وجود

... loading ...

وجود
وجود

ترکیہ کے انتخابات: کون جیتا، کون ہارا؟

جمعرات 25 مئی 2023 ترکیہ کے انتخابات: کون جیتا، کون ہارا؟

افتخار گیلانی
۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
14مئی کو ترکیہ میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50فیصد جمع ایک ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے انتخابات کا دوسرا راونڈ 28مئی کو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدواروں یعنی موجودہ صدر رجب طیب اردوان اور اپوزیشن کے متحدہ امیدوار کمال کلچ داراولو کے درمیان ہوگا۔
نوے کی دہائی کی ابتدا میں صحافت میں قد م رکھنے کے بعد 2019 تک بھارت میں شاید ہی کوئی ایسا پارلیمانی یا صوبائی انتخاب ہوگا جو میں نے کور نہ کیا ہو۔ مگر ترکیہ کا انتخاب کا تجربہ واقعی منفرد تھا۔ دارالحکومت انقرہ میں 90فیصد سے زیادہ پولنگ ہوئی مگر کیا مجال کہ کہیں ہنگامہ یا شور شرابہ ہو۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں کا دور ہ کرکے لگتا تھا کہ جیسے لوگ پکنک منانے آئے ہوں۔ لوگ بچوں حتیٰ کہ پالتو جانوروں کو بھی لیکر ووٹ ڈالنے آئے تھے ۔ میلہ کا سا سماں تھا۔ جنوبی ایشیاء میں تو پولنگ اسٹیشنوں پر ہر لمحہ لڑائی جھگڑے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے ۔ ترکیہ کے نشریاتی ادارے ٹی آرٹی کی اردو سروس کے سربراہ ڈاکٹر فرقان حمید، جو ترک شہری ہیں اور اس ملک میں پچھلی چار دہائیوں سے آباد ہیں، کی معیت میں ووٹ ڈالنے کا منظر دیکھنے گیا ، معلوم ہوا کہ پولنگ روم تک جانے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے ۔ کہیں نام کیلئے بھی کوئی پولیس یا سکیورٹی اہلکار تعینات نہیں تھا۔ لوگ خود ہی اپنے پولنگ بوتھ والے کمرے کے باہر اطمینان سے قطار لگائے کھڑے باری کا انتظار کر رہے تھے ۔ جب تک والدین ووٹنگ کے فریضہ سے فارغ ہوں ،بچوں کا خیال رکھنے کیلئے ایک کمرے میں کھلونے اور خواتین اہلکار موجود تھیں۔ حا ل ہی میں فرقان صاحب نے ٹی آر اردو کے نام سے اردو زبان میں ایک یوٹیوب چینل بھی شروع کیا ہوا ہے ۔ پولنگ بوتھ سے اندر جانے سے لیکر ووٹ ڈالنے کے عمل تک کی انہوں نے ویڈیو ریکارڈنگ کی۔مجال ہے کسی نے شکایت کی ہو۔ ووٹوں کی گنتی پولنگ بند ہونے کے فوراً بعد امیدواروں کے ایجنٹوں کی موجودگی میں پولنگ بوتھوں پر ہی ہوتی ہے ۔ بیلٹ بکس کو کہیں بھی ٹرانسپورٹ نہیں کیا جاتا ہے ۔ پریزائڈنگ آفیسر گنتی مکمل کرنے کے بعد نتیجہ الیکشن کونسل کو بھیجتا ہے ، ایجنٹ نتیجہ اپنی پارٹیوں کے چیف الیکشن ایجنٹ کو بھیجتے ہیں۔یعنی پارٹیوں کے صدر دفاتر اور الیکشن کونسل میں ایک ہی وقت میں گنتی کا اندراج ہوتا رہتا ہے ۔
پہلے راونڈ کے انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ تمام اندازوں اور رائے عامہ کے جائزوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے صدر اردوان نے 49.5فیصد ووٹ حاصل کیے جبکہ ان کے حریف کمال کلیچ داراولو کو 44.89فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔ تیسرے امیدوار سینان اووان کو 5.17فیصد ووٹ حاصل ہوئے ۔ چوتھے امیدوار محرم انجے نے پولنگ کے دن سے قبل ہی دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔ گو کہ رائے عامہ اور تجزیہ کاروں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی کہ انتخابات دوسرے راونڈ میں چلے جائیں گے ۔ مگر اکثر کا خیال تھا کہ کلیچ داراولو کو سبقت حاصل ہوگی کیونکہ گرتی ہوئی معیشت اور اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے سے عوام خاصے نالاںتھے ۔ نوجوان ووٹر اردوان کے بیس سالہ دور اقتدار سے اووب چکے تھے ۔تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں بھی متاثرین جوق در جوق اپوزیشن کی حمایت کریں گے ۔ جیسا کہ 1999کے ازمت کے زلزلہ نے اس وقت کے اپوزیشن امیدوار اردوان کیلئے 2002کے انتخابات میں اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔ اردوان اور ان کے قریبی حریف کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ہے ۔ اس کو پاٹنا اپوزیشن امیدوار کیلئے اب نہایت ہی مشکل امر ہے ۔ مغربی میڈیا اور ان کی حکومتوں کی حد سے زیادہ مداخلت اور اردوان کے خلاف ان کی زوردار مہم نے ترک ووٹروں کے ایک بڑے حصہ کو اپوزیشن کے بارے میں شکوک شبہات میں مبتلا کر دیا۔ میرے گھر کے پاس ہی جوتوں کی ایک چھوٹی دکان کا مالک، 55 سالہ طغرل اوکتائے ابتر معیشت کی وجہ سے برسراقتدار آق پارٹی اور اردوان کے خلاف ووٹ ڈالنے کیلئے پر تول رہا تھا۔ مگر پولنگ کے دن بوتھ سے واپس آکر اس نے بتایا کہ آخری وقت اس نے اردوان کو ہی ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جس طرح مغربی حکومتیں اور ان کا میڈیا ہاتھ دھو کر اردوان کے پیچھے پڑا ہوا تھا، اس سے و ہ خاصا دلبرداشتہ ہوگیا ۔ کئی تجزیہ کاروں کے مطابق کلیچ داراولو کو مغربی میڈیا کی حمایت خاصی بھاری پڑی۔
ترک دراصل خاصے قوم پرست واقع ہوئے ہیں۔ چونکہ پچھلے دو سو برسوں کے دوران ان کے ملک پر بحیرہ اسود کے راستے روس نے اور بحیرہ روم کے راستے مغربی ممالک نے چڑھائی کی ہے ، اس لئے وہ اپنے ملک کی سلامتی ، آزادی اور خود مختاری کے سلسلے میں خاصے حساس ہیں۔ چاہے سیکولرسٹ ہو یا اسلام پسند ، قوم پرستی اور اپنے وطن کی سلامتی ترکوں کی گھٹی میں ہے ۔ اسی لئے مصطفیٰ کمال اتا ترک کی تصویر اسلامسٹ سعادت پارٹی کے دفتر میں بھی دیوار پر آویزاں نظر آتی ہے ۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عربی النسل ممالک میں تو فلسطین کے بغیر باقی سبھی ممالک آزاد ہیں، مگر ترک نسل ممالک میں آذربائیجان اور چار وسطی ایشیائی ممالک کو چھوڑ کر باقی سبھی روس یا چین کے قبضے میں ہیں۔ اس عدم تحفظ نے قوم پرستی کو ہوا دی ہوئی ہے اور ترک عوام اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔ مغربی ممالک اور اس کے میڈیا نے اس کا ادراک نہیں کیا تھا۔ اردوان نے بھی اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرکے مغرب کے خلاف ایک ہیجان برپا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زلزلہ سے متاثر 11 صوبوں میں صرف حتائی میں اپوزیشن کو برتری حاصل ہوئی۔ باقی سبھی علاقے اردوان کے ساتھ چلے گئے ۔ اس کے علاوہ آخری وقت تک اردوان نے فلاحی اسکیموں کے اعلانات کرکے ووٹروں کی منہ بھرائی کی۔ پولنگ سے صرف چھ دن پہلے صبح سویرے دیکھا کہ باہر کچھ جشن کا سا ماحول ہے ۔ لوگ فون پر کوئی میسج پڑھ رہے تھے ۔ معلوم ہوا کہ صبح سویرے سبھی شہریوں کو ایس ایم ایس آیا ہے کہ اس ماہ کی ان کی گیس کا بل جمہور باشکن یعنی صدر نے ادا کیا ہے ۔ میں نے گیس کمپنی کی پے منٹ سائٹ پر دیکھا تو میرے فلیٹ کی مئی کی گیس کا بل واقعی صفر تھا۔ بحیرہ اسود کے ذخائر ترکیہ کی گیس کی ضروریات کا تقریباً 30 فیصد پورا کریں گے ۔یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ماہانہ 25 کیوبک میٹر سے کم گیس استعمال کرنے والے گھرانوں کو ایک سال تک کوئی بل نہیں ادا کرنا پڑے گا۔ اس طرح کی ا سکیموں کی وجہ سے اردوان نے ملک کے کم مراعات یافتہ علاقوں، جن میں بحیرہ اسود (کارادانز بویلگیسی)، وسطی اناطولیہ اور مشرقی اناطولیہ پر گرفت برقرار رکھی۔ اپوزیشن کو بحیرہ روم کے اشرافیہ کے علاقوں نیز بڑے شہروں یعنی استنبول، انقرہ، اسکی شہر اور ازمیر وغیرہ میں بھاری ووٹ ملے ۔ ترکوں کا کہنا ہے کہ اردوان کا ایک بڑا کارنامہ محرومی کا شکار پسماندہ علاقوں کو اشرافیہ کے کندھے سے کندھے ملا کر کھڑا کرنے کا ہے ۔ پارلیمنٹ کی 600نشستوں کیلئے بھی اسی دن انتخابات منعقد ہوئے ، جس میں حکمران آق پارٹی کو 267 سیٹیں حاصل ہوئی یعنی 35.6% ووٹ ملے اور اسکے اتحاد کو 323 نشستیں (49.4% ووٹ) حاصل ہوئیں۔ جبکہ ریپبلکن پیپلز پارٹی یا CHP کی زیرقیادت چھ جماعتی اتحاد، جس نے انتخابات سے چند دن قبل 17 پارٹیوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کیا تھا، کو 268 نشستیں (35.5% ووٹ) ملیں۔ ان میں ترکی کی سب سے بڑی اسلام پسند سعادت پارٹی، جو اپوزیشن کے خیمہ میں تھی کو دس نشستیں اور نیو ویلفیئر پارٹی ، جو حکمران اتحاد میں شامل تھی، کو پانچ نشستیں ملی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


متعلقہ خبریں


مضامین
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات وجود جمعه 26 اپریل 2024
صدر رئیسی کا رسمی دورۂ پاکستان اور مضمرات

سیل ۔فون وجود جمعه 26 اپریل 2024
سیل ۔فون

کڑے فیصلوں کاموسم وجود جمعه 26 اپریل 2024
کڑے فیصلوں کاموسم

اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو وجود جمعه 26 اپریل 2024
اسکی بنیادوں میں ہے تیرا لہو میرا لہو

کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ وجود جمعه 26 اپریل 2024
کشمیری قیادت کا آرٹیکل370 کی بحالی کا مطالبہ

اشتہار

تجزیے
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ وجود منگل 27 فروری 2024
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ

ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے! وجود هفته 24 فروری 2024
ایکس سروس کی بحالی ، حکومت اوچھے حربوں سے بچے!

گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے! وجود جمعه 23 فروری 2024
گرانی پر کنٹرول نومنتخب حکومت کا پہلا ہدف ہونا چاہئے!

اشتہار

دین و تاریخ
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت وجود بدھ 13 مارچ 2024
رمضان المبارک ماہ ِعزم وعزیمت

دین وعلم کا رشتہ وجود اتوار 18 فروری 2024
دین وعلم کا رشتہ

تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب وجود جمعرات 08 فروری 2024
تعلیم اخلاق کے طریقے اور اسلوب
تہذیبی جنگ
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی وجود اتوار 19 نومبر 2023
یہودی مخالف بیان کی حمایت: ایلون مسک کے خلاف یہودی تجارتی لابی کی صف بندی، اشتہارات پر پابندی

مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
مسجد اقصیٰ میں عبادت کے لیے مسلمانوں پر پابندی، یہودیوں کو اجازت

سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے
بھارت
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا وجود پیر 11 دسمبر 2023
قابض انتظامیہ نے محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ کو گھر وں میں نظر بند کر دیا

بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی وجود پیر 11 دسمبر 2023
بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کی توثیق کردی

بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک وجود بدھ 22 نومبر 2023
بھارتی ریاست منی پور میں باغی گروہ کا بھارتی فوج پر حملہ، فوجی ہلاک

راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات وجود جمعه 27 اکتوبر 2023
راہول گاندھی ، سابق گورنر مقبوضہ کشمیرکی گفتگو منظرعام پر، پلوامہ ڈرامے پر مزید انکشافات
افغانستان
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے وجود بدھ 11 اکتوبر 2023
افغانستان میں پھر شدید زلزلے کے جھٹکے

افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں وجود اتوار 08 اکتوبر 2023
افغانستان میں زلزلے سے تباہی،اموات 2100 ہوگئیں

طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا
شخصیات
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے وجود اتوار 04 فروری 2024
معروف افسانہ نگار بانو قدسیہ کو مداحوں سے بچھڑے 7 سال بیت گئے

عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
معروف شاعرہ پروین شاکر کو دنیا سے رخصت ہوئے 29 برس بیت گئے
ادبیات
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے وجود منگل 26 دسمبر 2023
عہد ساز شاعر منیر نیازی کو دنیا چھوڑے 17 برس ہو گئے

سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر وجود پیر 04 دسمبر 2023
سولہویں عالمی اردو کانفرنس خوشگوار یادوں کے ساتھ اختتام پزیر

مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر