وجود

... loading ...

وجود
وجود

نئی حکومت کے خاتمے کے تذکرے

منگل 12 مارچ 2024 نئی حکومت کے خاتمے کے تذکرے

رفیق پٹیل

8فروری کے انتخابات کے متنازع نتائج کے بعد الیکشن کمیشن نے 28روز بعد فارم 45 اپنی ویب سائٹ پر پیش کردیے تھے، جسے اب وہا ں سے ہٹا دیا گیا ہے۔ پولنگ اسٹیشنوں کے نتائج پر مشتمل اس فارم کو عوام کے سامنے لانے کی مقررہ مدّت 14روز تھی لیکن یہ دو ہفتے تاخیر سے سامنے لائے گئے اور جب اس میں ہیرا پھیری اور جعلسازی کی نشاندہی کی جانے لگی تو اسے ویب سائٹ سے ہٹادیا گیا۔ ایک ٹی وی مبصّر نے لاہور میں نواز شریف اور جیل میں قید ڈاکٹر یاسمین راشد کے فارم 45کے تمام اعدادوشمار کا تجزیہ کرتے ہوئے بتایا کہ ڈاکٹر یاسمین راشد جیتی ہوئی ہیں اور نواز شریف ہارے ہوئے ہیں ۔اسی طرح تقریباً ساٹھ سے اسّی کے درمیان ایسے امیدوار ہیں جو اپنی جیت کا دعویٰ کر رہے ہیں اور عدالتوں کے چکّر لگا رہے ہیں ۔تاریخ گواہ ہے کہ وہ معاشرے یا ممالک جہاں انصاف نہیں ہوتا بالآخر تباہی یا انقلاب سے دوچار ہوجاتے ہیں ۔ دنیا میں کہیں بھی ایسی حکومت برقرار نہیں رہ سکتی جہاں لوگوں میں نا انصافی کی وجہ سے حکومت کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہو۔ جلد یا کچھ دیر سے ایسی حکومت کا خاتمہ ہوجاتا ہے یا بڑے پیمانے پر انتشار جنم لیتا ہے جسے طاقت سے قابو میں نہیں لایا جاسکتا۔ اگر طاقت سے ہی ہر مسئلے کا حل ہونا ممکن ہوتا توملک میں ایک باقاعدہ مستقل مارشل لاء نافذ رہتا لیکن ماضی میں کوئی بھی مارشل لاء برقرار نہیں رہ سکا۔ پاکستان کا قیام جمہوریت کے سفر سے شروع ہواتھا ۔ لہٰذابادشاہت بھی یہا ںممکن نہ تھی ۔اب جو تجربہ سامنے ہے اس میں عام تصور یہی ہے کہ ان جماعتوں اور خاندانوں کو ملک پر مسلط کردیا گیا ہے جو عوام کے حقیقی نمائندے نہیں ہیں دنیا بھر کے اہم ذرائع ابلاغ کی رپورٹوں سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں بھی کم و بیش اسی قسم کے حالات ہیں۔
8فروری کے انتخابات میں لوگوں نے موجودہ برسراقتدار گروہ سے نفرت کا اظہار کیا تھا ۔یہ نتائج اتنے حیرت انگیز تھے کہ دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں اس پر علمی تحقیق کا آ غاز ہوچکا ہے ۔اس کی وجہ پی ٹی آئی کی بغیر انتخابی نشان اور اس کے خلاف انتخابی عمل سے باہر رکھنے کے لیے شدید پابندیاں تھیں۔یہی بہت بڑی بات تھی کہ وہ انتخابات میں اپنے آزاد امیدواروں کے ساتھ میدان میں آگئی۔ دنیا بھر کا میڈیا اپنی خبروںاور تجزیوں میں بتا چکا ہے کہ جب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بڑی تعداد کی کامیابی کو شکست میں تبدیل کیاگیا اور بڑے پیمانے پر دھاندلی ہوئی۔ پاکستان کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے اور انتخابات سے قبل رائے عامہ کی جائزہ رپورٹوں کو باریک بینی سے دیکھاجائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ موجودہ برسراقتدار جماعتوں کے خلاف عوام میں شدید نفرت اورغصہ پایا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں دنیا کی تمام بڑی قوتّیں بھی مل کر شہباز شریف کی حکومت کو بچا نہیں سکتیں۔ بہت سے دانشور اس بات سے اختلاف کرسکتے ہیں کہ لیکن شہباز شریف کی حکومت ایک بغیر پہیّوں کی گاڑی ہے۔ مصنوعی طریقوں سے کھینچنے سے اس نظام پر جو نشانات پیدا ہونگے اس کا نتیجہ تباہی اور بربادی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ حیرت ہے کہ ملکی معیشت کے تیز رفتار زوال کا بھی کسی کو خیال نہیں ہے اور اس خام خیالی میںکہ سب ٹھیک ہوجائے گا معاملات کو گھسیٹا جارہا ہے ۔ملکی سطح پر بھی موجودہ انتخابات کے بعد جتنے بھی تجزیے کیے جارہے ہیں اس میں سے بیشتر کا کہنا ہے کہ یہ حکومت چند ماہ کی مہمان ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مصنوعی آکسیجن سے اس کی مدّت پوری کرائی جائے گی تاکہ ملک کے اہم عہدیداروں کی مدّت ملازمت میں توسیع کی جاسکے ۔ملک کی برسراقتدار جماعتوں کے اعلیٰ عہدیداروں میں دولت جمع کرنے اوربیرون ملک جائیدادیں خریدنے اور کاروبا ر کو فروغ دینے کے رجحان میں اضافہ اس لیے روز افزوںہے کہ گزشتہ دو سال سے ملک سیاسی اور معاشی طور پر مزید عدم استحکام کا شکا ر ہے جس کے خاتمے کادور دور تک کوئی امکان نہیں ہے ۔در اصل ملک میںبڑے پیمانے پر نادیدہ بھگڈر مچی ہوئی ہے اور ہر چھوٹا بڑا شخص ملک سے فرار ہونے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ شریف خاندان اور زرداری خاندان کی پیروی بھی ہے۔ ان دونوں خاندانوں کے زیر اثر سیاستدان جب بھی کوئی منفعت بخش عہدہ حاصل کریں گے۔ ان کی خواہش یہی ہوگی کہ ان کی بھی بیرون ملک جائیدادیں ہوں۔ بینک بیلنس ہو، کاروبار ہو۔ یہ ایک فطری امر ہے کہ قیادت کے نقش قدم پر چلا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتوں کے عہدیداررفتہ رفتہ خود کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوشش کرتے ہیں جس قیادت سے انہیں عقیدت ہوتی ہے یہ رجحان ملک کی نوکر شاہی میں بھی سرایت کررہا ہے۔ وہ دنیا میں محفوظ ٹھکانوں کی تلاش میں ہیں جہاں وہ مدّت ملازمت ختم ہونے کے بعد یا کسی بھی بحرانی صورت میں فوراً روانہ ہوجائیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے وہ بیرون ملک جائیدادیں خریدتے ہیں ۔نوکر شاہی کی مددکے ذریعے سیاستدان ان دولت جمع کرنے اور بیرون ملک جائیداد کے حصول میں کامیاب رہتے ہیں۔اب یہ رجحان مزید فروغ پارہا ہے۔ عرصہ دراز سے سندھ میں صنعتی اور تجارتی حلقے بار بار بدعنوانی کی شکایت کر رہے تھے ،جسے کراچی سسٹم کا نام دیا گیاتھا۔ اب نئی حکومت کی تشکیل سے کراچی سسٹم پاکستان سسٹم میں تبدیل ہوجائے گا۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اب ملک ایوان وزیر اعظم کے بجا ئے ایوان صدر سے چلایا جائے گا۔ شہباز شریف کی حکومت پی پی کی بیساکھیوں پر برقرار ہے۔ اس لیے ہر صورت میں آصف زرداری کو راضی رکھنا ہوگا اور ہر اہم کام میں آصف زرداری کی مرضی کومقدّم رکھنا ہوگا۔ آئندہ کسی موقع پر پی پی وزارتوں میں بھی حصّہ دار بن سکتی ہے۔ آصف زرداری نے نواز شریف کی پاکستان واپسی کے چند دنوں بعد ہی یہ اعلان کردیا تھا کہ وہ نواز شریف کو وزیر اعظم نہیں بننے دیں گے۔ ممکنہ طور پرپس پردہ معاملات کے ذریعے انہوں نے کامیابی حاصل کرلی اور نواز شریف اس وقت وزارت عظمیٰ کے عہدے سے دورہیں جس کی وجہ سے مسلم لیگ کے ایک بڑے حلقے میں آصف زرداری کے لیے اچھے جذبات نہیں ہیں ۔آصف زرداری کا اگلا ہدف بلاول کو وزیر اعظم بنا نا ہے ۔نواز شریف مریم نواز کو وزیر اعظم بنانا چاہتے ہیں۔ نواز شریف مریم نوازکے لیے پنجاب میں راہ ہموار کررہے ہیں۔ اسی لیے مریم نواز کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنایا گیا ہے۔ زمینی حالات دونوں خاندانوں کے لیے سازگار نہیں ہیں ۔بلاول بھٹو شریفوں کی حمایت سے مقبولیت کھو رہے ہیں جبکہ مریم نواز پالیسی سازی کے بجائے اپنے لیے ملبوسات کے انتخاب اور سیاسی ڈرامہ فلم کی عکس بندی کی مصنوعی سیاست کی وجہ سے ہر جگہ تنقید کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ملک میں جاری مصنوعی نظا م کے برقرار رہنے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں ہے۔ انصاف پر مبنی نظام ہی ملک کو بحران سے نکال سکتا ہے۔ سرمایہ کاری بھی منصفانہ نظام میںفروغ پاتی ہے۔ اس سلسلے کو جاری رکھنا تباہی اور خودکشی کے سوا کیا ہو سکتا ہے۔ تاریخ یہی سکھاتی ہے ملک کے کرتا دھرتا اس سے سبق سیکھنے کو تیا ر نہیں ہیں۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ وجود پیر 29 اپریل 2024
پاکستان کا پاکستان سے مقابلہ

بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی وجود پیر 29 اپریل 2024
بھارتی انتخابی مہم میں مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی

جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!! وجود پیر 29 اپریل 2024
جتنی مرضی قسمیں اٹھا لو۔۔۔!!

''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر