وجود

... loading ...

وجود
وجود

مغربی فلسفہ و تہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل

هفته 20 اپریل 2024 مغربی فلسفہ و تہذیب اور مسلم امہ کا رد عمل

مولانا زاہد الراشدی

غرب نے اب سے کم و بیش تین سو برس قبل جمہوریت کا راستہ اختیار کیا تھا اور اس سے قبل کی صدیوں میں اسے جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا، یہ اس کا رد عمل ہے کہ وہ جمہوریت کی شاہراہ پر مسلسل آگے بڑھتا جا رہا ہے اور اپنے اس نئے سفر اور پیشرفت کے نفع نقصان کا جائزہ لینے کے لیے پیچھے مڑ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں ہے ۔ مغرب کو مطلق العنان بادشاہت، جامد اور بے لچک مذہبی پیشوائیت، اور بے رحم و ظالم جاگیرداری کی تکون نے جکڑ رکھا تھا اور مغرب کی عام آبادی ظلم و جبر اور تشدد کے ان تین پاٹوں میں بری طرح پس رہی تھی۔ علم کی روشنی اس کے لیے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتی تھی، حقوق اور ان کے حصول کا کوئی تصور نہیں تھا اور جانوروں کی طرح اپنے مالکوں اور آقاؤں کے احکام کی تعمیل میں شب و روز مصروف رہنا اس کا سب سے بڑا فریضہ سمجھا جاتا تھا۔
مغرب کو قرون مظلمہ کے ان اندھیروں سے نکلنے کا راستہ مسلمانوں نے دکھایا۔ اسپین میں بیٹھ کر علم و دانش کی شمع جلائی اور مغرب کے عوام کو بتایا کہ بادشاہ خدا کی طرف سے مقرر نہیں ہوتا بلکہ اسے تخت پر بٹھانے اور پھر اتارنے میں خود ان کی رائے اور مرضی کا بھی دخل ہونا چاہیے ۔مسلمانوں نے انہیں سمجھایا کہ دین و مذہب میں فائنل اتھارٹی کا درجہ کسی شخص یا طبقہ کو نہیں، بلکہ اصول و قوانین کو حاصل ہوتا ہے ۔ بادشاہ اور پوپ سمیت کوئی بھی شخص ان اصول و قوانین پر بالادستی نہیں رکھتا، اور نہ ہی ان میں سے کسی کو ان اصول و قوانین کی کسی خود ساختہ تعبیر و تشریح کا حق حاصل ہے۔مسلمانوں نے انہیں اس حقیقت سے آگاہ کیا کہ جاگیرداری اور کاشتکاری کی تقسیم خدائی نہیں ہے ، بلکہ کچھ انسانوں نے دوسرے انسانوں کے استحصال اور انہیں غلام بنائے رکھنے کے لیے ازخود یہ تقسیم قائم کر رکھی ہے۔اور مسلمانوں نے ہی مغرب کے عوام تک یہ پیغام پہنچایا کہ کائنات کے حقائق پر غور کرنا، زمین اور اس کے اردگرد پھیلی ہوئی بے شمار اشیا کی ماہیت و افادیت معلوم کرنا اور انہیں نسل انسانی کے فائدہ میں استعمال میں لانے کی صورتیں تلاش کرنا خدا کے نظام میں مداخلت یا اس کے خلاف بغاوت نہیں، بلکہ خود اللہ تعالیٰ کے منشا کی تکمیل اور اس کے حکم کی تعمیل ہے ۔
ہم اسپین میں بیٹھ کر صدیوں تک مغرب کو یہ سبق پڑھاتے رہے ، لیکن جب مغرب نے ہماری صدیوں کی تگ و دو اور محنت کے بعد یہ سبق سیکھ لیا اور اپنی راہ سے ہٹ کر ہماری بتائی ہوئی اس راہ پر اس نے چلنا شروع کیا تو ہم زمانے کی باگ ڈور اس کے ہاتھ میں تھما کر چپکے سے اپنے گھروں کو واپس لوٹ آئے ۔ اور تب سے یہ شکوہ ہماری زبانوں پر ہے کہ مغرب نے یہ کر دیا، مغرب نے وہ کر دیا، مغرب نے یہ چھین لیا، مغرب نے اس چیز پر قبضہ جما لیا اور مغرب نے فلاں چیز پر اجارہ داری حاصل کر لی۔ گزشتہ تین صدیوں سے صورتحال یہ ہے کہ جو کچھ کر رہا ہے ، مغرب ہی کر رہا ہے اور ہمارے پاس چیخنے چلانے ، واویلا کرنے ، شور مچانے یا زیادہ سے زیادہ ”اب کے مار سالے ” کی دھمکیوں کے سوا کوئی اختیار یا آپشن باقی نہیں رہا۔مجھے اس مرحلے میں ایک کہاوت یاد آ رہی ہے کہ بلی کو شیر کی خالہ کہا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ شیر کو حملہ کرنے ، جھپٹنے اور شکار کرنے کے سارے داؤ پیچ بلی نے سکھائے ہیں۔ کہاوت ہے کہ شیر نے جب بلی سے سارے داؤ پیچ سیکھ لیے تو اس کا پہلا تجربہ اس نے بلی پر ہی کرنا چاہا۔ موقع تاک کر بلی پر جھپٹ پڑا۔ بلی پہلے سے ہوشیار تھی، پھرتی سے قریب ایک درخت پر چڑھ گئی۔ شیر نیچے کھڑے ہو کر غرانے لگا کہ خالہ! یہ درخت پر چڑھنے کا طریقہ تو تم نے مجھے نہیں سکھایا تھا۔ بلی بڑے مزے اور اطمینان سے درخت کی ٹہنی پر بیٹھے ہوئے بولی کہ یہ داؤ میں نے آج کے دن کے لیے ہی بچا کر رکھا تھا۔ ہم تو اس بلی جتنی سمجھ داری کا مظاہرہ بھی نہ کر سکے کہ کوئی داؤ اپنے لیے بھی بچا کر رکھ لیتے اور مشکل کے وقت کام آنے والی کوئی چیز اپنے قابو میں رہنے دیتے ۔ ہم نے مغرب کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنا سب کچھ مغرب کے سامنے کھول کر رکھ دیا اور خود آپس کے جھگڑے نمٹانے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے میں اس قدر مگن ہوئے کہ مغرب نے ہمیں اسپین سے اٹھا کر سمندر میں پھینک دیا اور ہماری ہر چیز پر قبضہ کر کے دنیا کو مسخر کرنے کے سفر پر روانہ ہوگیا۔
مغرب جس تہذیب و تمدن پر نازاں ہے اور جسے پوری دنیا پر میڈیا، معیشت اور اسلحہ کے زور پر مسلط کرنے کے درپے ہے ، اس کی بنیاد کن چیزوں پر ہے ؟ ذرا ایک نظر ڈال لیں:
* حریت اور آزادی
* عوام کی رائے سے حکومت کی تشکیل اور حکومت کی عوام کے سامنے جواب دہی
* شہری حقوق
* سائنس اور ٹیکنالوجی
* انسانی مساوات
* زندگی کے وسائل اور ذرائع پر کسی ایک طبقہ کی اجارہ داری کی نفی
* حاکم وقت یا مذہبی پیشوا کو براہ راست خدا کا نمائندہ تسلیم کرنے سے انکار
* اجتماعی زندگی میں مذہب کے کردار کا خاتمہ
میں ان ساری باتوں کی حمایت نہیں کر رہا اور اچھی طرح اس بات کو سمجھتا ہوں کہ ان میں سے بعض باتیں مغرب نے بے جا طور پر اپنے پروگرام میں شامل کر لی ہیں اور بعض میں حدود سے تجاوز کر کے ان کی مقصدیت و افادیت کو مضرت میں تبدیل کر لیا ہے ۔ البتہ اس نکتہ کی طرف ضرور اہل دانش کو متوجہ کرنا چاہتا ہوں کہ اس راستے پر مغرب کو لگایا کس نے ہے ؟ خود مغرب کے سنجیدہ دانشوروں کو اس بات سے انکار نہیں ہے کہ انہوں نے یہ سبق اندلس سے سیکھا ہے اور یہ تاریخی حقیقت بھی ہے ، لیکن اس کے بعد کیا ہوا؟ ہمیں آگے بڑھنے سے قبل اس تبدیلی اور اس کے اسباب پر ایک نظر ضرور ڈالنا ہوگی۔۔(جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر