وجود

... loading ...

وجود
وجود

صنعتوں کی زبوں حالی پر کون توجہ دے گا؟

جمعرات 03 اگست 2023 صنعتوں کی زبوں حالی پر کون توجہ دے گا؟

وزیراعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز کراچ کا دورہ کیا، چند روز پیشتر بھی اُن کے قدم مبارک نے کراچی کی سرزمین کو چھوا تھا۔تب کراچی میں صنعت کاروں سے خطاب کے دوران یہ تسلیم کیا کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے صنعتوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا لیکن انھوں نے یہ تسلیم کرنے کے باوجود صنعتوں کو کسی طرح کی رعایت دینے کا کوئی اعلان نہیں کیا بلکہ صنعت کاروں کو بات چیت کیلئے اسلام آباد آنے کی دعوت دی، اس دوران بجلی کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ پیٹرول کی قیمتوں میں بھی ہوش ربا اضافے کی خبروں نے تاجر برادری سمیت عوام کو دہلا کر رکھ دیا ہے۔ سوال یہ پیداہوتاہے کہ کیا کراچی اس ملک کا حصہ نہیں ہے اور کیا کراچی میں وہ بات چیت نہیں ہوسکتی جو اسلام آباد میں ہوسکتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ وزیر اعظم معاملات کو کوئی حل نکالنے کیلئے صنعت کاروں کو اسلام آباد یاترا پر مجبور کرنا چاہتے ہیں؟وزیراعظم کی اس پیش کش یا دعوت سے ایسا محسوس ہوتاہے کہ وزیر اعظم مسئلے کا کوئی نکالنے کے بجائے ٹالنا چاہتے ہیں کیونکہ وزیراعظم کے مشورے کیلئے بات چیت کیلئے اسلام آباد کی یاترا وقت اورپیسے کے زیاں کے سوا کچھ نہیں ہے، جہاں تک بجلی کے نرخ میں اضافے کا تعلق ہے تو خود وزیراعظم یہ کہہ چکے ہیں کہ یہ اضافہ آئی ایم ایف سے قرض کے حصول سے متعلق معاہدے کے تحت کیا گیا ہے،اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جب بجلی کے نرخ میں اضافہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق کیا گیا ہے تو صنعت کار اسلام آباد کیا جنیوا پہنچ جائیں تو بھی حکومت بجلی سستی کرنے یا اس حوالے سے صنعت کاروں کو کوئی سہولت نہیں دے سکتی کیونکہ ایسا کرنا آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی اور اس پاداش میں آئی ایم ایف قرض کی اگلی قسط روکنے کا مجاز ہوگا، اصل صورت حال یہ ہے کہ موجودہ حکومت کو جاتے جاتے آئی ایم ایف کا قرضہ تو نصیب ہو گیا مگر لگتا ہے پاکستان میں آئی ایم ایف کی نمائندہ ایستھر پیریز نے یہاں مستقل قدم جماتے ہوئے پاکستان یا پاکستانیوں کو سیدھا کرنے کی بھی ٹھان لی ہے۔ ابھی قرض کی پہلی قسط(1.2ارب ڈالر) ہی ملی ہے کہ آئی ایم ایف نے نئے عام انتخابات سے پہلے بڑی یقین دہانی حاصل کرلی کہ ڈالر کے اوپن اور انٹر بینک ریٹ میں 1.25 فیصد سے زیادہ فرق نہیں ہوگا۔پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو توانائی پر سبسڈی کم کرنے اور ریونیو بڑھانے کے علاوہ درآمدات پر پابندی ہٹانے کا یقین بھی دلایا گیا ہے۔پاکستان نے آئی ایم ایف سے تنخواہوں اور پنشن اخراجات کم کرنے اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا فنڈ بڑھانے کا وعدہ بھی کیا ہے۔آئی ایم ایف کے ساتھ نئے قرض پروگرام کے لیے طے پانے والی مزید اہم شرائط کے مطابق منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف فیٹف شرائط پر عملدرآمد کا عزم کیا گیا ہے۔اس حوالے سے دستاویز میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی روک تھام کے لیے الیکٹرانک ایسیٹ ڈکلیئریشن سسٹم قائم کر دیا گیا ہے۔ گریڈ 17 سے 22 کے افسران بیرونی اثاثے نہیں چھپا سکیں گے۔آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق بینکوں سمیت قانون نافذ کرنے والے اداروں کو معلومات تک رسائی ہوگی، اس حوالے سے تمام بینکس ایف بی آرکو فیڈ بیک دینے کے پابند ہوں گے۔دستاویز کے مطابق منتخب یا غیر منتخب عوامی نمائندوں کے سالانہ اثاثوں کی ڈکلیئریشن کو عام کیا جائے گا، سینٹرل مانیٹرنگ یونٹ سرکاری اداروں کی کارکردگی رپورٹ جاری کرے گا۔دستاویز میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ غریب ترین طبقے کو مہنگائی کے حساب سے ریلیف دینے کا عزم کیا گیا ہے، توانائی کے شعبے میں بنیادی ٹیرف میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہو چکاہے۔آئی ایم ایف کو ہاؤسنگ اور تعمیرات کے شعبے میں خامیاں دور کرنے اور ایکسچینج ریٹ مارکیٹ میں مداخلت یا کوئی پابندی نہ لگانے کی یقین دہانی بھی کرائی گئی ہے۔آئی ایم ایف نے دعویٰ کیاہے کہ اس نے پاکستان میں نئے عام انتخابات سے پہلے بڑی یقین بھی دہانی حاصل کرلی ہے اور ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے نئے قرض معاہدے پر عمل درآمد کی تحریری یقین دہانی کرائی ہے۔آئی ایم ایف دستاویز کے مطابق بڑی سیاسی جماعتوں نے پروگرام کے مقاصد اور پالیسیوں کی حمایت کردی ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق اسٹینڈ بائی ارینجمنٹ معاہدہ میکرو اکنامک استحکام کی بحالی میں اہم کردار ادا کرے گا۔اس معاہدے سے آنے والے مہینوں میں بیرونی فنانسنگ کے حصول کے لیے مدد ملے گی۔ ایستھر میڈم نے عندیہ دیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے تحت حکومت نے اب گیس کی قیمتیں دوگنی کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے، جبکہ بجلی کی قیمت میں 5روپے فی یونٹ تک کا اضافہ کردیا گیا ہے، آخری خبریں آنے تک آئی ایم ایف نے ریئل اسٹیٹ اور زرعی شعبے پر ٹیکس عائد کرنے کا پلان بھی مانگ لیا ہے، ایف بی آر پلان آئی ایم ایف نے منظور کر لیا تو منی بجٹ آسکتا ہے۔ لیکن ان تمام مشکلات سے بے خبر وزیر اعظم شہباز شریف الیکشن مہم کی خاطر 80ارب روپے کے لیپ ٹاپ تقسیم کر رہے ہیں، بظاہر یہ تقسیم بالکل ویسی ہی ہے جیسی رمضان میں 60ارب روپے کا آٹا تقسیم ہوا تھا تو اُن کی اپنی ہی جماعت نے کہہ دیا تھا کہ 20ارب روپے کی خورد برد کی گئی ہے۔لیکن فی الوقت دن میں وزیر اعظم 3-3 مرتبہ مختلف پراجیکٹس کا یا تو افتتاح کرتے نظر آرہے ہیں یا پہلے سے جاری پراجیکٹس کے دورے کررہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اُن کی حکومت کے اس وقت آخری 2-3 ہفتے چل رہے ہیں، اُنہیں معلوم ہے کہ اس وقت مقابلہ سخت ہے۔ گزشتہ ڈیڑھ سال میں ان کی حکومت نے عوام کا جو حال کیا ہے یہ اُسے عوام کے ذہنوں سے کھرچ کر موجودہ حکومت کو عوام دوست ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ سوچنے کوتیار نظر نہیں آتے کہ اگر آئی ایم ایف نے پیسے دے ہی دیے ہیں تو اُن کا صحیح استعمال کیا جائے، اس کے استعمال سے لیپ ٹاپ بانٹنے، یا غیر ضروری پراجیکٹس کی فزی بلٹی بنوا کر رقوم ضائع کرنے سے تو بہتر ہے کہ ا سمال انڈسٹری کو فروغ دے کر ملک کی درآمدات کو بہتر بنا نے پرتوجہ دی جائے۔ برآمدات بڑھیں گی تو زرمبادلہ آسکتا ہے جو اس وقت ملک کی اہم ترین ضرورت ہے۔ورنہ ہم پر دیوالیہ ہونے کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ لیکن انہیں اس سے کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی؟ انہیں توغالباً اس بات کااندازہ ہوچکاہے کہ انھیں اگلے ایک دو ہفتوں میں اب ہمیشہ کیلئے چلے جانا ہے۔اس لئے انہیں اس سے کوئی غرض معلوم نہیں ہوتی کہ اس وقت انڈسٹری کی کیا صورتحال ہے؟ زیادہ پیچھے نہ جائیں صرف مالی سال 2023 کو دیکھ لیں، کہ کس طرح ہماری انڈسٹری مسلسل تنزلی کا شکار رہی۔ حتیٰ کہ کلیدی برآمدی شعبے ٹیکسٹائل کی پیداوار بھی اتنی زیادہ تنزلی کا شکار رہی کہ ان کی ایسوسی ایشن کوحکومت کو آنکھیں کھولنے پر مجبور کرنے کیلئے اخبارا ور ٹی وی پر بڑے بڑے اشتہارات شائع کرانا پڑے۔ بڑی صنعتوں کی پیداوارمیں کمی ہونے کی وجہ سے ان صنعتوں سے وابستہ لاکھوں افراد کو روزگار سے ہاتھ بھی دھونا پڑرپا ہے۔ رواں سال مئی میں صنعتی پیداوار میں اطلاعات کے مطابق سالانہ بنیادوں پر 14فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ اپریل میں یہ کمی 21فیصدتھی، مارچ میں 25فیصد، فروری میں 11.6فیصد، جنوری میں 7.9 فیصد،دسمبر 2022ء میں 3.51 فیصد، نومبر میں 5.49فیصد‘ اکتوبر میں 7.7فیصد اور ستمبر میں 2.27 فیصد رہی جبکہ اگست میں بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 0.30 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا
پچھلے ڈیڑھ سال کے عرصے میں معیشت کا جو بُرا حال ہوا ہے۔ موجودہ حکمران اسے ماننے کو تیار نہیں، اُن کی ضد یہ ہے کہ عوام تسلیم کریں اس عرصے میں ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا گیا ہے اور ملک خوشحالی کے راستے پر چل نکلا ہے، حالانکہ جتنی کڑی شرائط پر آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا گیا ہے، اُن کی وجہ سے اگلے کئی سال تک عوام کو خوشحالی کے خواب دیکھنا بھی چھوڑ دینے چاہئیں۔ یہ معاہدہ ختم ہوگا تو ملک معاشی لحاظ سے اتنا نیچے جا چکا ہو گا کہ اگلی حکومت جو کوئی بھی ہوگی، اسی طرح آئی ایم ایف کے آگے ناک رگڑ رہی ہو گی اور اس سے بھی زیادہ کڑی شرائط پر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرنے پر مجبور ہو گی۔ مہنگائی سے نجات کی کوئی صورت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ ایسی حقیقت ہے وزیراعظم کو جسے تسلیم کر لینا چاہیے مگر وہ تو عمران خان کو انتخابی میدان سے ہٹانے اور نواز شریف کو ایک دفعہ پھر عوام پر مسلط کرنے کیلئے ہر حد پار کرنے کو تیار نظر آرہے ہیں،کچھ ہفتوں بعد جب الیکشن کا اعلان ہوگا تو سبھی جماعتیں یہ نعرہ لگا کر میدان میں آجائیں گی کہ ہم مہنگائی کو کم کریں گے، عام آدمی کی زندگی میں خوشحالی لائیں گے، اشیائے خوردونوش کو عوام کی قوت خرید کی پہنچ میں لا کر غریبوں کی پریشانیاں دور کر دیں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کویہ ضرور سوچنا چاہئے کہ جس ملک کے حکمران معاملہ فہم نہ ہوں وہ ملک خواہ جمہوریت ہو یا ڈکٹیٹر شپ، کبھی ترقی نہیں کرتے۔ 75سالوں میں اگر ان حکمرانوں میں ایک نے بھی محض کرپشن پر قابو پانے اور انصاف کے فروغ کے لیے کام کیا ہوتا تو آج ملک کی تقدیر بدل چکی ہوتی، یقین مانیں دنیا میں ان ملکوں نے بھی ترقی کی ہے جہاں جمہوریت نہیں تھی لیکن دو باتیں ضرور تھیں‘ اول انصاف یعنی کرپشن کا خاتمہ اور دوسرا جدید تعلیم۔یونان میں کشتی ڈوبنے کے سانحہ کے بعد بھی زیر اعظم کو شاید اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ اُن کے دور میں بیروزگاری کی سطح اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ لوگ بیرون ملک جاکر معمولی ملازمتیں کرنے کیلئے اپنی جان داؤ پر لگانے کو بھی تیار ہورہے ہیں، 12لاکھ ماہر ڈاکٹر، انجینئر، کمپیوٹر ایکسپرٹ وغیرہ ملک سے باہر چلے گئے ہیں، جبکہ اس کے برعکس بھارت دنیا بھر سے چن چن کر سائنسدانوں، کمپیوٹر ایکسپرٹس، ڈاکٹرز، انجینئرز وغیرہ کو اپنے ملک میں نوکریاں دے رہا ہے، وہ ٹیکنالوجی میں ہم سے اتنا آگے نکل چکا ہے کہ چاند پر چندریان تھری بھیج چکاہے۔وزیراعظم شہباز شریف کو ایوان وزیراعظم خالی کرنے سے پہلے یہ بھی چیک کر لینا چاہئے کہ اس وقت دنیا کی کتنی ہی بڑی کمپنیوں کے سربراہ بھارتی ہیں، بھارت کا حیدرآباد اس وقت دنیا کا آئی ٹی مرکز بنا چکا ہے۔ جہاں گوگل فیس بک سمیت دنیا کی بڑی آئی ٹی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ کسی گھر کو قرضہ ملنے کی صورت میں اسے آپس میں تقسیم کرنے کے بجائے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اسے کہاں لگایا جائے کہ آمدنی ہو، اور اُس آمدنی سے گھر کے اخراجات بھی چلائے جائیں اور مستقبل میں قرض کی واپسی بھی کی جائے۔لیکن یہ باتیں اُس وقت بے معنی معلوم ہوتی ہیں،کیونکہ حکمران کسی چیز کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ چین نے زرعی شعبے میں پیداواری صلاحیت، اور تکنیکی ترقی کیلئے بھی کئی اقدامات کئے ہیں۔ پھر چین نے انتہائی اہم صنعتوں میں جدت اور تکنیکی ترقی کو آگے بڑھانے کیلئے قومی سطح پر انجینئرنگ کے تحقیقی مراکز قائم کر دیئے ہیں۔ لیکن اس کے برعکس پاکستان کا حال یہ ہے کہ حکمراں آج تک بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد بھی بحال نہیں کر پائے۔ اور تو اور ان پاکستانیوں کے لیے انصاف کا حصول ایک خواب ہی بن کر رہ گیا ہے۔ اس وقت قرضہ ملنے کے بعد کے پاکستان کو دیکھیں تو یہ باہر سے ہرا بھرامگر اندر سے انتہا کا تنہا ملک نظر آرہا ہے۔


متعلقہ خبریں


نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

مضامین
''مزہ۔دور'' وجود بدھ 01 مئی 2024
''مزہ۔دور''

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم) وجود بدھ 01 مئی 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!! (حصہ دوم)

فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟ وجود بدھ 01 مئی 2024
فلسطینی قتل عام پر دنیا چپ کیوں ہے؟

امیدکا دامن تھامے رکھو! وجود بدھ 01 مئی 2024
امیدکا دامن تھامے رکھو!

محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!! وجود منگل 30 اپریل 2024
محترمہ کو وردی بڑی جچتی ہے۔۔۔!!!

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر