وجود

... loading ...

وجود

نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے

منگل 23 مئی 2023 نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے


آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے کہا ہے کہ 9 مئی کے واقعات میں ملوث افراد کے خلاف آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق آرمی چیف نے لاہور کا دورہ کیا جس کے دوران انھوں نے جناح ہاؤس کا بھی جائزہ لیا۔آرمی چیف نے کور ہیڈ کوارٹر میں افسران اور سپاہیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 9 مئی کے واقعات کے منصوبہ سازوں، سہولت کاروں اور ملزمان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت مقدمات چلانے کے لیے قانونی عمل کا آغاز ہو چکا ہے۔اس موقع پر آرمی چیف کا کہنا تھا کہ فوج عوام سے ہی اپنی قوت حاصل کرتی ہے اور دونوں کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوئی بھی کوشش ریاست کے خلاف عمل ہے جسے کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔آرمی چیف نے کہا کہ جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا کے ذریعے کنفیوژن پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے لیکن دشمن کی ایسی کوششوں کو قوم کی مدد سے شکست دی جائے گی۔
ایسے اشتعال انگیز بلووں کا ایک فوری اقدام تو اس جلاؤ گھیراؤ میں براہ راست ملوث افراد کے خلاف ملکی آئین و قوانین کے تحت کارروائی ہوتی ہے،اور آرمی چیف کے مطابق اس عمل کا آغاز کیا جا چکاہے اور جو نوجوان جلاؤ گھیراؤ کے اس قابل مذمت کام میں براہ راست شریک تھے فوجی عدالتوں کے ذریعے انھیں آرمی چیف کے بیان کے مطابق سخت سزائیں دی جائیں گی۔ایسے اشتعال انگیز بلووں میں شریک لوگوں کو سخت سزائیں دینے کے فیصلے کی مخالفت نہیں کی جاسکتی لیکن ملک کی دائمی سلامتی اور استحکام کیلئے ایک ناگزیر عمل یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک ہمہ جہت فکری تجزیاتی تحقیق یہ ہو کہ ہمارا جفاکش پاکستانی۔ دہشت گردی کا شکار نوجوان۔ غربت اور بے روزگاری کے تھپیڑے سہتا جواں سال پاکستانی۔ اپنے خوابوں کی تعبیر میں ناکام رہتا پڑھا لکھا نوجوان اس انتہا کی طرف کیوں گیا ہے۔ اس کیلئے یقینا عمران خان کی اقتدار سے محرومی کے بعد سے گزشتہ ایک سال کی تقریروں پر بھی غور کرناہوگا،لیکن اس کے ساتھ اس بات پر بھی غور کرنا ہوگا کہ عمران خان کی تندوتیز اور تلخ باتوں کو نوجوانوں نے اتنی جلدی قبول کیوں کیا اور 9 مئی کو ایسے شدید ردعمل کا اظہار کیوں کیا گیا جس کے بارے میں خود عمران خان نے بھی نہ سوچا ہوگا۔9 مئی کے واقعات کی شدت کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ یک سال کی اکساہٹ یا جھنجھلاہٹ کا نتیجہ نہیں ہوسکتی۔ اس کے اسباب جاننے کے لئے ہمیں گزشتہ کم از کم 3 عشروں کے سول اور فوجی حکمرانوں کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا ہوگا۔ 20 سے 40 سال تک کے یہ پاکستانی انہی ادوار میں پیدا ہوئے۔ پلے بڑھے۔ ان کے ماں باپ بھی پاکستانی ہیں۔ نہ جانے انہوں نے کتنی قربانیاں دی ہوں گی۔ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھوں نے حق کا ساتھ دینے کے جرم میں کوڑوں کی سزا پائی اور قیدوبند کی سزائیں بھی کاٹیں،ان میں ان صحافیوں کے بچے بھی شامل ہوں گے جنھیں ان کے اداروں کے دولت کے پجاری مالکان کو ہدایت دے کر ملازمتوں سے فارغ کیاگیا اور پھر ان پر باعزت روٹی کمانے کے تمام دروازے بند کردئے گئے اگر کوئی ادارہ انھیں ملازمت دینے کی جرات کرتا تو اس کے اشتہار بند کردیے جاتے اور انکم ٹیکس اور دوسرے ٹیکسوں کے کھاتے کھول کر اسے اس صحافی کو فارغ کرنے پر مجبور کیا جاتاجو عزت کے ساتھ قلم کی مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالنا چاہتاتھا،ان میں ان کاشتکاروں کے بچے بھی شامل ہوں گے جن کے اناج سے بھرے گوداموں کو محض حکومت وقت کی مخالفت کی پاداش میں نذر آتش کرکے نامعلوم افراد کے خلاف مقدمات درج کرلئے جاتے تھے،ظاہر ہے کہ یہ لاوا ایک دن میں نہیں پکا،وقت کرتاہے پرورش برسوں،حادثہ ایک دم نہیں ہوتا، ریاست کی ذمہ داری تو یہ ہے کہ ان غصے اور محرومیوں کی آگ میں جلتے ہوئے نوجوانوں کے دلوں میں ابلتے ہوئے لاوے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرے ان کی اصلاح کرے نہ کہ انہیں مستقل تخریب کار بنادیا جائے۔
پاک فوج نے گزشتہ کئی برس سے انتہاپسندی Deradicalisation کے خاتمے کا ایک بہت اچھا پروگرام شروع کیا ہوا ہے۔ اس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے ذہنوں میں جھانکا جائے، یہ دیکھنے کی کوشش کی جائے کہ ان کے ذہنوں پر ابھی تک اپنے والد یادادا کو کوڑے لگائے جانے کے نقش تو موجود نہیں ہیں،ان نوجوانوں کے ذہن میں اپنے باپ یا دادا کو بلاوجہ بے روزگار کرانے جانے کے سبب گھر میں ہونے والے فاقوں کے اثرات ابھی تک موجود تو نہیں ہے،یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ نوجوان کسی ایک یا درجن بھر تقریروں سے اتنا متاثر کیوں ہوئے کہ انھیں کچھ سوچے سمجھے بغیر وہ سب کچھ کرڈالا برسوں کی منصوبہ بندی کے باوجود عام حالات میں کوئی سیاسی جماعت اپنے کارکنوں سے جو نہیں کرواسکتی تھی یہ نوجوان ان مقامات کی طرف جانے پر کیوں آمادہ ہوئے۔ پھر ان محفوظ مقامات میں انہیں یہ اشتعال انگیز کارروائیاں کرنے کی تحریک کیوں پیدا ہوئی،اور ایک ہنگامہ خیز صورت حال میں جب کچھ بھی ممکن تھا، اتنے اہم قومی اداروں اور تنصیبات کے تحفظ کے مناسب انتظات کرنے کے بجائے سرپھرے نوجوانوں کو ان تک پہنچنے کا کھلا راستہ کس حکمت عملی کے تحت فراہم کیا گیا۔پاک فوج نے ماضی میں بھی سرجریاں کی ہیں،کراچی میں ایم کیوایم کے کارکنوں کے خلاف بھی ایسی کارروائیاں کی جاچکی ہیں،بلوچستان میں بی ایل اے یعنی بلوچستان لبریشن آرمی کے خلاف بھی ایسے آپریشن کیے جاتے رہے ہیں لیکن حقائق واضح ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی کارروائی کوئی بھی سرجری نہ صرف کامیاب نہیں ہوئی بلکہ اس کے نتیجے میں ایسے جتھے اور گروپ پیدا ہوئے جو آج تک حکومت اور ریاست کیلئے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ ان ناکامیوں کے اسباب کا جائزہ لیا جائے تو ظاہر ہوتاہے کہ یہ اس لئے کامیاب نہیں رہیں کہ بیماری کی تشخیص بھرپور نہیں کی گئی تھی۔ موجودہ 13رکنی حکومتی اتحاد کے رہنماؤں سے تو ایسی فکری کوشش کی توقع عبث ہے۔ کیونکہ ملک کا دائمی استحکام تو ان کی منزل ہی نہیں ہے،ان کی تمام تر توانائیاں اور کوششیں تو صرف اس بات پر لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح عمران خان کو میدان سے باہر نکالا جائے،کیونکہ انھوں نے نوشتہ دیوار پڑھ لیاہے کہ عمران خان کے رہتے ہوئے انتخابات میں ان کا جیتنا محال ہی نہیں ناممکن ہے،یہی وجہ ہے کہ ان سب کی مشترکہ کوشش نظریہ ضرورت کے تحت عمران خان کو جسد سیاست سے باہر نکالنا اور تاحیات نااہلی کے بعد لندن فرار ہوجانے والے نواز شریف کو دوبارہ لاکر اپنی پسند کی حکومت بنانا ہے۔ ان کی ساری فکری توانائیاں اسی مقصد کیلئے وقف ہیں مگر ہمارے اداروں۔ علما،دانشوروں اور دوسری سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں جن میں جماعت اسلامی شامل ہے کو معروضی انداز میں معاملے کی تہہ تک پہنچنا چاہئے کہ ایسا کیوں ہوا۔ جب یہ سب کچھ ہورہا تھا تو روکنے والے کہاں تھے۔ آگ لگانے والے تو حرکت میں تھے۔ آگ بجھانے والے کہاں تھے۔ پولیس، ایمبولینس، ریسکیو، سب کدھر تھے۔فوری قانونی کارروائی اپنی جگہ ضرور کی جائے۔ لیکن اس
کے طویل المیعاد حل کیلئے سوچنا بھی وقت کی ضرورت ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ کسی بھی ایسی کارروائی سے گریز کیاجائے جس سے اس ملک کے نوجوانوں کے پہلے سے زخمی دل مزید زخمی ہوجائیں ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوانوں کے دلوں کے پھپولے پھوڑنے اور ان پر نمک مرچ چھڑکنے کے بجائے ان پر مرہم رکھنے کی کوشش کی جائے،ان کو محبت سے اپنا بنانے کی کوشش کی جائے اور فوجی عدالتوں سے ایسا ممکن نہیں ہوسکتا۔سوا ل یہ ہے کہ کیا ہمارے ارباب اقتدار سرپھرے نوجوانوں کو سخت سزائیں دلواکر دل ٹھنڈا کرنے کی کوشش کے بجائے ان نوجوانوں کو اپنا گرویدہ اور ملک کیلئے ایک بوجھ اور مسلسل درد سر بنانے کے بجائے اپنا بنانے کی جانب توجہ دینے پر تیار ہوں گے؟


متعلقہ خبریں


کراچی میں میئرشپ کی دوڑ وجود - منگل 23 مئی 2023

کراچی میں بلدیاتی انتخابات کی بمشکل تمام اختتام کے بعد الیکشن کمیشن نے اب مخصوص نشستوں پر پارٹیوں کے کوٹے کے اعلان کو التوا میں ڈال کر میئر کے انتخاب اور کراچی کے مختلف حلقوں سے عوام کے ووٹ لے کرمنتخب ہونے والے کونسلروں کو اختیارات دینے کاراستہ بند کیاہوا ہے،الیکشن کمیشن کی جانب ...

کراچی میں میئرشپ کی دوڑ

قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی وجود - پیر 22 مئی 2023

پاکستان تحریک انصاف کے وکیل سینیٹر بیرسٹر علی ظفر نے لاہور ہائیکورٹ کی جانب سے پی ٹی آئی کے 72 ارکان قومی اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کا نوٹیفکیشن کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا ہے۔لاہور میں میڈیا سے گفتگو میں بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تاریخی ...

قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی

عمران خان کی گرفتاری: حکومت،اپوزیشن دونوں کو تحمل سے کام لینا چاہئے وجود - جمعرات 11 مئی 2023

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کو ایک روحانی اور صوفی ازم پر یونیورسٹی قائم کرنے کے الزام میں گرفتاری کے بعدپورے ملک میں شدید ہنگامہ آرائی جاری ہے،صورت حال کے بارے میں جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق شہر میں کسی بھی مقام پر تحریک انصاف کے کسی سطح کے قائدین نظر نہیں آئے جس ک...

عمران خان کی گرفتاری: حکومت،اپوزیشن دونوں کو تحمل سے کام لینا چاہئے

وزیر خارجہ چین کا مشورہ نظرانداز نہ کریں! وجود - منگل 09 مئی 2023

چین کے وزیر خارجہ چن گانگ نے گزشتہ روز پاکستان کو چین کی جانب سے غیر مشروط حمایت کا یقین دلاتے ہوئے پاکستان حکام کو تلقین کہ پاکستان میں سیاسی اتفاق رائے ضروری ہے، سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں تاکہ پاکستان معاشی اور داخلی سطح پر ہمارے ساتھ آگے بڑھ سکے ہر معاملے پر آ...

وزیر خارجہ چین کا مشورہ نظرانداز نہ کریں!

عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت وجود - منگل 09 مئی 2023

انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز (آئی پی ایس) میں گزشتہ روز ہونے والی ایک تقریب میں قانونی ماہرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ امریکی قید میں پاکستانی شہری ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کا معاملہ جتنی سیاسی جنگ ہے اتنی ہی قانونی جنگ ہے، قانونی راستے تلاش کرنے کے علاوہ، حکومت پاکستان کو ڈاکٹر عافیہ کی...

عافیہ صدیقی کی رہائی کے لیے سنجیدہ کوششوں کی ضرورت

انتخابات کے انعقاد کا مقدمہ وجود - اتوار 07 مئی 2023

سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، انتخابات والے فیصلے پر نظرِ ثانی کا وقت اب گزر چکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کے س...

انتخابات کے انعقاد کا مقدمہ

عافیہ صدیقی کو واپس لانا کس کی ذمہ داری ہے؟ وجود - هفته 06 مئی 2023

انسانی حقوق کے نامور اور ڈاکٹر عافیہ صدیقی کیس کے وکیل کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ نے کہا ہے کہ وہ ہ عافیہ صدیقی کو وطن واپس لانے کے لیے پاکستان میں موجود ہیں۔کراچی سٹی کورٹ میں بار ایسوسی ایشن جناح آڈیٹوریم میں وکلا سے خطاب کرتے ہوئے کلائیو اسٹفورڈ اسمتھ نے اپنے ملک کی غلطیوں کے لیے مع...

عافیہ صدیقی کو واپس لانا کس کی ذمہ داری ہے؟

وزیر خارجہ کا دورہ بھارت، امریکا بھارت خوش بلاول بھی خوش!! وجود - هفته 06 مئی 2023

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت پہنچ چکے ہیں، ایس سی او کے اس اجلا میں روس، چین، بھارت اور پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا کے 4 ممالک قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔ گوا کے اس اہم اجلاس میں روس کے وزیر خارج...

وزیر خارجہ کا دورہ بھارت، امریکا بھارت خوش بلاول بھی خوش!!

اسلام نے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا وجود - پیر 01 مئی 2023

آج مئی کا پہلا دن ہے،آج مزدوروں کا دن ہے۔دنیا بھر میں ’ہر سال یکم مئی ’یوم مزدور‘ کے طور پر منایا جاتا ہے اس کی ابتدا 1886 سے امریکہ کے شہر شکاگو سے ہوئی۔ اس دن بہت سے ممالک میں شکاگو میں ہلاک ہونے والے مزدوروں کو خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ مزدوروں کی فلاح و بہبود اور ان کے...

اسلام نے مزدوروں کے حقوق کا تحفظ کیا

مذاکرات کا نتیجہ وجود - اتوار 30 اپریل 2023

چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا ہے کہ انتخابات کے لیے مذاکرات کرنے پر تیارہیں،لیکن اگر حکومت فوری اسمبلی توڑ کر الیکشن کرانا چاہتی ہے تو ہی بات کریں گے، اگر وہ دوبارہ وہی ستمبر اکتوبر کی بات کرتے ہیں تو کوئی ضر...

مذاکرات کا نتیجہ

اسحاق ڈار کی خوش خبری اور آئی ایم ایف وجود - منگل 25 اپریل 2023

وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان اسٹاف لیول معاہدے کی تمام شرائط پوری ہوگئی ہیں۔ایک نجی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کو 2 ارب ڈالر دینے کی تصدیق کی گئی ہے۔اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور یو اے ای...

اسحاق ڈار کی خوش خبری اور آئی ایم ایف

چیف جسٹس کے خلاف محاذ آرائی وجود - پیر 10 اپریل 2023

پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللہ کا تفصیلی نوٹ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، میں اس بینچ کا حصہ تھا، 27 فروری کو ججوں کے ”ٹی روم“ میں اتفاق رائے ہواتھا میں بینچ میں بیٹھوں گا،...

چیف جسٹس کے خلاف محاذ آرائی

مضامین
امن دستوں کا عالمی دن وجود منگل 30 مئی 2023
امن دستوں کا عالمی دن

محسنوں کو خراج عقیدت وجود منگل 30 مئی 2023
محسنوں کو خراج عقیدت

الحمرا آرٹ کونسل اور لوٹ سیل وجود منگل 30 مئی 2023
الحمرا آرٹ کونسل اور لوٹ سیل

عمرانی انقلاب کی ناکامی وجود پیر 29 مئی 2023
عمرانی انقلاب کی ناکامی

بخشش کا بہانہ وجود پیر 29 مئی 2023
بخشش کا بہانہ

اشتہار

تجزیے
نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے وجود منگل 23 مئی 2023
نوجوانوں کو کڑی سزاؤں کی نہیں محبت کی ضرورت ہے

کراچی میں میئرشپ کی دوڑ وجود منگل 23 مئی 2023
کراچی میں میئرشپ کی دوڑ

قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی وجود پیر 22 مئی 2023
قومی اسمبلی میں مذاکرات کی راہ ہموار ہوگئی

اشتہار

دین و تاریخ
پڑوسیوں کے حقوق شریعت اسلام کی نظر میں وجود جمعرات 11 مئی 2023
پڑوسیوں کے حقوق شریعت اسلام کی نظر میں

غزوہ احد، پس منظر، حقائق اور نتائج وجود جمعه 05 مئی 2023
غزوہ احد، پس منظر، حقائق اور نتائج
تہذیبی جنگ
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے

توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا وجود هفته 04 فروری 2023
توہین آمیز مواد نہ ہٹانے پر وکی پیڈیا بلاک کر دیا گیا

برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی وجود بدھ 01 فروری 2023
برطانوی رکن پارلیمنٹ کی پاکستانیوں سے متعلق بیان پر معافی
بھارت
بھارت میں تمام 62 کنٹونمنٹ بورڈ ختم کرنے کا اعلان وجود بدھ 03 مئی 2023
بھارت میں تمام 62 کنٹونمنٹ بورڈ ختم کرنے کا اعلان

بھارت جی ٹوئنٹی اجلاس کی ممکنہ ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا وجود جمعه 21 اپریل 2023
بھارت جی ٹوئنٹی اجلاس کی ممکنہ ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کرنے لگا

اترپردیش میں 76 فیصد طلباء کا کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا ہونے کا انکشاف وجود جمعه 07 اپریل 2023
اترپردیش میں 76 فیصد طلباء کا کسی نہ کسی عارضے میں مبتلا  ہونے کا انکشاف

راہول گاندھی کی نا اہلی، کانگریس پارٹی کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان وجود هفته 25 مارچ 2023
راہول گاندھی کی نا اہلی، کانگریس پارٹی کا قانونی جنگ لڑنے کا اعلان
افغانستان
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک وجود جمعرات 23 فروری 2023
افغان صوبہ کنڑ میں فائرنگ، کالعدم ٹی ٹی پی کمانڈر نور سعید محسود ہلاک

طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید وجود هفته 18 فروری 2023
طالبان قیادت میں غیر معمولی اختلافات، وزیرداخلہ سراج الدین حقانی کی اعلی قیادت پر تنقید

سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا وجود پیر 06 فروری 2023
سعودیہ کے بعد امارات نے بھی افغانستان میں سفارت خانہ بند کر دیا
شخصیات
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے وجود اتوار 12 مارچ 2023
انقلابی شاعر حبیب جالب کو ہم سے بچھڑے 30 برس بیت گئے

جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے وجود جمعه 17 فروری 2023
جسٹس (ر) ملک محمد قیوم انتقال کر گئے

معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے وجود پیر 13 فروری 2023
معروف ہدایت کار، اداکار اور ٹی وی میزبان ضیاء محی الدین انتقال کر گئے
ادبیات
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت وجود جمعرات 12 جنوری 2023
اردو کے ممتاز شاعر احمد فراز کا یوم ولادت

کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد وجود هفته 26 نومبر 2022
کراچی میں دو روزہ ادبی میلے کا انعقاد

مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع کردار پرنئی کتاب شائع وجود هفته 23 اپریل 2022
مسجد حرام کی تعمیر میں ترکوں کے متنازع  کردار پرنئی کتاب شائع