
سڈنی حملہ، بھارتی میڈیا اور پروپیگنڈے کا بے نقاب چہرہ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر