وجود

... loading ...

وجود
وجود

انتخابات ملتوی کرانے کے حربے

بدھ 13 دسمبر 2023 انتخابات ملتوی کرانے کے حربے

لاہور میں نوازشریف نے پارلیمانی بورڈ سے خطاب کرتے ہوئے یہ نیا مطالبہ کیا ہے کہ صرف حکومت نہیں جعلی مقدمات پر احتساب بھی چاہتے ہیں، ان کے7 سال کس نے ضائع کیے، کس نے جھوٹے مقدمات بنا کر ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ سب کے نام سامنے آ چکے ہیں مگر ان کا احتساب کون کرے گا؟ بات اس حد تک تو درست ہے کہ جو کچھ ہوتا رہا ہے، اس کا سنجیدگی سے جائزہ نہ لیا گیا تو وہ مستقبل میں بھی ہوتا رہے گا لیکن ایک بات پر نوازشریف خاموش ہو جاتے ہیں کہ آج جو کچھ عمران خان سے ہو رہا ہے کیا وہ بھی اسی روایت کے زمرے میں آتا ہے؟ یا اسے وہ درست سمجھتے ہیں۔ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ہم آدھا سچ بولتے ہیں، حالانکہ مسئلہ تبھی حل ہوگا جب ہم پورا سچ بولیں گے۔ اپنے لیے سچ اور دوسروں کے لیے جھوٹ والی پالیسی نہیں چلے گی،پھر تو یہی کچھ ہوتا رہے گا بس نام اور چہرے بدل جائیں گے، ماضی کو درست کرنے کی روایت ہمارے ہاں اگر چل پڑی ہے،ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے حوالے سے صدارتی ریفرنس کی اگر سماعت ہو رہی ہے تو پھر باقی معاملات کا بھی جائزہ لینے میں کوئی حرج نہیں۔ نوازشریف اگر سمجھتے ہیں کہ ان کے ساتھ زیادتی ہوئی، مخصوص ججوں اور سابق جرنیلوں نے ان کے خلاف منصوبہ بنایا تو اس کا فیصلہ بھی ہوجانا چاہیے۔ یہ چوہے بلی کا کھیل پہلے ہی پاکستان کو بہت نقصان پہنچا چکا ہے۔ اب اسے بند کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اس کے لیے سب سے اہم کردار کسی اور نے نہیں سیاستدانوں نے ادا کرنا ہے۔ ملک میں جو کچھ ہوتا رہا، وہ ان کی نااتفاقی اور ایک دوسرے کے خلاف استعمال ہونے کی روش کے باعث ہوا۔اس سے جان چھڑانی ہے تو پھر یہ بھی طے کرنا ہوگا کہ سیاست کو صرف اقتدار کے لیے بھینٹ نہیں چڑھایا جائے گا۔سیاسی قوتوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر سیاست ہی غیر سیاسی قوتوں کا آسان ہدف کیوں بن جاتی ہے، اس میں اتنی طاقت کیوں نہیں کہ اپنی حفاظت کر سکے۔ دنیا کی مضبوط جمہوریتوں میں ایسا کیوں نہیں ہوتا کیوں وہاں سیاست کسی کی باندی نہیں بنتی۔ نوازشریف کہتے ہیں عمران خان کو ایک سازش کے تحت مسلط کیا گیا، جس سے ملکی معیشت کا بیڑہ غرق ہو گیا جبکہ عمران خان یہ کہتے کہتے جیل چلے گئے کہ لندن پلان کے تحت نوازشریف کو ملک پر مسلط کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کون سچا ہے کون جھوٹا، اس کا فیصلہ کیسے ہوگا؟ یہ تو تبھی ہو سکتا ہے جب سیاستدان اتنی جگہ نہ دیں کہ کوئی دوسرا اونٹ بن کر ان کے خیمے میں داخل ہو جائے، لیکن ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ اقتدار کی کشش ایک ایسی کمزوری ہے، جس کا سبھی شکار ہو جاتے ہیں بس اشارہ ملنے کی دیر ہوتی ہے۔ یہ مانگے تانگے کا اقتدار اپنے ساتھ مجبوریاں اور کمزوریاں بھی لاتا ہے پھر یہ شکوہ کیساکہ منتخب وزیراعظم کو کام نہیں کرنے دیا جاتا۔ جولاتے ہیں پھر وہ ڈکٹیٹ بھی تو کرتے ہیں، اس میں انہونی کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کسی وزیراعظم کو اس کی آئینی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ کسی کو نکالا گیا اور کوئی خود دباؤ برداشت نہ کر سکا۔ نکالنے کے ساتھ ساتھ بعض کو نشانِ عبرت بنانے کی حکمت عملی بھی اختیار کی گئی تاکہ آنے والوں کو کان ہو جائیں۔ سیاسی مبصرین کی ایک محفل میں اس نکتے پر بحث ہو رہی تھی کہ بار بار ایک ہی نوعیت کے واقعات ہونے اور سیاسی قوتوں کو نشانہ بنانے کے باوجود سیاستدانوں نے سبق کیوں نہیں سیکھا۔ متحد کیوں نہیں ہوئے؟ یہ طے کیوں نہیں کیا کہ صرف ووٹ کے ذریعے اقتدار میں آئیں گے اور کوئی دوسرا راستہ اختیار نہیں کریں گے۔ اس پر اتفاق رائے موجود تھا کہ پاکستانی سیاست نظریات کی بجائے اقتدارکے گرد گھومتی ہے، اس لیے اقتدار کی چمک خیرہ کر دیتی ہے۔ چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنے والے اس حقیقت کو فراموش کر دیتے ہیں کہ کسی کا دست نگر بن کر حاصل کیا گیا اقتدار ایک سیاسی خیرات ہے جو کسی وقت بھی بند کرکے دوسرے کو دی جا سکتی ہے 76برس گزر گئے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ اور بعد میں آزاد ہونے والے ممالک اپنا ایک مستحکم سیاسی نظام بنا چکے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش کی مثال سامنے ہے۔ جمہوریت کا ایک پائیدار نظام چل رہا ہے، جس کا نتیجہ معاشی ترقی و خوشحالی کی شکل میں نکل رہا ہے جبکہ ہمارے ملک پاکستان میں آج بھی یہ بحث جاری ہے کہ انتخابات وقت پر ہوں گے یا نہیں، ہوئے تو آزادانہ ہوں گے یا ان میں مداخلت کی جائے گی۔ 21ویں صدی کے اس عشرے میں اس قسم کی باتیں دنیا کو حیران کر دیتی ہیں۔تاریخ میں اگر کچھ غلط ہو ا ہے تو اس کا ازالہ ہونا چاہیے۔ یہ اس لیے ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ایسی غلطیوں کے خلاف بند باندھا جا سکے۔ نوازشریف نے گزشتہ روز جو سوالات اٹھائے ہیں وہ ان کے سیاسی مخالفین کی نظر میں شاید بے وقت کی راگنی ہوں، مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ان سوالات کا جواب نہ ملا تو پھر کسی نئی شکل میں سامنے آ جائیں گے۔ ایک ایسے ملک میں جہاں طاقت کا توازن ہی درست نہ ہو سکا ہواور جمہوری و ریاستی قوتوں میں کھینچا تانی جاری ہو وہاں ان سوالوں کا جواب ملنا اور بھی ضروری ہو جاتا ہے۔ کس طرح طاقت کے ایوانوں میں موجود چند شخصیات پورے ملک کے مفاد کو اپنی سوچ اور خواہش کی بھینٹ چڑھا دیتی ہیں؟ عمران خان نے بھی ویسے ہی الزامات لگائے جیسے نوازشریف لگا رہے ہیں۔ گویا اس کا مطلب یہ ہے سوالات تو دہرائے جا رہے ہیں، ان کے جوابات نہیں مل رہے۔ ہم کولھو کے بیل کی طرح ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ آج سے نہیں پچھلی کئی دہائیوں سے ہمارا سیاسی سفر ایک ہی ڈگر پر چل رہا ہے۔ 2 قدم آگے بڑھتے ہیں تو 3 قدم پیچھے آ جاتے ہیں۔ ہماری معیشت بھی اسی لیے ہمیشہ ہچکولے کھاتی رہتی ہے اورہم دنیا میں سب سے پیچھے رہ گئے ہیں اور قرضوں میں ایسے جکڑے گئے ہیں کہ مستقبل میں ان سے نجات کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ہمارے خیال میں اس صورت حال سے نکلنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ جمہوریت کو مضبوط کیا جائے اور جمہوریت اسی صورت میں مضبوط ہو سکتی ہے جب سیاسی جماعتیں یہ تہیہ کرلیں کہ جمہوریت کی پاسداری کریں گی اور صرف اقتدار کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف کندھا پیش کرنے کی بجائے اصولوں اور نظریات پر قائم رہیں گی۔ یہ مشکل ضرور ہے مگر ناممکن ہرگز نہیں۔لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ نواز شریف نے یہ جانتے ہوئے کہ وہ خود بھی برسراقتدار آکر اس ڈرامے کے ہرکردار کو قانون کے کٹھہرے میں نہیں لاسکتے یہ مطالبہ ایک خاص مقصد کے تحت کیاہے،اس کا سبب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی مکمل اور غیر ضروری حمایت کے باوجود مسلم لیگ ن عوام میں اپنی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور لاہور جیسے شہر میں بھی بقول بلاول زرداری کے انھیں گندے انڈوں اور ٹماٹروں کا سامنا کرنا پڑرہاہے اب عوام ان کی باتیں سن کر سوالات کرنے سے نہیں گھبراتے بلکہ کھڑے ہوکر یہ پوچھنے لگے ہیں کہ وہ جو کچھ کرنے کاوعدہ کررہے ہیں وہ انھوں نے اپنی طویل حکمرانی کے دوران کیوں نہیں کیا؟ موٹر ویز سے پہلے ملک کے ہر صوبے میں ایسے اچھے ہسپتال کیوں نہیں بنوائے جہاں اس ملک کے 98 فیصد عوام جن کی بھاری اکثریت اور غربت کا شکار ہے اپنا علاج کراسکتی؟یہی وجہ ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے بعدبھی نواز شریف کوئی بڑا جلسہ کرنے کے بجائے صرف بیان بازیوں پر اکتفا کررہے ہیں یا پھر ورکرز کانفرنسوں پر اکتفا کررہے ہیں جہاں کسی جانب سے کسی تیکھے سوال کو خدشہ نہیں ہوتا کسی جانب سے سڑا ہوا ٹماٹر یا انڈہ پڑنے کا خدشہ بھی نہیں ہوتا۔ عمران خان کو منظر سے ہٹانے اور انھیں بدنام کرنے کے باوجود ان کاجادو سر چڑھ کربول رہاہے جس کی وجہ سے سیاسی سرگرمیوں پر مبنی صورتحال انتہائی سرد ہے اور گزشتہ 30 سال سے زیادہ عرصے سے باریاں لینے والی سیاسی جماعتیں انتخابات کے لیے تیار نہیں ہیں اور تاخیر چاہتی ہیں سیاسی بازیگر انتخابات کو اپنے مفاد سے منسلک کر رہے ہیں کیونکہ عوام کاموڈ دیکھ کر انہیں یہ خدشہ ہی نہیں بلکہ یقین ہوچکا ہے کہ وہ عوام کی پزیرائی حاصل نہیں کر سکتے ہیں۔یہ یقینا ایک لمحہئ فکریہ ہے کہ جوں جوں انتخابات کی تاریخ قریب آرہی ہے، سیاسی جماعتیں تاخیری حربے استعمال کرتی دکھائی دے رہی ہیں مسلم لیگی رہنما ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ وہ انتخابات کے لیے تیار ہیں لیکن انتخابات کو التوا میں ڈالنے کی خواہش کے تحت اس نے ایم کیوایم کے ساتھ مل کر حلقہ بندیوں پر اعتراضات اٹھا دیے ہیں۔ کنوینر ایم کیو ایم نے حلقہ بندیوں پر اعتراضات پر الیکشن کمیشن کے فیصلوں کو یکطرفہ اور ہائی ڈیزائن قرار دے دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کے صدر نے عدالت سے رجوع کرنے کی دھمکی دے دی ہے۔ اسی تناظر میں مسلم لیگی رہنما خواجہ سعد رفیق کا بیان انتہائی معنی خیز ہے کہ پی ٹی آئی کو الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کرنا چاہئے، جبکہ پی ٹی آئی کی طرف سے ایسا کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کے سبب اسلام آباد ہائیکورٹ میں حلقہ بندیوں کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عامر فاروق نے الیکشن کمیشن کے وکیل سے استفسار کیا کہ الیکشن کمیشن کی طرف سے الیکشن شیڈول کب دیا جا رہا ہے، مختلف لوگوں نے ہائیکورٹ سے رجوع کیا ہے لوگوں کو فرسٹریٹ نہ کریں، وکیل الیکشن کمیشن نے الیکشن شیڈول کے بارے میں جواب دینے کے بجائے کہا کہ الیکشن کمیشن تو اس کورٹ کی ڈسپوزل پر ہوتا ہے، جب عدالت بلاتی ہے آجاتے ہیں،اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہی انتخابات کے شیڈول کو رکوانے کے لیے درخواست دائر ہوئی ہے،انتخابات میں تاخیرکی کوششیں معنی خیز بنتی جا رہی ہیں، جس سے پسِ پردہ عوامل میں ”آپریشن کلین اپ“ مکمل ہونے تک انتخابات میں تاخیر کا عندیہ ملتا ہے۔


متعلقہ خبریں


رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود - اتوار 19 نومبر 2023

سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس(سابقہ ٹوئٹر) کے مالک ایلون مسک کی جانب سے یہودی مخالف پوسٹ کی حمایت کی وائٹ ہاؤس نے شدید مذمت کی ہے اور والٹ ڈزنی سمیت اہم کمپنیوں نے ایکس کو اشتہارات دینے پر پابندی عائد کردی ہے۔خبر رساں ایجنسی رائٹرز کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس(سابقہ ٹوئٹر) ...

یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مضامین
''مرمتی خواتین'' وجود اتوار 28 اپریل 2024
''مرمتی خواتین''

جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4) وجود اتوار 28 اپریل 2024
جناح کا مقدمہ ۔۔ ( قسط نمبر 4)

ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک وجود اتوار 28 اپریل 2024
ریٹرننگ سے پریذائڈنگ آفیسرتک

اندھا دھند معاہدوں کانقصان وجود هفته 27 اپریل 2024
اندھا دھند معاہدوں کانقصان

ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے! وجود هفته 27 اپریل 2024
ملک شدید بحرانوں کی زد میں ہے!

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر