وجود

... loading ...

وجود
وجود

آستینوں کے بت

هفته 20 اپریل 2024 آستینوں کے بت

سمیع اللہ ملک
میں پچھلے کئی برس سے یہ بری طرح محسوس کررہاہوں کہ و اقعی کوئی زورداربد دعاہما رے تعاقب میں ہے کہ نہ پو ری قوم کی دعائیں رنگ لارہی ہیں اورنہ ہی تہجدگزاروں کاگریہ نیم شب کام آرہاہے۔مایوسی ساون کی ہریالی کی طرح وطن عزیزمیں اپنازوربڑھاتی جارہی ہے۔ بے دلی اوربیزاری جسم وخوں میں اس طرح گھل مل گئی ہے کہ زندہ رہنے کی امنگ اورآس ختم ہو تی جارہی ہے۔موجو دہ سیاستدانوں اور مقتدر اشرافیہ کی پا لیسیوں کے ردِعمل میں بے یقینی کی آکا ش بیل ذہن وفکرکواپنی لپیٹ میں لے رہی ہے اورناامیدی کازہریلاشیش ناگ دن میں کئی مرتبہ آپ کے خوابوں کوڈستاہے۔دن اور رات جیسے آگ کے الاؤمیں بھسم ہوکررہ گئے ہیں لیکن اس کے باوجودکچھ دوست اب بھی امید کی قندیل جلائے کسی صلاح الدین ایوبی کاانتظارکررہے ہیں۔
امیداندھی ہوتی ہے،یقین بھی دلیل نہیں مانگتا۔ہم بھی کہہ دیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہوجائے گااورانشا اللہ حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے لیکن حالات کی حقیقت سے آنکھیں چراکرہم اپنے آپ کودھوکاتودے سکتے ہیں لیکن ان خطرات کوٹال نہیں سکتے۔صرف بارش کی امید سے دہکتی تمازت بھری دھوپ کی اذیت ناکی سے توبچ نہیں سکتے۔اس دوردیس میں بھی و طن کی مٹی نے اس قدراپنے حصارمیں جکڑرکھاہے کہ شب وروزاس کے محتاج ہوکررہ گئے ہیں حالانکہ ہرروزخوابوں کی جواں مرگی کی اطلاع موصول ہوتی ہے۔پاکستان جووجود کاایک قیمتی حصہ ہے،جہاں ہماری آبروکوتحفظ اورسروں کی سلامتی کی ضمانت ملی تھی اب خاک میں ملانے کی تدبیریں ہورہی ہیں(خاکم بد ہن)۔
افغانستان کے معاملے جرم عظیم کے ارتکاب کا خمیازہ اب تک بھگت رہے ہیں جبکہ مصائب سے جان چھڑانے کیلئے جب بھی مزاحمت کاروں کومذاکرات کی دعوت دے کر کسی امن معاہدے کی طرف قدم بڑھانے کی کوشش کرتے ہیںتو فوراایک ہرکارہ کان مروڑنے کیلئے بے دھڑک ہمارے سروں پرکھڑاہوکرغراناشروع کردیتاہے لیکن منافقت کایہ عالم ہے کہ میڈیا میں بھرپورپاکستان کاساتھ دینے کا برملا اعلان ہوتاہے لیکن درپردہ ہم سب جانتے ہیں کہ مودی کی پشت پناہی پرکون کھڑا ہے۔ دوسری طرف ہمارایہ عالم ہے کہ ان داتاکاحکم مانتے ہوئے ہم فورااس امن معاہدے سے منہ موڑلیتے ہیں جس کے جواب میں ہندوؤں کے ہاتھ میں کٹھ پتلی بننے والوں نے اپنی توپوں کارخ اپنی پو ری طاقت کومجتمع کرکے ہما ری سیکورٹی فورسز کی طرف پھیررکھاہے اورگاہے بگاہے اپنادا ئرہ کارخود کش حملہ آوروں کی شکل میں شہروں میں منتقل کرتے رہتے ہیں اوران دنوں وہ پوری کوشش کررہے ہیں کہ کسی طورچین اورپاکستان میں استواررشتے ختم کردیئے جائیں جس کی حالیہ مثال چینی ماہرین کی ایک بس پرخودکش حملہ اس کی بدترین مثال ہمارے سامنے ہے۔
یہ صورت حال آخرکب تک چلے گی،یہ مزاحمت کارآپ سے سنبھا لے جاتے ہیں نہ قصرسفیدکافرعو ن آپ کی بات سنتاہے۔ امریکااپنے اتحادیوں کے توسط سے اس جنگ کوہما ری سرحدوں سے ہما رے ملک کے اندرلانے کیلئے بے تاب بیٹھاہے اور امریکاکے نمک خوارسرخ استقبالی قالین لئے بے چینی سے انتظارکی گھڑیاں گزاررہے ہیں۔وہ اپنے ایجنٹوں کے ذریعے سلطنت ِنمرود کی گود میں بیٹھ کر آئے دن ان غداروں کے ذریعے ملک کو جلانے کاسامان تیارکرکے جلتی پرتیل ڈال رہے ہیں ۔آپ کے پاس ان تمام خطرات سے بچانے کی عملی تدا بیرنہیں،حکمت عملی یاسٹریٹجی موجود نہیں،صرف اپنی حاکمیت اعلی کی دہا ئی دے رہے ہیں جوکب کی مضروب اورزخموں سے چورہوکرقصرسفیدکے فرعون اورنمرودکے قدموں میں دم توڑچکی ہے۔
ان دنوں عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہوتے سلطانی جمہورکے آفتاب وماہتاب کی نما ئندگی کرنیوالی پاکستانی حکمرانوں کووزارت داخلہ کاقلمدان بھی طشت میں رکھ کرایسے فرد محسن نقوی کے حوالے کرناپڑاجواس انتخابی عمل سے کوسوں دور تھالیکن بعدازاں اپنے اس فیصلے کی توثیق کیلئے اسے سینیٹربنوادیا۔اب ان کی گفتگو سنیں تویہی پیغام ملتاہے کہ اس بد نصیب پا کستانی قوم کی کم نصیبی کاسفرابھی ختم نہیں ہوابلکہ ابھی توموسم گل کی آمدمیں کافی دیرہے۔
مجھے وہ دن بھی یاد ہے جس دن اس بدنصیب پاکستانی قوم کاوزیرخارجہ شاہ محمودقریشی پہلی مرتبہ وا شنگٹن میں شہزادی کو نڈالیزارائس کے دربارمیں شرف باریابی حاصل کرکے باہرنکلا تھاتوپہلاخوشامدی بیان اپنی حاکمیت اعلی کے دفاع کی بجا ئے مذاکرات کوبہت بے تکلفانہ، دیانتدارانہ اورحقیقت پسندانہ قراردیکراپنی غلامی کی سندحاصل کررہاتھاحالانکہ وزیر خارجہ کو شہزادی کونڈالیزارائس سے ملا قات سے قبل امریکی سرپر ستی میں نیٹوافواج کے اس مکروہ حملے کی اطلاع دی جاچکی تھی اور پاکستانی سپاہ کے ترجمان میجرجنرل اطہر عباس امریکی حملہ میں پاکستانی علا قے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پرپاکستانی سپاہ کے کم ازکم چھ سیکورٹی اہلکارشدیدزخمی کردینے کی اطلاع عالمی میڈیاکوبھی دے چکے تھے جبکہ نیٹوکی افواج کے پاس غلطی اورلاعلمی کی گنجائش اس لئے نہیں تھی کہ نیٹوکی افواج کواس علاقے میں قا ئم تمام پاکستانی چوکیوں کے قیام کی نقشوں کے ذریعے پیشگی اطلاع دی جاچکی تھی۔
اس وقت بھی عام توقع تویہ تھی کہ شاہ محمودقریشی عظیم الشان واضح عوامی مینڈیٹ کے افق سے طلوع ہونے وا لے نئے جمہوری پاکستان کی ترجمانی کرتے ہوئے اس توہین آمیز امریکی رویے پربھرپوراحتجاج کرکے مشترکہ اعلامیہ کے ذریعے اپنا بھرپوراحتجاج سامنے لائیں گے اورپاکستانی اورغیر ملکی ذرائع ابلاغ کے نمائندے بڑی شدت سے منتظرتھے کہ وزیرخارجہ کا تعلق ایک عوا می جذبات اوراحساسات کی علمبردار جماعت سے ہے،اس لئے وہ دبنگ لہجے میں صدائے احتجاج بلندکریں گے اورامریکی ایوانوں کومطلع کریں گے کہ اب یہ مشرف کانہیں بلکہ کروڑں باغیرت پاکستانیوں کی سرزمین ہے جواپنی خود مختاری کی حفاظت کاسلیقہ جانتی ہے۔اگرایساحملہ ہواتو وہ اس نام نہاد”وارآن ٹیرر”جوہمارے 68 ہزارپاکستانیوں کی جانیں نگل چکی ہے اور65ارب ڈالرکاخطیرنقصان اپنے کندھوں پربرداشت کرچکی ہے،کوخیربادکہتے ہوئے اس دھوکے سے نکل آئیں گے اوراپناراستہ اپنی آزادانہ مرضی سے چنیں گے لیکن اس55منٹ کی ملا قا ت کے بعدپاکستانی وزیرخارجہ جب اس نمک کی کان سے باہرتشریف لائے تونمک بن چکے تھے۔
شاہ محمودقریشی نے شہزادی کونڈا لیزارائس کے سا تھ اپنی ملاقات کوجب بہت بے تکلفانہ،دیانتدارانہ اورحقیقت پسندانہ قراردیا تو پاکستانی اورغیرملکی ذرائع ابلاغ کے نما ئندوں نے پاکستانی علاقے انگوراڈہ کی فوجی چوکی پر6پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شدیدزخمی ہونے کو ”غیردوستانہ اقدام”سے تعبیرکیاتوقریشی نے فوری طو رپراپنے فدویانہ بیان میں شیرینی کی حلاوت گھو لتے ہوئے اس کی تصحیح فرمائی کہ
اس طرح کے سخت ا لفاظ استعمال نہ کریں۔شا ئدوہ پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے شہدااورشدیدزخمی ہونے کے عمل کو دوستانہ چھیڑچھاڑ، بے تکلفانہ ہنسی مذاق یامحبوبانہ نازواندازسے تشبیہ دیناچا ہتے تھے۔پھراس بزدلانہ رویے کی بنا پریہ سلسلہ ایسادرازہواکہ کہ سلالہ چوکی پرامریکی بے رحمانہ حملے نے ہمارے24سپوت کوادھیڑکررکھ دیااورہمیں کچھ دیرکیلئے افغانستان کاامریکی روٹ بندکرناپڑالیکن نجانے درپردہ کیا معاملات طے ہوئے کہ اسی تنخواہ پردوبارہ کام شروع کردیا گیا۔
اس تایخی ہزیمت کودہرانے کامقصدیہ ہے کہ کیااب بھی ہم سہمے ہوئے اسی تنخواہ پرکام کررہے ہیں اوراب چین جیسے دوست کوہم سے الگ کرنے کی جوسازش تیارہوچکی ہے،اس کے جواب میں ایم آئی ایف کے نئے دباؤاورمزیدامریکی سرمایہ کاری کے لالچ کاطوق گلے میں ڈالنے کیلئے اپنی رضامندی کااظہارکرنے جارہے ہیں۔اگریادہوتواس وقت بھی قصر سفید کے فرعون بش نے ا پنی پا لیسی سازادارے میں تقریرکرتے ہوئے صاف صاف کہا تھا”آئندہ اصل چیلنج عراق اورافغانستان کی بجا ئے پاکستان ہوگا”اورانہی دنوں مزید دباؤ بڑھانے کیلئے ”امریکی طیارہ بردارجہازابراہام لنکن”کوخلیج سے بحیرہ عرب کی طرف بڑھنے کاحکم بھی دے دیا گیاتھا۔
کیااب بھی وہ وقت نہیں آیاکہ قومی اسمبلی کاہنگامی اجلاس بلاکرپاک چین دوستی کوسبوتاژ کرنے والوں کووا ضح پیغام دیاجائے اور اگر ایسا کرنے کی ہمت نہیں توپھرہمارے تمام مقتدر حلقوں کواس اعتراف کے سا تھ قوم کوبتادیناچاہئے کہ وہ بھی انہی بتوں کے سا منے سجدہ ریز ہوگئے ہیں جہاں اس سے پہلے کے تمام حکمران اپناسب کچھ قربان کرچکے ہیں۔
گرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکم اذاں لاالہ الااللہ


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر