وجود

... loading ...

وجود
وجود

یہی ہماری سیاست ہے!

هفته 27 مئی 2023 یہی ہماری سیاست ہے!

روہیل اکبر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پی ٹی آئی کا جو بندہ بھی پکڑا جاتا ہے وہ رہائی کے فوری بعد پارٹی سے اپنی علیحدگی کا اعلان کردیتا ہے۔ تاکہ وہ اور انکی فیملی پھر کسی مشکل میں نہ پھنس جائیں۔ اس وقت پی ٹی آئی کے تقریبا تمام قابل ذکر لیڈر پارٹی چھوڑ کر توبہ تائب ہو رہے کچھ نے تو سیاست سے ہی توبہ کرلی ہے۔ ان میں سے اکثر وہ افراد ہیں جو ہر اقتدار کا حصہ رہے ہیں اور ان کی ڈوریاں کہیں اور سے ہلائی جاتی ہیں جنہیں اقتدار میں لانا مقصود ہوتا ہے۔ یہی افراد اسی پارٹی کا حصہ بن جاتے ہیں اور یہ اس وقت تک اس پارٹی کا حصہ رہتے ہیں جب تک وہ پارٹی بیساکھیوں پر ہوتی ہے جیسے ہی پارٹی مضبوط ہونے لگتی ہے اور پارٹی سربراہ عوام میں مقبول ہو جاتا ہے تو پھر اس کے خاتمے کے لیے وہی قوتیں متحرک ہو جاتی ہیں جنہوں نے اسے بنایا ہوتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو ،بینظیر بھٹو ،میاں نواز شریف اور اب عمران خان کیونکہ یہ سب لیڈر عوام میں اتنے مقبول ہوچکے تھے کہ اگر وہ بھاری اکثریت سے اقتدار میں آجاتے تو پھر بیرونی اور اندرونی آقائوں کی نہیں چلنی تھی ،اس لیے ان افراد کو اقتدار سے نہ صرف الگ کردیا جاتا ہے بلکہ انہیں نشان عبرت بھی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔
یہ بات بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ جب تک بیرونی اور اندرونی اسٹبلشمنٹ سے ڈیل نہ کی جائے اس وقت تک کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار میں نہیں آسکتی جو پارٹی اس ڈیل کے ذریعے اقتدار میں آجاتی ہے پھر وہ عوام کے مسائل سے بھی لاعلم ہو جاتی ہے۔ اس وقت پی ڈی ایم کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔یہی گیارہ پارٹیاں جو اس وقت اقتدار میں ہیں ،جب اپوزیشن میں تھیں تو انہیں دن کو چین تھا نہ رات کو آرام کیونکہ عوام مہنگائی کی چکی میں پس رہی تھی۔ انہوں نے مہنگائی کی آڑ میں کبھی دھرنے دیے تو کبھی احتجاج پر احتجاج کیا دن رات عوام کی باتیں کرکر کے ان کے آنسو خشک ہو چکے تھے کوئی ٹی وی چینل ایسا نہیں تھا جہاں مہنگائی پر سروے نہ دکھائے جاتے تھے اور تو اور ہر ہفتے مہنگائی کا پچھلے ہفتے سے موازنہ کیا جاتا تھا اور حکومت کو دھیروں گالیاں پڑ رہی تھی خوش قسمتی سے پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کی اپنے آقائوں سے ڈیل ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شہباز شریف وزیر اعظم بن گئے جب عمران خان کو اقتدار سے الگ کیا گیا تو اس وقت عوام بھی مہنگائی سے تنگ تھی اور کوئی خاص احتجاج بھی نہیں ہوا اوران سے بڑی غلطی یہ ہوئی کہ اسی وقت عمران خان کو اندر بھی نہیں کیا وقت گزرتا گیا ۔مہنگائی آسمان سے باتیںکرنے لگی عوام کا جینا مشکل ہوتا گیا وارداتیںبڑھتی گئی اور بے روزگاری سے تنگ آکر افراد نے اپنے بچوں کے ساتھ اجتماعی خود کشیاں شروع کردی اور عمران خان نے جلسے جلوس کی ابتدا کردی۔ حکومت کو شدید تنقید کا کا نشانہ بنانا شروع کردیا تو پھر اقتداری پارٹیوں نے عوام کی توجہ ایدھر اودھر کرنے کے لیے عمران خان پر سیاسی حملے شروع کردیے۔ مقدمات کا اندارج شروع ہوگیا۔صحافیوں بھی رگڑے میں آگئے اور پھر اسی دوران عمران خان کے ساتھ موجود کچھ افراد نے ایک اور گیم شروع کردی۔ چوہدری پرویز الہٰی ا سپیکر پنجاب اسمبلی تھے۔ انہوں نے وزارت اعلیٰ حاصل کرنے کے لیے کچھ ن لیگی ساتھیوں کے ذریعے تحریک عدم اعتماد پیش کروا دی۔ اس بات کا ذکر خود بعد میں ن لیگی اراکین اسمبلی نے بھی کیا اس تحریک عدم اعتماد کے بعد پنجاب میں ایک نئی گیم شروع ہوگئی۔ چوہدری پرویز الہٰی کی سیاست کامیاب ہوگئی۔ پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی
نے انہیں وزارت اعلی کی پیش کش کردی۔ ن لیگ حمزہ شہباز پر اٹک گئی اور پھر آخر کار چوہدری پرویز الہٰی نے جو چال چلی تھی اس میں وہ کامیاب ہوگئے وزیراعلیٰ بن گئے ۔جس کے بعد عمران خان نے اپنے دو اسملیاں خیبر پختون خواہ اور پنجاب توڑ دی یہ بھی عمران خان کی بڑی غلطی تھی کہ وہ پھر اشاروں پر ناچنے لگے، جب اسمبلیاں توٹ گئی تو پھر حقیقی معنوں میں پی ڈی ایم نے عمران خان کو تگنی کا ناچ نچانا شروع کردیا ۔
نواز شریف ،آصف علی زرداری ،مولانا فضل الرحمن اور رانا ثناء اللہ خان کھل کر میدان میں آگئے رانا ثناء اللہ جن پر منشیات کا جھوٹا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی ،عمران خان اسی بیانیہ پر عوام میں ایک بار پھر مقبول ہوچکے تھے جو پہلے پی ڈی ایم ہو تا تھا اور یہ ایک حقیقت بھی تھی کہ مہنگائی نے عوام کا جینا مشکل کردیا تھا پھر اسکے بعد جب عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو عوام کا حتجاج سامنے آیا۔ کچھ شر پسندوں نے قومی اداروں کو نقصان پہنچایا جو ایک خطرناک صورتحال اختیار کرگیا۔ اب جن لوگوں کو اس بات پر تکلیف ہورہی ہے کہ اس دہشت گردی میں ملوث افراد کو پکڑا جارہا ہے۔ اگر یہی افراد اس دن سیکیورٹی فورسز کی گولیاں کا نشانہ بن جاتے تو پھر ملک کے حالات کیا ہوتے اور یہی وہ لوگ چاہتے تھے جنہوں نے عوام کو اس طرف روانہ کیا۔ احتجاج پر امن بھی ہوسکتا تھا ،پہلے بھی تو پی ٹی آئی نے کئی بار دھرنہ دیا تھا ،لیکن اس بار جو ہوا وہ نہ صرف قابل مذمت ہے بلکہ باعث شرم بھی ہے اس وقعہ سے پوری دنیا میں پاکستان کی بدنامی ہوئی اور پھر پی ٹی آئی اراکین کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا جو افراد پی ٹی آئی میں لائے گئے تھے۔ انہیں معافی نامہ کے بعد واپس بلالیا گیا جسکے بعد کچھ لوگوں نے کہنا شروع کردیا کہ آصف علی زرداری ،میاں نواز شریف،میاں شباز شریف ، حمزہ شہباز،شاہد خاقان عباسی،خواجہ آصف ،احسن اقبال ،کیپٹن صفدر ،خواجہ سعد رفیق ،رانا ثناء اللہ،فریال تالپور ،مفتاح اسماعیل ،کامران مائیکل اورحنیف عباسی سمیت متعدد جیالوں اور ن لیگی ورکروں نے جیل کاٹی لیکن کوئی رویا نہیںکسی ایک نے بھی پارٹی چھوڑنے کا اعلان نہیں کیاان سب لوگوں نے پارٹیاں اس لیے نہیںچھوڑی کہ کسی کے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کی گئی جیل میں بھی یہ لوگ پکنک مناتے تھے۔ آئے روز بار بی کیو پارٹیاں ہوتی تھیں اور جو حشر پی ٹی آئی والوں کے ساتھ ہوا اسکی مثال شہباز گل کی صورت میں سامنے موجود ہے جس کے بعد پارٹی چھوڑنا تو معمولی بات ہے۔ انسان سیاست سے توبہ تائب ہوجاتا ہے یہی ہماری پولیس کا کلچر ہے ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے۔ ہمارے دیہاتوں میں بھی پولیس کے ذریعے ایسی ہی سیاست ہوتی ہے۔ سیاسی مخالفین کے خلاف چوری کا مقدمہ درج کروا کر اسے سبق سکھا دیا جاتا ہے اور پھر وہ ساری عمر تابعداری میں گزارتا ہے۔ یہی ہماری سیاست ہے جس سے آج تک باہر نہیں نکل سکے آج بھی اگر ساری سیاسی پارٹیاں چوراور ڈاکو کا نعرہ ختم کرکے متحد ہو جائیں تو پاکستان اور پاکستانیوں کی تقدیر بدل سکتی جو ناممکن نہیں ۔


متعلقہ خبریں


مضامین
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ وجود جمعرات 25 اپریل 2024
ٹیپو سلطان شیرِ میسور آزادی ِ وطن کا نشان اور استعارہ

بھارت بدترین عالمی دہشت گرد وجود جمعرات 25 اپریل 2024
بھارت بدترین عالمی دہشت گرد

شادی۔یات وجود بدھ 24 اپریل 2024
شادی۔یات

جذباتی بوڑھی عورت وجود بدھ 24 اپریل 2024
جذباتی بوڑھی عورت

تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ وجود منگل 23 اپریل 2024
تمل ناڈو کے تناظر میں انتخابات کا پہلامرحلہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر