وجود

... loading ...

وجود
وجود

آگ ہی آگ

منگل 02 اپریل 2024 آگ ہی آگ

زریں اختر

اتوار کو کالم لکھنے کی چھٹی کا خیال تھا لیکن دو خبروں نے جھنجھوڑ کر کہا کہ لکھو ۔ان دونوں خبروں کی نوعیت میں مشترک عنصر ‘عورت ‘ کا کردار ہے ۔ اگرچہ کہ دونوں مجرمانہ کاروائیوں میں مرد بھی ساتھ ہے لیکن یہاں عورت معتوب ہے ۔ ایک واقعے میں اس نے خود اور دوسرے میں اس کے معشوق نے جس مرد کی جان لی وہ عورت کا شوہر ہی نہیں تھا بلکہ ان کے بچوں کا باپ بھی تھا۔ اس طرح عورت نے اپنے شوہر کو قتل کرکے یا کروا کے اپنے ہی بچوں کو یتیم کردیا ۔ ان بچوں کی زندگی اچانک کتنی ہولناک ہوگئی اس کا تصور بھی محال ہے۔ باپ مقتول،ماں قاتل ؛باپ کے سائے کو چھین لینے والی ماں جیل میں ، یہ بچے کیسے تپتے صحرا میں آگئے!
ایک عورت کو مرد پاکستان سے نکاح کرکے کینیڈا لے گیا، وہاں خاندان بنایا، دوبچے ہوئے۔ عورت نے کینیڈا کی شہریت حاصل کرنے کے بعد شوہر کو کاروبار کے بہانے پاکستان بھیجا ،شوہر اس کی خاطر پاکستا ن آیا ،بعد میںوہ اپنے منصوبے کے مطابق بچوں کو لے کر پاکستان پہنچی ،ایک رات شوہر کو باہر کھانا لینے بھیجا ، اس کا معشوق گلی میں منتظر تھا ، جہاں اس نے اس کے سر میں گولی مار دی۔ کینیڈا میں اس نے بیوی کی خوشی کے لیے الگ گھر لیا، بیوی کاروبار کرنا چاہتی ہے یہ سمجھتے ہوئے کپڑوں کے دوسوٹ کیس لینے پاکستان پہنچا، اس کے کہنے پر رات گئے کھانا لینے گھر سے نکلا ،حالاں کہ آج کل تو کسی بھی وقت گھر بیٹھے کھانے کا آرڈر دیا جاسکتاہے ، لیکن وہ خود ہی گیا۔یہ عورت اب جیل میں ہے اور اس کا معشوق قاتل فرار۔ دوسرے واقعے میں مرد نے کلفٹن پر فلیٹ اپنی عورت کے نام پر خریدا،بیوی چچازاد ، دونوں کی پسند کی شادی ، دو بچے ، دو دو گاڑیاں،یہاں عورت نے خود قتل کیا اور معشوق کے ساتھ فرار ہونے کی کوشش کی لیکن دونوں پکڑے گئے ۔ ایک اور واقعہ جو خبر نہیں بنا ،اس میں عورت بیٹی اور شوہر کو چھوڑ کر معشوق کے ساتھ بھاگ گئی ۔ شوہر نے نیکی کا اتنا اعلیٰ مظاہرہ کیا کہ اگرچہ وہ اس کی منکوحہ تھی اور اس صورت میں کیس کی نوعیت کیا بن سکتی تھی ،لیکن شوہر نے اسے طلاق دے دی اور اس نے خان دان کی ایک لڑکی سے نکاح بھی کرلیا،وہ مرد اور اس کا رہن سہن بھی ایسا تھا کہ لوگ لڑکی کی قسمت پر رشک کرتے تھے ،ادھر وہ لڑکی بھاگی ادھر دوسرے گھرانے نے اپنی بیٹی نکاح میں دے دی۔ اس عورت نے سماجی اور اخلاقی اعتبار سے انتہائی غلط قدم اٹھایا ،لیکن قانون اس لیے حرکت میںنہیں آیا کیوں کہ ایک طرف اس نے جرم کی سرحد نہیں چھوئی اور دوسری طرف اس کے شوہر نے کوئی تھانہ کچہری نہیں کیا بلکہ خود ہی طلاق بھی دے دی۔ ماں بننے کا مطلب ہمیشہ ممتا نہیں ہوتا، یہ عورتیں اس جذبے سے محروم رہیں جسے ممتا کہتے ہیں۔
ان دونوں مجرمانہ واقعات کی مماثلت کہ شوہر اچھا کمانے والا، معیارِ زندگی ایسا جس کا کوئی بھی عورت خواب دیکھتی ہے، شوہر عورت سے محبت کرنے والا بھی کہ ایک اپنی عورت کے کہنے پر پاکستان آیا اور دوسرے نے کلفٹن جیسے علاقے میں عورت کے نام پر فلیٹ خریدا،اللہ نے اولاد جیسی نعمت سے بھی نوازا ،تو پھر کیا کمی تھی ؟
محبت ایک لطیف جذبہ ہے ۔ وہ محبت کیسی جس نے اقدام ِ قتل کی راہ سوجھائی ؟ ان خبروں پر تبصرہ کرنے والوں میںسے ایک نے یہ بھی لکھا کہ طلاق لے لیتی۔ ہاں ! طلاق لے لیتی ،کہتی میں اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی ،میں فلاں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں اور وہ بھی مجھے چاہتاہے ۔ قتل کیوں؟ ہم اس جذبے کو محبت کا نام کیسے دیں جو ان دونوں عورتوں میں بہ حیثیت ”ماں” بھی نہیں جاگا؟یہ کیسا اندھا پن ہے جس نے اپنے بچوں کی طرف نہیں دیکھا کہ جس کو مار ڈالنے کی وہ منصوبہ بندی کررہی ہیںوہ ان بچوں کا باپ بھی ہے۔
یہ محبت نہیں ہے ، اس جذبے کو کسی بھی صورت محبت جیسے پاکیزہ جذبے کا نام نہیں دیاجاسکتا، تو پھر یہ کیاہے؟ یہ وہ جبلت ہے جس کی تسکین نہیں ہوئی اور جس کی مذہب ، معاشرہ ، تعلیم ،تربیت غرض کوئی تہذیب نہیں کرسکا نہ یہ عورتیں خود اپنی تہذیب کرسکیں،یہ جذبہ اتنا سر چڑھ کر بولا کہ اندھاکرکے ہی چھوڑا۔ اگر ان عورتوں کو اقدام ِ قتل پر موت کی سزا دی جائے اور ان سے ان کی آخری خواہش پوچھی جائے تو یہ اپنے معشوق سے ملنے کی خواہش کا اظہارہی کریں گی اور اب بچا ہی کیاہے۔
وہ سماجی ادارے جو افراد کی تطہیر کرتے ہیںاگرچہ کہ ان کے کردار پر بھی کئی سوالیہ نشان ہیں لیکن ان ہی معاشرتی اداروں سے ایسے افراد بھی وابستہ ہیں جو واقعتا نیک ہیں ،جو اس معاشرے کی ڈھاتی اخلاقی قدروں کے لیے کھونٹیوں جیسے ہیں جس میں سماجی معیارات اور اخلاقیا ت ٹکی ہوئی ہیں ۔ یہ ادارے اپنا کردار اداکریں ۔ سزائوں سے ڈرا کے ہم اس معاشرے کے سدھا رمیںکوئی تبدیلی نہیں لاسکے ، نمازیں ، روزے ، حج عمرے ، قربانیاں؛ ان کی اہمیت اور مسائل پر جتنا وقت خرچ کرتے ہیں اس سے زیادہ اس معاشرے کی اخلاقی تربیت پر صرف کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔
کھل کربات کریں ،مرد عور ت سے جنسی طور پر مطمئن نہیں ،عورت مرد سے جنسی طور پر مطمئن نہیں،مرد دوسری شادی کرے اورعورت طلاق لے کر دوسری شادی کرے۔ نہ مرد کی دوسری شادی کو برا سمجھیں نہ عورت کے طلاق لینے کو ۔ مرد کو اجازت ہے وہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے ،رکھے ، عورت کے لیے یہ جائز نہیں تو جو جائز رستہ ہے وہی چنے۔ جس عورت کو ماں ہونا نہیں روک سکا اسے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی سوائے جیل کی سلاخوں کے ۔ اب توآگ ہی آگ ان کا مقدرہے ، جلتی رہیں،ان کے جلنے پر کسی کو رتی برابر بھی افسوس نہیں۔ افسوس ان مردوں پر جنہیں ایسی عورتیں ملیں اور دکھ ان بچوں پر جن کی قسمت میں یہ مائیںلکھی تھیں۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیکس چور کون؟ وجود جمعه 03 مئی 2024
ٹیکس چور کون؟

٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر وجود جمعه 03 مئی 2024
٢١ ویں صدی کا آغازاور گیارہ ستمبر

مداواضروری ہے! وجود جمعه 03 مئی 2024
مداواضروری ہے!

پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم وجود جمعه 03 مئی 2024
پاکستان کے خلاف مودی کے مذموم عزائم

''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر