وجود

... loading ...

وجود
وجود

انتھرکس اور کھوپڑیوں کا کاروبار

منگل 09 اپریل 2024 انتھرکس اور کھوپڑیوں کا کاروبار

جاوید محمود

گزشتہ دو تین سال سے پاکستان میں سیاسی بحران نے سر اٹھایا ہوا ہے۔ اس دوران ہونے والے واقعات نے امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کو انتہائی پریشان کیا اور اب حال ہی میں امریکی اخبارات میں کچھ ایسی خبریں منظر عام پر آئیں کہ خطوط کے ذریعے اینتھرکس ججوں اور مختلف لوگوں تک بھیجا گیا ہے۔ اس خبر نے نائن الیون کے بعد امریکہ میں ہونے والے انتھریکس کے حوالے سے ہونے والے ان واقعات کی یاد تازہ کر دی جن میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے اور سینکڑوں شدید بیمار ہوئے۔ انتھرھکس انفیکشن کی چار اقسام ہیں، جلد کے ذریعے ،سانس پھیپڑوں کے ذریعے سب سے زیادہ مہلک معدہ ہضم کے ذریعے جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ انتھراکس گمنام خطوط کے ذریعے فلوریڈا اور نیویارک کی خبر رساں ایجنسیوں اور واشنگٹن ڈی سی میں کانگرس کے دفاتر کی عمارت کو بھیجے گئے تھے سانس کے انتھراکس سے مرنے والے پانچ متاثرین میں سے دو پوسٹل ورکرز تھے۔ دیگر تین متاثرین کینٹکی کے دیہی علاقوں سے تعلق رکھتے تھے ۔یہ خطوط امریکہ کے نامور صحافیوں اور کانگرس مین کو بھیجے گئے۔ ایف بی ائی نے اس کیس میں 10 ہزار سے زیادہ لوگوں کو انٹرویو کیے اور چھ ہزار سے زیادہ ضمنی درخواستیں جاری کی گئیں۔ پوسٹل سروس نے اپنے ملازمین کے لیے 4.8ملین ماسک اور 88ملین دستانے خریدے اور 300 پوسٹل سہولیات کا انتھریکس کے لیے تجربہ کیا ۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک انتھریکس کے خطوط مختلف مقامات پر پہنچتے رہے۔ امریکہ میں ایک خوف کی فضا قائم رہی۔
پہلی جنگ عظیم میں بھی انتھرکس کا استعمال کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی جنگوں میں دشمنوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر اسے استعمال کیا گیا ہے۔ اگر آپ غور سے جائزہ لیں تو یہ حقائق منظر عام پر آئیں گے کہ انسان انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ چاہے وہ ایٹم بم کے ذریعے انسانوں کو مارے یا جدید ہتھیاروں کے ذریعے انسانوں کو ہلاک کرے۔ ان تمام واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سب سے بڑا دشمن انسان کا انسان ہی ہے ۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ امریکہ میں بھی جن خطوط کے ذریعے انتھریکس بھیجا گیا اس پر ڈینجر کا سائن یعنی انسانی کھوپڑی بنی تھی۔ ہم اس دنیا میں اکثر ایسے لوگوں کے بارے میں سنتے اور پڑھتے ہیں جو مختلف اقسام کی چیزیں جمع کرنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ بعض کا یہ کاروباربھی ہوتا ہے کہ وہ نایاب اور نادر یا انوکھی اشیاء جمع کرتے ہیں اور بعد میں ان کے شوقین افراد کو منہ مانگے داموں فروخت کرتے ہیں جس معاملے کے بارے میں آپ کے ساتھ بات کرنے جا رہا ہوں وہ ہے انسانی ہڈیوں کو جمع کرنے کا، جی ہاں آپ نے درست پڑھا۔ ہم بات کرنے جا رہے ہیں 24 سالہ امریکی شہری جان بچیاں فیری کی جن کے پاس چھ لاکھ امریکی ڈالر کی انسانی ہڈیوں کا ایک ذخیرہ موجود ہے جس کی مالیت پاکستانی روپیہ میں 16 کروڑ 80 لاکھ بنتی ہے۔ جان نے ایک موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ امریکہ اور شاید دنیا کے کچھ اور ممالک میں اب بھی ایسے پرانے اور قدیم گھروں کی تعداد کافی زیادہ ہے کہ جن کے تہ خانوں میں مکمل انسانی ڈھانچے یا کچھ ہڈیاں موجود ہوں وہ کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے سامنے اچانک سے یہ ہڈیاں اور انسانی ڈھانچے
آ جاتے ہیں وہ اس کے بارے میں نہیں جانتے کہ ان کے ساتھ انہوں نے کیا سلوک کرنا ہے اور کس سے رابطہ کرنا ہے۔ تاریخی طور پر ایسے شواہد بھی ملتے ہیں کہ انسانی ہڈیوں کی فروخت کا کاروبار نہ صرف عام تھا بلکہ بڑے پیمانے پر کیا جاتا تھا ۔تاہم یہ سلسلہ 1980کی دہائی میں ختم ہو گیا تھا۔جان نے اپنے تہہ خانے میں موجود ہڈیوں کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ یہ ان لوگوں کی باقیات یا ہڈیاں ہیں جنہوں نے طبی تحقیق کے لیے اپنے جسم عطیہ کیے تھے۔ انہیں قبرستانوں یا قدیم تدفین کے مقامات سے غیر قانونی طور پر حاصل نہیں کیا گیا۔ 1832 کے اناٹمی ایکٹ نے مردہ انسانی لاشوں کو طبی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی اجازت دی اگر کوئی جیلوں فیکٹریوں اور ہسپتالوں میں 48 گھنٹوں سے زیادہ لاش لینے نہیں آتا تھا تو لاشوں کو طبی تحقیق کی غرض سے استعمال کرنے کے لیے دے دیا جاتا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ ہڈیوں کا کاروبار 1800کی دہائی میں شروع ہوا اور 1920سے 1984تک بڑے پیمانے پر ہوا ۔اس طرح ہڈیوں کی تجارت پوری دنیا میں پھیلنے لگی۔
1950کی دہائی میں انڈیا ہڈیوں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ تھا۔ مارچ 1985 میں انڈیا میں ایک چونکا دینے والی خبر سامنے آئی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر اس کاروبار میں بڑی گراوٹ آئی۔ جان نے بتایا کہ انڈیا میں ہڈیوں کے ایک تاجر کے گودام سے 1500 بچوں کے ڈھانچے ملے ۔اس لیے پورے ملک میں اس عمل پر پابندی لگا دی گئی۔ انڈیا میں پابندی کی وجہ سے طبی اداروں کی جانب سے مصنوعی ہڈیوں کا استعمال شروع ہوا۔ آج ہڈیوں کا کاروبار دوبارہ شروع ہوا ہے۔ روزیانہ ٹیننسی اور جارجیا کے علاوہ امریکہ میں تمام ریاستوں میں لوگوں کو انسانی ہڈیاں فروخت کرنے کی اجازت ہے ان کا کہنا ہے کہ ہم عوام کو ہڈیاں فروخت نہیں کرتے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں ہمارے اہم گاہک ہیں اور سرچ اینڈ ریسکیو ٹیمیں ہماری دوسری سب سے بڑی گاہک ہیں۔ وہ ہم سے ہڈیاں خریدتے ہیں اور ان کا استعمال سوراخ رساں کتوں کو لاشوں کا پتہ لگانے کی تربیت دینے کے لیے کرتے ہیں ۔سوراخ رساں کتے ان ہڈیوں کے ذریعے انسانی باقیات کی بو سونگ سکتے ہیں۔ اپنے سوشل میڈیا پیجز کے ذریعے جان انسانی ہڈیوں کے بارے میں لوگوں کے تصور کو تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جان کہتے ہیں کہ یہ صرف شو پیس نہیں ہیں۔ یہ ہم جیسے لوگوں کی ہڈیاں ہیں جو کبھی زندہ تھے اس لیے ان کے ساتھ عزت اور وقار کے ساتھ برتاؤ کیا جانا چاہیے۔ ان حقائق سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ کرونا وائرس اور انتھرکس سے مرنے والے افراد کی ہڈیاں اور کھوپڑیاں مارکیٹ میں فروخت ہو رہی ہیں اور ان کی بڑی قیمت ادا کی جا رہی ہے۔ ان ہڈیوں کو اور ان کھوپڑیوں کو تیزاب سے دھو کر فروخت کے لیے مارکیٹ میں لایا جاتا ہے کیونکہ اس سے ڈی این اے کے ذریعے کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔
امریکہ میں خطوط کے ذریعے انتھریکس کا جس طرح استعمال کیا گیا ۔اس کے ذریعے کافی جانیں ضائع ہوئیں اور آج یہ تجربہ پاکستان میں کیا جا رہا ہے۔ ہمارے خفیہ اداروں کو تحقیقات کر کے معلوم کرنا چاہیے کہ آخر یہ کھوپڑیوں والے ڈینجر سائن کے خط کہاں سے ا رہے ہیں ۔ اگر وہ وہاں تک پہنچ گئے تو وہ اصل مجرموں تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ یہ بات ذہن نشین رہے کہ امریکہ انتھریکس کے مجرموں کو گرفتار کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔


متعلقہ خبریں


مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر