وجود

... loading ...

وجود
وجود

احساس کی دہلیز پر

جمعرات 25 مئی 2023 احساس کی دہلیز پر

ایم سرور صدیقی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

وہ ایک معروف ڈاکٹرکا ہسپتال تھا ،جس میں تمام جدید سہولتیں میسر تھیں،میں یہاں دوسرے تیسرے ماہ ضرور آتا ہوں۔ کہتے ہیں اس ڈاکٹر کے ہاتھ میں قدرت نے بہت شفا عطاکررکھی ہے۔ میں نے ڈاکٹرکی بھاری فیس اداکرکے ٹوکن لے لیا اور استقبالیہ کے سامنے ایسی جگہ جا بیٹھا جہاں آنے جانے والوںکو بخوبی دیکھا جاسکتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کے آنے میں ابھی دو گھنٹے باقی تھے۔ اس کے باوجود اس کے کشادہ کلینک میں مریضوںکا تانتا بندھاہوا تھا۔ سب انتظار میں تھے کچھ مریض اپنی جسمانی حالت کے پیشِ نظر بیزار بیزار بیٹھے تھے۔ کچھ کے لواحقین اونگھ رہے تھے۔ یہاں صبح آٹھ سے دس بجے تک پیشگی فیس کی ادائیگی پر ٹوکن ملتے جبکہ ڈاکٹرکا 12بجے تشریف لانا معمول تھا ۔ میں نے وقت گزاری کے لئے پاس پڑے ہوئے ایک میگزین کا مطالعہ شروع کردیا۔ساڑھے نو بجے تک میں بیٹھا بیٹھا تھک گیا۔ میری نظریں بار بار دروازے کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ میں مایوس اور بیزار سا ہونے لگا۔ اتنے میں ایک بوڑھی عورت پندرہ سولہ سالہ لڑکے کو لے کر استقبالیہ کائونٹرپرپہنچی ۔اس کی آنکھوں میں امید کے دیے روشن تھے۔ بوڑھی عورت نے ٹوکن لینے سے پہلے ڈاکٹرکی فیس دریافت کی۔بھاری فیس کا سن کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ امید کے روشن دئیے بجھنے لگے، اس کی آنکھوںمیں آنسو تیرنے لگے، اس نے بیمار بیٹے کا دوبارہ ہاتھ تھاما اور واپس جانے کے لئے مڑی ۔لڑکے نے بوڑھی عورت سے کچھ دریافت کیا۔ اس نے نرمی سے اس کے کان میں کچھ کہا لڑکے کا چہرہ بھی اتر گیا۔
اس سے پہلے وہ دروازے تک پہنچتی۔ میں تیزی سے اپنی جگہ سے اٹھا انہیں روکا اور آہستہ آہستہ انہیں سا تھ لے کر قریبی کرسیوں پر براجمان ہوگیا۔ اس سے لڑکے کی بیماری کے متعلق پوچھا۔ میں نے اپنا ٹوکن اورفیس کی رسید اس کو تھمادی پھر جیب سے ایک لفافہ نکالا جس میں کچھ رقم تھی میںنے بوڑھی عورت سے کہا ماں جی انکار نہ کرنا ایک بیٹے کی طرف سے قبول کرلیں۔ اس کے چہرے پر تذبذب کے آثار تھے۔ میں نے مسکراکر ان کی جانب دیکھا ۔بوڑھی عورت نے زبان سے کچھ نہ کہا آنکھوں میں جھلملاتے دو آنسوئوں کے قطرے لفافے پر آ گرے، پھر منہ آسمان کی جانب کرکے رب ِ کریم کا شکریہ ادا کرنے لگی۔میںنے لڑکے کا گال تھپتھپایا اور ہسپتال سے باہر نکل گیا کیونکہ مجھے کوئی بیماری نہیں ۔ میں ہر ماہ کسی نہ کسی ہسپتال میں جاتاہوں اورفیس دیکر اپنا ٹوکن لیتاہوں اور کسی ضرورت مند کو دے کر گھر واپس آ جاتا ہوں۔ یہ میرا بہترین مشغلہ ہے۔ اس سے مجھے جتنی روحانی خوشی محسوس ہوتی ہے ان کو الفاظ میں بیان نہیںکیا جاسکتا اور یقین جانئے مجھے پورا مہینہ کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں جانا پڑتا۔ اس نسخہ کو آپ بھی آزما سکتے ہیں۔رب ِ کائنات نے انسان کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شراکت کا بڑا اجردینے کا وعدہ کیا ہے ۔پورا قرآن کریم انسانیت کی خدمت کی آیات سے بھرا پڑاہے۔ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا
قتل اور ایک جان بچانے کو پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف قراردیاگیا ہے لیکن ہم دنیا دار پھر بھی نہیںسمجھتے۔ ہمارا یہ رویہ سمجھ سے بالاہے ۔پھل فروش، سبزی بیچنے والے اورکئی دکاندار سودا مناسب قیمت پر نہیں بیچتے اور دودن بعد جب وہ چیزیں گل سڑکر تعفن زدہ ہو جاتی ہیں تو انہیں کوڑے کرکٹ کے ڈھیر پر پھینک دیا جاتاہے۔ یہ طرز ِ عمل اس بات کی نشان دہی کرتاہے کہ ہم کسی کا فائدہ کرناہی نہیں چاہتے ۔ کسی غریب کو ریلیف دینے کا سوچنا بھی گراں گزرتاہے۔ جنوبی ایشیاء کی بیشترجمہوری حکومتیں بھی کسی سے پیچھے نہیں، پاکستان میں تھر اور چولستان کے علاقوںمیں بارشوں کی کمی سے قریباًہرسال قحط سالی کاسامنا کرناپڑتاہے لیکن حکومت مستقل بنیادوںپر کوئی اقدامات نہیں کرتی۔ گزشتہ سال متاثرین کے لئے دولاکھ پانی کی بوتلیں زائدالمعیادہوگئیں لیکن پانی کے قظرے قطرے کو ترستے عوام تک بروقت نہ پہنچائی گئیں۔ سندھ کے غلہ گوداموں میں سینکڑوں ٹن گندم کو کیڑوںنے کھا لیا لیکن لقمے لقمے کو محتاج متاثرین کچھ نہ دیا گیا اور اخباری اطلاعات کے مطابق گزشتہ سال پاکستان میں 1000بچوں سمیت ڈیڑھ دو ہزار افراد بھوک اور پیاس کی اذیت سے لقمہ ٔ اجل بن گئے۔ اس سال بھی 150 کے قریب بچے بھوک اور پیاس سے دم توڑ چکے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح صاحب ِ اقتدار کے سر سے جوں تک نہ رینگتی ۔ستم ظریفی کی بات یہ ہے کہ اس سستی ،ہڈحرامی اور مجرمانہ غفلت کے مرتکب کسی ایک بھی فردکو سزا نہیں ملی۔ بھارت کے دور دراز کے علاقوں میں غضب کی غربت ہے ۔ قحط سالی ایک الگ مسئلہ ہے۔ کروڑوں افراد زندگی کی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں ۔ان لوگوں کو ٹوائلٹ جیسی سہولت سے بھی میسر نہیں ۔ لاکھوں شہری فٹ پاتھ پر بنی جھونپڑیوں میں پیداہوتے ہیں اور وہیں سے ان کے جنازے اٹھائے جاتے ہیں۔ یہی حال بنگلہ دیش کا ہے۔ جہاں کے شہریوں کی حالت آج تک نہیں بدلی۔ ہزاروں لاکھوں افراد محرومی کی زندگی بڑی بے بسی سے گزاررہے ہیں ۔درجنوں افریقی ممالک ہیں جہاں آج بھی ان کو پہننے کیلئے کپڑے اور پائوں کو چپل میسر نہیں۔ اتنی بے بسی اتنی انسانوںکی ناقدری دیکھ کر رونا آتاہے۔
اکثر سوچتاہوں ہم پر اللہ کی رحمت کیوں نہیں ہوتی؟ قدرتی آفات،پریشانیاں،ناگہانیاں، طرح طرح کی مصیبتیں اورمسائل نے ہمیں گھیررکھاہے۔ دنیا بھر میں جگہ جگہ غریبوں پر مظالم ڈھائے جارہے ہیں۔ ان کا خون بہایا جارہاہے۔ذلیل و خوارہونا معمول بن گیا ہے۔ تیسری دنیا کے درجنوں ممالک میںکہیں بھی عوام کا کوئی پرسان ِ حال نہیں ۔آخر کیوں؟ یہ کیسی بے حسی ہے کسی کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں اور کسی کے پاس کھانا کھانے کے لئے وقت نہیں۔ سوچ سوچ کر دماغ پھٹنے لگتاہے کہ آخریہ کیا ہورہاہے۔ دل سے ہوک سی اٹھتی ہے ،جیسے اندر سے آواز آئی، یہ ساری مصیبتوں،پریشانیوں اور مسائل کی بنیاد صرف ایک ہے۔ کہ ہمارے دلوں سے انسانیت ختم ہورہی ہے ۔انسان سے احترام کا رشتہ ٹوٹ رہاہے۔نفسا نفسی کو ہم نے اپنے آپ پر طاری کرلیاہے۔رب تو عالمین کارب ہے ہم بھول گئے کہ دنیا کا سب سے بڑا مذہب انسانیت ہے ۔ہم نے فراموش کردیادوسروںکی مدد کرنا ہم پر واجب قراردیاگیاہے۔ دنیا کا ہر مذہب انسانیت کااحترام سکھاتاہے مسلمانوںکو شایدیہ بھی یادنہیں رہا کہ اخوت ،مروت،بھائی چارہ ،ایثار،قربانی ہمارے مذہب میں بڑا اہم فریضہ اوریہ اسلاف کا ورثہ ہے۔ وہ جنہیں ہم کافر کہتے ہیں، انسانیت کے احترام میں ان کا قول ہے کہ ایک انسان کی جان بچانے کے وائٹ ہائوس بھی بیچنا پڑے تو بیچ دو۔۔ہم اس نبی ٔ معظم ۖ کے امتی ہیں جو سراپا رحمت ہیں جنہوںنے ہمیں قدم قدم پر انسانوںسے
پیارکرنے کا حکم دیاہے۔ وہ نبی ۖ جس نے جانوروںسے بھی صلہ رحمی کی ہدایت کی ہے۔ اسلام جو سلامتی کا دین ہے ۔امن کا درس دیتاہے۔ نفرتیں ختم کرنے پر زور دیتاہے اور ہم ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو فرقہ واریت،دہشت گردی ،انتہاپسندی جیسے مسائل میں الجھا کر رکھ لیاہے ۔ دلوں سے انسانیت رخصت ہونے لگی ہے اورمیراوجدان یہ کہتاہے کہ ہماری الجھنیں،پریشانیاں ، مسائل اور بحران اس وقت تک نہیں ٹل سکتے جب تک ہمارے دل انسانیت کی خدمت کیلئے کمربستہ نہیں ہو جائے۔پورے یقین اور دعوے سے کہا جا سکتاہے ۔ ہم انسانیت سے پیارکرنا شروع کردیں تو اللہ کی بے پایاں رحمتوںکا نزول شروع ہوجائے گا اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلے گا کہ الجھنیں کہا ں گئیں، مسائل کا کیا ہوا؟آفات،پریشانیاں،ناگہانیاں، مصیبتیں راحت میں بدل جائیں گی۔ دل مانے تو آئیے مل کرعہد کریں ہم سے جس قدر ممکن ہوسکاہم دوسروںکا احساس کریں گے ۔ انسان سے محبت کی ترغیب دے کر معاشرہ سے نفرتیں ختم کرنے میں مددگار بنیں گے کسی بیمارکو دوا،کسی غریب طالبعلم کی فیس کسی کو کتابیں کسی کو یونیفارم کسی سفیدپوش کو راشن ،کسی مجبورکی مدد،کسی بیروزگار کوملازمت ،کسی ضرورت مندکی داد رسی کے لئے خودکو تیارکریں۔ آپ کے گلی محلے شہر میں بہت سے ایسے لوگ آپ کی توجہ کے طالب ہیں۔کیا اس نیک کام میںآپ میرے ساتھی بنیں گے؟
٭٭٭


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر