وجود

... loading ...

وجود
وجود

کالعدم تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری بڑاکارنامہ

هفته 27 مئی 2023 کالعدم تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری بڑاکارنامہ

حمیداللہ بھٹی

معدنی دولت سے مالا مال صوبہ بلوچستان کئی عشروں سے بدامنی کا شکار ہے۔ یہ بدامنی ہی دراصل معدنی دولت کے استعمال میں ایک بڑی رکاوٹ اورپس ماندگی کی اہم وجہ ہے۔ اسی بناپر علاقے میں احساس محرومی ،مسائل،افلاس،،بے روزگاری اور لاقانونیت ہے ،جہاں اِتنے مسائل ہوں وہاں بغاوت کی فصل کاشت کرنا نہایت آسان ہوتی ہے ۔دشمن طاقتوں کی مکاری و عیاری سے ایسا ہوچکا ،لیکن یہ بھی درست ہے کہ بلوچستان بدامنی میں ملوث کرداروں کوبیرونی مالی وتکنیکی سرپرستی حاصل ہے ،کیونکہ وہ بلوچوں کو پریشر گروپ کے طورپر استعمال کرناچاہتے ہیں ۔لیکن ہمارے اِداروں کے بہادرسپوت جان پر کھیل کر بیرونی سازشوں کو ناکام بناکرمادرِ وطن کے دفاع کا فرض نبھارہے ہیں۔ اِس حقیقت کو بھی کوئی جھٹلا نہیں سکتا کہ باغی بلوچ سرداراپنے لوگوں کی محرومیوں کی وجہ سے نہیں دولت کی چمک سے اغیارکے آلہ کاربنے اوراپنے مزموم مقاصد کے لیے عام نوجوانوں کو وطن سے برگشتہ کیا مگر ہمارے اِداروں نے ہمیشہ راہ بھٹکے نوجوانوں کو نرمی اور پیارومحبت سے راہ راست پر لانے کی کوشش کی، جس کا نتیجہ ہے کہ بلوچستان میں تعلیمی و کاروباری سرگرمیاں فروغ پارہی ہیں قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے زمہ دار اِداروں کو ایک بڑی کامیا بی گزشتہ ہفتے کالعدم تنظیم بلوچ نیشنل آرمی (بی این اے )کے بانی و سربراہ پینتالیس سالہ گلزار امام شمبے کی گرفتاری کی صورت میں ملی۔
یہ تنظیم بلوچستان میں امن و عامہ کی صورتحال خراب کرنے میں کئی برسوںسے پیش پیش ہے میڈیا کے روبروگرفتار دہشت گرد گلزار امام شمبے نے ریاستِ پاکستان کے ساتھ بلوچ عوام سے معافی طلب کرتے نہ صرف رحم کی اپیل کی بلکہ اعتراف کیا کہ مسلح جنگ سے مسائل مزید گھمبیر بنتے ہیں، لہذا حقوق کی جنگ سیاسی و آئینی جدوجہد سے ہی ممکن ہے، نیز بلوچ نوجوانوں کی مسلح کارروائیوں سے بلوچستان کے حالات مزید خراب ہوئے جس سے نقصان بھی بلوچوں کا ہی ہورہا ہے ،یہ اعتراف بدلتے حالات کی طرف واضح اشارہ ہے ۔کالعدم تنظیم کے سربراہ کی گرفتاری پر ایجنسیاں لائقِ تحسین ہیں۔ وزیرِ اعظم شہباز شریف نے گلزار امام کی گرفتاری کو آئی ایس آئی کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بحالی امن کے لیے سیکورٹی فورسز کی انتھک کوششیں گراں قدر ہیں۔ گرفتاری کو قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی سراہا گیا۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آرنے پریس ریلیزکے ذریعے اہم گرفتاری سے عوام کو آگاہ کیا مگر گرفتار دہشت گرد کی طرف سے معافی ور رحم کی اپیل سے ثابت ہوتا ہے کہ ریاست اب بھی غیرضروری رحمدلی کی روش پر گامزن ہے جو کسی صورت لائق ِ تحسین یا قابل قدر نہیں ۔ ایک ایسے شخص کو معاف کر دینا جس نے جانے کتنے سیکورٹی اہلکاروں کو شہید کیا اور عام شہریوں کو رزقِ خاک بنایا غلط فیصلہ ہوگا۔ ایک دہشت گرد کو معافی دینا اگرریاست کے لیے ضروری ہے تو ایساکوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل بہترہے وطن کی سالمیت پر قربان ہونے والوں کا قصور بتادیاجائے کیونکہ ریاست کے تحفظ کا مشن پوراکرتے ہوئے جانیں قربان کرنے والوں کویکسر نظراندازکردینا دانشمندی نہیں لہذا بہترہے غوروخوض سے اثرات و مضمرات کا جائزہ لیکر فیصلہ کیاجائے ۔یہ درست ہے کہ ریاست ماں کی مانند ہوتی ہے لیکن اگر ایک فرزند بے گناہ بھائیوں کا خون بہانے لگے تو ماں کی بھی زمہ داری ہے کہ رحمدلی کی بجائے ایسا انصاف کرے تا کہ دیگر شرپسند عبرت حاصل کریں معمولی جرائم کی معافی کی وجہ تو سمجھ آتی ہے کہ ایسا کرنے میں باغیوں کو قومی دھارے میں لانے کی سوچ کارفرماہے مگرایک دہشت گردکو معافی ناقابلِ فہم اور ناقابلِ قبول ہے۔
کالعدم تنظیم کے گرفتار سربراہ کو 23مئی منگل کے روز میڈیا کے سامنے لایا گیا اسی پیر اور منگل کی درمیانی شب ہنگو منجی خیل میں گیس کمپنی کے ویل پلانٹ پر ایک بڑی دہشت گردانہ کاروائی میںپندرہ سے بیس افرادحملہ آور ہوئے اور اور جدید ترین ہتھیاروں سے فائرنگ کرتے ہوئے ایف سی کے چار جوانوں سمیت سیکورٹی پر مامور چھ افراد کو موت کی نیند سُلا دیا کاروائی کے بعد حملہ آور پہاڑی راستوں کی بھول بھلیوں میں گم ہو گئے ۔یہ حملہ بظاہر گرفتاری کا جواب ہے اب اگر ریاست تمام ترمالی و جانی نقصان کے باوجود معافی نامے جاری کرنا شروع کر دے گی ۔یہ عمل دہشت گردعناصر کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہو گا اِس طرح مزید نوجوانوں گمراہ ہو سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں پُرتشددکاروائیوں میں ملوث ہونے کے باوجود معافی نامے جاری کرنے سے یہ پیغام جائے گا کہ ریاست نے دہشت گرد عناصر کے آگے سرنڈر کردیا ہے حالانکہ ہمارا ملک دنیا کی ایسی ساتویں جوہری طاقت ہے جس نے دہشت گردی کے خلاف نہ صرف طویل جنگ لڑی بلکہ کئی محاذوں پر دشمن کے کاری وار ناکام بنائے، اب اچانک نرمی ،رحمدلی سے دشمن قوتوں کو کمزوری کا تاثرملے گا۔ یہ وقت کسی قسم کی نرمی دکھانے کا نہیں بلکہ پوری قوت سے باغی عناصر کو پاش پاش کرنے کا ہے اِ س دوران امن پسند مکاتب ِفکر کو سیکورٹی اِدارے اعتماد میں لیکر چلیں تاکہ ایک طرف دشمن کی سرمایہ کاری ضائع ہو اور دہشت گرد عناصر پر ریاستی خوف طاری ہو،حالیہ گرفتار دہشت گردبارے ایسے شواہدہیں کہ انڈیا اور افغانستان کے دورے بھی کرتا رہا ہے، اِس لیے معافی دینے کی بجائے ایجنسیاں مکمل چھان بین کریں کہ یہ کہیں اب بھی دشمن انٹیلی جنس ایجنسیوں کے ساتھ روابط میں تو نہیں ؟ اور پھر انصاف پر مبنی ایسا فیصلہ کیاجائے جس سے شہداکے ورثا زخموں پر ٹھنڈا مرہم محسوس کریں۔
اِس میں ابہام نہیں کہ دشمن قوتوں نے دولت کی چمک سے تین چار بلوچ سرداروں کو ہم خیال بنایا جنھوں نے علاقے کے غریب نوجوانوں کو ہتھیار اُٹھانے پر مجبورکیا حالانکہ سچ یہ ہے کہ صرف بلوچستان ہی محرومیوں کاشکار نہیں بلکہ پنجاب ،سندھ اور کے پی کے میں بھی کافی ایسے علاقے ہیں جو آج بھی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں لیکن شہریوں نے نفرت کرتے ہوئے کبھی بھی ریاست کے خلاف ہتھیارنہیں اُٹھائے بلکہ پُر امن سیاسی جدوجہد کے زریعے ریاستی وسائل سے حصہ طلب کیا مگر بلوچستان میں صورتحال عجیب ہے ریاستی اِداروں سے برسرِ پیکارنچلے درجے کے اہلکاروں کی کاروائیوں کے عوض ملنے والی رقوم سے غیر ملکی طاقتوں کے آلہ کاربلوچ سردار خود تو یورپ و دیگر ممالک میں عیش کی خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسرکررہے ہیں جبکہ عام اور غریب بلوچ ایک بے مقصد جنگ کا ایندھن بن کر بلوچستان کی پس ماندگی دورکرنے میں رکاوٹ ہیں اِس سوچ کی وجہ سے گلزار امام جیسے کئی لوگ پچھتاوے کی حالت میں ہیں مگر قاتل اور مجرموں کو محض پچھتاوے کی بنا پر معاف کردینا انصاف کی موت ہوگا۔
گلزار امام نے 1978میںبلوچستان کے ضلع پنچگورمیںجنم لیا اور 2002میں بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے ذریعے طلبہ سیاست میں قدم رکھا، بی ایس اوکے کئی دھڑوں نے جب باہم ضم ہو کر مشترکہ جدوجہد شروع کی تو گلزار امام کی اہمیت بھی مزید بڑھ گئی 2006 میں
اُسے بی ایس او آزاد پنجگور کا صدر بنادیاگیا ۔وہ بلوچ لبریشن فرنٹ (بی ایل اے)اور بلوچ لبریشن آرمی سے بھی منسلک رہا اورکئی اہم اور کلیدی عہدوں پر کام کیاجب اِداروں نے سختیاں کیں تو یہ کچھ عرصہ روپوش بھی رہابعدازاںبرہمداغ بگٹی کی قیادت میں برسرِ پیکارتنظیم بلوچ ریپبلکن آرمی(BRA)میں شمولیت اختیار کرلی اوربرہمداغ کے نائب جیسے اہم منصب پر کام کرتا رہا۔ دہشت گردانہ کاروائیوں میں مہارت کی بناپر جلد ہی تنظیم کے آپریشنل کمانڈر کے درجے پر فائز ہو گیااِس تنظیم نے 2016 اور2018 کے دوران دیگر دوگروپوں بلوچ لبریشن آرمی جس کا سربراہ حیربیارمری ہے اور یونائٹڈ بلوچ آرمی جس کی سربراہی مہران مری کے پاس ہیں کے ساتھ کئی مشترکہ پُرتشدد اورخونریز کارروائیاں کیں اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کے ساتھ بے دریغ انسانی خون بہایا گیا۔جنیواجیسے بیرونِ ملک کئی شہروں میں آزاد بلوچستان کے حق میں مُم چلائی گئی ممکنہ طورپراِس دوران ہی یہ اِداروں کے روابط میں آیا مگر یہ روابط خفیہ نہ رہے علم ہوتے ہی بی آراے نے گلزار مام کے خلاف الزامات پر مبنی بیان جاری کیا زرائع کا کہنا ہے کہ کالعدم تنظیم کے اہم رہنماسے گرفتاری کے عوض معاف کرنے کا وعدہ کیا گیاجس کی وجہ سے گرفتاری ممکن ہوئی مگر وہ وعدہ جس سے شہداکے ورثا اپنے زخموں پر نمک پاشی محسوس کریں ایفا کرنے کی بجائے توڑ دینا ہی ریاست کے لیے بہتر ہے۔
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
پڑوسی اور گھر گھسیے وجود جمعه 29 مارچ 2024
پڑوسی اور گھر گھسیے

دھوکہ ہی دھوکہ وجود جمعه 29 مارچ 2024
دھوکہ ہی دھوکہ

امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟ وجود جمعه 29 مارچ 2024
امریکہ میں مسلمانوں کا ووٹ کس کے لیے؟

بھارتی ادویات غیر معیاری وجود جمعه 29 مارچ 2024
بھارتی ادویات غیر معیاری

لیکن کردار؟ وجود جمعرات 28 مارچ 2024
لیکن کردار؟

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر