وجود

... loading ...

وجود
وجود

خط کامیابی کا زینہ نہیں!

بدھ 03 اپریل 2024 خط کامیابی کا زینہ نہیں!

حمیداللہ بھٹی

پاک امریکہ تعلقات گزشتہ چند برسوں سے زیادہ خوشگوار نہیں رہے لیکن ایسا پہلی بارنہیں ہورہا،بلکہ ماضی میں ایک سے زائد بار ہو چکا ہے جب بھی خطے میں کوئی انہونی ہوتی اور پاکستان کی ضرورت محسوس ہوتی تو دونوں ممالک سب کچھ بُھلا دیتے اورپھرپاکستان بھاری امداد کا حقدار قرارہوجاتا مگر اب صورتحال بدل چکی ہے۔ انہونی کابھی دوردورتک کوئی امکان نہیں رہا ۔ماضی میں ضرورت کے وقت امریکہ دستِ تعاون بڑھاتاجسے پاکستانی قیادت بڑی بے چینی سے تھام لیتی اور پھر نوازشات ہونے لگتیں۔ اقتصادی اور تجارتی فوائد حاصل کیے اور اربوں ڈالر کی دفاعی امداد بھی حاصل کی۔ اِس دوران نہ صرف وفودکا آنا جانا لگا رہتا بلکہ ٹیلی فونک رابطہ بھی رہتا جب ضرورت ختم ہوجاتی تو باہمی تعلقات سرد مہری کا شکارہوجاتے ۔پاکستانی قیادت تو اب بھی چشم براہ ہے لیکن بدلے حالات کی وجہ سے امریکہ کے لیے اب پاکستان سے زیادہ بھارت اہم ہو گیا ہے۔ کیونکہ امریکی ایماپرعملی طورپر نہ سہی زبانی کلامی چین کوللکارنے لگا ہے، اسی لیے آجکل امریکی دلچسپی کا محورہے۔
2018 میں عمران خان نے جب وزیراعظم کا منصب سنبھالا تو وائٹ ہائوس نے مبارکباد کا رسمی فون کرنا یا چند سطورپر مبنی خط بھیجنے کی بھی زحمت نہ کی جس سے وہ خاصے مایوس ہوئے اور امریکہ مخالف بیانیہ بنالیا لیکن وزیر اعظم شہباز شریف کوخط لکھ کر امریکی صدر جو بائیڈن نے نہ صرف منصب سنبھالنے پر مبارکباد دی ہے بلکہ عالمی اور علاقائی چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ کھڑا رہنے کاعزم ظاہر کیاہے اور دنیا کی سلامتی کے لیے پاک امریکہ شراکت داری کو اہم قرار دیا ہے مگر ایک خط کو دونوں ممالک میں تعلقات کی بحالی کے لیے سنگِ میل قرار دینا درست نہیں، یہ سفارتی رکھ رکھائو ہے، اسی لیے کامیابی کا زینہ نہیں کہہ سکتے ۔
امریکی صدر جوبائیڈن کاخط پاکستان سے پہلا سفارتی رابطہ ہے جسے زیادہ طمانیت کا باعث نہیں کہہ سکتے کیونکہ کسی ملک سے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کیے جاتے۔ علاوہ ازیں اسرائیل کی غزہ پر جاری وحشیانہ بمباری کے تناظر میں آجکل امریکہ خاص طورپر مسلم ممالک سے رابطے میں ہے لیکن دوسرے ممالک کے دوروں یا ٹیلی فونک روابط کے تناظرمیں کہہ سکتے ہیں کہ پاکستانی وزیرِ اعظم کو لکھا گیا خط تعلقات کی کم ترین سطح کا ایسا سفارتی پیغام ہے جس پر خوش ہوناخوش فہمی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ موجودہ حکومت پر امریکی اعتماد کا عکاس نہیں۔ یہ توہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ دنیا کی واحد سُپر طاقت پاکستان کو غیر اہم سمجھ کر نظر انداز کررہی ہے۔ ایک خط پر خوش ہونا اور فوری طورپر جواب لکھ کر ذرائع ابلاغ پر تشہیر کرنادانشمندی نہیں ۔یہ رویہ پاکستانی قیادت کی بے چینی ظاہرکرتا ہے۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ موجودہ حکومت بھی امریکی نتظامیہ کو اپنی طرف مائل کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ اسی لیے واشنگٹن کی اسلام آباد سے متعلق پالیسی میں کوئی فرق نہیں آیا اوروہ مسلسل نظر انداز کرنے کی روش پر گامزن ہے ۔
پاکستانی قیادت چین پربُری طرح فریفتہ ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ماضی میں چین نے بھارت سے زیادہ پاکستان پر اعتبارکیا ہے۔ دونوں ممالک سرحدی تنازعات بھی گفت و شنید سے حل کر چکے۔ 1965اور1971کی پاک بھارت جنگوں میں چین نے پاکستان کی نہ صرف کُھل کر اخلاقی اور سفارتی مدد کی بلکہ عملی طورپر بھی ساتھ دیا جس پر پاکستانی حکومت اور عوام چین کو ایک سچا اور حقیقی خیرخواہ تصور کرتی ہے۔ اب جبکہ امریکہ نظرانداز کررہا ہے اِن حالات میں چین کا بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرناپاکستان کی کمزور معاشی حالت کی وجہ سے فیاضی سمجھا جارہا ہے۔ مزیدبراں اقتصادی راہداری کے معاہدوں نے دونوں ممالک کو مزید قریب کر دیا ہے لیکن یہ سرمایہ کاری اورمعاہدے جتنے خوشمنا اور فیاضانہ سمجھے جارہے ہیں ویسے ہیں نہیں ۔اگر تجارتی اعدادوشمار پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو صورتحال بہت حیران کُن ہے۔ مثال کے طورپر پاکستان کا چین کے ساتھ سالانہ تجارتی خسارہ دو سے اڑھائی ارب ڈالر کے درمیان ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے لیکن امریکہ جسے ہم شک و شبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں سے فائدہ ہے۔ امریکہ کے ساتھ پاکستان کا تجارتی نفع پانچ ارب ڈالر کے قریب ہے ۔اسی لیے ماہرین متفق ہیں کہ نئی منڈیاں تلاش کرنے تک امریکہ سے بگاڑمول لینا مناسب نہیں ۔نیز ایک بڑی طاقت ہونے کے ناطے نہ صرف اُس سے تعلقات رکھنا مجبوری ہیں بلکہ پاکستان کے پاس زیادہ ترامریکی ساختہ ہتھیار اور اسلحہ ہے جن کی دیکھ بھال اور مرمت کے لیے بھی امریکی تکنیکی تعاون ناگزیرہے۔ افسوس کہ حکومت کی اِس طرف توجہ نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ چین کوناراض کیے بغیر امریکہ سے وابستہ تجارتی مفادات کا تحفظ ناممکن ہرگز نہیں۔
عام انتخابات کے بعد معرضِ وجود میں آنے والی حکومت کی طرف دیکھتے ہیں تو معاشی یا خارجہ تعلقات کے حوالے سے ہنوز کوئی واضح یاٹھوس پالیسی نظرنہیں آتی۔ شاید اِس کی وجہ یہ ہے کہ ا یوانوں میں اکثریت کے باوجودبظاہر کمزور ہے۔ وفاقی کابینہ میں بھی یکجہتی کا فقدان ہے۔ اسی لیے دوست ممالک سیاسی کی بجائے عسکری قیادت کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں ۔اگر شہباز شریف بطور منتخب وزیراعظم اپنا تاثر بہتر نہیں بناتے تو سیاسی خسارے کا شکار ہوسکتے ہیں عزت و تکریم اور اہمیت سے محرومی منتخب حکومت کے لیے سودمند نہیں ۔
امریکیوں کو بخوبی ادراک ہے کہ سابقہ حکومتوں کی طرح موجودہ پاکستان کی حکومت کا بھی چین پر انحصار ہے۔ یہ جغرافیائی حالات کا تقاضا ہے اِس کے باوجود امریکہ کو سخت ناپسند ہے لیکن جس طرح ایران سے گیس درآمد معاہدے پر عملدرآمد کو دبائو کے ذریعے رکوا دیا گیا چین کے حوالے سے پاکستان پر ایسا کوئی دبائو آتاہے تو صورتحال یکسر مختلف ہوسکتی ہے۔ ایسے اندازے باہمی تعلقات میں زوال کی بڑی وجہ ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ایک طاقتور وفاقی حکومت ہی ملک میں بیرونی سرمایہ کاری لاسکتی ہے۔ بھارت کی وجہ سے پاکستان میں چین سرمایہ کاری بڑھا کر اسلام آبادکی مجبوری بنتا جارہا ہے۔ اس دوران حکومت چین کی تمام تر نارواشرائط تسلیم کرنے پر مجبورہے ۔امریکی صدر کا خط موجودہ حکومت کی کامیابی نہیں لیکن حکومت ایسا ثابت کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ یہ بیانیہ تب تک عوام میں پزیرائی حاصل نہیں کر سکتا جب تک امریکی امداد بحال اور دنوں ممالک میںاعتماد سازی کی فضا قائم نہیں ہوجاتی جس کا دور دور تک کوئی امکان نہیں اسی لیے کامیابی کا تاثر دینا حقائق کی نفی کے مترادف ہے۔
صدرجوبائیڈن نے اپنے خط میں پاکستان سے تعلیم ،صحت اور اقتصادی ترقی میں تعاون کا عندیہ دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ پاکستان کی جغرافیائی صورتحال کی وجہ سے مذکورہ شعبوں میں تعلقات کو قائم رکھا جائے گا۔ سفارتی آداب میں کڑوی کسیلی بات بھی نرم ترین الفاظ میں بیان کی جاتی ہے ۔صدرکا خط بھی سفارتی آداب میں لپٹاایسا پیغام ہے جس کے الفاظ سے کچھ پوشیدہ نہیں رہا۔ مقامِ اطمنان یہ ہے کہ حکومتی سرمہری کے باوجود پاکستان کی امریکہ کو برآمدات میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہورہا ہے۔ پاکستان اگر امریکہ سے تعلقات میں مزید رکاوٹیں نہ آنے دے اور موجودہ تجارتی حجم قائم رکھے تویہ معاشی حوالے سے ملک کے لیے بہتر ہو گا ۔کیا کوئی اِس حقیقت کو جھٹلا سکتا ہے کہ امریکہ اور اُس کے دوست ممالک سے پاکستان کو ہر برس محتاط اندازے کے مطابق اٹھائیس ارب ڈالر کے لگ بھگ ترسیلات زر ہوتی ہیں لیکن چین یا اُس کے کسی حامی ملک کا ایسی رقوم میں کوئی حصہ نہیں۔ اسی لیے فہمیدہ حلقوں کا کہنا ہے کہ زیادہ جذباتی ہونے کے بجائے ہمیں تجارتی مفادات کا تحفظ کرنا چاہیے۔ چین کی بھی تو ایسی ہی پالیسی ہے ۔وہ ایک طرف بھارت سے تجارت بڑھا رہا ہے تو تائیوان سے اختلافی امور کوبھی تجارت پر حاوی نہیں ہونے دے رہا۔ پاکستانی قیادت بھی اگرخوش فہمیوں سے نکل کر حکمت و تدبر سے کام لے تو ذرائع آمدن بڑھا ئے جا سکتے اورملک کو معاشی طورپر مستحکم بنایاجاسکتا ہے۔ ایک خط تب تک کامیابی کا زینہ نہیں بن سکتا جب تک عملی طورپر کوشش نہ کی جائے لیکن حکومتی ترجیحات سے ایسا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ وہ ملک کی معاشی حالت بہتر بنانے کاایجنڈارکھتی ہے۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر