وجود

... loading ...

وجود

غزہ کاامن اور انعام کا جنون

جمعرات 09 اکتوبر 2025 غزہ کاامن اور انعام کا جنون

حمیداللہ بھٹی

کیادوریاستی حل مشرقِ وسطیٰ کے امن کا ضامن ثابت ہو گا ؟اِس حوالے سے وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر امریکی صدر کے حماس پر دبائو سے واضح ہے کہ امن منصوبہ تسلیم کرلیاجائے گااورمصر کے سیاحتی شہر شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس کے بالواسطہ مزاکرات میں قیدیوں کے تبادلے کا طریقہ کار بھی طے پاجائے گا۔ امن منصوبے کے نتائج کا دنیا کوہی شدت سے انتظار نہیں بلکہ امریکی صدر بھی یقینابے چین ہوں گے کیونکہ نوبل انعام تقسیم کرنے کے لیے نامزدگی کاعمل رواں ماہ چھ اکتوبر سے شروع ہوچکا ہے جو تیرہ اکتوبر مکمل ہوجائے گا جس کا حصول امن منصوبے کے نتائج پرہے مگر ایسے حالات میں جب قطر اور مصر کے اہلکار مزاکرات میں فریقین سے امن منصوبے پر عملدرآمد کے حوالے سے ملاقاتوں میں مصروف ہیں پھربھی غزہ پر اسرائیل بمباری کررہا ہے۔ فضائی حملے جاری ہیں جنونی فوجی بھی قتل عام میں مصروف ہیں تاکہ سیز فائر سے قبل زیادہ سے زیادہ شہری آبادی کا خاتمہ کیا جا سکے۔ یہ وحشت و سفاکیت ہے جسے دفاع کا حق نہیں کہہ سکتے۔ یہ تو ایک طاقتور وحشی کا کمزور پرظلم وجبرہے۔ اِتنے جرائم میں شریکِ کارہونے کے باوجودٹرمپ کی طرف سے نوبل انعام کی آرزوباعث تعجب ہے۔
حق حکمرانی سے دستبرداری حماس کے لیے مشکل مرحلہ ضرورہے لیکن ناممکن نہیں کیونکہ ایسا کرنے کے سوا اُس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔ البتہ غزہ سے اسرائیل کا مکمل طورپر فوجی انخلا ہونا کسی صورت ممکن نہیں کیونکہ اُسے امریکی حمایت اور اسلحے کی فراہمی جاری ہے۔ اِس لیے آپشن بھی لامحدودہیں۔ سات اکتوبر 2023کے اسرائیل پر حملے کے بعد سے حماس کو مسلسل مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ میرا شروع سے موقف رہا ہے کہ حماس نے حملے کی حماقت کی ہے اب اِس کے نتائج غزہ کے عام مکین بھگتیں گے ۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا اسرائیل نے وحشیانہ حملوں سے غزہ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ا سکولوں ،ہسپتالوں ،رہائشی عمارتوں اور امدادی مراکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیااور اب ناکہ بندی سے معصوم شہریوں کو بھوک و پیاس سے ماررہا ہے۔ یہ درندگی ہی دنیا کو جگانے کا باعث بنی دنیا کے چوالیس ممالک کے رضا کار اپنی حکومتوں کی لاتعلقی کے باوجودغزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کی کوشش کر چکے ہیں۔ صمودفلوٹیلا کے نام سے حال ہی میں پچاس کشتیوں کے ذریعے پانچ سو رضا کارغزہ کے قریب گرفتار ہوئے۔ اسرائیل نے لبنان میں حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ اورایران میں حماس رہنمااسمعیل ہانیہ کو نشانہ بنایا۔ امریکی اتحادی قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس وفد پر حملہ کیا ۔خطے کاامن برباد کرنے کے لیے امریکہ نے اسرائیل کو دفاع کے نام پرکُھلی چھٹی دے رکھی ہے۔ غزہ میں امن کے لیے جب بھی اقوامِ متحدہ میں قرارداد پیش کی گئی۔ امریکہ مسلسل ویٹو کررہاہے۔ ٹرمپ غزہ نسل کشی کے جُرم میں شریک کار ہے۔ اِن حالات میں امن کا نوبل انعام دنیا انصاف نہیں طاقتور کے آگے جھکنا ہوگا۔
پاکستان سمیت آٹھ اسلامی ممالک نے غزہ جنگ بندی کے لیے حماس کے مثبت ردِ عمل کا خیر مقدم کیا ہے مگر حکومتوں کی طرف سے سراہنے کے باوجودعوام کو تحفظات ہیں ۔خیر حماس کے پاس ایسا متبادل ہی نہیں کہ وہ اِس کے سواکچھ اور سوچ سکے جب ہر بار اقوامِ متحدہ میں امن کی قرارداد کو امریکہ ویٹو کر دیتا ہے اور ایک برس سے غزہ میں ادویات ،کھانے پینے کی اشیا سمیت صاف پانی تک کی قلت ہے۔ ایسے حالات میں حماس کی رضامندی ایک قسم کی مجبوری ہے ۔یہ مجبوری ہی امریکی صدر کی ناپسندیدہ شرائط کو تسلیم کرنے کا موجب ہے۔ حماس کی طرف سے اپنااسلحہ خود مختار فلسطینی ریاست کے حوالے کرنے کا وعدہ معاملات سے الگ ہونے کی طرف اِشارہ ہے لیکن ایسے حالات میںجب دنیا کے تجزیہ کار متفق ہیں کہ ایک مکمل طور پر آزاد وخود مختار فلسطینی ریاست کا ظہور ناممکن ہے توسوال یہ ہے کہ حماس اپنا اسلحہ کس کے حوالے کرے گی؟ اسرائیل کیسے اور کب فوجی انخلا کرے گا؟ بظاہر ایسے کئی سوالات ہیں جن کاکسی کے پاس جواب نہیں توسوال یہ ہے کہ جب غزہ کا امن بحال نہیں ہو نا تو امن کا نوبل انعام کا جنون کیونکرہے؟
79سالہ امریکی صدر ٹرمپ کو اپنی ذہانت اور معاملہ فہمی پر ناز ہے وہ ایک متکبر اور نمود ونمائش کا رسیا ایسا شخص ہے جسے اپنی ذات کے سواکسی کی کم ہی پرواہ ہوتی ہے ۔سچی بات تو یہ ہے کہ ٹرمپ سے زیادہ سوئیڈن کی بائیس سالہ گریٹا تھون برگ عوام میں زیادہ قابلِ اعتبار اور لائقِ احترام ہے جومظاہرے کی پاداش میں اپنے ملک میں بگرفتار ہوئی اورتمام تر نامساعد حالات کے باوجود غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانے کی عملی کوشش کی۔ ٹرمپ سے تو اُن کے اپنے ملک کی عوامی اکثریت بدظن ہے۔ فلسطینی تو ویسے بھی اُنھیں ناپسند کرتے ہیں ۔عین ممکن ہے مسلم حکمرانوں کی حمایت سے ٹرمپ ناانصافی پر مبنی اپنا امن منصوبہ منوا لے اور امن کا نوبل انعام بھی حاصل کر لے لیکن خطے میںحقیقی امن ملنے کے آثار کم ہیں۔ کیونکہ امن کی آڑ میں انھیں اسرائیل کومحفوظ و مستحکم بنانے کا جنون ہے۔ اسی لیے غزہ میں سیز فائر کی ہر کوشش کو ویٹوپاور سے ناکام بناکر اسرائیل کو قتل عام کے مواقع دیے سترہزار معصوم شہریوں کی خونریزی کرانے کے بعد امن کانوبل انعام لیناویسے ہی بے معنی ہوجاتا ہے۔
1994میں اوسلوامن معاہدے کے تین اہم کرداروں پی ایل او کے سربراہ یاسر عرفات ، اسرائیل کے دو سابق وزرائے اعظم شمعون پیریز اور اسحاق رابن کو بھی امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ اِ ن میں اسحاق رابن کو تو ایک جنونی یہودی نے قتل کر دیا۔مزیدحیرانگی کی بات یہ کہ اِس قتل پر اسرائیل میں خوشیاں منائی گئیں۔اِس واقعہ سے اسرائیلیوں کی سوچ آشکارہوتی ہے کہ امن کے علمبرداروں کو وہ پسند نہیں کرتے اِسی لیے فلسطینیوں کو امن نصیب نہیں ہورہا۔غزہ کا قتلِ عام جدید دنیا کا ہولوکاسٹ ہے۔ خیر ٹرمپ کی بھی مسلم دشمنی کسی سے پوشید ہ نہیں ۔وہ نفرت چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتے۔ اِس کے باوجود مسلم ممالک کی طر ف سے نام نہادامن منصوبہ قبول کرنا سمجھ سے باہرہے اور ہاں غزہ کی ناکہ بندی ختم کرانا یا توڑنا تو اقوامِ متحدہ اور او آئی سی کی ذمہ داری تھی مگر یہ دونوں اِدارے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کر سکے جب سب کومعلوم ہے کہ ٹرمپ قتلِ عام کا سرپرست اور مذہبی تعصب رکھتاہے تو امن کا نوبل انعام حاصل کرنے میں مسلم ممالک کی سہولت کاری ناقابلِ فہم ہے۔

 


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر