وجود

... loading ...

وجود
وجود

کیرالہ سے اتراکھنڈ تک ،یہ شادی نہیں ہوسکتی!

اتوار 28 مئی 2023 کیرالہ سے اتراکھنڈ تک ،یہ شادی نہیں ہوسکتی!

ڈاکٹر سلیم خان
۔۔۔۔۔۔۔

کیرالہ اسٹوری کی نام نہاد عالمی دہشت گردی کو وزیر اعظم پڑوسی ریاست کرناٹک میں نہیں لاسکے مگر وہ اپنے آپ نہایت دلچسپ انداز میں بی جے پی کے زیر اقتدار دیو بھومی ‘اتراکھنڈ’ پہنچ گئی۔ ہندی فلموں میں شادی کا اچانک رک جانا ایک عام سی بات ہوا کرتی تھی۔ یہ منظر ایک امیر کبیر زمیندار کو ولن اور معمولی محنت کش کو ہیرو بنادیا کرتا تھا۔ اتراکھنڈ کی ایک شادی کے التوا نے عارضی طور پر بجرنگ دل کو ہیرو اور بی جے پی کوولن بنادیا ہے لیکن یہ تو صرف انٹرویل ہے ۔بی جے پی رہنما اور سابق رکن اسمبل یشپال بے نام نے ایک قدم پیچھے ضرور ہٹایا ہے مگر ہار نہیں مانی ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ یہ فلم ایک اینٹی کلائمکس کی جانب بڑھ رہی ہے ۔ اس کہانی کا ‘ٹویسٹ’ ہندو لڑکی اور مسلمان لڑکے کا اپنے والدین کی رضامندی سے ایک دوسرے کے ساتھ شادی کرنا نہیں بلکہ اس کی تقریبات کا اعلان ہے ۔ بجرنگ دل کی ساری دبنگائی کے باوجود صرف تقریبات ملتوی ہوئی ہیں لیکن شادی منسوخ نہیں ہوئی ۔ اس لیے قوی امکان یہ ہے کہ تقریبات کے بغیر شادی ہوجائے کیونکہ مثل مشہور ہے ‘میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی’؟
قارئین کے اندرمذکورہ بالا ٹریلر کو پڑھنے کے بعد پوری کہانی سننے کی خواہش پیدا ہوئی ہوگی؟اتر پردیش میں جب لوہیا نوازوں کا غلبہ مکمل ہوگیا تو برہمن اقتدار سے اس قدر مایوس ہوئے کہ ان کے کئی سیاستدانوں نے نہوجن سماج پارٹی کا دامن تھام لیا۔ ایسی صورتحال میں اپنی برادری کا حوصلہ بڑھانے کے لیے بی جے پی کے پہلے برہمن وزیر اعظم نے اتر پردیش کو تقسیم کرکے اس میں سے اتراکھنڈ کو الگ کردیا ۔ آگے چل کر وہ زمانہ بھی آیا کہ اتراکھنڈ کے ایک راجپوت اجئے کمار بشٹ نے گورکھپور میں آکر بھگوا چولا اوڑھ کر اور اپنا نام تبدیل کرکے یوگی ادیتیہ ناتھ رکھ لیا۔ زمانے نے کروٹ لی تو وہ اپنے گرو مہنت اودیہ ناتھ کی سیاسی وراثت پر قبضہ کرکے یوپی کا وزیر اعلیٰ بن گیا ۔ اتراکھنڈ کی نئی نویلی ریاست پر بھی بی جے پی قابض ہوگئی اور سیاستدانوں کی اچھی خاصی فوج اس کی طابع و فرمان ہوگئی۔
اتراکھنڈ کے پوڑی میں بی جے پی رہنما یشپال بے نام کی مقامی سیاست پراچھی پکڑ ہے ۔ وہ سنہ 2018 میں تیسری بار پوڑی میونسپلٹی کے چیئرمین بنے اور اب چوتھی بار اس عہدے کے خواہشمند ہیں۔ ویسے ایک باریشپال بی جے پی کے ٹکٹ پرپوڑی کے رکن اسمبلی بھی منتخب ہو چکے ہیں لیکن پھر ان کی دلچسپی بلدیہ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ بی جے پی میں ہونے کے باوجود یشپال ہندووں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں میں بھی خاصے مقبول ہیں لیکن ایک نجی بلکہ خاندانی قدم نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کردیں۔ ہوا یہ کہ انہوں نے اپنی بیٹی کی شادی امیٹھی کے ایک مسلمان لڑکے سے طے کردی ۔ اس شادی میں دونوں خاندانوں کی رضامندی شامل ہے ۔ اپنی بیٹی مونیکا کی خوشی دوبالا کرنے کی خاطر انہوں نے 25، 26، 27 مئی کوپوڑی میں شادی کی تقریبات کا اعلان کردیالیکن شادی کے کارڈز تقسیم ہونے کے بعد ہنگامہ برپا ہوگیا۔اس کارڈ کے ذریعے دلہن کی ماں اوشا راوت اور والد یشپال بے نام نے اپنی بیٹی مونیکا اور امیٹھی کے رہائشی مونس خان کی شادی کی تقریب کے بعد استقبالیہ میں شرکت کا دعوت نامہ دیا گیا تھا۔اس کارڈ کے وائرل ہوتے ہی یشپال بے نام اپنی بیٹی کی شادی ایک مسلمان نوجوان سے کروانے پر ٹرول ہونے لگے ۔ اس پر ان کا پہلا ردعمل تو یہ تھا کہ ‘یہ 21ویں صدی ہے اور بچے اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں۔’ انھوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اپنی بیٹی کی خوشی کے مدنظر خاندان نے شادی کا فیصلہ کیا ہے ۔ دونوں خاندانوں کی رضامندی کے بعد شادی کی تقریب طے پائی ہے لیکن بجرنگیوں سے یہ خوشی دیکھی نہیں گئی۔ ہنگامہ بڑھا تو بے نام اپنے اس دلیرانہ موقف پر قائم نہیں رہ سکے ۔مخالفت کے دباو میں یشپال نے شادی ملتوی کرکے اس کی تقریبات کو منسوخ کر دیا۔ اس موقع پر ا انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ ‘ابھی شادی کے لیے ماحول سازگارنہیں ہے ۔’ ان کے مطابق ‘جو ماحول بن گیا ہے اس کو دیکھتے ہوئے میرے اہل خانہ اور خیر خواہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم شادی کی 25، 26، 27 مئی کو ہونے والی تقریبات نہیں کریں گے ۔یشپال کی دلیل یہ ہے کہ اس ماحول میں ‘دولھے کی جانب سے آنے والے براتیوں کے ذہن میں خوف ہوگا اور اگر پولیس کے تحفظ میں شادی یہ مناسب نہیں ہے ۔ اسی لیے ہمارے خاندان نے فیصلہ کیا کہ نا سازگار ماحول میں شادی کی تقریب نہ کی جائے ۔’
یشپال کے اس بیان میں کہیں بھی ندامت یا شرمندگی کا شائبہ تک نہیں ہے ۔ شادی کی تقریبات کو منسوخ کرنے کا تو ذکر ہے لیکن رشتۂ ازدواج کو قائم نہیں کرنے کا عندیہ نہیں دیا گیا ہے ۔ اس کا مطلب اب یہ شادی بینڈ باجا اور براتی کے بغیر ہو جائے گی ۔ یشپال بے نام کا یہ مصمم ارادہ سنگھ پریوار کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے ۔ وہ اگر خود اپنے آدمی کو نہیں روک سکتاتو دوسروں پر ‘لوجہاد’ کا الزام لگانے کا اسے کیا حق ہے ؟ اس میں کیرالہ اسٹوری کے ذریعہ پھیلائے جانے والے دھوکہ ، فریب اور جعلسازی کے الزام کی بھی تردید ہوجاتی ہے کیونکہ یشپال اور ان کے اہل خانہ پر بھلا کون دباو ڈال سکتا ہے ۔ ان ہندوتوا نوازوں نے جس طرح یشپال کو شادی کی تقریبات منسوخ کرنے پر مجبور کیا یہ جاننا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہے ۔ اس کی ابتداء بے ضرر ٹرولنگ سے ہوئی مگر بہت جلد وہ لوگ دھمکیوں پر اتر آئے اوراپنے ہی آدمی کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔ اس کا ثبوت ایک ہندو تنظیم کے عہدیدار کی یشپال بے نام کے ساتھ فون پر بات چیت کے آڈیو سے منظر عام پر آنا ہے ۔ اس آڈیو ٹیپ میں وہ بدمعاش یشپال کو دھمکیاں دے کرشادی سے باز رکھنے کی کوشش کرتا سنائی دیتا ہے ۔اس شادی کو روکنے کے لیے بدری ناتھ کی یاترا پر جانے والے ہریانوی بجرنگ دل کے کارکنوں نے پوڑی پہنچ کر ضلع مجسٹریٹ کو میمورنڈم دیا اور اپنا احتجاج درج کرایا۔اس کے بعد سڑک پر اتر کر کوٹ دوار میں مظاہرہ کیا گیا۔ اس معاملے کو لے کر ایک طرف تو بجرنگی خوب اچھل کود رہے ہیں مگر بی جے پی کے ریاستی صدر مہندر بھٹ کو کوئی خاص اعتراض نہیں ہے ۔ انھوں نے پہلے تو اس سے لاعلمی کا اظہار کرکے ٹال مٹول کی کوشش کی اور اس سے بات نہیں بنی تو اسے بی جے پی رہنما یشپال بے نام کا ذاتی معاملہ قرار دے کر پلہّ جھاڑ لیا۔اپنے رہنما کی بلاواسطہ حمایت کے بعد شادی کے حوالے سے یشپال کے ارادے اور بھی مستحکم ہوگئے ۔ ان کے پائے استقلال میں ان سارے ہنگاموں کے باوجود لرزش نہیں آئی ۔ اپنے مستقبل کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ ‘اب کیا ہوگا، کیسے ہوگا، اس کا فیصلہ ہم بیٹھ کر کریں گے ، جن خاندان والوں نے یہ فیصلہ کیا وہ دوبارہ بیٹھ کر فیصلہ کریں گے کہ آگے کیا کرنا ہے ۔’ یعنی بجرنگی غنڈوں کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔
اس شادی کا سیاسی پہلو یہ ہے کہ یشپال بے نام کے حلقۂ انتخاب میں تقریباً 3500 مسلمان ووٹرس ہیں۔ مقامی سیاسی مبصرین کے مطابق اس شادی نے یشپال کے لیے ان ووٹ کا ملنا یقینی بنادیا ہے اور تقریبات کی منسوخی کے باوجود ملیں بھی ملیں گے ۔ہندو انتہا پسندجس کی مخالفت کریں مسلمان بغض معاویہ میں اس کی حمایت کردیتے ہیں ۔ بی جے پی ریاستی رہنما کے رخ سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یشپال کو پارٹی کی حمایت حاصل رہے گی۔ ٹوئٹر کی پیالی میں ابال سے قطع نظرپوڑی کے اندر اس سے کوئی تناؤ نہیں ہے ۔ سوشل میڈیا پر ہنگامہ تو ہے مگر زمینی سطح پر وہ نظر نہیں آتا۔ ہریانہ سے آکر احتجاج کرنے اور مجسٹریت کو میمورنڈم دینے مقامی حالات نہیں بدلتے ۔ کوئی سیاستداں اگر عوام کے مسائل میں دلچسپی لے کر انہیں حل بھی کرے تو رائے دہندگان اس کے خلاف اس طرح کی ناٹک بازی سے متاثر نہیں ہوتے ۔
اس واقعہ نے کیرالہ کی معروف نومسلم ڈاکٹر ہادیہ کی یاد تازہ کردی۔ انہوں نے شفین نامی مسلم لڑکے سے شادی کو تو اسے ‘لو جہاد ‘سے جوڑا گیا۔ بدقسمتی کے ہائی کورٹ نے اس جھوٹ پر یقین کرکے ہادیہ کو زبردستی والد کے حوالے کرکے این آئی اے کو تفتیش کا کام سونپ دیا۔ اس وقت بی جے پی رہنما سبرامنیم سوامی نے کہا تھا کہ ”میں کیرالہ کیس کو لوجہاد کا معاملہ مانتا ہوں اور ایک ہندو لڑکی سے مسلم لڑکے کی شادی کے معاملے میں این آئی اے جانچ کی مدد کروں گا”۔ اس پر شہزاد پونا والا نے سوال کیا تھا کہ سبرامنیم سوامی کی اپنی بیٹی کامسلمان سے شادی کرنا بھی کیا ‘لو جہاد ‘ تھا؟کیابی جے پی رہنما مختار عباس نقوی اور شاہنواز حسین کی شادیاں بھی ‘لو جہاد ‘کے زمرے میں آتی ہیں ؟ یہ قدرت کا عجب انتظام ہے کہ ہندوتوا نواز جب بھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف آسمان سر پر اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو مشیت انہیں منہ کے بل پٹخ دیتی ہے ۔ یشپال کا واقعہ اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر