وجود

... loading ...

وجود

واحدسپرپاورکاگھمنڈ

پیر 13 مئی 2024 واحدسپرپاورکاگھمنڈ

سمیع اللہ ملک
میں اس خوفناک لمحات سے بھی واقف ہوں جب ایٹمی بریف کیس کابٹن دبانے کی مکمل طاقت رکھنے والے امریکی صدرٹرمپ کے بارے میں ایک مشہورزمانہ امریکی ماہرنفسیات بھرپوردلائل کے ساتھ عالمی میڈیاپرببانگ دہل ٹرمپ کی دماغی صحت پر اپنے شک وشبہ کا اظہارکرتے ہوئے اپنے خدشات کااظہار کررہی تھی جس سے تمام دفاعی اورسیاسی تجزیہ نگاروں میں ایک خوف کی لہردوڑگئی تھی۔ ماہر نفسیات ڈاکٹرکاکہناتھاکہ ٹرمپ نے جب سے امریکی صدر کا منصب سنبھالا ہے تب سے وہ ایسا بہت کچھ کررہے ہیں جوامریکاکوایک عظیم طاقت بنانے والے عوامل کے خلاف اوردنیاکومکمل تباہی کی طرف دھکیل سکتاہے۔انہوں نے قدم قدم پرایسی باتیں اورحرکتیں کی ہیں جوان کے منصب کے تقاضوں سے کسی بھی طورمیل نہیں کھاتیں۔ان کی کوشش رہی ہے کہ جو کھلنڈراپن ان کے مزاج میں پایاجاتاہے وہ امریکی صدر کے منصب میں بھی دکھائی دے۔امریکاکو ایک عظیم طاقت میں تبدیل کرنے والے اصولوں،طریقوں اورخواص کوانہوں نے نشانے پر لینے کی بارہاکوشش کی ہے اوریہ بات اب بیشتر امریکی زیادہ شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
عالمی سیاست کے حوالے سے کوئی بھی پیش گوئی انتہائی دشوار کام ہے۔حالات اتنی تیزی سے بدلتے ہیں کہ ہرپیش گوئی خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ٹرمپ کامعاملہ تواب اوربھی پیچیدہ ہوگیاہے۔ اس نے اپنے دورِ صدارت کے پہلیایک سال کے دوران ایسابہت کچھ کیاجس کی بنیادپران کے بارے میں پورے یقین سے کچھ کہناانتہائی دشوارتھا۔پیش گوئی کرنے والوں کوبھی اندازہ تھاکہ وہ اگر کچھ کہیں گے تو ٹرمپ اس کے خلاف کچھ نہ کچھ کرکے انہیں ناکامی وذلت سے دوچارکرنے میں لمحہ بھرکی تاکیرنہیں کرے گا۔ تاہم یہ بات البتہ پورے یقین سے کہتے رہے کہ مورخین جب ٹرمپ کے ادوارکے بارے میں لکھیں گے تواس نکتے پرضرورزور دیں گے کہ اس نے اپنے کھلنڈرے مزاج سے وہ نظم وضبط تباہ کردیاجوامریکی صدر کیلئے لازم قراردیاجاتاتھا۔یقینااپنے دورِ صدارت میں اس نے بہت کچھ اپنی خواہش کے اصول کی بنیادپرکیا،افغانستان میں روائتی بموں کی ”ماں” جیسا خطرناک بم گرانے میں شرم محسوس نہ کی اورپھربرملاعالمی میڈیاکے سامنے افغانستان پرایٹم بم گرنے کی دہمکیاں بھی دیں،کبھی نئے سال کی آمدپرخطے میں اپنے سب سے اہم اتحادی پاکستان کے خلاف ٹوئیٹرمیں نازیبا الفاظ پرمشتمل ہرزہ سرائی سے بھی بازنہ آیاجس کے نتیجے میں امریکاکوکئی معاملات میں بہت سبکی کابھی سامناکرناپڑا۔تاہم دنیابھرکے سنجیدہ افرادکویہ تشویش ضرورلاحق ہوگئی ہے کہ ٹرمپ امریکاکاپہلاصدرہے جس کے پاس اپناکوئی وژن نہیں۔اسی لئے وہ اپنے پورے دورِ اقتدار میں کوئی ایسی گرینڈ اسٹریٹجی تیار کرنے میں کامیاب نہ ہوسکاجس کی بنیاد پرکہاجاسکے کہ وہ امریکی معاشرے اورقیادت کے ڈھانچے کو کوئی باضابطہ نئی شکل دیکراسے عالمی بحرانوں سے نکالناچاہتاتھا۔اس حوالے سے ٹرمپ کی سنجیدگی کاگراف خاصا نیچارہا۔
کسی بھی ملک کیلئے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ اس کی کوئی واضح اوربڑی حکمت عملی نہ ہو۔اس مرحلے سے گزرے بغیرکوئی بھی ریاست ترقی تو کیا کرے گی،اپناوجودبھی برقرارنہ رکھ پائے گی۔امریکاکوئی عام ملک نہیں،اسے واحدعالمی طاقت ہونے کا گھمنڈہے۔اس کیلئے تو قیادت کے ڈھانچے کامضبوط ہونااوربیشتربین الاقوامی معاملات میں واضح حکمت عملی کاہونالازم ہے۔ امریکامیں ایک زمانے سے عظیم، ہمہ گیرحکمت عملی اپنانے کارجحان رہاہے اوریہ رجحان محض اپنی پسندکانہیں بلکہ مجبوری اورلازم ہے،امریکاسپرپاورہے۔اسے کئی ممالک سے خصوصی تعلقات استواررکھناپڑتے ہیں۔ہرخطے پرنظررکھناپڑتی ہے۔کسی بھی صدرکیلئے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ملک کی گرینڈاسٹریٹجی سے ہٹ کرکچھ کرے۔وہ اگر نمایاں حدتک بصیرت سے محروم ہواورمستقبلِ بعیدکے بارے میں سوچنے اوراس حوالے سے کوئی واضح منصوبہ تیار کرنے کااہل نہ ہوتب بھی اسے حکمت عملی کے حوالے سے بہت سے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی لیناہی پڑتی ہے۔ٹرمپ بظاہربصیرت کا حامل نہیں تھامگراس کیلئے بھی گرینڈاسٹریٹجی کونظراندازکرناممکن نہیں تھایااس سے مطابقت رکھنے والے اقدامات سے گریزکرتا۔لیون ٹراٹسکی نے خوب کہا ہے کہ اگرکوئی صدرگرینڈاسٹریٹجی میں زیادہ دلچسپی نہ بھی لے،تب بھی گرینڈاسٹریٹجی تواس میں دلچسپی لیتی ہی ہے یعنی پیچھے ہٹنے کی گنجائش نہیں،صرف بڑھنے کاآپشن ہے۔
اگر امریکی تاریخ کاجائزہ لیں تویہ نکتہ کسی بھی طورنظراندازنہیں کیاجاسکتاکہ ٹرمپ نے ایک ایسے اہم موقع پرامریکا کی صدارت سنبھالی جب اس کے انتخاب سے پہلے کے70 برسوں میں امریکانے دوسری عالمی جنگ عظیم کے بعدسے ایک ایسی طاقت کاکرداراداکیاتھاجوپوری دنیاکوایک نئے سانچے میں ڈھالنے کابھرپورعزم اورتوانائی رکھتی تھی۔امریکی جبرنے کئی خطوں کواپنی مرضی کے مطابق تبدیل کیا۔متعدد ممالک کوتعمیروترقی کی نئی جہتوں سے آشناکیااوردوسری طرف کئی ممالک امریکا کے ہاتھوں بربادی کاشکارہوئے ۔ 1990 میں سرد جنگ کے خاتمے کے بعدامریکاچونکہ واحدسپرپاورتھا،اس لیے اس کی ذمہ داریاں بھی بڑھ گئیں۔تقریباتین عشروں پرمحیط اس مدت کے دوران امریکانے اچھاکم اوربرابہت زیادہ کیاہے۔بعض مواقع پرصاف محسوس کیاگیا کہ امریکا کیلئے معاملات الجھے ہوئے ہیں اوروہ جوکچھ بھی کر رہا ہے،اس کی پشت پریاتوبدحواسی ہے یاپھرکچھ اداروں کا دباؤ اور خوف۔
امریکی دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق یہ حقیقت بھی نظراندازنہیں کی جاسکتی کہ ٹرمپ ایک ایسے وقت امریکاکاصدرمنتخب ہواجب چین اپنی پوری قوت کے ساتھ ابھرکرسامنے آچکا تھا ۔چین ایک ایسابڑاچیلنج بن گیاجس سے نمٹنے کیلئے امریکاکواپنی گرینڈ اسٹریٹجی تبدیل کرنا پڑ گئی۔ایک طرف جہاں چین نے امریکاکی عسکری ومعاشی بالا دستی کیلئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیار کرلی وہاں خطے میں پاکستان جیسااہم اتحادی جس نے امریکاکو دنیاکی واحدسپرپاوربننے میں اہم کرداراداکیاتھا،اب چین کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑانظرآیاجس کے جواب میں امریکی آشیربادپرآئے دن پاکستانی سرحدوں پربھارتی جارحیت جیسا ماحول،سرحدپارسے پاکستان میں دہشتگردی جیسے واقعات،کشمیرمیں جاری ظلم وستم کی بنا پر بھارت کے ساتھ انتہائی کشیدہ تعلقات اس پر مستزادٹرائیکاکامختلف اندازمیں بلاوجہ دباؤڈالنے کی غلط پالیسی اختیارکرنے کی بنا پرامریکاکواس خطے میں سخت دھچکالگاہے اوررد ِعمل میں خطے میں چین، پاکستان،روس اورایران کاایک مضبوط بلاک بھی تشکیل پارہاہے۔
ایک طرف چین نے امریکاکی عسکری ومعاشی بالادستی کیلئے بہت بڑے چیلنج کی حیثیت اختیارکی ہے اوردوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بھی صورتِ حال بہت تیزی سے تبدیل ہورہی ہے جوامریکا کیلئے مشکلات پیداکررہی ہے۔یہ نکتہ بھی ذہن نشین رہے کہ دنیابھرمیں جمہوریت کوبہترطرزِحکمرانی کی حیثیت سے قبول نہ کرنے کارجحان پروان چڑھ رہاہے۔عام آدمی یہ سوچنے پر مجبورہے کہ اگرآمریت اس کے مسائل حل کردے تو جمہوریت کی کیاضرورت ہے؟
کئی عشروں سے امریکاعالمی سیاست ومعیشت پربلاشرکتِ غیرے متصرف رہاہے۔اس نے یورپ کوساتھ ملاکراپنی مرضی کے فیصلے کیے ہیں اوران فیصلوں کاپھل بھی کھایاہے مگر اب بہت کچھ بدل گیاہے۔کئی ممالک تیزی سے مضبوط ہوکرابھرے ہیں۔ یورپ نے اپنی راہ بہت حد تک الگ کرلی ہے۔چین،روس،برازیل،جنوبی افریقااوردوسرے بہت سے ممالک تیزی سے مستحکم ہوئے ہیں۔ان کااستحکام امریکی بالا دستی کیلئے واضح خطرے کی شکل میں ابھراہے۔یہ سوال امریکامیں بھی جڑپکڑچکاہے کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اب امریکاکیلئے کیارہ گیاہے۔گزشتہ صدارتی انتخاب میں جہاں دیدہ سیاست دان جوبائیڈن منتخب ہوکر جب وائٹ ہاس میں براجمان ہوئے توان کیلئے بھی سب سے اہم سوال یہی تھاکہ کہ عالمی سطح پرامریکاکوبرترحیثیت برقرار رکھنے کے قابل کس طوربنایاجائے۔وہ ان چیلنجزکامقابلہ کرتے ہوئے اب اگلی انتخابی مہم میں داخل ہوچکے ہیں جہاں انہیں یقینا اپنے سیاسی فیصلوں کے نتائج کا سامنا کرنا ہے۔ حقیقتاًان کیلئے چیلنجزبڑھ چکے ہیں۔حکمت عملی میں غیر معمولی تبدیلیاں ناگزیر ہیں۔
جوبائیڈن نے اب تک ایساکچھ نہیں کیاجس سے اندازہ لگایا جاسکے کہ وہ امریکاکونئی بلندیوں پر لے جانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ بھی ٹرمپ کی طرح بظاہر اس سیاسی بصیرت سے محروم دکھائی دیئے جو کسی امریکی صدر کیلئے لازم سمجھی جاتی تھی مگراس کا یہ مطلب بھی ہر گز نہیں کہ وہ اپنی شخصیت کاکوئی تاثرچھوڑنے میں مکمل ناکام رہے ہیں۔چند ایک معاملات میں انہوں نے”ٹرمپ بڑھک”سے ہٹ کر عمل کے میدان میں اعتدال پسندی کاثبوت دیاہے مگرمجموعی طورپر وہ اپنے اقوال واعمال سے امریکی فکرکومتاثرکرنے میں تھوڑے بہت کامیاب ضرورہوئے ہیں۔یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ امریکانے جن اصولوں اورطریق کارکواپناکراب تک عالمی سیاست ومعیشت میں اپنی بالادستی کسی نہ کسی طور برقراررکھی ہے انہیں جوبائیڈن نے متاثر کرنے کی کوشش کی ہے اورکسی حد تک کامیاب رہے ہیں جبکہ ٹرمپ کا دعویٰ تھاکہ جوکچھ وہ سوچتااورکرتاتھا،اس سے امریکا کی طاقت اوردولت میں غیر معمولی اضافہ ہوااورعالمی سیاست ومعیشت میں امریکی بالا دستی برقراررہی مگردرحقیقت ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکاکومجموعی طورپرخاصانقصان پہنچا۔پالیسی سازاب یہ بات شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ دراصل ٹرمپ کے آنے کے بعدسے امریکا کی سب سے بڑی طاقت والی حیثیت متاثر ہوئی ہے اورجوکچھ وہ کہتارہا،اس کے وہ اثرات رونما نہیں ہوئے جو ہونے چاہیے تھے۔امریکیوں کواچھی طرح اندازہ ہوگیاکہ ٹرمپ کی پالیسیوں سے عالمی سطح پرامریکا کی پوزیشن قابل ذکرحد تک متاثرہوئی اوراب ایسے شخص کودوبارہ ایسی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
امریکی پالیسی سازیہ دعوی بھی کرتے ہیں جس سے بڑی حدتک واضح اختلاف کیاجاسکتاہے کہ امریکانے چارنسلوں تک دنیاکو ایک ایسا نظام دیاہے جس نے امن،خوش حالی، استحکام اورجمہوریت کی راہ ہموارکی ہے۔یہ بات دیگرنظام ہائے سیاست سے موازنے کی صورت میں کہی جارہی ہے۔امریکانے عالمی سیاست ومعیشت پرجوبالادستی پائی وہ اس کی سخت قوت کانتیجہ تھی۔امریکاکے پاس بے مثال قوت تھی اوراس قوت کوبھرپوراندازسے بروئے لانے پربھی خاطرخواہ توجہ تودی گئی لیکن اپنی ظاالمانہ پالیسیوں کے سبب اپنے ارد گردنفرتوں کے پہاڑ بھی کھڑے کرلیے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدامریکانے باضابطہ عالمی طاقت کی حیثیت اختیارکی۔ایسانہیں کہ سردجنگ کے زمانے میں سابق سوویت یونین کے ہوتے ہوئے امریکا کی عالمی حیثیت اتنی مضبوط تھی جسے چیلنج نہ کیاجاسکتا تھاتاہم دنیا دوواضح عالمی قوتوں کے درمیان تقسیم تھی۔ بظاہرامریکانے غیرمعمولی عسکری قوت کے ذریعے پوری دنیاکواپنی مٹھی میں رکھنے کی پوری کوشش کی لیکن سردجنگ کے خاتمے کے بعد امریکا کی عسکری قوت مزیدبڑھ گئی۔عالمی معیشت میں بھی اس کا حصہ اس قدر بڑھ گیاکہ ایک مرحلے پر امریکی خام قومی پیداوارعالمی خام قومی پیداوارکاپچیس فیصدتھی۔دنیانے کسی ایک ملک کوباقی دنیا کے مقابلے میں اس قدرطاقتورکبھی نہیں دیکھالیکن امریکاکویہ مقام کبھی نہ ملتا اگر سوویت یونین افغانستان میں جارحیت کی غلطی نہ کرتااورپاکستان جیسااتحادی امریکاکی بھرپورمددنہ کرتالیکن امریکانے اپنی سابقہ تاریخ دہراتے ہوئے پاکستان کے ساتھ وہی سلوک کیاکہ جونہی سابقہ روس شکست وریخت سے دوچارہوا،امریکاوعدہ خلافی کرتے ہوئے پاکستان اورافغانستان کوبیچ منجدھار میں چھوڑکرفوری طورپرپاکستان کے مخالف کیمپ کوگلے لگالیاکیونکہ بھارت نے بھی پانچ دہائیوں سے ایک وفادارساتھی روس سے آنکھیں پھیرکرامریکاکے قدموں میں پناہ لیکراپنی برہمنی روایت کوقائم رکھاجس کاحال روسی وزارتِ خارجہ نے بھرپورگلہ کا اظہار بھی کیاہے۔
لیکن قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ مکافاتِ عمل نے چندبرسوں کے دوران امریکی بالا دستی کیلئے بہت سے خطرات پیداکر دیئے ہیں۔اب چین، روس اوردیگرممالک ابھرکرسامنے آئے ہیں مگراس کے باوجودامریکاسمجھتاہے کہ اس کی عسکری اورمعاشی قوت اب بھی اس قدرہے کہ وہ عالمی سیاست ومعیشت پرنمایاں حد تک متصرف ہے اورامریکی قیادت اب بھی دنیابھرمیں معاملات کو الٹنے اورپلٹنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرامریکاچاہتاتو ایسی حکمت عملی ترتیب دے سکتاتھاجوصرف اس کیلئے کارگر ہوتی اوراسے زیادہ سے زیادہ عسکری ومعاشی قوت سے ہمکنارکرتی مگرپالیسی سازوں نے ایک ایسابین الاقوامی نظام ترتیب دینے پرتوجہ دی جس کے ذریعے صرف امریکابھرپور استحکام سے ہمکنارنہ ہوبلکہ مجموعی طورپرتمام خطے ترقی کریں،خوشحالی پائیں اورخاص طورپرہم خیال ممالک زیادہ مستفیدہوں۔اس بین الاقوامی نظام کوچلانے کیلئے ادارے معرض وجودمیں لائے گئے،پروگرامزترتیب دیے گئے۔یوں اب تک بین الاقوامی نظام کے معاملے میں امریکاعالمی راہنماکی حیثیت اختیارکیے ہوئے ہے۔امریکانے عسکری اتحاد تشکیل دیے۔کوشش کی گئی کہ بین الاقوامی تجارتی راستوں کوزیادہ سے زیادہ محفوظ بنایاجائے۔یہ سب کچھ عالمی سطح پرامن برقراررکھنے کی خاطرکیاگیا،مگردرحقیقت امریکا یہ چاہتاتھا کہ ایک ایسی دنیاتشکیل دی جائے جس میں وہ خودزیادہ آسانی سے ترقی واستحکام سے ہمکناررہ سکے۔
دوسری جنگ عظیم کے خاتمے پرامریکاچاہتاتوایسی حکمت عملی ترتیب دے سکتاتھاجوصرف اس کیلئے نہیں بلکہ اس کے قریبی اتحادیوں کیلئے بھی کارگرہوتی اورامریکازیادہ سے زیادہ عسکری ومعاشی قوت سے ہمکنارہوتامگرپالیسی سازوں نے ایک ایسا بین الاقوامی نظام ترتیب دینے پرتوجہ دی جس کے ذریعے صرف امریکانہ صرف بھرپوراستحکام سے ہمکنارہو اوراس کے اتحادی مجموعی طورپرخطے میں ترقی اورخوشحالی کیلئے اس کی بالادستی قبول کریں اورخاص طورپرہم خیال ممالک اس کی ہرپالیسی میں اس کے ہمنواہوں جس طرح مشرقِ وسطی میں مسلم ممالک اورافغانستان کی تباہی میں اس کے تمام اتحادیوں نے اس کابھرپورساتھ دیا۔اس بین الاقوامی نظامورلڈآرڈرکوچلانے کیلئے ادارے معرض وجودمیں لائے گئے،پروگرامزترتیب دیے گئے، یوں اب تک بین الاقوامی نظام کے معاملے میں امریکاعالمی رہنما کی حیثیت اختیارکرنے کے راستے پرگامزن ہے۔امریکا نے عسکری اتحاد تشکیل دیے اورکوشش کی گئی کہ بین الاقوامی تجارتی راستوں کواپنے مفادات کیلئے زیادہ سے زیادہ محفوظ بنایا جائے۔یہ سب کچھ عالمی سطح پرامن برقراررکھنے کے نام پرکیاگیالیکن اب اقوام عالم یہ سمجھ چکے ہیں کہ درحقیقت امریکا یہ چاہتاتھاکہ ایک ایسی دنیاتشکیل دی جائے جس میں وہ خودزیادہ آسانی سے ترقی واستحکام سے ہمکناررہ سکے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعدکی دنیاکواپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالنے کی امریکی مساعی درحقیقت صرف اس مقصدکے تحت تھیں کہ عالمی سیاست ومعیشت میں اس کی بالادستی قائم ہو اورمسقل بغیرکسی چیلنج کے برقراررہے۔اسی لئے کویت عراق جنگ کے بعدجارج بش اول نے یہودی نژاد ہنری کسنجرکے تشکیل کردہ نیو ورلڈآرڈرپروگرام کومتعارف کرانے کے بعدامریکانے جوعالمی نظام پراس قدرزوردیاتواس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ وہ معیشت،عسکری قوت اورسفارت کاری کے میدان میں اپنی پوزیشن زیادہ سے زیادہ مستحکم رکھنا چاہتاہے۔اس کیلئے وہ جودنیاتشکیل دینے میں مصروف ہے،اس کاواحدمقصد اکیلے ہی اس سے بھرپوراستفادہ مقصودہے تاکہ عالمی معیشت کواپنی مرضی کے مطابق چلاکرامریکا اپنی طاقت میں بے پناہ اضافہ کرکے عالمی بالادستی کویقینی بنائے۔
یہ نکتہ نظراندازنہیں کیا جاناچاہیے کہ امریکا نے عالمی سیاست ومعیشت میں اب تک جو بھی مرضی کے فیصلے کیے ہیں ان کے حوالے سے اپنے اتحادیوں کیلئے زیادہ طاقت استعمال نہیں کی۔وہ اگرچاہتاتواپنی طاقت کے ذریعے غیر معمولی حدتک اپنی مرضی کے فیصلے کرسکتاتھامگراس کے بجائے کم استحصالی اندازاختیارکرکے امریکانے ان تمام ممالک کومجوزہ مفادات میں کچھ حصہ ضروردیاجوعالمی نظام کے حوالے سے اس کے تصورات کوقبول کرنے کیلئے تیارتھے۔دیگرسپرپاورز کے مقابلے میں امریکانے طاقت کے ذریعے بات منوانے پرکم توجہ دی۔امریکاکے بہت سے شراکت داراس امرکابرملااعتراف کرتے ہیں کہ وہ کسی بھی معاملے میں امریکاکی بالادستی سے اتنانہیں ڈرتے جتنااس بات سے ڈرتے ہیں کہ کہیں امریکامعاملات سے الگ تھلگ نہ ہوجائے اورپھران ممالک کودیگرقوتوں کے ساتھ بھی سردجنگ کاسامناکرنا پڑے!
ہرحال میں سب سے پہلے امریکاکانعرہ امریکی سیاست ومعیشت کیلئے بنیادی حیثیت رکھتاہے۔امریکا نے کبھی اپنے مفادات کو کسی بھی صورتِ حال کے تابع نہیں کیا۔وہ صورتِ حال کواپنے مفادات کے تابع کرنے پر یقین رکھتاآیاہے۔ایک یورپی سفارت کار کاکہناہے کہ یورپ نے سترسال تک امریکا کی ڈفلی پررقص کیاہے۔ویتنام سے نکاراگواتک لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اپنے ملک کے مفادات کوہرحال میں تقویت بہم پہنچانے کیلئے امریکی حکام نے غیرمعمولی تشدد اورظلم وجبرکی راہ پرچلنے سے کبھی گریزنہیں کیا۔معیشت اورسیاست سے ہٹ کربھی کئی معاملات میں امریکی اندازِقیادت بہت اہم رہاہے۔دوسری جنگ عظیم کے بعدسے امریکانے عالمی سطح پرامن اوراستحکام کے حوالے سے غیرمعمولی کرداراداکرنے کی یہ وجہ بھی تھی کہ اس وقت دنیا سرمایہ داری اورکیمونزم نظام میں واضح طورپرتقسیم تھی اورامریکاکے اتحادی یہ سمجھتے تھے کہ امریکاعسکری امورمیں کمٹ منٹ کے مطابق کام کرنے اورڈلیورکرنے کی بھرپورصلاحیت رکھتاہے اور یہ کہ ایک انتہائی خطرناک دنیامیں حقیقی استحکام پیداکرنے اوربرقراررکھنے کی صلاحیت اگرکسی میں پائی جاتی ہے تو وہ امریکاہے۔
امریکی صدوراس امرکیلئے کوشاں رہے ہیں کہ دنیابھرمیں ایسی جمہوریت اوربنیادی حقوق کی پاسداری کویقینی بنایاجائے جو امریکی قیادت کے تابع رہے اوراس کی واضح مثال ہمیں پہلے الجزائراوربعدازاں مصرکی مرسی حکومت کاتختہ الٹنے سے ملتی ہے۔امریکی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ عالمی سطح پربالادستی برقراررکھنے میں یہ بات بھی کلیدی حیثیت رکھتی ہے کہ اخلاقی سطح پرامریکا کیسی دنیا دیکھنا چاہتا ہے۔ امریکانے اپنی اخلاقی بالادستی بھی یقینی بنانے کیلئے دنیابھرمیں کھلے معاشرے معرض وجودمیں لانے اورلبرل ازم کوبھرپورتقویت بہم پہنچانے کی کوششیں جاری رکھی ہیں۔
سابق امریکی وزیرخارجہ جارج شلزنے ایک بارکہاتھاکہ امریکانے زیادہ مستحکم تعلقات ان ممالک سے استوار رکھے ہیں جہاں ایسی جمہوریت کی جڑیں گہری اورمضبوط ہیں جو امریکی اوراس کے اتحادیوں کی پالیسیوں سے مکمل آہنگی اوریکجہتی کا اظہارکریں۔یہ محض اتفاق نہیں۔امریکاجن ممالک میں حقیقی جمہوریت اورسیکولر لبرل روایات دیکھناچاہتاہے ان کی طرف زیادہ جھکتاہے۔امریکی قیادت انہی ممالک سے بہترسیاسی اوربلندہوکر ورلڈآرڈرکے حقیقی نظریہ اور ثقافتی ہم آہنگی مفادات تک تابع ہوں۔ایسانہیں ہے کہ امریکانے صرف سخت قوت(معاشی وعسکری)پرمداررکھا ہے۔وہ اپنی بات منوانے کیلئے اوراپنی نمبرون پوزیشن برقراررکھنے کیلئے دنیابھرمیں سوفٹ امیج بھی پھیلاتا ہے۔امریکیوں نے ہردورمیں چاہاہے کہ دنیاان کے ملک کودیکھ کرصرف خوفزدہ نہ ہوبلکہ متاثرہوکرمتوجہ بھی ہو۔آج دنیابھرمیں امریکاکوسخت ناپسندیدگی کی نظرسے دیکھاجاتاہے مگراس کے باوجوددنیاکے ہرملک کے باشندے چاہتے ہیں کہ انہیں کسی نہ کسی طور امریکا میں داخل ہونے کاموقع مل جائے۔جن ممالک سے امریکاکے تعلقات اچھے نہیں اور جہاں کے لوگ امریکاسے شدید نفرت کرتے ہیں وہاں بھی لوگ اس بات کے منتظررہتے ہیں کہ امریکی ویزا لگ جائے یعنی مجموعی طورپرکہاجاسکتاہے کہ امریکا کی سخت قوت کو تقویت بہم پہنچانے میںنرم قوت نے بھی کلیدی کرداراداکیاہے۔ ناپسندیدہ ہوتے ہوئے بھی امریکا میں دنیابھرکے لوگوں کیلئے غیرمعمولی کشش پائی جاتی ہے لیکن صدافسوس کہ پہلی مرتبہ ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی نے امریکاکے برسوں سے قائم اس تاثرکوبری طرح نہ صرف مجروح کیابلکہ خودامریکی اعلی عدالت نے مداخلت کرکے ٹرمپ کی اس پالیسی کومستردکردیاتھا۔
ٹرمپ نے اپنے دورِ اقتدارمیں جوکچھ کہاوہ اس امرکاغمازتھاکہ وہ بنانے پرکم اوربگاڑنے پرزیادہ توجہ دیتارہا۔(ڈین ایچیسن کیلئے یہ بات بہت اہم تھی کہ وہ امریکاکی تخلیق کے وقت تھے)۔خودامریکی اورمغربی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ کی بڑھکیں دیکھتے ہوئے یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاے گی کہ انہیں شاید کل کویہ بات قابل فخرمحسوس ہوکہ وہ امریکاکی تباہی کے وقت موجودتھے۔ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران ایسا بہت کچھ کہاجس سے پتہ چلاکہ اسے بنیادی امریکی اقدارکی پاسداری کاذرابھی خیال نہیں تھا۔اس نے آزاد تجارت کے بجائے اپنے مفادات کوہرحال میں مقدم رکھنے کی تجارت پرزوردیا۔ٹرمپ نے جمہوریت کیلئے اب تک ویسی پسندیدگی کااظہارنہیں کیاجیسی ان کے پیش رو بیان کرتے آئے اورسب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے جمہوریت کے مقابل پیوٹن کیلئے پسندیدگی کااظہارکیاجومطلق العنانیت کوبنیادی سیاسی قدرقراردے کرتمام اختیارات اپنی ذات میں سمیٹناچاہتاہے۔امریکانے پانچ چھ عشروں میں جوکچھ بھی پایا، اسے ٹرمپ نے ٹھکانے لگانے میں تاخیرنہیں کی۔اس کاخیال تھا کہ امریکانے جنگ کے بعدکے زمانے میں جوخارجہ پالیسی اپنائی وہ بہت سے معاملات میں مخالفین کواس قدررعایتیں دیتی رہی ہیں کہ اب وہ منہ دینے کاسوچ رہے ہیں۔امریکانے دوسری جنگ عظیم کے بعدکی دنیا میں عالمی معیشت کو اپنی مرضی کے مطابق چلانے کی کوشش ضرورکی ہے مگراس کوشش میں اس نے اپنی مصنوعات اورٹیکنالوجی دنیابھر کودی ہے۔اس بات کو ٹرمپ جیسے لوگ پسندنہیں کرتے۔ان کاخیال یہ ہے کہ امریکاکواپنی ٹیکنالوجیزاورجدید ترین مصنوعات ساری دنیا میں پھیلانے سے گریزکرناچاہیے۔
ٹرمپ نے امریکی فوج کو قیدیوں پرتشددڈھانے کی اجازت دیتے ہوئے یہ بھی کہاتھاکہ دہشتگردی ختم کرنے کی خاطراگرجنگی جرائم کاارتکاب بھی کرناپڑے توایساکرنے میں کچھ ہرج نہیں۔اس سے اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ امریکا نے کسی نہ کسی طوراپنی بالادستی کو برقرار رکھا ہے مگرٹرمپ اسے ٹھکانے لگانے کے لئے بے تاب رہے۔ایسانہیں ہے کہ جوکچھ ٹرمپ نے صدرکی حیثیت سے کہاتھاوہ جذباتیت کی طرح پرہے۔وہ ایک زمانے سے کئی امریکی شراکت داروں پرشدید نکتہ چینی کرتے آئے ہیں۔انہوں نے 1980کے عشرے میں جاپان اور کویت کوشدید نکتہ چینی کانشانہ بناتے ہوئے کہاتھاکہ ان دونوں ممالک سے امریکاکوملاکم ہے اورامریکا نے دیازیادہ ہے۔اسی طورانہوں نے2015ء اور 2016 میں جرمنی اورمیکسیکوپرشدید نکتہ چینی کرتے ہوئے کہاکہ ان دونوں ممالک نے امریکا کیلئے طفیلی کا کردار ادا کیا ہے۔اپنی انتخابی مہم کے دوران انہوں نے امریکا کے بعض شراکت داروں کے بارے میں جن خیالات کااظہار کیا وہ ان کے دوڈھائی عشروں کے خیالات ہی کاعکاس تھے۔اس کامطلب یہ ہے کہ ٹرمپ نے صدر کی حیثیت سے امریکا معاشی روابط کوفروغ دینے پرآمادگی ظاہر کرتی ہے جہاں کی سیاسی روایات امریکی اوراس کے اتحادیوں کی سیاسی روایات سے ہم آہنگ ہوں۔معاملات محض لین دین کی سطح سے کہیں کے بعض اتحادیوں کے بارے میں جو کچھ کہاتھا،وہ محض بڑھک نہیں،جذباتیت کی سطح پرنہیں بلکہ وہ واقعی کچھ کرناچاہتاتھایعنی وہ امریکاکے بعض اتحادیوں کوایک طرف ہٹانے اور نئے تعلقات استوارکرنے کی راہ پرگامزن ہونے کیلئے بے تاب رہتاتھاچاہے اس کیلئے امریکاکوکتنی ہی بھاری قیمت کیوں نہ چکانی پڑے۔لیکن خودامریکاکے خیر خواہ اوران کے اتحادی ٹرمپ کی ان پالیسیوں کے اجرا کی کبھی بھی کھل کرحمایت نہ کرسکے کیونکہ اس سے امریکاتیزی کے ساتھ تنہائی کاشکارہوجاتالیکن افسوس تواس بات کا ہے کہ ٹرمپ ایک مرتبہ پھراس سے کہیں زیادہ شدت پسندنعروں کی گونج میں وائٹ ہاؤس پہنچنے کی تیاریوں میں بڑاپرامیدہے اورایساہی حال ہمارے ملک کی سیاست کابھی ہوچکاہے کہ ہرروزکسی نہ کسی کابیان آجاتاہے کہ عمران کے ساتھ بیک ڈورچینل پربات چیت جاری ہے اورناکامی کامنہ دیکھتے ہی اس کی تردیدکردی جاتی ہے۔عجیب اتفاق ہے کہ یہ دونوں کردارایسے ہم مزاج ہیں کہ ایک دوسرے کی تعریفوں کے پل باندھنے میں کبھی بخیلی سے کام نہیں لیتے۔
اپنابھی کچھ خیال کر،اے دل بجزلحاظ
موقع ملے توجھاڑکبھی آستین کے سانپ


متعلقہ خبریں


جماعت اسلامی کے 3 مقامات پر دھرنے، اسلام آباد میں پکڑ دھکڑ وجود - هفته 27 جولائی 2024

جماعت اسلامی نے ڈی چوک سے کارکنان کی گرفتاریوں اور راستے بند ہونے کے باعث اسلام آباد اور راولپنڈی میں 3 مقامات پر دھرنے دینے کا اعلان کردیا ہے۔تفصیلات کے مطابق جماعت اسلامی کے مہنگائی اور عوامی مسائل کے حل کے لیے ڈی چوک پر دھرنے کو روکنے کیلیے پولیس نے نقص امن کے خطرے کے پیش نظر...

جماعت اسلامی کے 3 مقامات پر دھرنے، اسلام آباد میں پکڑ دھکڑ

ایک مہینے تک دھرنا دینے کیلیے تیار، لیاقت باغ میں بستی بسائیں گے، حافظ نعیم وجود - هفته 27 جولائی 2024

امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمان دھرنے کے شرکاء سے خطاب میں کہا کہ ہم عوام کیلیے دھرنا دینے آئے ہیں، ہم پرامن آئینی جدوجہد کر رہے ہیں اور حکومت سے کہتے ہیں لوگوں کو تنگ مت کرو، یہ کنٹینر ہٹاؤ، سب لوگوں کو دھرنے میں شرکت کرنے دو، ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی نہ کی جا...

ایک مہینے تک دھرنا دینے کیلیے تیار، لیاقت باغ میں بستی بسائیں گے، حافظ نعیم

فوج پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے نیوٹرل ہو جائے، عمران خان وجود - هفته 27 جولائی 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کی بہن علیمہ خان کا کہناہے کہ عمران خان نے کہا ہے کہ فوج پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے، نیوٹرل ہو جائے،موجودہ حکومت چاہتی ہے کہ پی ٹی آئی اور فوج آمنے سامنے ہوں،ن لیگ اور پیپلز پارٹی اخلاقی طور ہار چکے ہیں۔اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بانی پی ...

فوج پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے نیوٹرل ہو جائے، عمران خان

خیبرپختونخوا میں آپریشن نہیں ہونے دوں گا، علی امین گنڈا پورکا اعلان وجود - هفته 27 جولائی 2024

خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں آپریشن نہیں ہونے دیں گے۔سب سن لیں!ہمارے فیصلے کوئی اور نہیں کرے گا ہم خود کریں گے۔بنوں میں امن جرگہ سے خطاب کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کا کہنا تھاکہ امن اور انصاف مانگیں گے نہیں، امن اور انصاف لیں گے، ہم ن...

خیبرپختونخوا میں آپریشن نہیں ہونے دوں گا، علی امین گنڈا پورکا اعلان

پی ٹی آئی کا تین تلوار پر احتجاجی مظاہرہ،7 کارکنان زیر حراست وجود - هفته 27 جولائی 2024

کراچی کے علاقے کلفٹن تین تلوار پر پولیس نے احتجاجی مظاہرہ کرنے والے پی ٹی آئی کے 7 کارکنان کو گرفتار کرلیا۔تفصیلات کے مطابق کراچی کے علاقے کلفٹن تین تلوار پر پی ٹی آئی نے احتجاجی مظاہرہ کیا اس دوران پولیس نے پی ٹی آئی صدر ٹاؤن کے صدر، سینئر نائب صدر سمیت 7 کارکنان کو حراست می...

پی ٹی آئی کا تین تلوار پر احتجاجی مظاہرہ،7 کارکنان زیر حراست

بیت المقدس میں جمعہ کے نمازیوں پر حملہ، طیاروں سے بم باری وجود - هفته 27 جولائی 2024

اسرائیلی فورسز نے مقبوضہ بیت المقدس میں مسجد الاقصی میں نماز جمعہ میں شرکت کرنے والے نمازیوں پر حملہ کیا، متعدد نمازی زخمی ہوگئے ، غزہ کے مقامی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فورسز نے باب الاسباط کے علاقے کے قریب نمازیوں پر حملہ کرنے کے لیے لاٹھیوں کا استعمال کیا جب وہ مسجد تک ...

بیت المقدس میں جمعہ کے نمازیوں پر حملہ، طیاروں سے بم باری

قوم انتخابات کی تیاری کرے، عمران خان کا پیغام وجود - جمعه 26 جولائی 2024

اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا ہے کہ قوم نئے انتخابات کی تیاری کرے جبکہ عمران خان نے بھی قوم سے الیکشن کیلئے تیار رہنے کی اپیل کی ہے۔بانی پی ٹی آئی سے اڈیالہ جیل میں علامہ راجہ ناصر عباس، صاحبزادہ حامد رضا کاظمی اور دیگر رہنماوں کے ساتھ ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے عمر ...

قوم انتخابات کی تیاری کرے، عمران خان کا پیغام

الیکشن کمیشن،39ارکان اسمبلی تحریک انصاف کے ممبر تسلیم وجود - جمعه 26 جولائی 2024

قومی اسمبلی میں 39ارکان کو پاکستان تحریک انصاف کا ممبر تسلیم کرلیا گیا۔ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن نے 39ارکان قومی اسمبلی کو پی ٹی آئی کا ممبر تسلیم کرلیا جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے جاری نوٹیفیکیشن کو اپنی آفیشل ویب سائٹ پر بھی اپ لوڈ کردیا۔سپریم کورٹ ک...

الیکشن کمیشن،39ارکان اسمبلی تحریک انصاف کے ممبر تسلیم

غزہ میں اسرائیلی درندگی پر امریکی ایوان کا احتجاج وجود - جمعه 26 جولائی 2024

اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے امریکی ایوان نمائندگان میں خطاب کیا، اس موقع پر مسلم رکن رشیدہ طلیب نے خاموش احتجاج کیا جبکہ دیگر نے بائیکاٹ کیا۔غیرملکی خبرساں ادارے کے مطابق سابق اسپیکر نینسی پلوسی نے کہا کہ نیتن یاہو نے امریکی کانگریس کی تاریخ کا بدترین خطاب کیا۔کانگریس کی عمارت...

غزہ میں اسرائیلی درندگی پر امریکی ایوان کا احتجاج

جی ایچ کیو پر احتجاج کا بیانیہ میرے خلاف بنایا گیا ،عمران خان وجود - جمعرات 25 جولائی 2024

بانی پی ٹی آئی عمران خان کا کہنا ہے کہ پرسوں ایجنڈے کے تحت بیانیہ بنایا گیا کہ میں نے عوام کو جی ایچ کیو پر احتجاج کے لیے اکسایا۔ 70 کی دہائی میں جینے والے چند افراد جو اس امر سے یکسر نابلد ہیں کہ سوشل میڈیا کام کیسے کرتا ہے، وہ اسے ڈیجیٹل دہشت گردی قراردے رہے ہیں۔سماجی رابطے کی...

جی ایچ کیو پر احتجاج کا بیانیہ میرے خلاف بنایا گیا ،عمران خان

حکومتی اختیار ختم، پیٹرولیم نرخ مقرر کرنے کا اختیار آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو دینے کی تیاری وجود - جمعرات 25 جولائی 2024

ملک میں پیٹرولیم نرخ مقرر کرنے کا حکومتی اختیار ختم کرکے آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو دینے کی تیاری کرلی گئی ہے۔ذرائع کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ڈی ریگولیٹ کرنے سے متعلق اہم پیش رفت ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے قیمتیں مقرر کرنے کا حکومتی اختیار ختم کرنے کی ہدایت کردی، جس ...

حکومتی اختیار ختم، پیٹرولیم نرخ مقرر کرنے کا اختیار آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کو دینے کی تیاری

مراد علی شاہ کاچند دنوں میں ہزاروں نوکریاں دینے کا اعلان وجود - جمعرات 25 جولائی 2024

وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے چند دنوں میں ہزاروں نوکریاں دینے کا اعلان کر دیا۔بدین میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مراد علی شاہ نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کے بعد حکومت نے نوکریاں دینا شروع کیں۔انہوں نے کہا کہ گریڈ 16 سے اوپر کی 16 ہزار سے زائد نوکریاں دے چکے ہیں، لیکن ایک جماعت...

مراد علی شاہ کاچند دنوں میں ہزاروں نوکریاں دینے کا اعلان

مضامین
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار وجود هفته 27 جولائی 2024
جل تھل گجرات اور تصاویرکا بازار

1977ء کے انتخابا ت میں بھٹو صاحب کی مشکوک کامیابی وجود هفته 27 جولائی 2024
1977ء کے انتخابا ت میں بھٹو صاحب کی مشکوک کامیابی

میڈیا اور آئیڈیالوجی کا چہرہ وجود هفته 27 جولائی 2024
میڈیا اور آئیڈیالوجی کا چہرہ

تنازع قبرص: ایک صبح سفیر عصمت کورک اولو کے ساتھ وجود هفته 27 جولائی 2024
تنازع قبرص: ایک صبح سفیر عصمت کورک اولو کے ساتھ

آؤ جھوٹ بولیں۔۔ وجود جمعه 26 جولائی 2024
آؤ جھوٹ بولیں۔۔

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں وجود پیر 08 جولائی 2024
امیر المومنین، خلیفہ ثانی، پیکر عدل و انصاف، مراد نبی حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ… شخصیت و کردار کے آئینہ میں

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر