وجود

... loading ...

وجود
وجود

اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

بدھ 20 مارچ 2024 اندرا گاندھی ، گولڈا میئر اور بے نظیر

زریںاختر

(گزشتہ سے پیوستہ)
مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہاہے کہ جیسی گہرائی و گیرائی اندرا کے انٹرویو میں تھی ،اوریانا کو ذوالفقار علی بھٹو کا دیا گیا انٹرویو اس کے بالکل برعکس تھاجس کے لیے بھٹو نے اوریانا کوخود بلا بھیجا تاکہ اندرا گاندھی کے انٹرویو کا جواب دیا جاسکے اور یہ انٹرویو بھٹو کے لیے سبکی سے بڑھ کر ہزیمت باعث بنا ۔ میرے لیے اندرا جی کی وہ باتیں ختم ہی نہیں ہورہیں جو انہوں نے کہیں اور جو میںلکھنا نہ چاہوں۔
اوریانا: مسز گاندھی ،کیا آپ اس الزام سے آگاہ ہیں کہ یہ آپ ہندوستانی تھے جنہوں نے جنگ کو ہوا دی اور پہلے حملہ کیا۔اس حوالے سے آپ کیاکہتی ہیں؟
اندرا: میں اس کا جواب اس اعتراف کے ساتھ دوں گی کہ اگر تم ماضی میں جاکر دیکھنا چاہتی ہو تو بالکل ہم نے مکتی باہنی کی مدد کی تھی ،اور اگر تم سمجھتی ہو کہ اس سب کی شروعات اس مدد اور اس وقت سے ہوئی ہے تو ہاںہم ہی تھے جنہوں نے اسے شروع کیاتھا۔ لیکن دوسرا کام ہم نے نہیں کیاتھا۔ہم ایک کروڑ مہاجرین کو اپنی زمین تک لے کر نہیں آئے تھے،ہم خود کو اس پیچیدہ صورت حال میں دھکیلنا نہیں چاہتے تھے جس کے بارے میں کوئی نہیں کہہ سکتاتھاکہ یہ کب تک چلتی رہے گی۔ بلکہ مہاجرین کا یہ جم غفیر کسی طرح بھی سنبھالنا مشکل تھا۔ یہ اسی طرح چلتا رہناتھا ،چلتارہناتھا،چلتارہناتھا جب تک کہ دھماکہ نہ ہوجائے ۔ ہم مزید ان لوگوں کی آمد کے متحمل نہیں ہوسکتے تھے اسی لیے ہمیں اپنے مفادات کے مدّ ِ نظر انہیں روکنا پڑا،یہی و ہ بات ہے جو میں مسٹر نکسن سے کہی اور دوسرے رہنمائوں سے بھی جنہیں میں جنگ ختم کرنے کے غرض سے ملی تھی۔ (اس کے بعد اندرا گاندھی نے پاکستان کی طرف سے فضائی حملے میں پہل کا ذکر کیا ،اوریانا نے بھی گفتگو اس پہل سے آگے نہیںبڑھائی )
اوریانا: مسز گاندھی آپ نے اپنے سفر کا ذکر کیا جو آپ نے یورپ اور امریکہ کی طرف جنگ کو روکنے کے غرض سے کیاتھا۔کیا آج آپ مکمل سچ بتا سکتی ہیں کہ اصل میں کیا ہوا تھا؟ نکسن کے ساتھ آپ کے معاملات کیسے رہے تھے؟
اندرا:حقیقت یہ ہے کہ میں نے واضح الفاظ میں نکسن سے بات کی تھی۔میں نے اسے بغیر الفاظ کے بھید بدل کے بتایاکہ ہم اپنے کندھوں پر ایک کروڑ مہاجرین کا بوجھ لے کر آگے نہیں بڑھ سکتے ۔ ہم ان بارود کے ڈھیر جیسے حالات میں نہیں رہ سکتے جن میں دھماکے کا خدشہ رہتا ہے۔ لیکن مسٹر نکسن نے نہیں سمجھا۔ حقیقت یہ ہے کہ جب دوسرے لوگ ایک بات کو سمجھتے ہیں تو اس وقت مسٹر نکسن کو کوئی دوسری بات سمجھ آتی ہے۔ مجھے خدشہ تھا کہ وہ پاکستان کا حامی تھا یا شاید میں جانتی تھی کہ امریکی ہمیشہ پاکستان کے طرف دار ہی رہے تھے اور ایسا اس لیے نہیں ہے کہ وہ پاکستان کے طرف دار ہیں بلکہ ایسا اس لیے ہے کیوں کہ وہ انڈیا کے خلاف ہیں۔
بہرحال ،کچھ عرصے سے مجھے ان کے تاثرات سے یوں لگا جیسے وہ بدل رہے ہیں،اس طرح نہیں کہ ان کی پاکستان طرف داری کم ہوئی ہے بلکہ ان کے رویے میں انڈیا کی مخالفت کم ہوئی ہے۔ لیکن میں غلط تھی ۔ نکسن سے ملاقات نے سوائے جنگ روکنے کے باقی سب کیااور اس بات سے مجھے فائدہ ہوا۔ مجھے اس سے یہ تجربہ حاصل ہوا کہ جب بھی لوگ آپ کے خلاف ہوتے ہیں تو قدرتی طور پر اس وقت کچھ نہ کچھ آپ کے حق میں ہوجاتاہے۔کم از کم آپ اس مخالفت کو اپنے حق میں استعمال کرسکتے ہیں۔ یہی زندگی کا قانون ہے ۔ اسے ناپ تول کر دیکھیں تو پھر آپ کو اندازہ ہوتاہے کہ یہ زندگی کے ہررویے اور ہر موڑ پر لاگو ہوتاہے۔ کیا تم جانتی ہو کہ میں پچھلے انتخابات کیوں جیت گئی؟ ایسا اس لیے ہوا کیوں کہ لوگ مجھے پسند کرتے تھے ہاں، کیوں کہ میں نے سخت محنت کی تھی ہاں، لیکن ایسا اس لیے بھی ہوا کیوں کہ مخالف جماعت نے میرے ساتھ برا رویہ اپنایا،اور کیا تم جانتی ہو کہ میں یہ جنگ کیوں جیتی ؟ کیوں کہ میری فوج اس کی قابلیت رکھتی تھی ہاں، لیکن اس لیے بھی کیوں کہ امریکہ پاکستان کی طرف تھا۔
اوریانا: میں سمجھی نہیں۔
اندرا: میں وضاحت کرتی ہوں۔ امریکہ ہمیشہ سوچتاہے کہ وہ پاکستان کی مدد کر رہاہے ۔ لیکن اگر یہ پاکستا ن کی مدد نہ کرتاہوتا تو پاکستان زیادہ مضبوط ملک ہوتا۔ آپ کسی ملک کی مدد اس کی فوج کے راستے نہیں کرسکتے کیوں کہ وہاں جمہوریت نام کو نہیں ہوتی ،اور جس بات نے پاکستان کو شکست سے دوچارکیا وہ اس کی فوجی حکومت تھی ۔ اس حکومت کو امریکیوں نے سہارا دے رکھاتھا۔ کبھی کبھار دوست بھی خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔ ہمیں اس مدد کو بڑے محتاط طریقے سے لینا چاہیے جو ہمیں دوست فراہم کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔اگر امریکیوں نے کوئی گولی چلائی ہوتی ،اگر ساتو یں بیٹرے نے بے آف بنگال پر کھڑے رہنے کے علاوہ کوئی حرکت کی ہوتی تو تیسری جنگ عظیم پھوٹ سکتی تھی۔ لیکن ایمان داری سے کہتی ہوں مجھے اس بات کا کوئی خوف نہیں تھا۔ ۔۔۔۔جنگ ناگزیر ہوجاتی ہے جب کوئی کسی کو یا خود کو تحفظ فراہم کرنا چاہتاہے۔
جب انٹرویو اختتام پذیر ہوگیا تو اوریانا لکھتی ہے:”وہ میرے ہمراہ دفتر سے باہر آئی اور مجھے لے کر ٹیکسی تک آئی جو گلی میں کھڑی میرا انتظار کر رہی تھی ۔ راہ دارویوں میں چلتے ہوئے اور سیڑھیاں اترتے وقت اس نے مجھے مسلسل بازو سے یوں پکڑے رکھا کہ جیسے وہ مجھے ہمیشہ سے جانتی ہو اور وہ اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرتی رہی اور ساتھ ہی ساتھ وہ غیر حاضر دماغی کے سے تاثر کے ساتھ افسران کے سلاموں کاجواب بھی سر کے ہلکے سے اشارے سے دیتی رہی ۔ وہ اس دن تھکی سی نظر آرہی تھی اور پھر میں نے اچانک جذبات سے لبریز آوا ز میں کہا”مطمئن ہوجائو مجھے تم سے حسد نہیںہے اور میں تمہاری جگہ لینے کی کوئی خواہش نہیں رکھتی ہوں۔”اس نے جواباََ کہا”مسئلہ میرے ساتھ وابستہ مسائل میں نہیں ہے بلکہ مسئلہ میرے ارد گرد موجود بے وقوفوں میں ہے۔جمہوریت ، …تمہیں پتاہے…؟”
اوریانا مزید لکھتی ہے :”میں اب سوچ کر حیران ہوتی ہوں کہ اس نامکمل فقرے سے اس کی کیا مرادتھی ؟ میں خود سے سوال کرتی
ہوں کہ آیا تب بھی وہ اس نظام کے لیے سبکی محسوس کرتی تھی جب وہ اس کی نمائندگی کرتی تھی او ر جس نظام کو برسوں بعد اس نے تہہ و بالاکردیاتھا”۔
سب سے آخرمیں وہ دعا جو اندرا جی نے اوریانا کو دی ”میں تمہیں آسانیوں کی دعانہیں دیتی بلکہ میں تمہیں دعادیتی ہوں کہ تمہیں جیسی بھی مشکلات کا سامنا ہو ،تم ان پر قابو پا سکو۔”
یہ دعا کون دے سکتاتھا ماسوا ”اندرا دیوی ”۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر