وجود

... loading ...

وجود
وجود

دہلی کی سنہری باغ مسجد پر انہدام کی تلوار

بدھ 03 جنوری 2024 دہلی کی سنہری باغ مسجد پر انہدام کی تلوار

معصوم مرادآبادی

دہلی کی ایک تاریخی مسجد پر انہدام کی تلوار لٹک رہی ہے ۔ ڈیڑھ سو سال پرانی اس مسجد کو منہدم کرنے کے لیے ٹریفک پولیس نے نئی دہلی میونسپل کارپوریشن کی مدد مانگی ہے ۔کارپوریشن نے ایک عوامی نوٹس جاری کرکے مسجد کے انہدام سے متعلق عوامی تجاویز اور اعتراضات طلب کئے ہیں۔دراصل ٹریفک پولیس گول چکر پر واقع اس مسجد کونقل وحمل کا نظام بہتر بنانے کے لیے منہدم کروانا چاہتی ہے ۔کارپوریشن کی طرف سے دی گئی تجویز میں بنیادی وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ مسجد ٹریفک کی ہموار روانی میں رکاوٹ بن رہی ہے ، جبکہ یہ دعویٰ حقائق کے خلاف ہے ، کیونکہ سنہری مسجد گول چکر کے بالکل اندر واقع ہے اور اس کی ساخت گول چکر سے ملنے والی سڑکوں میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کرتی۔حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایک طرف تو کارپوریشن نے سنہری مسجد کو ہیرٹیج کنز رویشن کمیٹی کے مشورے سے تاریخی ورثے کے طور پر نشان زد کررکھا ہے اور دوسری طرف وہ ٹریفک کے بہاؤ میں رکاوٹ کی بنیاد پر اپنی تجویز کے لیے ہیرٹیج کنزرویشن کمیٹی سے منظوری مانگ رہی ہے ۔سنہری مسجد محض ایک عمارت کا ڈھانچہ نہیں ہے بلکہ یہ ہمارے اجتماعی، تاریخی اور ثقافتی ورثہ کی نمائندگی کرنے والی ایک عبادت گاہہے ۔ان تمام حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے کارپوریشن نے مسجد کے خلاف جو نوٹس اخبار میں شائع کرایا ہے ، وہ اس کے مجرمانہ طرزفکر کی غمازی کرتا ہے ۔ حالانکہ یہ معاملہ عدالت میں زیرسماعت ہے اور اس پر کوئی حتمی فیصلہ نہیں آیا ہے ۔کارپوریشن کے نوٹس کی اشاعت کے بعد ملی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے اور سبھی اس مسجد کو بچانے کے لیے سرگرم ہوگئے ہیں۔ سنہری باغ مسجد کے نام سے جانی جانے والی اس عبادت گاہ میں باقاعدہ پنچ وقتہ نماز ادا کی جاتی ہے اور جمعہ کے دن یہاں سیکڑوں نمازی آتے ہیں۔ یہ مسجد نئی دہلی کے رفیع مارگ پر واقع ہے اوریہاں آس پاس کے سرکاری دفتروں میں کام کرنے والے مسلمان نماز ادا کرتے ہیں۔اس مسجد کا انتظام وانصرام دہلی وقف بورڈ کے پاس ہے اور وہاں اس وقت افراتفری جیسا ماحول ہے ۔پہلے پہل یہ معاملہ اس وقت روشنی میں آیا تھا جب سینٹرل وسٹا پروجیکٹ پر کام شروع ہوا تھا۔اسی پروجیکٹ کے تحت نئی پارلیمنٹ تعمیر ہوئی ہے ۔لیکن جب مسجد کو منہدم کرنے کے منصوبے کے خلاف احتجاج ہوا تو انہدامی کارروائی ملتوی کردی گئی۔ اس کے بعد دہلی وقف بورڈ نے عدالت سے رجوع ہوکر ‘جوں کی توں صورتحال’ برقرار رکھنے کا حکم تو حاصل کرلیا، لیکن بعد کونامعلوم وجوہات کی بنا پر اس نے اس معاملے میں سردمہری اختیار کرلی۔ دہلی وقف بورڈ اور اس کے سی ای اوپر اس مسئلہ میں اپنی ذمہ داریوں سے پہلو تہیکرنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے ۔اسی وجہ سے کارپوریشن کو اپنی کارروائی آگے بڑھانے کا حوصلہ ملا ہے ۔شمالی ہندوستان میں اوقاف کی جو صورتحال ہے ، اس سے کون واقف نہیں۔یہاں باڑ ہی کھیت کو کھانے کاکام کرتی ہے ۔ راقم الحروف نے نوّے کی دہائی میں دہلی کے پہاڑ گنج علاقہ میں واقع ایسی درجنوں مسجدوں کی نشاندہی کی تھی، جن میں کارخانے اور لوگوں کی رہائش ہے ۔پہاڑ گنج اور اس کے آس پاس ملک کی تقسیم سے پہلے مسلمانوں کی گھنی آبادی تھی، لیکن تقسیم کے نتیجے میں جب یہاں کے مسلمان پاکستان چلے گئے تو ان کے مکانوں اور عبادت گاہوں پر ناجائز قبضے کرلیے گئے ۔ ان میں بیشتر مسجدیں ایسی ہیں جہاں نماز نہیں ہوتی اور وہ غیروں کے تسلط میں ہیں۔ ان کی ملکیت وقف بورڈ کے پاس ہے ، جویہاں رہنے والوں سے باقاعدہ کرایہ وصول کرتا ہے ۔دہلی وقف بورڈ آپسی رسہ کشی کی وجہ سے اس وقت خود یتیمی کے دور سے گزررہا ہے ۔ نہ تو یہاں کوئی کمیٹی ہے اور نہ ہی کوئی جواب دہی۔
سنہری باغ کی اس مسجد کے بارے میں یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ دہلی سرکارکے نوٹیفکیشن مجریہ2009 کے تحت تاریخی ورثہ قرار دیا جاچکاہے ۔ 1911میں جب انگریزوں نے دہلی کو راجدھانی بنایا تو انھوں نے رائے سینا علاقہ کے 200 گاوؤں کو مرکزی سیکریٹریٹ بنانے کے لیے ایکوائر کیا تھا۔ اس وقت یہاں کے مسلمانوں نے اپنی بے دخلی کے خلاف اعتراض درج کرایا تو برطانوی حکام اور مقامی مسلمانوں کے درمیان یہ معاہدہ طے پایا کہ زمین تحویل میں لینے کے دوران ان کی عبادت گاہوں اور قبرستانوں کو نہیں چھیڑا جائے گا۔ یہ مسجد بھی اسی معاہدے کے تحت برقراررکھی گئی تھی۔لیکن آج جبکہ ہم ایک آزاد ملک کے باشندے ہیں تو مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بے رحمی کے ساتھ کچلنے کی کوششیں عروج پر ہیں۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ نامور مجاہد آزادی مولانا حسرت موہانی، جب قانون ساز اسمبلی کے ممبر تھے تو وہ اجلاس کے دوران اسیسنہری باغ مسجد میں قیام کرتے تھے ، جو پارلیمنٹ سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے ۔ انھوں نے بطور ممبرپارلیمنٹ ملنے والی کوئی بھی سرکاری سہولت نہیں لی تھی، کیونکہ وہ فقیرانہ زندگی بسر کرتے تھے ۔اس اعتبار سے یہ مسجد ایک ایسے عظیم مجاہد آزادی کی بھی یادگار ہے جس نے سب سے پہلے برطانوی راج سے مکمل آزادی کا ریزلیوشن پیش کیا تھا،جسجو1921میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں منظور ہواتھا۔ یہ وہی مولانا حسرت موہانی ہیں جنھوں نے انقلاب:زندہ بادکا نعرہ ایجاد کیا تھا، جوبعد کو بھگت سنگھ جیسے انقلابیوں کا محبوب نعرہ بنا۔اس اعتبار سے بھی یہ مسجد ایک تاریخی یادگار ہے ۔لیکن ہم جس دور میں زندہ ہیں، وہاں ہندوستان کی سنہری تاریخ کو مٹانے اور ایک تاریک دور کو واپس لانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔سنہری تاریخ کو مٹانے کی کوششوں کے دورمیں ایک سنہری مسجد کیسے برقرار رہ سکتی ہے ؟جس وقت یہ سطریں لکھی جارہی ہیں،ملک میں کئی شہروں میں تاریخی مسجدوں کے خلاف سازشوں کا بازار گرم ہے ۔1991 میں عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق پارلیمنٹ سے جو قانون منظور ہوا تھا، اس کو بے اثر کرنے کی ترکیبیں خود عدالتوں کی طرف سے پیش کی جارہی ہیں۔ اس قانون میں گارنٹی دی گئی تھی کہ ملک کی آزادی کے وقت جو عبادت گاہ جس حالت میں تھی، اس کی وہی حالت برقرار رکھی جائے گی۔ لیکن اس قانون کی موجودگی کے باوجود آئے دن تاریخی مسجدوں کے خلاف دعوے دائر کئے جارہے ہیں۔عدالتیں جس تیزی کے ساتھ ان دعوؤں کو منظورکررہی ہیں، اس سے یہ عندیہ ضرور ملتا ہے کہ وہاں بھی سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ بنارس کی گیان واپی مسجد کے خلاف عدالتی کارروائی کے بعد اب متھرا کی شاہی عیدگاہ کے سروے کی راہ ہموار کی جارہی ہے ۔اس فہرست میں اور بھی کئی مسجدیں شامل ہیں، جنھیں یکے بعد دیگرے نشانے پر لیا جائے گا۔
اس دوران گیان واپی مسجد کی ملکیت کے سوال پر الہ آباد ہائی کورٹ نے یہ عجیب وغریب رولنگ دی ہے کہ اس معاملے میں 1991
کا عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق ایکٹ مانع نہیں ہے ۔عدالت عالیہ نے کہا ہے کہاس ایکٹ میں مذہبی کردار کی تشریح نہیں کی گئی ہے ، صرف عبادت گاہ اور اس کی تبدیلی کی تشریح کی گئی ہے ۔ عدالت عالیہ کا کہناہے کہ”کسی مقام کا مذہبی کردار فریقین کے دعوے اور جوابی دعوے نیز ان کی طرف سے پیش کئے گئے ثبوتوں کی بنیاد پر عدالت طے کرسکتی ہے ۔عدالت نے یہ بھی کہا ہے کہ گیان واپی احاطے کا کردارہندوہییا مسلم، یہ متنازعہ موضوع حقائق وقانون سے وابستہ ہے ۔ اس رولنگ کے ساتھ ہی عدالت عالیہ نے انجمن انتظامیہ مساجد کمیٹی اور سنی سینٹرل وقف بورڈ کی تمام عرضیوں کو خارج کردیا ہے ۔
عدالت عالیہ کی اس عجیب وغریب منطق کے بعد اب یہ طے کرنا مشکل ہوگیا ہے کہ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون مجریہ 1991کی کوئی اہمیت اور معنویت باقی بھی رہ گئی ہے یا نہیں۔ ویسے حکمراں بی جے پی کے لوگوں نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں پہلے ہی چیلنج کررکھا ہے اور کب اس قانون کو منسوخ کردیا جائے ، کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ اس طرح جو لوگ عبادت گاہوں کے تحفظ سے متعلق قانون پر تکیہ کئے بیٹھے ہیں، انھیں اب بیدار ہوجانا چاہئے ۔ کیونکہ نئی دہلی کی سنہری باغ مسجد کے واقعہ نے انھیں نیند سے بیدار ہونے کا آخری موقع فراہم کیا ہے ۔
اٹھو وگرنہ حشر نہیں ہوگا پھر کبھی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا


متعلقہ خبریں


مضامین
شہدائے بلوچستان وجود جمعرات 09 مئی 2024
شہدائے بلوچستان

امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں وجود جمعرات 09 مئی 2024
امت مسلمہ اورعالمی بارودی سرنگیں

بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ وجود جمعرات 09 مئی 2024
بی جے پی اور مودی کے ہاتھوں بھارتی جمہوریت تباہ

مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ وجود منگل 07 مئی 2024
مسلمانوں کے خلاف بی جے پی کااعلانِ جنگ

سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ وجود منگل 07 مئی 2024
سید احمد شید سید، اسماعیل شہید، شہدا بلا کوٹ

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر