وجود

... loading ...

وجود

قومی خزانے پر عدالتی مراعات کا بوجھ: حقائق اور سوالات

منگل 12 نومبر 2024 قومی خزانے پر عدالتی مراعات کا بوجھ: حقائق اور سوالات

سمیع اللہ ملک

پاکستان کی وفاقی وزارت قانون وانصاف کی جانب سے جاری نوٹی فیکشن میں اعلان کیاگیاکہ سپریم کورٹ کے ججوں کو ملنے والے ہاؤس رینٹ(گھروں کا کرایہ)ساڑھے تین لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل الاؤنس دس لاکھ روپے سے زیادہ اضافہ کردیاگیاہے لیکن انصاف مہیاکرنے والے کسی ایک جج نے بھی پاکستان کی ابترمعاشی حالت کوسامنے رکھتے ہوئے ان الاؤنسزمیں اضافے پرایک لفظ تک نہیں کہا۔کسی میں تواتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ لاکھوں کے اضافے سے انکارکر دے۔ گھروں کا اتناکرایہ95فیصد پاکستانیوں کی ماہانہ تنخواہ سے بھی زیادہ ہے۔کرایے کی مدمیں ساڑھے تین لاکھ روپے کون اداکرتاہے؟
اس ملک میں یہ عجیب مذاق ہے۔ججوں کیلئے گھرکے کرائے کی مدمیں الانس کو65ہزارروپے سے بڑھاکرساڑھے3لاکھ روپے کر دیا گیا جبکہ جوڈیشل الاؤنس کودس لاکھ روپے سے زیادہ کردیاگیاہے جبکہ غریب کے پاس کھانے کوکچھ نہیں،مڈل کلاس کی تنخواہیں نہیں بڑھتیں، ملک میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے،قابل نوجوانوں کے پاس روزگارنہیں۔ بلومبرگ کی رپورٹ کے مطابق2015 سے لے کر 2024 کے ابتدائی پانچ مہینوں تک مجموعی طورپر62لاکھ20ہزارسے زائد پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑچکے ہیں۔بیوریوآف امیگریشن کے مطابق صرف 2023 میں8لاکھ23ہزارنوجوان اور2024 میں اب تک8لاکھ95ہزارنوجوان پاکستان کوخیرآبادکہہ چکے ہیں لیکن دوسری طرف تقریبا ہرسال ججوں کی تنخواہوں اور مراعات میں لاکھوں کا اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ججز کو ملنے والی نئی مراعات اور دیگر الاؤنسز کے مطابق ایک جج کی ماہانہ تنخواہ 20 لاکھ روپے سے زیادہ ہو گئی ہے ۔ادھر پارلیمان میں 26ویں ترمیم کی منظوری لیکر طوفانی رفتار سے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے ہوئے سپریم کورٹ میں ججوں کی 34 تک کرنے کا بل منظورکرویا گیا جبکہ اس سے قبل سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد 17 سے بڑھا کر 25 کرنے کی منظوری دی تھی۔ اب ان قوانین کی منظوری کے فوری بعد من پسند ججز کی تقرری کے بعد ان کو نوازنے کیلئے شاہانہ مراعات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ اِس وقت سپریم کورٹ میں ججزکی تعداد19ہے جس میں سے17مستقل جبکہ2ایڈہاک جج ہیں۔بظاہرحکومت نے اپنے اس اقدام کی بنیادی وجہ عدالتِ عظمی میں ہزاروں کی تعدادمیں زیرِالتوامقدمات کونمٹاناہے۔سپریم کورٹ کے ریکارڈ کے مطابق اِس وقت عدالت ِعظمی میں زیرالتوامقدمات کی تعداد60ہزارسے زیادہ ہے جبکہ ساری قوم اس حکومتی اقدام کو”اعلی عدلیہ”کے ججوں کو دبامیں لانے اور من پسندافرادکوسپریم کورٹ میں تعینات کرنے کی سوچی سمجھی سازش قراردیتے ہوئے پریشان ہے کہ وہ کس کے ہاتھ پراپنی بے بسی اور اپنے حقوق کاخون تلاش کرے۔ان مراعات کااعلان کرتے ہوئے زیادہ بہترتویہ تھاکہ قوم کویہ بھی بتایاجاتاکہ سپریم کورٹ کے ججز کو حکومت کی جانب سے ماہانہ تنخواہ کے علاوہ کیاکیاسہولیات اورمراعات ملتی ہیں؟
پاکستان میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تنخواہ اس وقت تقریباساڑھے12لاکھ روپے ہے۔وزارت انصاف وقانون کے گزشتہ برس جولائی میں جاری ہونے والے نوٹیفیکشن کے مطابق سپریم کورٹ کے باقی ججزکی ماہانہ تنخواہ تقریبا گیارہ لاکھ بنتی ہے۔سپریم کورٹ ججزلیو،پینشن اینڈپریولیجزآرڈر1997کے مطابق سپریم کورٹ کے ججزکوماہانہ تنخواہ کے علاوہ سرکاری گھربھی ملتاہے۔سرکاری گھرنہ ملنے کی صورت میں سپریم کورٹ کے جج کوکرائے کے گھرمیں رہنے پرماہانہ کرائے کی مدمیں الانس دیاجاتاہے۔گھرکے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان ججزکے گھرمیں استعمال ہونے والی بجلی،گیس اورپانی کابل بھی حکومتی خزانے سے ادا کرتی ہے۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ کے جج کوسرکاری گاڑی کے ساتھ ماہانہ 400 لیٹرپیٹرول بھی ملتاہے۔سپریم کورٹ کے ججزکوانکم ٹیکس سے بھی استثنی حاصل ہوتا ہے۔ ججز کو روزمرہ کے اخراجات کیلئے الاؤنس جبکہ اس کے ساتھ جوڈیشل الاؤنس بھی دیاجاتاہے۔ریٹائرمنٹ پرسپریم کورٹ کے جج کوپینشن کے علاوہ یہ سہولت بھی ملتی ہے کہ وہ سرکاری خرچ پراپنی مرضی کاایک ڈرائیوریاملازم بھی رکھ سکتاہے تاہم جج کی موت کے بعدان کی بیوہ کوبھی یہ سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔
میں تویہ سن کربھی حیران ہوں کہ ججز کوقرض دیے جارہے ہیں،وہ بھی سودسے پاک۔وہ توپہلے ہی سرکاری گھروں میں رہ رہے ہیں اور انہیں مراعات بھی ملتی ہیں۔لاہورہائیکورٹ بارکونسل کے ایک عہدیدارکے مطابق پنجاب کی نگراں حکومت کی جانب سے لاہورہائی کورٹ کے11ججزکوگھروں کی تعمیرکیلئے36کروڑروپے سے زائدکے بلاسود قرضے دینے کی منظوری دی گئی تھی جس کی تصدیق اُس وقت نگراں حکومت کے وزیر اطلاعات نے بھی کی۔صوبائی کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کی جانب سے دی گئی اس منظوری پرملک کی موجودہ معاشی صورتحال میں ایسے اقدامات سے سرکاری خزانے کو نقصان پہنچانے کاآخرکون ذمہ دارہے؟کیااس قومی نقصان اورجرمِ عظیم پرعدلیہ کوسوموٹونوٹس لینے کی توفیق ہوئی؟
تاہم اس وقت جب یہ سوال میں نے اپنے ایک کالم میں نگران حکومت سے پوچھا توانہوں نے بڑی معصومیت سے اپنی جان چھڑاتے ہوئے جواب دیاکہ ماضی میں بھی ججزکوبلا سود قرضے دیے جاچکے ہیں جس کاایک مقصدانہیں کرپشن سے دوررکھناہے۔کیاکوئی صاحب عقل اس منطق سے اتفاق کرسکتاہے کہ ایسے فرد کی بطور جج تعیناتی ہی کیوں کی جائے جس پرذرہ بھربھی کرپشن کا شک ہوتوگویااگریہ مراعات نہ دی جائیں توججزکاکرپشنزمیں ملوث ہونے کااحتمال ہے،اور کیا ماضی میں ایسی کوئی مثال ہے جب آپ نے کسی کرپٹ جج کوعبرت ناک سزا سنائی ہو۔یہاں توخودسپریم کورٹس کے ججزنے متفقہ طورپرذوالفقارعلی بھٹوکی پھانسی کو غلطی قراردیکرثابت کردیاہے اورویسے بھی درجنوں مثالیںایسی ہیں کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کوباعزت بری کیاہے لیکن پتہ چلتاہے کہ ملزمان کوتوکئی برس پہلے پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا گیا تھااوراب ان کے خاندان زمانے بھرکی ٹھوکریں کھارہے ہیں ۔
نگران حکومت نے اپنی غلطی ماننے کی بجائے یہ منطق پیش کردی کہ سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں ایجنڈا نمبر 17، 18 اور 19 میں11ججزکوگھروں کی تعمیرکیلئے جو” بلا سودقرض”منظورکیے گئے جوہرجج کیلئے اوسطاً قریب ساڑھے تین کروڑ روپے کی رقم بنتی ہے،یہ قرضے ججزکی تین برسوں کی36بنیادی تنخواہوں کے برابرہیں جوکہ12سال کی مدت میں ان کی تنخواہوں سے ہی منہاکرلیے جائیں گے جبکہ یہ چھپایاگیاکہ ان مراعات کے بدلے خودحکومت ان ججزسے کیامراعات وصول کرتی ہیں۔یہ نہیں بتایاگیاکہ اگراس کی کیاگارنٹی ہے کہ جج اگلے12سال تک زندہ بھی رہے گایاکہ نہیں۔
حکومت نے اپنابوجھ اتارنے کیلئے قوم کویہ توبتادیاکہ”ججوں کی قرضوں”کیلئے درخواستیں لاہورہائی کورٹ کے رجسٹرارآفس کی جانب سے آئی تھیں جنہیں روٹین کے مطابق پنجاب کابینہ کی سٹینڈنگ کمیٹی برائے خزانہ نے منظورکرلیالیکن حکومت کے دوسرے اداروں میں کام کرنے والے ملازمین ایسی مراعات سے کیوں محروم ہیں جبکہ وہ توباقاعدہ اپنی تنخواہوں پرٹیکس بھی دیتے ہیں اور ججزتوہرقسم کے ٹیکس سے مستثنیٰ ہیں۔حکومت نے یہ بھی اعتراف کیاکہ یہ وہ11جج حضرات ہیں جوقرضے لینے سے رہ گئے تھے۔لاہورہائی کورٹ کے باقی تمام ججز ماضی میں گھربنانے کیلئے مختلف حکومتوں سے سودفری قرض حاصل کرچکے ہیں۔ان 11ججوں نے بھی یہی مؤقف اختیارکیاتھا۔
حکومت نے اپنی غلطی یاکرپشن چھپانے کیلئے مزیدکہاکہ”ججوں کوسودفری قرضے دینے کاایک بڑامقصدانہیں کرپشن سے دور رکھنابھی ہے تاکہ وہ اپنے وسائل سے ہی اپنی سروس کے دوران گھربنانے کے قابل ہوجائیں” جبکہ عقل کے ان اندھوں کویہ معمولی بات کیوں سمجھ میں آتی کہ ججزپہلے ہی بڑی تنخواہیں اورمراعات وصول کررہے ہیں توایسے میں یہ بلا سودقرض بھی بظاہر بدعنوانی کی ایک قسم ہے جس کے ذریعے دراصل ججزسے اپنے حق میں مراعات لینامقصودہے۔تاہم لاہورہائیکورٹ میں دائرکردہ ایک درخواست میں ان قرضوں کو ”امتیازی”اور”عدم مساوات پرمبنی”قراردیتے ہوئے انہیں کالعدم قراردینے کی استدعابھی انہیں ججزکے روبروکی ہے اورپاکستان بار کونسل نے لاہورہائیکورٹ کے ججزکیلئے بلاسودقرضوں پر شدیدتحفظات کااظہارکرتے ہوئے مبینہ نوٹیفکیشن فوری طورپرواپس لینے کامطالبہ کیا ہے۔تاہم قوم یہ مذاق اس سے قبل کئی مرتبہ دیکھ چکی ہے کہ عوام اپنی پارلیمان کے جن افرادکوکرپشن ختم کرنے کیلئے ووٹ دیکرمنتخب کرتی ہے توتنخواہ بڑھانے کے بل پرحکومت اوراپوزیشن ”عوام کے سامنے ایک دوسرے کے خون کے پیاسے”دونوں یک جاں دوقالب نظر آتے ہوئے ایک دوسرے سے بغلگیرہورہے ہوتے ہیں۔
ایک بیان میں بارکونسل نے اسے”غیراخلاقی”اور”غیر قانونی”قراردیااورکہاکہ”ایسے اقدامات سے،خاص طورپرملک کی موجودہ بدترین معاشی حالات میں،سرکاری خزانے کوبہت نقصان پہنچتاہے۔ججوں کیلئے عوامی وسائل سے قرضے کی منظوری کایہ عمل نہ توجائزہے اور نہ ہی قابل قبول ہے جبکہ عوام الناس پہلے ہی افراط زرسے بری طرح متاثرہیں اوران کی معاشی حالت پہلے سے ہی ابترہے،انہیں مہنگائی کا سامناہے۔عوام اوریہاں تک کہ غریبوں سے بھی قرضوں پر20سے25فیصدسودوصول کیاجارہاہے جبکہ ایک جج جوپرکشش تنخواہوں کا پیکیج اوردیگرمراعات سے بھی لطف اندوزہورہاہے،اسے بلاسودقرضہ دینابذات خودججوں کے ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی،امتیازی سلوک اورعدم مساوات کے مترادف ہے”۔
ساری قوم لاہورہائی کورٹ اورسپریم کورٹ کے ججوں سے بھی توقع رکھتے ہیں کہ وہ اس غیراخلاقی اوربلاجوازقرض اورمراعات کوقبول کرنے سے نہ صرف خودانکارکردیں گے بلکہ ججوں سمیت تمام مراعات یافتہ طبقے کوپہلے سے موجود تمام مراعات فوری طورپربندکرنے کاحکم جاری کریں گے۔یہ مراعات ایک ایسے وقت میں دی جارہی ہیں جب عوام مہنگائی کے باعث دب چکے ہیں اورحکومت بجلی کی قیمتیں بڑھاتی چلی جارہی ہے مگردوسری طرف ہماری اشرافیہ کومالی طورپرمزیدمضبوط کیاجارہاہے۔
عدلیہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ انصاف فراہم کریں وہاں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات”رشوت دینے اورعدلیہ پر دباؤ ڈالنے ” جیسا ہے۔ بلا شبہ عدالتوں میں زیرِالتوا کیسز کی بڑی تعدادنے عدالتی نظام مفلوج کرکے رکھ دیاہے جہاں صرف ان کیسزکوترجیحی بنیادوں پر سنا جارہاہے جوسیاسی حلقوں یاسماج کے اشرافیہ سے متعلق ہیں۔غریب اورمتوسط طبقے کے کیسز10،10سال تک عدالتوں میں سنے نہیں
جاتے۔ یہ المیہ ہے کہ دنیاآگے جارہی ہے اورہم پیچھے جارہے ہیں۔ امریکاکے ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے تحت گزشتہ کئی برسوں سے دنیاکے
مختلف ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی اورعدالتی نظاموں سے متعلق اعدادوشمارجمع کیے جاتے ہیں۔دنیاکے128ممالک کے ڈیٹاپرمشتمل
اس ادارے نے اپنی جوتفصیلات جاری کی ہیں،ان میں قانون کی بالادستی یارول آف لاایک انتہائی اہم انڈکس ہے۔اس تحقیق کے مطابق جنوبی ایشیاکے کئی ممالک میں عدلیہ کی کارکردگی کی صورت حال پاکستان کے مقابلے میں کہیں بہترہے۔رول آف لاء انڈکس کے مطابق نیپال اپنی عدلیہ کی کارکردگی کے لحاظ سے61ویں، سری لنکا 66 ویں اوربھارت 69 ویں نمبر پر ہے ۔ بدنصیبی یہ ہے کہ پاکستان اس انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیاکے128 ممالک کی فہرست میں120نمبرپرہے۔
ججزکوبلاسودقرض اورمراعات دیے جانے کے خلاف نہ صرف وکلا تنظیموں بلکہ سوشل میڈیاپربھی حیرت ظاہرکی گئی ہے۔ انڈسٹریز اور کاروباربلندشرح سودکی وجہ سے دیوالیہ ہوکربند ہورہے ہیں لیکن پنجاب حکومت ججزکوبلاسودقرض دے رہی ہے اور وفاقی حکومت ججز کو شاہانہ مراعات دینے کابل پاس کرکے اپنے حق میں انہیں ممنون کررہی ہے،جوغلط ہے اس کوٹھیک کرنے کا پہلا اصول یہ ہے کہ نئی غلطیاں نہ کریں،اس ملک پررحم کریں۔سوال یہ ہے کہ کیاسینیٹیشن ورکریاسکیورٹی گارڈبھی371ملین روپے کابلاسودقرض حاصل کرسکتا ہے ؟ یا ججز کوعطاکردہ جیسی مجوزہ مراعات سے کوئی کلرک بھی استفادہ کرسکتاہے جواپنی ساری عمران ججزکی جھڑکیاں سنتے گزاردیتاہے۔ججزکیلئے بلاسود قرض،طاقتورادارے کیلئے ریٹائرمنٹ کے بعد90ایکڑزمین،سینیٹ چیئرمین اور سابق چیئرمین کیلئے بڑی مراعات،کیاپاکستان بناتے وقت یہ طے کیاتھاکہ ملک کی تمام مراعات کاحقداربس ایک مخصوص طبقہ ہو گااورباقی ساری قوم ان کی خدمت کیلئے شب و روز غلاموں کی طرح کام کریں گے۔
حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔مارچ 2013 میںا سپیکرقومی اسمبلی ڈاکٹرفہمیدہ مرزانے دفترچھوڑنے سے دوروزقبل بڑی خاموشی سے قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے آخری اجلاس کی خودصدارت کرتے ہوئے اپنے لئے تاحیات ایسی بھاری مراعات کی منظور ی لے لی جس پرپاکستانی عوام کے آج بھی کروڑوں خرچ ہورہے ہیں اوروہ اگردوبارہ ایم این اے یااسپیکرنہ بھی بن سکیں پھربھی انہیں تاحیات یہ مراعات ملتی رہیں گی۔ان بھاری مراعات کے علاوہ جب سے فہمیدہ مرزانے اسپیکرکاعہدہ سنبھالا،صرف پانچ برسوں میں فہمیدہ مرزا اور ان کے خاوندذوالفقارمرزانے اپنی شوگرملزکے ذمے پچاس کروڑسے زائدکے قرضے معاف کرائے۔اپنے آپ کوتنقیدسے بچانے کیلئے فہمیدہ مرزانے اپنے ساتھ سات سابق اسپیکرزقومی اسمبلی کوبھی یہ مراعات دینے کافیصلہ کیا،اس متنازع فیصلے سے بھٹواسمبلی کے اسپیکرصاحبزادہ فاروق علی خان،فخرامام،الہٰی بخش سومرو، حامدناصرچٹھہ اورچودھری امیرحسین کوبھی ان مراعات سے نوازدیاگیا،یوسف رضاگیلانی کوبھی سابق اسپیکرکے طورپریہ مراعات حاصل ہیں۔اجلاس میںا سپیکر قومی اسمبلی نے اپنے چہیتے افسروں کوجوبرسوں پہلے ملازمت سے ریٹائرہوچکے تھے ان کی مدت ملازمت میں تیسری توسیع کردی گئی حالانکہ سپریم کورٹ پہلے ہی یہ فیصلہ دے چکی تھی کہ ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعدکسی کوتوسیع نہیں دی جاسکتی،تاہم سیکریٹری قومی اسمبلی سمیت دس ریٹائرڈ ملازمین کودوبارہ توسیع دی گئی، سینٹ سیکریٹری افتخاربابرکوبھی سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملازمت میں توسیع دی گئی، سپیکرقومی اسمبلی فہمیدہ
مرزا اپوزیشن اورحکومتی ارکان نے مل کران مراعات کی منظوری قومی اسمبلی کی فنانس کمیٹی کے اجلاس میں دی اورکسی نے اتنی مراعات پرکوئی
سوال نہ اٹھایااورخاموشی سے مراعات کے اس پیکیج پردستخط کرد ئیے گئے اورکسی کوکانوں کان خبرتک نہ ہونے دی گئی۔کیا آج تک ہماری
عدلیہ نے قوم کے خزانے پراتنے بڑے ڈاکے کاسومونوٹس لیا؟
خیال رہے کہ اقوامِ متحدہ کے ترقیاتی پروگرام اورنیشنل ہیومن ڈولپمنٹ کی جانب سے2021میں شائع ہونے والی ایک مشترکہ رپورٹ میں بیان کیاگیاتھاکہ کیسے پاکستان کے امرا،جاگیردار،سیاسی قائدین اورفوج کوملنے والے معاشی مراعات پاکستان کی معیشت میں 17/ ارب ڈالرسے زیادہ کااضافی خرچے کاباعث بنتے ہیں۔پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیویلپمنٹ اکنامکس(پائیڈ)کی رپورٹ کے مطابق عدلیہ کے ایک ہائی کورٹ کے جج کواپنی ملازمت کے دوران مفت گھرملتاہے،جس کاکرایہ حکومت دیتی ہے جبکہ بجلی کابل اور سرکاری گاڑی بھی حکومتی کھاتے میں آتے ہیں۔پائیڈکی رپورٹ کے مطابق اگرجج اپنے گھرمیں رہتے ہیں توان کے گھرکااضافی خرچہ، جو دستاویزات میں تقریبا65 ہزارروپے ماہانہ رقم بتائی جاتی ہے،مختص کردی جاتی ہے۔گھرکاکرایہ ساڑھے تین لاکھ روپے جبکہ جوڈیشل
الاؤنس دس لاکھ روپے سے زیادہ۔۔پاکستان میں سپریم کورٹ کے ججزکوملنے والی کچھ مراعات میں اضافے کے اعلان کے بعدکیاججزکی غربت دورہوجائے گی۔ایک مرتبہ پھران مراعات کے بل پرغورکرلیں کہیں ان مراعات کی کمی کی بناپرآپ کے خدشات کی بنا پرکہیں کرپشن کاباب نہ کھل جائے؟
جانے کیا کیا ظلم پرندے دیکھ کے آتے ہیں
شام ڈھلے پیڑوں پر مرثیہ خوانی ہوتی ہے


متعلقہ خبریں


مضامین
پانچ بار کی ورلڈ چیمپئن بلائنڈ کرکٹ ٹیم وجود اتوار 08 دسمبر 2024
پانچ بار کی ورلڈ چیمپئن بلائنڈ کرکٹ ٹیم

حسرتوں کے مینار وجود اتوار 08 دسمبر 2024
حسرتوں کے مینار

آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی! وجود اتوار 08 دسمبر 2024
آخر ہماری آنکھیں کب کھلیں گی!

مشرقِ وسطیٰ تبدیلیوں کے دوراہے پر وجود اتوار 08 دسمبر 2024
مشرقِ وسطیٰ تبدیلیوں کے دوراہے پر

خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن وجود اتوار 08 دسمبر 2024
خواجہ رفیق شہید تحریک پاکستان کے سرگرم کارکن

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ وجود جمعه 22 نومبر 2024
مجاہدہ، تزکیہ نفس کا ذریعہ

حقیقتِ تصوف وجود جمعه 01 نومبر 2024
حقیقتِ تصوف

معلم انسانیت مربی خلائق وجود بدھ 25 ستمبر 2024
معلم انسانیت مربی خلائق
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی وجود جمعرات 22 اگست 2024
بھارتی ایئر لائن کا طیارہ بم سے اڑانے کی دھمکی

بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف وجود بدھ 21 اگست 2024
بھارت میں روزانہ 86 خواتین کوجنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کا انکشاف

قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر