وجود

... loading ...

وجود

نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے

منگل 23 مئی 2023 نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے


آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے لاہور کا دورہ کیا جس کے دوران انھوں نے جناح ہاؤس کا بھی جائزہ لیا۔آرمی چیف نے کور ہیڈ کوارٹر میں افسران اور سپاہیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج عوام سے ہی اپنی قوت حاصل کرتی ہے اور دونوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کے خلاف عمل ہے جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔آرمی چیف نے کہا کہ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن دشمن کی ایسی کوششوں کو قوم کی مدد سے شکست دی جائے گی۔
ایسے اشتعال انگیز بلووں کا ایک فوری اقدام تو اس جلاؤ گھیراؤ میں براہ راست ملوث افراد کے خلاف ملکی آئین و قوانین کے تحت کارروائی ہوتی ہے،اور آرمی چیف کے مطابق اس عمل کا آغاز کیا جا چکاہے اور جو نوجوان جلاؤ گھیراؤ کے اس قابل مذمت کام میں براہ راست شریک تھے فوجی عدالتوں کے ذریعے انھیں آرمی چیف کے بیان کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں گی۔ایسے اشتعال انگیز بلووں میں شریک لوگوں کو سخت سزائیں دینے کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی جاسکتی لیکن ملک کی دائمی سلامتی اور استحکام کیلئے ایک ناگزیر عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہمہ جہت فکری تجزیاتی تحقیق یہ ہو کہ ہمارا جفاکش پاکستانی۔ دہشت گردی کا شکار نوجوان۔ غربت اور بے روزگاری کے تھپیڑے سہتا جواں سال پاکستانی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر میں ناکام رہتا پڑھا لکھا نوجوان اس انتہا کی طرف کیوں گیا ہے۔ اس کیلئے یقینا عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد سے گزشتہ ایک سال کی تقریروں پر بھی غور کرناہوگا،لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ عمران خان کی تندوتیز اور تلخ باتوں کو نوجوانوں نے اتنی جلدی قبول کیوں کیا اور 9 مئی کو ایسے شدید ردعمل کا اظہار کیوں کیا گیا جس کے بارے میں خود عمران خان نے بھی نہ سوچا ہوگا۔9 مئی کے واقعات کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ یک سال کی اکساہٹ یا جھنجھلاہٹ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ اس کے اسباب جاننے کے لئے ہمیں گزشتہ کم از کم 3 عشروں کے سول اور فوجی حکمرانوں کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔ 20 سے 40 سال تک کے یہ پاکستانی انہی ادوار میں پیدا ہوئے۔ پلے بڑھے۔ ان کے ماں باپ بھی پاکستانی ہیں۔ نہ جانے انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہوں گی۔ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھوں نے حق کا ساتھ دینے کے جرم میں کوڑوں کی سزا پائی اور قیدوبند کی سزائیں بھی کاٹیں،ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھیں ان کے اداروں کے دولت کے پجاری مالکان کو ہدایت دے کر ملازمتوں سے فارغ کیاگیا اور پھر ان پر باعزت روٹی کمانے کے تمام دروازے بند کردئے گئے اگر کوئی ادارہ انھیں ملازمت دینے کی جرات کرتا تو اس کے اشتہار بند کردیے جاتے اور انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں کے کھاتے کھول کر اسے اس صحافی کو فارغ کرنے پر مجبور کیا جاتاجو عزت کے ساتھ قلم کی مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتاتھا،ان میں ان کاشتکاروں کے بچے بھی شامل ہوں گے جن کے اناج سے بھرے گوداموں کو محض حکومت وقت کی مخالفت کی پاداش میں نذر آتش کرکے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کرلئے جاتے تھے،ظاہر ہے کہ یہ لاوا ایک دن میں نہیں پکا،وقت کرتاہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، ریاست کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ان غصے اور محرومیوں کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کے دلوں میں ابلتے ہوئے لاوے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے ان کی اصلاح کرے نہ کہ انہیں مستقل تخریب کار بنادیا جائے۔
پاک فوج نے گزشتہ کئی برس سے انتہاپسندی Deradicalisation کے خاتمے کا ایک بہت اچھا پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں جھانکا جائے، یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ان کے ذہنوں پر ابھی تک اپنے والد یادادا کو کوڑے لگائے جانے کے نقش تو موجود نہیں ہیں،ان نوجوانوں کے ذہن میں اپنے باپ یا دادا کو بلاوجہ بے روزگار کرانے جانے کے سبب گھر میں ہونے والے فاقوں کے اثرات ابھی تک موجود تو نہیں ہے،یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ نوجوان کسی ایک یا درجن بھر تقریروں سے اتنا متاثر کیوں ہوئے کہ انھیں کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ سب کچھ کرڈالا برسوں کی منصوبہ بندی کے باوجود عام حالات میں کوئی سیاسی جماعت اپنے کارکنوں سے جو نہیں کرواسکتی تھی یہ نوجوان ان مقامات کی طرف جانے پر کیوں آمادہ ہوئے۔ پھر ان محفوظ مقامات میں انہیں یہ اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی تحریک کیوں پیدا ہوئی،اور ایک ہنگامہ خیز صورت حال میں جب کچھ بھی ممکن تھا، اتنے اہم قومی اداروں اور تنصیبات کے تحفظ کے مناسب انتظات کرنے کے بجائے سرپھرے نوجوانوں کو ان تک پہنچنے کا کھلا راستہ کس حکمت عملی کے تحت فراہم کیا گیا۔پاک فوج نے ماضی میں بھی سرجریاں کی ہیں،کراچی میں ایم کیوایم کے کارکنوں کے خلاف بھی ایسی کارروائیاں کی جاچکی ہیں،بلوچستان میں بی ایل اے یعنی بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف بھی ایسے آپریشن کیے جاتے رہے ہیں لیکن حقائق واضح ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کارروائی کوئی بھی سرجری نہ صرف کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے جتھے اور گروپ پیدا ہوئے جو آج تک حکومت اور ریاست کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ اس لئے کامیاب نہیں رہیں کہ بیماری کی تشخیص بھرپور نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ 13رکنی حکومتی اتحاد کے رہنماؤں سے تو ایسی فکری کوشش کی توقع عبث ہے۔ کیونکہ ملک کا دائمی استحکام تو ان کی منزل ہی نہیں ہے،ان کی تمام تر توانائیاں اور کوششیں تو صرف اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو میدان سے باہر نکالا جائے،کیونکہ انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیاہے کہ عمران خان کے رہتے ہوئے انتخابات میں ان کا جیتنا محال ہی نہیں ناممکن ہے،یہی وجہ ہے کہ ان سب کی مشترکہ کوشش نظریہ ضرورت کے تحت عمران خان کو جسد سیاست سے باہر نکالنا اور تاحیات نااہلی کے بعد لندن فرار ہوجانے والے نواز شریف کو دوبارہ لاکر اپنی پسند کی حکومت بنانا ہے۔ ان کی ساری فکری توانائیاں اسی مقصد کیلئے وقف ہیں مگر ہمارے اداروں۔ علما،دانشوروں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں جن میں جماعت اسلامی شامل ہے کو معروضی انداز میں معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو روکنے والے کہاں تھے۔ آگ لگانے والے تو حرکت میں تھے۔ آگ بجھانے والے کہاں تھے۔ پولیس، ایمبولینس، ریسکیو، سب کدھر تھے۔فوری قانونی کارروائی اپنی جگہ ضرور کی جائے۔ لیکن اس
کے طویل المیعاد حل کیلئے سوچنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کیاجائے جس سے اس ملک کے نوجوانوں کے پہلے سے زخمی دل مزید زخمی ہوجائیں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں کے پھپولے پھوڑنے اور ان پر نمک مرچ چھڑکنے کے بجائے ان پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے،ان کو محبت سے اپنا بنانے کی کوشش کی جائے اور فوجی عدالتوں سے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔سوا ل یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اقتدار سرپھرے نوجوانوں کو سخت سزائیں دلواکر دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کے بجائے ان نوجوانوں کو اپنا گرویدہ اور ملک کیلئے ایک بوجھ اور مسلسل درد سر بنانے کے بجائے اپنا بنانے کی جانب توجہ دینے پر تیار ہوں گے؟


متعلقہ خبریں


نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود - بدھ 20 ستمبر 2023

٭جن کیسز میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اس میں ان کو حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی، قانون کے مطابق ان کیسز میں تب تک اپیل دائر نہیں ہو سکتی جب تک آپ جیل نہ جائیں٭وکلا عدالت میں درخواست دیں گے کہ نواز شریف جیل میں تھے اور عدالت نے علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے انہیں ملک سے باہر بھیج...

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی وجود - منگل 19 ستمبر 2023

   اخباری اطلاعات کے مطابق ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور ترسیل زر میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے  والے معمولی اضافے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر کو خاطر خواہ سہار ا نہیں مل سکا جبکہ ہماری برآمدی مسلسل روبہ زوال ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز حکومت کے دور میں ...

زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی

نیپرا کا عوام کش کردار وجود - جمعه 15 ستمبر 2023

بظاہر نیپرا کا ادارہ بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کی چیکنگ اور عوام کو ان کی زیادتیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کا کام ہی یہ تھا کہ وہ یہ چیک کرے کہ الیکٹرک سپلائی کرنے والی کمپنیاں عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی اور زیادتی تو نہیں کررہی ہیں لیکن نیپرا کی اب تک کی...

نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود - جمعرات 14 ستمبر 2023

وزارت خزانہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ ہونے کا عندیہ دیا ہے، وزارت خزانہ نے مہنگائی میں اضافے کا عندیہ ایک ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ مہنگائی سے بدحال عوام پہلے ہی سڑکوں پرہیں،حکومت نے پے درپے مہنگائی کرکے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، 90فیصد عوام مہنگائی کے سبب زندگ...

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

گیس کا خسارہ عوام کو منتقل کرنے کا جواز کیا ہے؟ وجود - بدھ 13 ستمبر 2023

اخباری ا طلاعات کے مطابق نگران حکومت نے گیس کے شعبے کے بڑھتے ہوئے سرکولر قرض اور نقصانات عوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ ہفتے گیس کی قیمت میں 50 فیصد سے زائد اضافہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق گیس سیکٹر کا سالانہ 350 ارب روپے کا نقصان اور گردشی قرضے2...

گیس کا خسارہ عوام کو منتقل کرنے کا جواز کیا ہے؟

کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافہ وجود - منگل 12 ستمبر 2023

اخباری اطلاعات کے مطابق مغربی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کینسر کا مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔ کینسر جدید طرزِ زندگی کا ایک بھیانک تحفہ ہے اور اطلاعات کے مطابق نوجوانوں پر اس کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ایک تحقیق کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے 30 سال می...

کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافہ

پاکستان کا ہربچہ 2 لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض وجود - اتوار 10 ستمبر 2023

اسٹیٹ بینک نے جولائی 2023 کے اختتام تک حکومت پاکستان کے قرض کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قرض رواں سال جولائی میں 907 ارب روپے بڑھا ہے۔ جولائی 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 61 ہزار 700 ارب روپے تھا۔ حکومت کا قرض ایک مہ...

پاکستان کا ہربچہ 2 لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض

بجلی کے ہوشربا بل: قومی بجٹ کا بڑا حصہ ہڑپ کرنے والی نجی پاؤر کمپنیوں کا کیا کردار ہے؟ وجود - جمعرات 07 ستمبر 2023

٭حکومت کے لیے ملکی دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد تیسری سب سے بڑی واجب الادا رقم آئی پی پیز کا بل ہے، اس سال دوکھرب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں٭یہ رقم اقتصادی بحران کے شکار ملک کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے، اسی کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضا...

بجلی کے ہوشربا بل: قومی بجٹ کا بڑا حصہ ہڑپ کرنے والی نجی پاؤر کمپنیوں کا کیا کردار ہے؟

خطرے کی گھنٹی مزید تیز، پیٹرول اور ڈالر 400 عبور کرسکتے ہیں!! وجود - پیر 04 ستمبر 2023

٭اگست میں حکومت نے پیٹرول لیوی کی آخری حد یعنی 60 روپے فی لیٹر عائد کر دی ہے، پچھلے 15 روز کی کمی پوری کی جائے گی، 15 ستمبر کو قیمت میں مزید اضافے کا امکان ہے٭حکومت سے ڈالر نہیں سنبھل رہا،حکومت مارکیٹ کو بھی کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہی، وزیراعظم کے بیان کے بعد اسٹاک ایکسچینج کریش...

خطرے کی گھنٹی مزید تیز، پیٹرول اور ڈالر 400 عبور کرسکتے ہیں!!

مہنگائی کے خلاف کامیاب ہڑتال، حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار وجود - پیر 04 ستمبر 2023

مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کے خلاف گزشتہ روز ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پرکراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ اور بسیں بھی معمول سے کم دیکھنے میں آئی۔ وکلا نے بھی ہڑتال کی حمایت ...

مہنگائی کے خلاف کامیاب ہڑتال، حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار

کالعدم تنظیموں کی افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں وجود - پیر 04 ستمبر 2023

گزشتہ چند دنوں کے دوران بلوچستان کے شہر پشین اور خیبر پختونخوا کے پشاور میں سیکورٹی فورسز سے مقابلوں میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 20 ایسے افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں جن کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ بدھ کو پشاور میں مار...

کالعدم تنظیموں کی افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں

نگراں وزیراعظم اس کھلی لاقانونیت کا نوٹس لیں وجود - اتوار 03 ستمبر 2023

     ہائی کورٹ نے گزشتہ روز سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الہٰی کو فوری طور پر رہا کرنے کا حکم دیتے ہوئے سختی کے ساتھ ہدایت کی تھی کہ کوئی اتھارٹی یا ادارہ انہیں دوبارہ گرفتار نہ کرے، عدالت نے پرویز الہٰی کو پولیس کی نگرانی میں گھر روانہ کیاتھا تاہم راستے میں انہیں دوبارہ گرفتار کر...

نگراں وزیراعظم اس کھلی لاقانونیت کا نوٹس لیں

مضامین
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ وجود جمعه 22 ستمبر 2023
محمود غزنوی اور سلطنت غزنویہ

بوڑھوں کا ملک وجود جمعه 22 ستمبر 2023
بوڑھوں کا ملک

چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
چیف جسٹس کے 404 دن اور عوام کے 56 ہزار مقدمے

احتساب کی چھلنی وجود جمعه 22 ستمبر 2023
احتساب کی چھلنی

نئے چیف جسٹس سے توقعات وجود جمعرات 21 ستمبر 2023
نئے چیف جسٹس سے توقعات

اشتہار

تجزیے
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود جمعرات 14 ستمبر 2023
مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

اشتہار

دین و تاریخ
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج

سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ وجود جمعه 01 ستمبر 2023
سُسرِ رسول سیدنا ابوسفیان رضی اللہ عنہ
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

علامہ دلاور سعیدی بھی سفاک بنگلہ دیشی حکومت کے جبر کا شکار ہوئے وجود اتوار 20 اگست 2023
علامہ دلاور سعیدی بھی سفاک بنگلہ دیشی حکومت کے جبر کا شکار ہوئے
ادبیات
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال

محتسب (عالمی ادب سے منتخب افسانہ) وجود پیر 10 جولائی 2023
محتسب  (عالمی ادب سے منتخب افسانہ)