وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

اتوار 20 اگست 2023 یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے

ڈاکٹر سلیم خان

انسان فطرتاً آزاد پیدا کیا گیا ہے ۔ غلامی اس کی فطرت سے انحراف ہے الاّ یہ کہ وہ اپنی فطرت ِ حنیفہ سے غافل و بے نیاز ہوجائے یا پھر بزورِ قوت مجبور کردیا جائے ۔ آزادی کے استعمال میں بغاوت و نافرمانی کا خطرہ موجود ہے جو زمین میں فتنہ و فساد کا سبب بنتا ہے اسی لیے جیسے ہی رب کائنات نے اپنے برگزیدہ فرشتوں کے سامنے تخلیق آدم کا ذکر فرمایا ان لوگوں نے اس اندیشے اظہار کردیا۔ ارشادِ قرآنی ہے : ”پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا تھا کہ ”میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں”انہوں نے عرض کیا: ”کیا آپ زمین میں کسی ایسے کو مقر ر کرنے والے ہیں، جو اس کے انتظام کو بگاڑ دے گا اور خونریزیاں کرے گا آپ کی حمد و ثنا کے ساتھ تسبیح اور آپ کے لیے تقدیس تو ہم کر ہی رہے ہیں” اس کے جواب میں فرمانِ ربانی ہے : ”میں جانتا ہوں جو کچھ تم نہیں جانتے ”۔ آگے چل کر علم کی بنیاد پر حضرتِ آدم کی فوقیت کو ثابت کردینے کے بعد قرآن کا بیان ہے :”پھر جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کے آگے جھک جاؤ، تو سب جھک گئے ، مگر ابلیس نے انکار کیا وہ اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں پڑ گیا اور نافرمانوں میں شامل ہو گیا”۔
کائنات کے نظم و انصرام میں اہم ذمہ داری ادا کرنے والے فرشتوں کو مسخر کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ یہ خلیفہ کسی مخلوق کے آگے نہیں جھکے گا۔ اس کے بعد حضرت انسان کی سرشت میں اس طرح آزادی و دیعت کی گئی کہ :پھر ہم نے آدم سے کہا کہ ”تم اور تمہاری بیوی، دونوں جنت میں رہو اور یہاں بفراغت جو چاہو کھاؤ، مگر اس درخت کا رُخ نہ کرنا، ورنہ ظالموں میں شمار ہو گے ”۔ اس طرح بے شمار آزادیوں کے ساتھ ایک پابندی بھی لگادی گئی تاکہ اس کا پاس و لحاظ کر کے وہ اپنے آپ کو آزادی کا حقدار ثابت کرسکے ۔ یہ پابندی چونکہ بغرض آزمائش ہے اس لیے اس کی ترغیب دینے والے ابلیس کو بھی بہکانے کی آزادی دے دی گئی تاکہ اس کے لیے شکایت کا موقع نہ رہے ۔ ارشادِ قرآنی ہے :”آخر کار شیطان نے ان دونوں کو اس درخت کی ترغیب دے کر ہمارے حکم کی پیروی سے ہٹا دیا اور انہیں اُس حالت سے نکلوا کر چھوڑا، جس میں وہ تھے ”۔اس طرح ابتدائے آفرینش میں ہی بنی نوع انسان شیطان کے خطرے سے خبردار کردیا گیا کہ آزادی کا غلط استعمال وبالِ جان بن جائے گا۔
حضرت آدم کو ایک امتحان سے گزار دینے کے بعد اس امتحان گاہ میں روانہ کردیا گیا جس کے لیے نسلِ انسانی کی تخلیق کی جانی تھی اور حکم دیا کہ :اب تم سب یہاں سے اتر جاؤ، تم ایک دوسرے کے دشمن ہو اور تمہیں ایک خاص وقت تک زمین ٹھہرنا اور وہیں گزر بسر کرنا ہے”۔ دنیا میں آنے سے قبل :آدم نے اپنے رب سے چند کلمات سیکھ کر توبہ کی، جس کو اس کے رب نے قبول کر لیا، کیونکہ وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ”۔جنت کے اندر دنیا میں پیش آنے والے حالات سے عملاً آگاہ کرنے کے بعد بھول چوک کی تلافی کا سلیقہ بھی سکھا دیا گیا اور آگے کے لیے یہ ہدایت فرما دی گئی کہ:تم سب یہاں سے اتر جاؤ پھر جو میری طرف سے کوئی ہدایت تمہارے پاس پہنچے ، تو جو لوگ میر ی ہدایت کی پیروی کریں گے ، ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہ ہو گا”۔اس طرح اُس غلط عقیدے کی نفی ہوجاتی ہے کہ حضرت آدم کسی گناہ کی پاداش میں اس کا بوجھ لے کر دنیا میں آئے تھے بلکہ یہ بتایا گیا کہ دنیا میں آنا تو نوعِ انسانی کا مقدر تھا۔ اس کے ساتھ یہ تنبیہ بھی کر دی گئی کہ :”اور جو اس کو قبول کرنے سے انکار کریں گے اور ہماری آیات کو جھٹلائیں گے ، وہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے ”۔
رب کائنات نے بنی نوع انسانی کو اس کے انجام سے آگاہ کردینے کے بعد جو آزادی عطا فرمائی اس کا کوئی حکمراں یا نظام تصور بھی نہیں کرسکتا ۔ دنیا کے لوگ مختلف مجبوریوں کے پیش نظر یا مفادات کی خاطر آزادی و حریت کا نعرہ لگاتے ہیں مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی جانب سے یہ اہتمام کسی مجبوری یا دباو کے تحت نہیں کیا گیا بلکہ آزمائش کا تقاضے کے طور پر برضاو رغبت عطا کی گئی ۔ ارشادِ سبحانی ہے :” اگر تیرا رب چاہتا تو روئے زمین پر جتنے لوگ بھی ہیں سب ایمان قبول کرلیتے ”۔ اس آفاقی حقیقت کو بیان کرنے کے بعد محبوب خداوندی سے کہا جارہا ہے :” تو کیا آپ لوگوں کو مجبور کریں گے کہ وہ مومن بن جائیں؟” عوام کی دین کے معاملے میں غفلت وانکار سے نبی کریم ۖ کی فکر مندی کو اللہ تبارک و تعالیٰ اس طرح بیان فرماتا ہے کہ شاید اآپ اس غم میں اپنی جان کھو دوگے کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے لیکن پھر یہ تلقین بھی فرمائی گئی کہ :”’آپ یاد دہانی فرمادیں ۔ آپ تو بس ایک یاددہانی کردینے والے ہو۔آپ ان پر داروغہ نہیں مقرر ہیں”۔ یہ دراصل انسانی آزادی کی معراج ہے ۔ اس آزادی کو اللہ کی بندگی میں کھپا دینا انسانوں کو ہر طرح کی غلامی سے نجات دے دیتا ہے ۔ علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
یہ ایک سجدہ جسے تو گراںسمجھتا ہے
ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات
علامہ اقبال کی فارسی نظم ”در معنی حریت اسلامیہ و سر حادثہء کربلا”۔ میں واقعہ کربلا کے حوالے سے آزادی کا تصور واضح کیا گیا ہے ۔ اس نظم کے اندر اسلام میں حریت کا تصور بڑے زور و شور کے ساتھ پیش کیا گیا ۔اس کے پہلے ہی شعرِ کا مفہوم ہے ”جس نے بھی اللہ تعالیٰ سے اپنا پیمان باندھ کر اس کی عبودیت کو اختیار کر لی، اس کی گردن ہر دوسرے معبود کی غلامی سے آزاد ہوگئی ”۔آگے فرماتے ہیں ”صاحب عشق کی جان کو آرام تب نصیب ہوتا ہے ، جب وہ حریت اور آزادی حاصل کر لیتا ہے ”۔
اس تناظر میں امام حسین کوفاطمة الزہراکی اولاد میں سے عاشقوں کے امام اور رسول اللہۖ کے گلستان میں انہیں سرو آزاد کی حیثیت سے پیش کیا گیا ہے ۔ آگے چل کر ساری امت بلکہ ساری انسانیت کے لیے امام حسین کے کردار سے آزادی کا پیغام اس طرح بیان کیا گیا کہ: جب خلافت نے قرآن سے اپنے رشتہ کو توڑ لیا تو امام حسین نے ملوکیت سے نجات کے لیے مسلمانوں کو حریت کا پیغام دیا۔ وہ کربلا کی زمین پر بادلوں کی طرح آئے اور برس کر اس طرح سے چلے گئے کہ ویرانوں کو لالہ زارکردیا ۔ انھوں نے قیامت تک کے لیے استبداد کی جڑ کاٹ دی اور اس سرزمین پر اپنے خون سے چمن پیدا کر دیے ۔
وہ حق کی خاطر خاک و خون میں غلطاں ہوئے ، اسی لیے انھیں بنائے لا الہ کہا جاتا ہے ۔مسلمان اللہ کے علاوہ کسی کا بندہ نہیں بن سکتا اور
اس کا سر کسی فرعون کے سامنے نہیں جھک سکتا۔ امام حسین نے اس بھید کی اپنے خون کے ذریعہ تفسیر کی ہے اور اپنی اور اپنے انصار و اہل بیت کی قربانی دے کر سوئی ہوئی ملت کو بیدار کیا ہے ”۔
علامہ اقبال آزادی کی عظمت کے ساتھ غلامی کی آفت کا بھی ذکرکیا ہے ۔ حکیم الامت کے مطابق غلامی انسان کے ضمیر کو سلا دیتی ہے اور اسے حرکت و جرأت سے محروم کر دیتی ہے ۔ غلامی سے دل انسانوں کے بدن میں مر جاتے ہیں اور غلامی سے روح انسان کے تن کے لیے بوجھ بن جاتی ہے ۔ غلامی کی وجہ سے شباب میں بھی بڑھاپا طاری ہو جاتا ہے اور انسان کچھ کرنے سے محروم رہ جاتا ہے ۔ غلامی سے کچھار میں موجود شیر بھی حرکت اور جرأت سے عاری ہو جاتا ہے ۔ غلامی کی حالت میں ملت کی انجمن فرد فرد ہو جاتی ہے اور معرکے میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مقابلہ نہیں کرتی”۔ایک اور مقام پر کہتے ہیں”عالم غلامی میں ذوق دیدار اور محبوب کی محبت کے لیے جستجو کی تمنا جاتی رہتی ہے ۔ لہٰذا غلام سے اس ذوق یا بیداری کی توقع کریں ”۔علامہ اقبال کا خود شناس مرد آزاد ایک مضبوط قوت ارادی کا مالک ہوتا ہے اس لیے وہ آمریت، ملوکیت ، بادشاہت اور جمہوریت کے ظلم و استبداد کا خاتمہ کرکے خلافت کے ذریعہ حقیقی آزادی کا پیغام دیتا ہے ۔ علامہ فرماتے ہیں
مٹایا قیصر و کسریٰ کے استبداد کو جس نے
وہ کیا تھا؟ زورِ حیدر، فقر بوذر، صدق سلمانی


متعلقہ خبریں


مضامین
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں وجود بدھ 15 مئی 2024
خاندان اور موسمیاتی تبدیلیاں

کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے وجود بدھ 15 مئی 2024
کتنامشکل ہے جینا .......مدرڈے

جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر