وجود

... loading ...

وجود
وجود

لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم اور اقتصادی بحران

پیر 10 جولائی 2023 لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم اور اقتصادی بحران

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز پاک فوج کے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کا افتتاح کر دیا، افتتاحی تقریب میں آرمی چیف عاصم منیر نے بھی شرکت کی۔اطلاعات کے مطابق اس منصوبے کے تحت جدید کاشتکاری کیلئے 44 لاکھ ایکڑ اراضی کی نشاندہی کر لی گئی ہے اور اس کے ساتھ ہی کھربوں روپے کے زرعی منصوبے پر کام شروع ہوگیا ہے، منصوبے سے 2 ٹریلین روپے کی معاشی سرگرمیاں ہوں گی، منصوبے کے تحت 2ہزار بڑے فام بنائے جائیں گے،جس میں 3 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوگی اس منصوبے میں سعودی عرب فوری 50کروڑ ڈالر لگائے گا، منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔ 40لاکھ کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کرلیا گیا ہے، کسانوں کو موسمی تبدیلیوں، فصلوں کی سیٹیلائٹ نگرانی، پانی،کھاد اور اسپرے کے استعمال کے بارے میں بروقت معلومات دی جائیں گی۔اس کے علاوہ کسانوں کو منڈیوں تک براہ راست رسائی ملے گی۔ پاک فوج نے لینڈ انفارمیشن اینڈ مینجمنٹ سسٹم تیار کر لیا ہے جس کے تحت جدید کاشتکاری کے متعدد منصوبوں پر کام کا آغاز ہو گیا ہے۔پاک فوج کے ڈائریکٹر جنرل اسٹرٹیجک پراجیکٹس کی زیر نگرانی ایل آئی ایم ایس سینٹر آف ایکسیلنس کا قیام عمل میں لایا گیا ہے۔ منصوبے کے تحت ملک بھر میں زراعت کے شعبے میں 3 ارب ڈالرز تک غیر ملکی سرمایہ کاری آئے گی جبکہ مقامی سرمایہ کاری اس کے علاوہ ہو گی۔ منصوبے کیلئے پنجاب میں 8 لاکھ 24 ہزار 728 ایکڑ اراضی کو ڈیجیٹائز کر دیا گیا ہے، جس پر جدید کاشتکاری کی جائے گی۔ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کار کو بنجر زمین آباد کرنے کیلئے شرائط پر لیز پر دی جائے گی جس میں 3سال کا گریس پیریڈ دیا جائے گا، یہ سرمایہ کاری اسپیشل انوسٹمنٹ فیسیلی ٹیشن کونسل کے ذریعے لائی جائے گی۔جدید زراعت کیلئے ملک بھر میں جس 44 لاکھ ایکڑ اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے اس میں 13 لاکھ ایکڑ پنجاب، 13 لاکھ ایکڑ سندھ، 11 لاکھ ایکڑ خیبر پختونخواہ جبکہ 7 لاکھ ایکڑ زمین بلوچستان میں موجود ہے۔ منصوبے کے تحت 95 فیصد چھوٹے کسانوں کو ٹارگٹ کرکے فائدہ پہنچایا جائے گا جس کے کم رقبے میں زیادہ پیداوار کیلئے اسے سہولتیں اور معلومات فراہم کی جائیں گی، اب تک ملک بھر کے 40 لاکھ کسانوں کا ڈیٹا اکٹھا کیا جا چکا ہے جس میں ان کے رابطہ نمبرز بھی شامل ہیں۔ابتدائی طور پر پنجاب کے محکمہ زراعت کے 3700 ملازمین آن بورڈ آچکے ہیں جبکہ دیگر صوبوں کے محکمہ زراعت کے ملازمین کو بھی اس کا حصہ بنایا جائے گا، اس منصوبے کے تحت زمین، فصلوں، موسم، پانی کے ذخائر، کیڑوں کی روک تھام پر ایک ہی چھت تلے کام کیا جائے گا۔اس حوالے سے مختلف شعبوں کے ماہرین جن میں 4 ممالک کے کنسلٹنٹس بھی شامل ہیں، ان کے تعاون، جدید ٹیکنالوجی اور آبپاشی نظام کے مناسب استعمال سے ایسی ترقی لائی جائی جائے گی جس سے نہ صرف خوراک کی کمی پوری ہو گی بلکہ ملک میں خوراک کے بڑے ذخائر رکھنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان جو کہ سالانہ 10 ارب ڈالرز کی زرعی درآمدات کرتا ہے، ان درآمدات کے متبادل کے طور پر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کو بڑی سپورٹ ملے گی۔
اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ پاکستان میں زرعی شعبے کو کسی بھی حکومت نے درخور اعتنا نہیں سمجھا،پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے پہلی مرتبہ اصلاحات کا بیڑا اٹھایا تھا اور چھوٹے کسانوں کی حوصلہ افزائی کیلئے بعض اسکیمیں جاری کی تھیں لیکن ہماری بیوروکریسی یعنی اعلیٰ افسران نے جاگیرداروں کے ساتھ مل کر سازش کے ذریعے ان اصلاحات کو اس طرح ناکام بنایا کہ کسانوں کے نام پر دئے جانے والے قرضے بھی بڑے زمیندار وصول کرکے انھیں کھاد اور بیج کی خریداری،زمین کی آبیاری اور اسے قابل کاشت بنانے کے بجائے دیگر منصوبوں لگاتے رہے جس کی وجہ پاکستان کی سونا اگلتی ہوئی زمینیں بنجر ہوتی چلی گئیں دوسری طرف حکومت کی جانب سے اجتماعی کاشتکاری کی کوئی اسکیم روشناس نہ کرائے جانے کی وجہ سے زرعی اراضی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں بٹتی چلی جس سے کاشتکاری کے مصارف مین اضافہ اور پیداوار میں کمی ہوتی چلی گئی،اور ہماری فی ایکڑ پیداوار ایک ہی جیسی زمین اور ایک ہی جیسی آب وہوا کے پڑوسی ملکوں کے مقابلے میں ایک تہائی ہوکر رہ گئی،جس کے نتیجے میں آج پاکستان میں فوڈ سیکورٹی کی یہ صورتحال ہے کہ گندم کی مانگ 30.8 ملین ٹن سے تجاوز کر چکی ہے جبکہ پیداوار 26.4 ملین ٹن سے بھی کم ہے۔پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ اور بحران کا شکار ہے، اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں آنے والے مہینوں میں اگر ملک میں معاشی اور سیاسی بحران شدت اختیار کرتا ہے توشدید غذائی عدم تحفظ میں اضافے کا امکان ہے، جس سے 2022 کے سیلاب کے نتائج مزید بڑھ جائیں گے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں غذائی عدم تحفظ کی جن اہم وجوہات کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سب سے اہم وجہ اقتصادی بحران ہے۔ بڑھتے ہوئے عوامی قرضوں، سکڑتے زرمبادلہ کے ذخائر، کمزور ہوتی کرنسی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث پاکستان ایک طویل مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ان سب کے باعث ملک کے لیے خوراک اور بجلی کی اہم سپلائیز درآمد کرنا مشکل ہوچکا ہے۔ جس سے کھانے پینے کی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور بڑے پیمانے پر بجلی کی بندش کا سامنا ہے۔ اقتصادی بحران سے گھرانوں کی خوراک اور دیگر ضروریات کی خریداری کی صلاحیت بھی متاثر ہوئی ہے،اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے بڑے فارمز کی تشکیل کے ساتھ زراعت کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے دعووں کے ساتھ شروع کئے جانے والے اس منصوبے کو درست سمت میں پہلا قدم قرار دیاجاسکتاہے،اس منصوبے کے آغاز کے ساتھ ہی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ملک کے چاروں صوبوں سے تعلق رکھنے والے عام چھوٹے کسانوں کو بھی کاشتکاری کے جدید طریقوں کی مفت تربیت دی جائے،خاص طور پر اس پر ملک کو درپیش پانی کی کمی کے پیش نظر کاشتکاروں کی جدید ڈرپ اریگیشن کا طریقہ کار سمجھانے کی ضرورت ہے تاکہ کم از کم پانی میں زیادہ سے زیادہ زمینوں کو زیر کاشت لایاجاسکے اور پانی کی قلت کی وجہ سے زرعی اراضی کا معمولی سا حصہ بھی بیکار پڑا نہ رہے۔
سیاسی عدم استحکام نے ملک کے شمال مغرب میں سلامتی کی صورتحال کو بھی متاثر کیا ہے، جہاں عسکریت پسند گروپ امن اور استحکام کے لیے خطرہ ہیں۔ ملک قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی، زلزلے، اور ٹڈی دل کے حملے کا بھی شکار ہے، جس کے زرعی صنعت، خوراک کی پیداوار، اور لاکھوں لوگوں کی زندگی پر تباہ کن اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ ملک میں غذائی عدم تحفظ کے اثرات تشویشناک ہیں، کیونکہ یہ لاکھوں لوگوں خصوصاً بچوں، خواتین اور کمزور طبقات کی صحت، غذائیت اور بہبود کے لیے سنگین خطرات کا باعث ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق سے پتا چلا ہے کہ 82 فیصد پاکستانی بچے اچھی خوراک سے محروم ہیں، جبکہ یہ ملک خطے میں غذائی قلت کے حوالے سے دوسرے نمبر پر ہے۔ ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق 43 فیصد پاکستانیوں کو مناسب خوراک میسر نہیں ہے اور پاکستانیوں کی اکثریت غذائیت سے بھرپور کھانے کی استطاعت نہیں رکھتی۔ شدید غذائی عدم تحفظ ایک پیچیدہ اور کثیر جہتی چیلنج ہے جس پر تمام اسٹیک ہولڈرز کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے، ملک میں اس بحران سے نمٹنے کے لیے حکومت، انسانی ہمدردی کی تنظیموں، ترقیاتی شراکت داروں، سول سوسائٹی اور کارپوریٹ سیکٹر کی جانب سے مربوط اور ہمہ گیر اقدامات کی فوری ضرورت ہے۔


متعلقہ خبریں


نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود - بدھ 01 مئی 2024

بھارت میں عام انتخابات کا دوسرا مرحلہ بھی اختتام کے قریب ہے، لیکن مسلمانوں کے خلاف مودی کی ہرزہ سرائی میں کمی کے بجائے اضافہ ہوتا جارہاہے اورمودی کی جماعت کی مسلمانوں سے نفرت نمایاں ہو کر سامنے آرہی ہے۔ انتخابی جلسوں، ریلیوں اور دیگر اجتماعات میں مسلمانوں کیخلاف وزارت عظمی کے امی...

نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود - بدھ 13 مارچ 2024

مولانا زبیر احمد صدیقی رمضان المبارک کو سا ل بھر کے مہینوں میں وہی مقام حاصل ہے، جو مادی دنیا میں موسم بہار کو سال بھر کے ایام وشہور پر حاصل ہوتا ہے۔ موسم بہار میں ہلکی سی بارش یا پھو ار مردہ زمین کے احیاء، خشک لکڑیوں کی تازگی او رگرد وغبار اٹھانے والی بے آب وگیاہ سر زمین کو س...

رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود - منگل 27 فروری 2024

نگران وزیر توانائی محمد علی کی زیر صدارت کابینہ توانائی کمیٹی اجلاس میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے گوادر سے ایران کی سرحد تک 80 کلو میٹر پائپ لائن تعمیر کرنے کی منظوری دے دی گئی۔ اعلامیہ کے مطابق کابینہ کمیٹی برائے توانائی نے پاکستان کے اندر گیس پائپ لائن بچھانے کی منظوری دی،...

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود - هفته 24 فروری 2024

سندھ ہائیکورٹ کے حکم پر گزشتہ روز سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر جسے اب ا یکس کا نام دیاگیاہے کی سروس بحال ہوگئی ہے جس سے اس پلیٹ فارم کو روٹی کمانے کیلئے استعمال کرنے والے ہزاروں افراد نے سکون کاسانس لیاہے، پاکستان میں ہفتہ، 17 فروری 2024 سے اس سروس کو ملک گیر پابندیوں کا سامنا تھا۔...

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود - جمعه 23 فروری 2024

ادارہ شماریات کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق جنوری میں مہنگائی میں 1.8فی صد اضافہ ہو گیا۔رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ شہری علاقوں میں مہنگائی 30.2 فی صد دیہی علاقوں میں 25.7 فی صد ریکارڈ ہوئی۔ جولائی تا جنوری مہنگائی کی اوسط شرح 28.73 فی صد رہی۔ابھی مہنگائی میں اضافے کے حوالے سے ادارہ ش...

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف وجود - پیر 19 فروری 2024

عالمی جریدے بلوم برگ نے گزشتہ روز ملک کے عام انتخابات کے حوالے سے کہا ہے کہ الیکشن کے نتائج جوبھی ہوں پاکستان کیلئے آئی ایم ایف سے گفتگو اہم ہے۔ بلوم برگ نے پاکستان میں عام انتخابات پر ایشیاء فرنٹیئر کیپیٹل کے فنڈز منیجر روچرڈ یسائی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے بیرونی قرض...

پاکستان کی خراب سیاسی و معاشی صورت حال اور آئی ایم ایف

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود - جمعرات 08 فروری 2024

علامہ سید سلیمان ندویؒآں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تعلیم او رتزکیہ کے لیے ہوئی، یعنی لوگوں کو سکھانا اور بتانا اور نہ صرف سکھانا او ربتانا، بلکہ عملاً بھی ان کو اچھی باتوں کا پابند اور بُری باتوں سے روک کے آراستہ وپیراستہ بنانا، اسی لیے آپ کی خصوصیت یہ بتائی گئی کہ (یُعَلِّ...

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق وجود - بدھ 07 فروری 2024

بلوچستان کے اضلاع پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی امیدواروں کے دفاتر کے باہر دھماکے ہوئے ہیں جن کے سبب 26 افراد جاں بحق اور 45 افراد زخمی ہو گئے۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان اور خیبر پختون خوا دہشت گردوں کے حملوں کی زد میں ہیں، آج بلوچستان کے اضلاع پشین میں آزاد امیدوار ا...

بلوچستان: پشین اور قلعہ سیف اللہ میں انتخابی دفاتر  کے باہر دھماکے، 26 افراد جاں بحق

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں وجود - منگل 06 فروری 2024

مولانا محمد نجیب قاسمیشریعت اسلامیہ نے ہر شخص کو مکلف بنایا ہے کہ وہ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد یعنی بندوں کے حقوق کی مکمل طور پر ادائیگی کرے۔ دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کے لیے قرآن وحدیث میں بہت زیادہ اہمیت، تاکید اور خاص تعلیمات وارد ہوئی ہیں۔ نیز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم،...

حقوقِ انسان …… قرآن وحدیث کی روشنی میں

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

پاکستان میں صارفین کے حقوق کی حفاظت کا کوئی نظام کسی بھی سطح پر کام نہیں کررہا۔ گیس، بجلی، موبائل فون کمپنیاں، انٹرنیٹ کی فراہمی کے ادارے قیمتوں کا تعین کیسے کرتے ہیں اس کے لیے وضع کیے گئے فارمولوں کو پڑتال کرنے والے کیا عوامل پیش نظر رکھتے ہیں اور سرکاری معاملات کا بوجھ صارفین پ...

گیس کی لوڈ شیڈنگ میں بھاری بلوں کا ستم

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا وجود - جمعرات 11 جنوری 2024

خبر ہے کہ سینیٹ میں عام انتخابات ملتوی کرانے کی قرارداد پر توہین عدالت کی کارروائی کے لیے دائر درخواست پر سماعت رواں ہفتے کیے جانے کا امکان ہے۔ اس درخواست کا مستقبل ابھی سے واضح ہے۔ ممکنہ طور پر درخواست پر اعتراض بھی لگایاجاسکتاہے اور اس کوبینچ میں مقرر کر کے باقاعدہ سماعت کے بعد...

سپریم کورٹ کے لیے سینیٹ قرارداد اور انتخابات پر اپنا ہی فیصلہ چیلنج بن گیا

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت وجود - منگل 26 دسمبر 2023

انسدادِ منشیات کے ادارے اینٹی نارکوٹکس فورس کی جانب سے ملک اور بالخصوص پشاور اور پختونخوا کے دیگر شہروں میں منشیات کے خلاف آپریشن کے دوران 2 درجن سے زیادہ منشیات کے عادی افراد کو منشیات کی لت سے نجات دلاکر انھیں کارآمد شہری بنانے کیلئے قائم کئے بحالی مراکز پر منتقل کئے جانے کی اط...

منشیات فروشوں کے خلاف فوری اور موثر کارروائی کی ضرورت

مضامین
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے! وجود منگل 14 مئی 2024
جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!

تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات وجود منگل 14 مئی 2024
تحریک آزادی کے عظیم ہیرو پیر آف مانکی امین الحسنات

ہاکی اور آوارہ کتے وجود منگل 14 مئی 2024
ہاکی اور آوارہ کتے

فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟ وجود پیر 13 مئی 2024
فالس فلیگ آپریشن کیا ہوتے ہیں؟

بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف وجود پیر 13 مئی 2024
بی جے پی کو مسلم آبادی بڑھنے کا خوف

اشتہار

تجزیے
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ وجود بدھ 01 مئی 2024
نریندر مودی کی نفرت انگیز سوچ

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر