وجود

... loading ...

وجود
وجود

الیکشن کے انعقاد میں غیر ضروری تاخیر

پیر 07 اگست 2023 الیکشن کے انعقاد میں غیر ضروری تاخیر

چیئرمین پی ٹی آئی کو جس صبح توشہ خانہ چوری کیس میں 3برس قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزا ہوئی اور اسی دوپہر مشترکہ مفادات کی کونسل کی طرف سے نئی مردم شماری کی منظوری کی خبر آ گئی جس کے بعد الیکشن کمیشن اس امر کا پابند ہوگیا ہے کہ وہ عام انتخابات نئی مردم شماری کے تحت کروائے۔ اس سے قبل وزیراعظم شہباز شریف نے انٹرویو دیا تھا کہ انتخابات نئی مردم شماری کے تحت ہوں گے اس کے معنی یہ ہیں کہ حکمراں اتحاد نے انتخابات میں غیر معمولی طورپرتاخیر کرنے کا پہلے ہی فیصلہ کرلیاتھا کیونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نئی مردم شماری کی منظور ی پہلے بھی دی جاسکتی تھی اور اسمبلی مدت سے دو تین دن پہلے تحلیل کرنے کے بجائے وقت پر تحلیل کرکے ایک ماہ بچایا جاسکتاتھا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ حکمراں ابھی تک نگراں وزیراعظم سامنے لانے سے گریزاں ہے،جس سے تاثر ملتاہے کہ نگراں وزیراعظم کو انتخابات میں تاخیر کیلئے باقاعدہ بریفنگ دی جارہی ہے اور اس بات کو یقینی بنایا جارہاہے کہ اسمبلیاں تحلیل ہونے کے بعد نگراں وزیرا عظم بھی پنجاب اور پختونخوا کے نگراں وزرائے اعلیٰ کی طرح جی حضور طرز کا ہی ہوگا،ورنہ کیا وجہ ہے کہ آئندہ چند روز میں قومی اسمبلی تحلیل ہورہی ہے،اور ابھی تک نگران وزیراعظم کا نام طے نہیں کیا جاسکا۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم محمد شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے ویڈیو لنک اجلاس میں اسمبلیوں کی تحلیل 9 اگست کو کرنے پر تمام رہنماوں نے اتفاق کر لیا ہے اور نگران وزیر اعظم کے انتخاب کے معاملے کو وزیراعظم کا استحقاق قرار دیدیا گیا۔ جہاں تک وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں نئی مردم شماری کی منظوری کا سوال ہے تو اس منظوری کے بعد قومی اسمبلی کی قبل از وقت تحلیل کے 90 دن کے اندر عام انتخابات کا انعقاد سوالیہ نشان بن کر رہ گیا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن کے سابق سیکریٹری کنور دلشاد کا کہنا ہے کہ اگر مردم شماری منظور ہو جاتی ہے اور اس کا گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری ہو جاتا ہے تو الیکشن ایکٹ کی سیکشن 61 کی سب سیکشن 5 کے تحت ازسر نو حلقہ بندیا ں کرنا الیکشن کمیشن کی آئینی اور قانونی ذمہ داری ہو گی۔ اس عمل کو مکمل کرنے میں 4 سے 6مہینے لگ سکتے ہیں کیونکہ الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں کرے گا اور اگر کسی کو اس پر اعتراض ہو تو پہلی اپیل الیکشن کمیشن کے پاس جائے گی اور اس کے فیصلے کے بعد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے فورم بھی دستیاب ہیں جہاں پر لوگ اپنی درخواستیں لے کر جا سکتے ہیں۔ اس طرح زمینی حقائق کے مطابق الیکشن نومبر کی بجائے فروری یا مارچ کے آغاز میں ممکن ہو سکیں گے، وہ بھی اس صورت میں کہ تمام حلقہ بندیوں کا عمل اور دیگر تیاریاں وقت برباد کیے بغیر ہو جائیں۔ مشترکہ مفادات کونسل میں دی جانے والی مردم شماری کی منظوری کے بعد یہ بات پوری طرح واضح ہوگئی ہے کہ قومی اسمبلی کی تحلیل کے باوجود عام انتخابات کا رواں سال میں انعقاد ممکن نہیں کیونکہ الیکشن کمیشن کو اس سلسلے میں اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔ اس صورتحال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اتحادی حکومت نگران سیٹ اپ کو زیادہ وقت کے لیے چلانے کے حق میں ہے لیکن یہ معاملہ ملک اور عوام کے حق میں دکھائی نہیں دے رہا،اس لیے تمام ا سٹیک ہولڈرز کو اس مسئلے پر سنجیدگی سے غور کرتے ہوئے اس کا کوئی قابلِ عمل حل نکالنا چاہیے۔پہلے اس حکومت نے عام انتخابات میں تاخیر کرنے اور انتخابی مہم چلانے کیلئے زیادہ وقت حاصل کرنے کیلئے اسمبلی مدت پوری ہو نے سے2-3 پہلے ہی تحلیل کر نے کا فیصلہ کرکے انتخابات کرانے کی لازمی مدت 60 دن کی بجائے 90 دن سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیاگیا اور اس مدت مین بھی بات بنتی نہ دیکھ کر مردم شماری کے نام پر الیکشن میں مزید 4 سے6 ماہ تاخیر کرنے کا جواز پیدا کیا گیا۔ کیا اس عمل کو دھاندلی کی ابتدا نہیں کہاجاسکتا۔ کیا یہ پری پول رگنگ نہیں ہے اسمبلی تحلیل کرنے یعنی توڑنے کیلئے جواز اور شرائط ہونے ضروری ہیں حالات کی ناگزیری بھی اسمبلی توڑنے کا جواز ہو سکتی ہے کیا حالات ناگزیر ہیں کہ اسمبلی 3 دن قبل توڑ کر آگے بڑھا جائے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے ایسا صرف اس لئے کیا جا رہا ہے تا کہ 60 کی بجائے 90 دن حاصل ہو جائیں۔ جس ”کارِخیر“ یعنی فریش مینڈیٹ کے حصول کی ابتدا ہی بددیانتی اور بدنیتی سے کی جائے گی اس کا نتیجہ بھی ویسا ہی نکلے گا۔ اب جبکہ 9/ اگست کو موجودہ حکومت اپنا عرصہ اقتدار پورا کرنے کے بعد رخصت ہو رہی ہے اس نے ڈیڑھ برس تک حکمرانی کے مزے لوٹے اس دوران اس نے کافی نشیب و فراز کا بھی سامنا کیا لیکن حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے وزیراعظم شہباز شریف نے مہنگائی اور بیروزگاری کا رونا رونے والے عوام کی پروا کئے بغیر اپنی تمام تر توجہ اپنے اور اپنے اہل خانہ اور رفقاء کے مقدمات ختم کرانے انھیں کلین چٹ دینے اور عمران خان کو کسی طرح میدان سیاست سے باہر نکالنے پر مرکوز رکھی،اس کے نتیجے میں وزیراعظم شہباز شریف ادھوری اسمبلی سے من مانی ترامیم منظور کراکے اپنے اور اپنے رفقا پر سے مقدمات ختم کرانے اور کلین چٹ حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن عمران خان کو قابو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔حکومت نے ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف کے تمام مطالبات تسلیم تو کرلیے لیکن آئی ایم ایف کے پروگرام پر عملدرآمدکے نتیجے میں ملک میں ایک اضطراب جنم لے چکا ہے کہ پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ سے ہر چیز کو آگ لگ گئی ہے۔ اس سے پہلے بجلی وغیرہ کی جو قیمتیں بڑھائی گئیں اس پر لوگ پہلے ہی دہائی دے رہے تھے اب مزید چیخ وپکار کر رہے ہیں مگر حیرت افسوس اور دکھ یہ ہے کہ کسی بااختیار کے کان پر جوں تک نہیں رینگ رہی، سب خاموش ہیں سب تماشا دیکھ رہے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اگر حکمران چاہتے تو آئی ایم ایف کی شرائط کو من و عن تسلیم نہ کرتے ہوئے امور مملکت چلا سکتے تھے۔ وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ روز ایک بیان میں تسلیم کیا ہے کہ آئی ایم ایف قرضہ نہ بھی دیتا تو ملک ڈیفالٹ نہیں ہوتا،اور اگر ایسا خطرہ موجود تھا بھی تو حکومت میں شریک دودھ بالائی کھانے والے چند بڑے خاندان آگے آتے اور اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیتے مگر انہیں غریب عوام کا خیال نہیں آیا۔ انہیں جب بھی کوئی خیال آیا تو اپنے آشیر بادیوں کا جو انہیں اقتدار میں لانے میں ان کو سپورٹ کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اب تک معاشی حالت خراب رہی ہے اور اب اس کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں۔ لوگوں نے رونا دھونا شروع کر دیا ہے اور وہ اس نظام حکومت و حیات کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں مگر انہیں اذیت پہنچانے والی اشرافیہ ان کو بد دل و بدگمان ہی نہیں ہراساں بھی کر رہی ہے اور آئی ایم ایف کے چنگل میں بری طرح پھنسا کر روٹی، انصاف اور روزگار کے خوف میں مبتلا کردیا ہے تاکہ انھیں اشرافیہ کے فلک بوس حسین و جمیل دلکش محلوں کی طرف آنکھ اٹھانے کی فرصت ہی نہ مل سکے۔ اس صورت حال کے نتیجے میں اب قومی سیاست کے حوالے سے تاثر پایا جاتا ہے کہ 16 ماہی حکمرانی کے نتیجے میں اتحادی (12 رکنی پی ڈی ایم+ پیپلز پارٹی) حکومت عوامی پزیرائی کھو چکی ہے۔ 16 مہینوں کے دوران سیاسی جادوگر، معاشی حکمت کار اور ایسے کئی دیگر کردار اپنا آپ دکھا کر عوام کو مایوس ہی نہیں کر چکے بلکہ ناامید اور نامراد بنا چکے ہیں۔ 16 ماہ کے دوران حکمران اتحاد کی کارکر دگی پر بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کا نعرہ بھی اپنی افادیت کھو چکا ہے۔ حکمران اتحاد نے آئی ایم ایف کو خوش کر کے منانے اور ان سے قرض کی اگلی قسط حاصل کرنے کی کاوشوں میں عوام کی معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے۔ حکمران اتحاد نے اس پر ہی بس نہیں کیا اپنے آپ کو مراعات دینے میں بھی مثالیں قائم کر دکھائی ہیں۔ عوام جب نانِ جویں کو ترس رہے ہیں تو ایسے میں افسران کیلئے، وہ بھی چھوٹے معمولی قسم کے افسران کیلئے اربوں روپے کی گاڑیوں کی خریداری عوام کے زخموں پر نمک چھڑکنے کی کاوش ہی کہلا سکتی ہے۔ آخری دنوں میں حکمران اتحاد نے جس انداز میں قانون سازی کرنے کی کوشش کی ہے تھوک کے حساب سے بل بغیر کسی طریق کار کی پابندی کے منظور کرائے ہیں، اس سے بھی انتہائی منفی تاثر پیدا ہوا ہے۔ لہٰذا اس وقت پورے ملک میں مایوسی کی ابھری ہوئی لہر کو صاف طور سے دیکھا جا سکتا ہے جس میں خوف بھی شامل ہو چکا ہے جو ہر لمحہ کمزور اور بے بس عوام کو اونچا سانس بھی لینے نہیں دے رہا۔یہی وہ صورت حال جس نے اب جاتی ہوئی حکومت کو پریشانی میں مبتلا کررکھا ہے اور وہ انتخابات کاسامنا کرنے سے کترا رہی ہے اور انتخابات کو زیادہ سے زیادہ عرصے تک ٹالنے کیلئے مختلف حربے آزمانے کی کوشش کررہی ہے، لیکن ان تمام تر حربوں کے نتیجے میں کیا حکمراں اتحاد میں شامل جماعتیں خاص طورپر مسلم لیگ ن اگلی حکومت بنانے کا خواب پورا کرسکے گی یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب انتخابی نتائج کے بعد ہی مل سکے گا۔


متعلقہ خبریں


نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر