وجود

... loading ...

وجود

ملاقاتیں اور نوازشیں چہ معنی دارد ؟

اتوار 28 ستمبر 2025 ملاقاتیں اور نوازشیں چہ معنی دارد ؟

حمیداللہ بھٹی

پاک امریکہ روابط کاثمر ہے کہ پاکستان کی عالمی ساکھ بہتر اور عالمی مالیاتی اِدارے قرض دینے میں بھی فیاض ہوئے ہیں۔ امریکی صدر کا فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کو ناشتے پر مدعو کرنے اوراب وزیراعظم شہباز شریف اور جنرل عاصم منیر سے ایک گھنٹہ سے زائد خوشگوار ملاقات کو اندرون و بیرونِ ملک حیرت سے دیکھا جارہا ہے جسے کچھ حلقے بھارت سے تعلقات میں بگاڑ کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں مگر شاید بات اتنی سادہ نہیں جس طرح ظاہر کی جارہی ہے۔ یہ درست ہے کہ امریکی صدرڈونلڈٹرمپ سیمابی فطرت کے مالک ہیں لیکن اِتنے سطحی اور بچگانہ نہیں ہو سکتے کہ تعلقات بگاڑتے اور سنوارتے جذبات کی رومیں بہہ جائیں ۔اِس حوالے سے اسرائیل کی نظیر ہمارے سامنے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے فلسطین اور غزہ کے حوالے سے جب عالمگیر سوچ کے وہ مخالف سمت میں کھڑے ہیں،آئندہ بھی حالات خواہ کچھ ہو جائیں امریکی قیادت اسرائیلی دفاع پرکسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کر سکتی۔ اس تناظرمیں ایک مسلم جوہری ملک پر اچانک نوازشات کچھ ہضم نہیں ہو رہیں۔ بظاہر پاکستان ایک بارپھر امریکی ضرورت بن چکا ہے ۔اسی لیے قُربت و اُلفت کااظہار کیا جارہا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ پاکستانی قیادت ماضی کومد نظر رکھتے ہوئے ایسے اقدامات سے گریز کرے جن کے نتائج پاکستان کی بجائے صرف امریکہ کے لیے بہتر ہوں۔
پاکستان کوبخوبی تجربہ ہے کہ امریکی دشمنی سے زیادہ دوستی خطرناک ہوتی ہے مگروزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے دورسے امریکی عشق میں مبتلا پاکستانی قیادت بار بار نقصان اُٹھا کر بھی روش بدلنے کو تیار نہیں۔ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں پاکستان دولخت ہو گیا جبکہ امریکی بحری بیڑے کی آمد کامژدہ ہنوزپورا نہیں ہو سکا ۔ایف سولہ لڑاکا طیارے دیتے ہوئے پابند کیا جاتا ہے کہ بھارت پر حملے کے لیے استعمال نہ کریں چین سے امریکی روابط قائم کرانے اورافغان جنگ میںروس کے خلاف استعمال ہونے کے باوجود پاکستان آج بھی امریکہ کا اعتماد حاصل نہیں کر سکا ۔امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان پر حملے کے دوران بھی پاکستان سے بزورتعاون لیا گیا۔ اِس دوران شکوک وشبہات ظاہر کرتے ہوئے ڈومورجیسے مطالبا ت ہوتے رہے کیا یہ سمجھنے کے لیے ناکافی ہے کہ امریکہ سے معاہدے کرتے ہوئے احتیاط پسندی سے کام لیا جائے ؟
کچھ خوش فہم حلقے کہتے ہیں کہ پاکستان کے جوہری پروگرام کی تکمیل میں امریکی تعاون کارفرما ہے وگرنہ یہ کسی صورت پایہ تکمیل کونہ پہنچتا اِس میں کوئی صداقت نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ روس و افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان امریکہ کی ضرورت تھا۔اسی لیے امریکہ نے کچھ نرمی برتی۔ اگر پاکستان تعاون نہ کرتا تو نہ صرف روس دولخت نہ ہوتا بلکہ افغانستان سے روسی انخلا بھی ہر گز نہ ہوتا۔ اِس کے باوجود پاکستان جوہری پرو گرام مسلسل دبائو میں رہا اور ہربرس امریکی صدر اِس حوالے سے ایک خط جاری کرتا رہا جس میں تصدیق کی جاتی کہ پاکستان جوہری ہتھیار تیار نہیں کررہا۔ مگر روسی خطرہ ختم ہوتے ہی آنکھیں پھیر لی گئیں اور پاکستان پر مختلف نوعیت کی پابندیاں عائد کردی گئیں۔ مشرف دور میں جوہری ہتھیاروں کے پھیلائوکا الزام لگا کرمجبور کیا گیاکہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی بے توقیری کی جائے اِس کے باوجود اگر کوئی امریکی خلوص پر یقین رکھتا ہے تو میرے خیال میں حقائق کوجھٹلانے کے مترادف ہے ۔
اب ایک بار پاکستان اہمیت اختیار کر گیا ہے جس کی کئی ایک وجوہات ہیں اول۔چین کامعاشی اور فوجی قوت بننا،دوم۔ایران کا اسرائیل کے لیے خطرہ ہونا،سوم ۔افغان انتظامیہ سے معدنیات میں شراکت داری۔چہارم بھارت کو پاکستان کے ذریعے مجبور کرنا کہ وہ غیر مشروط طورپر امریکہ کے زیرِ اثر رہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ امریکی انتظامیہ پاکستانی قیادت پر فریفتہ ہے ۔رواں برس مئی کی پاک بھارت محدود جنگ نے امریکہ کو باور کرادیا ہے کہ روایتی اور غیر روایتی دونوں حوالے سے پاکستان کو بھارت پر برتری حاصل ہے جوامریکی مفاد کے منافی ہے ۔اسی لیے پاکستان کی فوجی قیادت سے روابط بڑھائے جارہے ہیں تاکہ بوقت ِ ضرورت اپنے مفاد کے مطابق فیصلے لیے جا سکیں لہٰذا ملکی مفاد ہرگزنظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ کرپٹو کرنسی کے حوالے سے پاکستان غیر ضروری رعایت دے چکا اب بھی ایسی افواہیں زبانِ زدو عام ہیں کہ معدنیات کے حوالے سے ہر امریکی مطالبے پر سرتسلیمِ خم کیا جارہا ہے۔ اگر یہ افواہیں درست ہیں تو ایسے معاہدوں سے اجتناب بہترہوگا جن سے ملک و قوم کا کچھ بھلا نہ ہو اور تمام وسائل امریکی کمپنیاں لوٹ کر نو دو گیارہ ہو جائیں۔
اِس وقت پاکستان غیر جانبدانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ روس،چین ،ایران سے لیکر سعودی عرب تک پاکستان سے تعلقات اور اشتراک کار بڑھانے میں سنجیدہ ہیں۔ یہ ایک اہم سفارتی کامیابی ہے۔ پاک چین سی پیک منصوبہ سے خطے میں معاشی سرگرمیوںمیں اضافہ یقینی ہے۔ مگر اِس حوالے سے امریکی خدشات کسی سے پو شیدہ نہیں۔پاک سعودیہ دفاعی معاہدے سے پاکستان کو معاشی فوائد حاصل ہونے کا بھی قومی امکان ہے ۔پاکستانی قیادت کوشش کرے کہ ملک کو فوجی قوت بنانے کے بعد اب معاشی طاقت بنانے کی طرف پیش رفت ہو۔ ایسا تبھی ممکن ہے جب پاکستان کسی ایک عالمی طاقت پر انحصار کرنے کی بجائے تمام آپشن کُھلے رکھے۔ ماضی کی طرح کسی ایک پر انحصار دستیاب مواقع ضائع کرسکتا ہے۔ ایک عالمی طاقت کاطرفدار بن کررہنااور دیگر کو ناراض کر دینا کوئی دانشمندانہ فیصلہ نہیں۔
چین پاکستان کا ہمسایہ ملک ہے ۔یہ ایک بڑی معاشی اور فوجی طاقت ہے اِس لیے کسی ملک سے دوطرفہ تعلقات میں علاقائی امور کو نظر انداز کرنا مناسب نہیں۔ ٹرمپ کے مسلم مخالف خیالات کسی سے مخفی نہیں ۔اقوامِ متحدہ سے خطاب کے دوران میئر لندن صادق خان پر خوبصورت تہذیبی شہر کوبرباد کرنا اور لندن میں شریعت نافذ کرنے کا الزام لگاناغیر معمولی حرکت ہے۔ ٹرمپ تو غیر قانونی تارکینِ وطن کے لیے سرحدیں کھولنے کے یورپی ممالک کے فیصلے کو اپنے ممالک جہنم بنانے کے مترادف قرادیتے ہیں۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر مسلم ممالک غریب ہیں جن کے شہری بہتر روزگار کے لیے یورپ کا رُخ کرتے ہیں ۔یہ خیالات واضح کرتے ہیں کہ ٹرمپ سے کسی مسلم ملک پر نوازشات خالی ازعلت نہیں۔ پاک سعودیہ دفاعی معاہدے پر امریکہ اور اسرائیل کی خاموشی بھی معنی خیز ہے۔ بہتر یہ ہے کہ فیصلوں میں ملکی اور قومی مفاد کو اولیت دی جائے کہیں ایسا نہ ہو کہ تاریخ میں موجودہ قیادت کی داستان بُرے القابات کاباعث بنے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
ٹرمپ کی نوبیل سیاست اور امن کا سودا

پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
پاکستان میں انسانی حقوق اور خواجہ سرا کمیونٹی کی صورتحال

بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی وجود جمعه 10 اکتوبر 2025
بھارت میں بڑھتی ہوئی مسلم دشمنی

لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025
لداخی عوام کی حمایت کیلئے بھارت بھر سے آوازیں

وجود جمعرات 09 اکتوبر 2025

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر