وجود

... loading ...

وجود
وجود

پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

هفته 20 اپریل 2024 پاکستانی سیاست میں ہلچل کے اگلے دو ماہ

کنور دلشاد

سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب اور سید یوسف رضا گیلانی کی بلامقابلہ کامیابی سے ملک کے تمام آئینی ادارے فعال ہو چکے ہیں۔ وفاق اور صوبوں میں حکومتیں بن چکی ہیں، وزیراعظم، صدر مملکت اور وزیراعلیٰ اپنے عہدوں پر فائز ہو چکے ہیں۔تین صوبوں میں 2018 کے انتخابات کے بعد والی صورت حال ہے ، یعنی سندھ میں پیپلز پارٹی پارلیمینٹیرین، خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہوئی ہے ، جب کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
پارلیمانی حکومتیں قائم تو ہو چکی ہیں، اب ان کی بالادستی قائم ہونا ضروری ہے ، وزیراعلیٰ اور وزیراعظم آتے جاتے رہیں گے ، یہ اہم نہیں ہے۔ اہم ترین یہ ہے کہ قومی فیصلے ہونے چاہئیں، اندرونی معاملات پر ہوں یا بین الاقوامی تعلقات پر سب پارلیمان میں ہوں، آرڈیننسوں کا سلسلہ صرف ناگزیر حالات کے تحت ہی ہونا چاہیے ۔سطح پر بظاہر سب اچھا نظر آ رہا ہے لیکن اگلے دو ماہ کے اندر اندر کچھ ایسے واقعات و معاملات ہونے جا رہے ہیں جس سے یہ سارا نظام ہلچل کا شکار ہو سکتا ہے ۔
سب سے پہلا تنازع تو فارم 45 اور 47 کی مد میں ہے اور ابھی تک حل طلب ہے ۔ تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرنے پر اس وقت تک آمادہ نظر نہیں آ رہی جب کہ اس انتخابی تنازعے کو الیکشن جوڈیشل کمیشن کے ذریعے حل نہیں ہو جاتا۔میری اطلاع کے مطابق پس پردہ اعلیٰ مقتدر حلقوں نے اس تنازع کو الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں پر چھوڑ دیا ہے اور یہی قانون کے مطابق آئینی فورم ہے ۔الیکشن ٹربیونلز کو قانون کے مطابق چار مہینوں کے اندر اپنا فیصلہ دے دینا چاہیے اور حالات واقعات سے اندازہ لگایا جا رہا ہے کہ الیکشن ٹربیونلز کے فیصلوں سے تحریک انصاف کے آزاد ارکان کو 30 سے 40 نشستیں مل جائیں گی۔لیکن تحریک انصاف الیکشن جوڈیشل کمیشن کے سامنے فارم 45 اور فارم 47 کا موازنہ کرانا چاہتی ہے جس سے ان کو توقع ہے کہ وہ وفاق میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائے گی اور ایسا ہونے سے بین الاقوامی طور پر جو الیکشن کو متنازع ہونے پر جن خدشات کا اظہار کیا جا رہا ہے اس کا بھی ازالہ ہو جائے گا۔21اپریل کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی 23 کے لگ بھگ نشستوں پر انتخابات ہو رہے ہیں، ان کے نتائج پر بھی گہری نظر رکھنی ہو گی۔ اگر ان ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان کامیاب ہو جاتے ہیں تو اس کے اثرات سے موجودہ سسٹم خطرے کی زد میں آ جائے گا اور عدالتیں اور بالخصوص الیکشن ٹربیونلز میں اپنے فیصلے کو فارم 45 اور 47 کے موازنے پر کریں گے ۔
29 اپریل کو سپریم کورٹ آف پاکستان چھ ججز کے خطوط پر فل کورٹ کے ذریعے اہم ترین فیصلہ کرے گی۔ اب اگر فل کورٹ چھ ججز کے خطوط کو آئین، قانون کے مطابق دیکھتی ہے تو پھر تین رکنی جوڈیشل کمیشن بنانا ہو گا اور بظاہر یہی نظر آ رہا ہے کہ جوڈیشل کمیشن کے سامنے جو ججز کے خطوط کے علاوہ دیگر سمتوں سے بھی خطوط آنے کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور شنید ہے کہ میڈیا کمیونٹی سے بھی بعض اینکر پرسنز نے بھی جوڈیشل کمیشن کو خطوط بھجوانے پر غور و خوض کرنا شروع کر دیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ پولیس گروپ سے بھی اسی طرز پر خطوط آنے کا امکانات پائے جاتے ہیں بلکہ بعض ڈسٹرکٹ ریٹرننگ افسران بھی خطوط لکھنے کے لیے آمادہ کھڑے ہیں۔نگران حکومتوں کی جن شخصیات کو آگے لایا گیا ہے ان کے بارے میں بھی جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر کرنے کے لیے بھی تحریک انصاف کے وکلا ونگ نے کام شروع کر دیا ہے ۔جب یہ سب حالات درپیش ہوں گے تو ملک میں سیاسی، قانونی، آئینی اور انتظامی طوفان آ جائے گا۔ یہ خبریں بھی گردش کر رہی ہیں کہ اندرونِ خانہ یہ کوشش کی جا رہی ہے کہ تحریک انصاف کے جن رہنماؤں نے پریس کانفرنس کے ذریعے عمران خان سے لاتعلقی کا اعلان کیا، البتہ عمران خان کی کردار کشی نہیں کی، ان کو واپس تحریک انصاف میں شامل کرایا جائے ، ان کی تعداد نصف درجن کے قریب ہے ۔
نواز شریف کے رویّے کو دیکھتے ہوئے پاکستان مسلم لیگ ن میں اضطرابی کیفیت دیکھنے میں آ رہی ہے اورکسی بھی لمحے پریس کانفرنس کے ذریعے نواز شریف اہم ترین فیصلہ سنانے کے موڈ میں ہیں۔ رانا ثناء اللہ اور جاوید لطیف کے ذومعنی بیانات سے حالات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔
عمران خان پر اندرونی طور پر رابطے میں یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے قریب آ جائیں۔ جس طرح نواب زادہ نصراللہ خان نے 1982 میں صدر جنرل ضیاء الحق کے خلاف ایم آرڈی کی تشکیل دے کر اس کی سربراہی بیگم نصرت بھٹو کے سپرد کر دی تھی اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت میں چار اپریل 1979 کے سانحہ کو فراموش کر کے نواب زادہ نصراللہ حان کے ساتھ جمہوریت کے احیا کے لیے کھڑی ہو گئی تھی، اسی فارمولے کے تحت عمران خان پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے اور یہ تمام سیاسی تنازع مئی کے اوائل تک طے ہو جائیں گے اور فل کورٹ کے فیصلے بھی سامنے آ جائیں گے ۔اس صورتِ حال میں اگلے ڈیڑھ دو مہینے پاکستانی سیاست نئی کروٹ لیتے نظر آ رہی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر