وجود

... loading ...

وجود
وجود

ماہی گیروں کا عالمی دن اور غربت کی انتہا

بدھ 22 نومبر 2023 ماہی گیروں کا عالمی دن اور غربت کی انتہا

میری بات/روہیل اکبر
پاکستان میں ویسے تو ہر محنت کرنے والا طبقہ اس وقت غربت کی بلندیوں پر ہے لیکن ان میں سے بھی ایک ایسا طبقہ ہے جو ہمیں سردیوں کی سرد راتوں میں مچھلی فراہم کرتا ہے آج میں اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والے ماہی گیروں کی بات کرونگا۔ ویسے بھی 21نومبر کو ان کا عالمی دن بھی ہوتا ہے جن سے اکثر مچھیرے بے خبر رہتے ہیں پاکستان میں ماہی گیر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ان کی کل آبادی میں سے 79 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے ہے۔ 90فیصد ماہی گیر بے گھر اور ان میںشرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ساحلی پٹی کے ساتھ مقیم
ماہی گیر کمیونٹیز شدید مشکلات کا شکار جہاںاسکول اور نہ ہی ہسپتال ہیں بلکہ انہیں مزدور کا درجہ بھی حاصل نہیں ۔یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کو سیکورٹی ہے نہ انشورنس اور تو اور بینک اور قرض کی سہولیات تک رسائی سے بھی محروم ۔اس مظلوم طبقے کاکوئی پرسان حال نہیں ۔یہ لوگ مچھلی پکڑتے پکڑتے اکثر اپنی سمندری حدود بھی غلطی سے پار کرجاتے ہیں اور پھر کئی کئی سال دوسرے ممالک کی جیلوں میں گزار دیتے ہیں۔ ان پر ہونے والے مظالم پر حکومت نے بھی چپ سادھ رکھی ہے حالانکہ ماہی گیری پاکستان کے لیے بھاری زرمبادلہ کمانے والا ایک منافع بخش پیشہ ہے تاہم ملک کی ساحلی پٹی کے ساتھ رہنے والی ماہی گیری کی کمیونٹیز زیادہ تر شدید مشکلات کا شکار ہیں اورایشیائی ترقیاتی بینک نے 79 فیصد آبادی کو غریب قرار دیا ہے اور ان میں سے بھی 54 فیصد غریب ترین طبقے میں آتے ہیں۔ ماہی گیر طبقے سے تعلق رکھنے والے تقریبا 90 فیصد باشندے بغیر کسی سہولت کے بکھری ہوئی بستیوں میں سرکنڈے کی جھاڑیوں میں رہتے ہیں وسائل اور خدمات کی کمی کا سب سے زیادہ اثر خواتین اور بچوں پر پڑتا ہے جہاں اوسط خواندگی کی شرح مردوں کے لیے 47فیصداور خواتین کے لیے 14فیصدریکارڈ کی گئی ماہی گیری کے شعبے کی ترقی ہنر مند افراد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ لوگ پاکستان کے لیے بہت زیادہ کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں لیکن حکومت کی اس طرف کوئی توجہ نہیں ہے۔ یہ لوگ زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔خواندگی، تربیت، تحقیق اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے اس کمیونٹی کی سماجی و اقتصادی حالت کو بہتر بنایا جاسکتا ہے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ان افراد تک براہ راست رسائی حاصل کرے کیونکہ ماہی گیر برادریوں کی معیشت اور معاش کا براہ راست تعلق ان کے ماحول سے ہے۔ اس وقت وزیر اعظم کا تعلق بلوچستان سے ہے اور چیئرمین سینٹ کا تعلق بھی اسی صوبہ سے ہے لیکن اسی صوبہ میں غربت بھی سب سے زیادہ ہے اور ماہی گیر تو غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزار رہے ہیں ان کا رہن سہن دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ یہ لوگ آج کے جدید دور میں رہ رہے ہیں ان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم زمانہ قدیم میں آگئے ہیں موجودہ حکومت کو چاہیے کہ وہ بلوچستان کے سب سے پسماندہ ترین علاقوں کے غریب ماہی گیروں کی حالت پر فوری توجہ دیں۔ خاص کر مینگروو کی دلدل، کریک اور فش فارمنگ کے علاقوں میں زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کی جائیں سب سے پہلے ان کمیونٹیز کو صحت کی حفاظت اور انشورنس فراہم کی جانی چاہیے کیونکہ ان کی سرگرمیاں بہت سخت اور تھکا دینے والی ہیں ۔وہ سانپ کے کاٹنے، مچھلی کے کاٹنے اور دیگر بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں لیکن ان کے پینل پر کوئی ہسپتال نہیں ہے اور انہیں علاج کے لیے بھی دور دراز کے علاقوں میں جانا پڑتا ہے اور پیسے بھی اپنی جیب سے لگانے پڑتے ہیں جبکہ ان کی کمائی بھی بہت کم ہوتی ہے۔
ایک اور بات کہ ماہی گیروں کی ہمارے ہاں کوئی پہچان بھی نہیں ہے ۔انہیں کسانوں یا مزدوروں کے برابر حقوق ملنے چاہیے تاکہ وہ بھی حکومتی اسکمیوں سے فائدہ اٹھا سکیں ۔بلوچستان حکومت نے کچھ عرصہ پہلے ایک پالیسی منظور کی ہے کہ ماہی گیروں کو مزدور سمجھا جائے تاہم پالیسی صرف ایک دستاویز ہے جس پر عمل درآمد کاابھی تک ماہی گیروں کو انتظار ہے۔ ماہی گیروں کے حوالے سے ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ اب ان لوگوں کو مچھلیاں تلاش کرنے کے لیے گہرے سمندر میں جانا پڑتا ہے۔ مچھلیوں کے کم ہوتے ذخیرے نے ان کی زندگی کو بدتر بنا دیا ہے کیونکہ انکا خوراک اور آمدنی کے لیے مچھلیوں پر انحصارہیں اور ان کے پاس مچھلیاں پکڑنے کے کوئی جدید آلات بھی نہیں ہیں ۔ ماہی گیر سمندری خوراک کی برآمد کے ذریعے ملک کو زرمبادلہ کمانے میں مدد کرتے ہیںلیکن وہ برآمدات میں اضافہ کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ ان کی اپنی زندگیوں میں بہتری نہیں آرہی اور انہیں ان کی کوششوں کے مطابق منافع نہیں ملتا۔ان لوگوں میں تربیت یافتہ اور ہنر مند پیشہ ور افراد کی بڑی کمی ہے اور حکومت انکی یہ کمی دور کرنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کررہی اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس حوالے سے محکمے اور وزارت بھی کام کررہی ہے اور اس کے باوجود ماہی گیروں کا یہ طبقہ دن بدن مقروض اور بدحال ہوتا جارہا ہے۔ حکومت کو ملکی بحری سرگرمیوں کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہنر مند پیشہ ور افراد کو تربیت اور تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ زیادہ تر ماہی گیر بینک اور قرض کی سہولیات تک رسائی سے محروم ہیں۔ مائیکرو فنانس اداروں کی طرف سے فراہم کردہ کریڈٹ سہولیات کے ذریعے ان کی ترقی کے مواقع کو بڑھایا جا سکتا ہے جبکہ دوسرے ممالک میںساحلی کمیونٹیز نے مائیکرو فنانس سہولیات تک رسائی کے ذریعے نمایاں طور پر فائدہ اٹھایا ہے جس سے ان کے اثاثوں اور آمدنی میں اضافہ ہوا ہے۔ ماہی گیروں کی مدد کے لیے پی ٹی آئی حکومت نے کامیاب پاکستان پروگرام شروع کیا۔ یہ پروگرام افراد کو مائیکرو قرضے کی پیشکش کرتا تھاجس کی بدولت بینک ایسے مائیکرو فنانس اداروں کو سرمایہ فراہم کرتے ہیں جو بینک سے محروم کمیونٹیز کو قرض دیتے تھے۔ لیکن اب وہ بھی بند ہوچکے ہیں۔ ماہی گیروں کو حکومت گھر اور مچھلی پکڑنے کا جدید سامان فراہم کرے تو یہی طبقہ پاکستان کا خوشحال طبقہ بن سکتا ہے جبکہ سمندری مچھلی سے پاکستان کے لوگ بھی لطف اندوز ہوسکیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ ہنگامی بنیادوں پر ملک بھر کے ماہی گیروں کے معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اقدام فورا شروع کیے جائیں تاکہ یہ لوگ بھی ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکیں جبکہ پاکستان معیار کو بڑھا کر عالمی مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ سے اپنا منافع حاصل کر سکتا ہے۔ آبی زراعت کی پیداوار اس شعبے کو بہتر بنانے کے لیے پاکستان مچھلی اور دیگر سمندری غذا کی مصنوعات کی پیداوار اور پروسیسنگ میں چینی مہارت سے فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ ماہی گیری کی صنعت میں بہتری سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے، آمدنی میں اضافہ ہوگا اور سماجی و اقتصادی ترقی میں مجموعی طور پر ترقی ہوگی ماہی گیری کی معیاری مصنوعات کو پروسیس شدہ اور غیر پروسیس شدہ دونوں شکلوں میں برآمد کیا جا سکے۔ عام طور پر چار قسم کے عملی فش کلچر کے نظام ہوتے ہیں جن میںپنجرے، کھلے تالاب، دوبارہ گردش کرنے والے نظام اور ریس ویزشامل ہیں جنہیں تجارتی کھیتی کے کامیاب نظاموں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔ 2022میں مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ کی مالیت 110 بلین ڈالر تھی جبکہ2032 کے اختتام تک 3.6فیصد کی کمپانڈ اینول گروتھ ریٹ حاصل کرنے کا امکان ہے۔ پاکستان اپنے معیار کو بڑھا کر عالمی مچھلی اور سمندری غذا کی مارکیٹ سے اپنا منافع حاصل کر سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
کچہری نامہ (٤) وجود پیر 20 مئی 2024
کچہری نامہ (٤)

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے ! وجود پیر 20 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے !

عصرحاضرکادہشت گرد وجود پیر 20 مئی 2024
عصرحاضرکادہشت گرد

چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک وجود پیر 20 مئی 2024
چائے والا کروڑوں مالیت کے اثاثوں کا مالک

جذبہ حب الپتنی وجود اتوار 19 مئی 2024
جذبہ حب الپتنی

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر