... loading ...
اونچ نیچ
۔۔۔
آفتا ب احمد خانزادہ
۔۔۔۔۔۔
پالینا سائمنزکہتی ہے ”تمام عظیم چیزوں کے لیے قابل قدر قربانی کی ضرورت ہوتی ہے”۔یہ اقتباس اس خیال سے بات کرتا ہے کہ حقیقی کامیابی اور تکمیل اکثر قیمت پر آتی ہے۔ پاؤلینا سائمنز تجویز کر رہی ہیں کہ زندگی میں سب سے بڑے انعامات کسی سطح کی قربانی یا چھوڑے بغیر حاصل نہیں ہوتے۔ یہ ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے ایک مشکل سچائی ہو سکتی ہے، کیونکہ ہم اکثر اپنے آرام اور سہولت کو اصل اہمیت کی چیزوں پر ترجیح دیتے ہیں۔جملے ”عظیم چیزیں رکھنے کے قابل” کا مطلب یہ ہے کہ کچھ اہداف یا خواہشات ہیں جو واقعی قابل قدر ہیں، یہاں تک کہ اگر انہیں حاصل کرنے کے لئے اہم کوشش یا مشقت کی ضرورت ہو۔ ان میں ذاتی ترقی، روحانی ترقی، تخلیقی اظہار، یا دنیا میں مثبت اثر ڈالنا شامل ہو سکتا ہے۔اقتباس کا دوسرا حصہ، ”عظیم قربانی دینے کی ضرورت ہے”،ان عظیم چیزوں کو حاصل کرنے میں بے لوثی اور سخاوت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حقیقی کامیابی صرف انفرادی کامیابی کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ اپنے سے بڑی چیز میں حصہ ڈالنے کے بارے میں بھی ہے۔ ”کولمبس نے امریکہ کو دریافت کیا ”۔چھ لفظ کے اس جملے کو آج ایک شخص چھ سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اپنی زبان سے ادا کر سکتاہے مگر اس واقعہ کو ظہور میں لانے کے لیے کولمبس کو 20سال صرف کر نے پڑے ، یہ ہی اس دنیا میں کامیابی کاطریقہ ہے اس دنیا میں ہر کامیابی 20سالہ محنت مانگتی ہے۔ اس کے بغیر یہاں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی جاسکتی ۔
نیل آرم اسٹرانگ پہلے شخص ہیں جنہوں نے چاند کا سفر کیا۔21 جولائی1969 کو انہوں نے ایگل نامی چاند گاڑی سے اترکر چاند کی سطح پر اپنا قدم رکھا اس وقت زمین اور چاند کے درمیان برابر مواصلاتی رابطہ قائم تھا چاند پر اترنے کے بعد اس نے زمین والوں کو جو پہلا پیغام دیا وہ یہ تھا کہ ” ایک شخص کے اعتبار سے یہ ایک چھوٹا قدم ہے مگر انسانیت کے لیے یہ ایک عظیم چھلانگ ہے ”۔ آرم اسٹرانگ کا مطلب یہ تھا کہ میرا اس وقت چاند پر اترنا بظاہر صرف ایک شخص کا چاند پر اترنا ہے مگر وہ ایک نئے کائناتی دور کا آغاز ہے۔ ایک شخص کے بحفاظت چاند پر اترنے سے یہ ثابت ہو گیا کہ وہ وقت آئے گا جب کہ عام لوگ ایک سیارہ سے دوسرے سیارے تک اسی طرح سفر کرنے لگیں گے جس طرح وہ زمین پر کرتے ہیں ۔ہر بڑا کام اسی طرح ہوتاہے ابتداء میں ایک فرد یاچندافراد قربانی دے کر ایک دریافت تک پہنچتے ہیں۔ اس طرح وہ دوسروں انسانوں کے لیے ایک نیا راستہ کھولتے ہیں ۔یہ ابتدائی کام بلاشبہ انتہائی مشکل ہے وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے کھسکا نے کے ہم معنی ہیں مگر جب یہ ابتدائی کام ہوجاتا ہے تو اس کے بعد سارا معاملہ آسان ہو جاتاہے ۔ بس اس کے لیے زیادہ ہمت ، جرأت ، حوصلے ، لگن ، ولولہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔ کوئی بھی کام ناممکن نہیں ہوتا ۔بس ناممکن اور ممکن کے درمیانی فاصلے کو طے کر نے کے لیے آپ کو اپنے اندر دوسروں سے زیادہ ہمت اور جرأت پیدا کرنا ہوتی ہے۔
قیصر ولیم دوم 1888 سے لے کر 1918 تک جرمنی کا بادشاہ تھا اس کا بایاں بازو پیدائشی طورپر نا قص اور چھوٹا تھا۔ قیصر ولیم ہی کی غیر مدبرانہ سیاست کے نتیجے میں پہلی جنگ عظیم چھڑی۔ اس میںایک طرف جرمنی اور اس کے ساتھی تھے اور دوسری طرف برطانیہ اور اس کے ساتھی ۔ آخر کار جرمنی کو شکست ہوئی اس کے ساتھ ہی قیصر ولیم کی حکومت بھی ختم ہوگئی۔ قید اور قتل سے بچنے کے لیے اس نے اپنا ملک چھوڑ دیا۔وہ نیدر لینڈ چلا گیا وہ روم میں خا موشی سے زندگی کے بقیہ دن گذارتا رہا ۔یہاں تک کہ وہ 1941 کی عمر میں مر گیا۔ پہلی جنگ عظیم سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے قیصر ولیم ایک سرکاری دورے پر سو ئٹزر لینڈ گیا۔وہ یہ دیکھ کر بہت خو ش ہوا کہ سو ئٹزر لینڈاگر چہ چھوٹاملک ہے مگراس کی فوج بہت منظم ہے۔ اس نے ملاقات کے دوران سو ئٹزر لینڈ کے ایک فوجی سے مزاحیہ انداز میں کہا کہ جرمنی کی زبردست فوج جس کی تعداد تمہاری فوج سے دگنی ہے اگر تمہارے ملک پر حملہ کردے تو تم کیاکروگے۔ اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی نے بڑی سنجیدگی سے جواب دیا ” سر ہمیں ایک کے بجائے دو فائر کرنے پڑیں گے ” ۔ سو ئس فوجی کا یہ چھوٹا سا جملہ ایک بہت بڑی حقیقت کا اعلان ہے، وسائل اگر کم ہوں تو کارکردگی کی زیادتی سے آپ اس کی تلافی کرسکتے ہیں۔ آپ کی تعداد اگر فریق کی تعداد کا نصف ہے تو آپ دگنی محنت کرکے زندگی کے میدان میں اس کے برابر ہوسکتے ہیں ۔نفسیات کے ماہرین نے اندازہ لگایاہے کہ انسان پیدائشی طور پر جن صلاحیتوں کا مالک ہے عام طور پر وہ ان کا صرف دس فیصد استعمال کرتاہے ۔ہارورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم جیمس نے کہا ہے
” جوکچھ ہمیں بننا چاہیے وہ کچھ ہم بننے کے لیے تیار نہیں ” ۔ولیم جیمس کی کہی ہوئی بات سو فیصد ہم پرپوری اترتی ہے خدا نے ہم کو ہر قسم کی نعمتوں سے نوازا ہے لیکن ہم ہیں کہ ناشکری پر نا شکری کرتے جارہے ہیں۔ ہم سے زیادہ بدترین مسائل کا شکار لوگوں نے اپنے نصیب خود اپنے ہاتھوں بدل ڈالے ، انہوں نے سب سے پہلے اپنے مسائل اور ان کی وجوہات کا تفصیلی جائزہ لیا ان کا حل ڈھو نڈا اور ہمت ،حوصلے کو اپنی ذاتوں میں جمع کیااورترقی اور خو شحالی کے راستے پر پہلا قدم رکھ دیا۔ اس راستے پر انہیں بے پنا ہ مسائل ، پر یشانیوں اورمصیبتوں کا سامنا کرناپڑا لیکن انہوں نے نہ تو ہمت ہاری اور نہ اپنے حوصلہ کو پست ہونے دیا۔ اور آخر کارپریشانیوں ، مسائل ، مصیبتوں نے اپنی شکست تسلیم کرلی اور ان کے راستے سے ہٹ گئیں۔ کسی بھی منزل پر پہنچنے کے لیے پہلا قدم اٹھانا لازمی ہوتا ہے۔ صرف برا بھلا کہنے سے اپنی قسمت اور نصیب کو کوستے رہنے سے حالات تبدیل نہیں ہوتے۔ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہنے سے قسمت اور نصیب کبھی بدلا نہیں کرتے۔ صرف خواہشات کافی نہیں ہوتیں، اگر صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوسکتے تو ہمارے حالات نجانے کب کے بدل چکے ہوتے ۔دوسروں کو الزام دینا بزدلی کم ہمتی اوراعترا ف شکست ہوتا ہے۔ دعائیں بھی اس وقت اثر کرتی ہیں جب دوا بھی ساتھ ساتھ جاری ہو۔ اگر آپ یہ سمجھیں بیٹھے ہیں کہ صرف خواہشات سے حالات تبدیل ہوجائیں گے تو بیٹھے رہیے انتظار کرتے رہیے۔ آخر وہ وقت آہی جائے گا جب آپ کے پیارے آپ کی ابدی زندگی کے لیے دعاگو ہورہے ہونگے ۔ یہ آپ پر خود منحصر ہے کہ آپ اپنی زندگی کن حالات میں گزارنا چاہتے ہیں اگر آپ اپنی بدحالی ، غربت، افلاس، بے اختیار ی ، ذلت میں خوش و خر م ہیں تو کوئی بھی آپ کو اپنے حالات تبدیل کرنے کے لیے اصرار نہیں کریگا ۔ آپ اپنے ان ہی حالات میں مزے کیجئے خو ش و خرم رہیے ذلت برداشت کرتے رہیے۔ کڑھتے رہیے دوسروں کو برابھلا کہتے رہیے اور دعا کرتے رہیے کہ جو خو شیاں عیش و آرام ، نعمتیں ، سکون آپ کو دنیا میں نصیب نہ ہوسکا وہ خدا آپ کو جنت الفر دوس میں نوازے۔ لیکن اگر مر کے بھی چین نہ آیا تو پھر کیا کیجیے گا ۔ ایک دوسرا راستہ اور ہے جو آپ کی موجودہ اور ابدی زندگی دونوں کو سنوار سکتا ہے اور وہ راستہ ہے ہمت، جرأت ، حوصلے کا، آئیں کم ہمتی ، بزدلی ، ڈرپوکی کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں اور غاصبوں ، ظالموں ، لٹیروں ، سے اپنے حقوق ، خو شحالی ، چین ، سکون اپنے لیے اوراپنے پیاروں کے لیے دوسرے مظلوموں کے لیے چھین لیں ۔ اپنے بھی نصیب بدل ڈالیں اور ملک کے تمام بے کسوں ، مجبوروں ، مظلوموں کے نصیب بھی بدل ڈالیں ۔کم ہمتی اور بزدلی جرم ہیں۔ اگر آپ مجرم بن کے جینا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مر ضی ۔ اور اگر نہیں تو پھر دیر نہ کریں ۔ اٹھ کھڑے ہوں اور اٹھ کھڑے ہوں۔