... loading ...
سپریم کورٹ میں ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ کرانے کے کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا ہے کہ مذاکرات ناکام ہوئے تو اپنے فیصلے پر عمل درآمد کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، انتخابات والے فیصلے پر نظرِ ثانی کا وقت اب گزر چکا۔چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عوامی اہمیت کے ساتھ آئین پر عمل داری کا معاملہ ہے، 90 دن میں انتخابات کرانے پر عدالت فیصلہ دے چکی ہے،مذاکرات ناکام ہوئے تو عدالت 14 مئی کے فیصلے کو لے کر بیٹھی نہیں رہے گی، آئین کے مطابق اپنے فیصلے پر عمل کرانے کے لیے آئین استعمال کر سکتے ہیں، عدالت اپنا فریضہ انجام دے رہی ہے۔ چیف جسٹس نے خیال ظاہر کیا کہ ایسا معلوم ہوتاہے کہ حکومت قانون میں نہیں سیاست میں دلچسپی دکھا رہی ہے، ہم نے آئین کے تحفظ کا حلف لیا ہوا ہے، 6 فوجی جوان ہم نے گزشتہ روز کھو دیے، یہ ہمارا بہت بڑا نقصان ہے، ملک کی خاطر بہت بڑی قربانیاں دی جا رہی ہیں۔معاشی حالات کے علاوہ ہمیں آج سیکورٹی کا اہم مسئلہ بھی درپیش ہے، اگر سیاست دانوں کو اپنے حال پر چھوڑ دیں تو آئین کہاں جائے گا؟ سپریم کورٹ میں الیکشن کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران ھکومت نے مذاکرات کے لیے سپریم کورٹ سے مزید وقت مانگ لیا اور عدالتِ عظمیٰ سے انتخابات سے متعلق کوئی ڈائریکشن نہ دینے کی بھی استدعا کی چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا کسی قسم کی کوئی ہدایت کا ارادہ نہیں،ہم مذاکرات میں مداخلت نہیں کریں گے نہ کوئی ہدایات دیں گے،، مذاکرات کرنے ہیں تو آغاز کر دیا جائے، مذاکرات نہ ہوئے تو ایک دو روز بعد اس معاملے کو دیکھ لیں گے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل نے رات کو درخواست تیار کی جس کو نمبر لگائے بغیر ہم سن رہے ہیں، ہم اس معاملے میں صرف سہولت کاری کرنا چاہتے ہیں، ایک ہی روز انتخابات کی تاریخ پر اتفاقِ رائے ہونا چاہیے۔
سپریم کورٹ انتخابات کے حوالے سے مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کے ان ریمارکس سے ظاہر ہوتاہے کہ چیف جسٹس ملک کو موجودہ سیاسی بحران سے کسی نہ کسی طوربحفاظت نکالنے کے خواہاں ہیں لیکن جیسا کہ چیف جسٹس نے خیال ظاہر کیا ہے نظر بظاہر حکومت انتخابات کو کسی نہ کسی طورپر ٹالنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اپنے اس مقصد کی تکمیل کیلئے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہے۔حکومت اور عدلیہ کے درمیان یہ اختلافات اپنی نوعیت کے نئے نہیں ہیں،مسلم لیگ ن کی پوری تاریخ عدلیہ اور فوج سے محاذ آرائی پر مبنی ہے،مسلم لیگ کے قائد نواز شریف نے اپنے سابقہ دور میں عدلیہ کو بے وقعت کرنے کیلئے جو کھیل کھیلے اور عدلیہ کو دباؤ میں لانے کیلئے عدالت عظمیٰ پر جس طرح حملہ کرکے توڑ پھوڑ مچائی تھی وہ ابھی لوگوں کے ذہن میں محفوظ ہے اور ان کے اثرات کی بازگشت آج تک ایوانوں میں سنائی دیتی ہے۔پاکستان کی قومی اسمبلی سے آج کل بھی جس قسم کے بیانات اور اقدامات سامنے آ رہے ہیں ان کے بعد عدلیہ اور پارلیمان کے درمیان ایک غیر معمولی محاذ آرائی کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں رہا۔سوال یہ ہے کہ صرف ایک سال قبل اسی سپریم کورٹ کے حکم نے جب موجودہ قومی اسمبلی کو تحلیل ہونے سے بچایا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی اور پی ڈی ایم برسراقتدار آئی اس وقت رات گئے عدالت لگانے کے چیف جسٹس کے فیصلے کو آئین کے عین مطابق قرار دیاگیاتھا،لیکن اب قومی اسمبلی میں چیف جسٹس کو طلب کرنے کے مطالبے کیے جا رہے ہیں۔اس وقت عام آدمی کے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہاہے کہ پارلیمان اور عدلیہ کی اس لڑائی میں اگلہ مرحلہ کیا ہو گا اور کیا سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے مطالبے کے مطابق قومی اسمبلی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ چیف جسٹس کو طلب کر سکے۔چیف جسٹس کو قومی اسمبلی میں بلانے کامطالبہ کرنے والے شاہد خاقان عباسی کو یہ معلوم نہیں رہے کہ آئین پاکستان کے آرٹیکل 68 کے مطابق پاکستان کی مجلس شوری یعنی پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے ججوں پر فرائض کی ادائیگی کے دوران ان کے کنڈکٹ پر بحث کی ممانعت ہے۔ آئین میں اداروں کے اختیارات کو طے کر دیا گیا، جس کے تحت ایگزیکٹیو، پارلیمان اور عدلیہ کا اپنا اپنا کردار ہے۔آئین میں ایسی کوئی چیز نہیں لکھی جو پارلیمان کو یہ اختیار دیتی ہو کہ وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو طلب کر سکے۔دراصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت الیکشن نہیں کروانا چاہتی اور یہ سب کچھ اسی لیے کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کو روکا جائے۔ تاہم اس کھینچاتانی اور حکومت کی جانب سے پارلیمنٹ کو سپرکورٹ کے مد مقابل کھڑا کرنے کی کوششوں سے اب اس بات کا خدشہ بڑھ گیاہے کہ سپریم کورٹ وزیر اعظم یا کابینہ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کر سکتی ہے اور اسی لیے قومی اسمبلی اپنی طاقت دکھا رہی ہے دراصل حکومت عدالت کو باور کرانا چاہتی ہے کہ ہم چپ نہیں رہیں گے۔
فی الوقت درحقیقت پاکستان اپنے وجود کی جنگ لڑ رہا ہے۔ اس بھنور سے نکلنے کے لیے پاکستان کا سیاسی نظام تبدیل کرنے کی ضرورت ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ازسرِ نو آئینی اصلاحات کمیشن بنا کر عوامی مفاد کے تحت ترمیم کر کے ملک میں ایسا انتخابی نظام وضع کیا جائے جس سے ملک میں استحکام پیدا ہونے کے اثرات سامنے آئیں اور انتخابی نتائج کو تمام اسٹیک ہولڈرز تسلیم کر یں تاکہ ملک میں مضبوط سیاسی حکومت تشکیل دی جائے۔الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تشکیل کے لیے ایسا طریقہ وضع کیا جائے کہ کسی بھی جماعت کی طرف سے تحفظات کا اظہار نہ کیا جائے لیکن یہ سب کچھ بھی عام انتخابات کے بعد وجود میں آنے والی حکومت ہی آئین میں ضروری ترامیم کے بعد کرسکتی ہے۔ ملک میں صاف گو، جاندار اور باوقار شخصیت کا فقدان نہیں ہے، صرف نیک نیتی اور سیاسی مفادات سے بالاتر ہو کر فیصلہ کرنا ہوگا۔پاکستان کے انتخابی نظام نے سوائے بدعنوانی، قرضے معاف کروانے اور بیرونِ ممالک اثاثے بنانے کے قوم کو کچھ نہیں دیا۔ اس آئین شکنی کا خمیازہ قوم بھگت رہی ہے۔ملک میں سیاسی انتشار نہایت تشویش ناک ہے۔ معاشی استحکام اور عوام کی فلاح کے لیے سیاسی استحکام لازمی ہے۔ اتحادی حکومت اور معزول حکومت کے درمیان مذاکرات کا فیصلہ ایسے ماحول میں سامنے آیا تھا جب حکومت اور حزب اختلاف میں خلیج بہت بڑھ گئی تھی، دونوں طرف سے آگ اُگلتے بیانات دیے جارہے تھے۔ یہ منظرنامہ اب بھی موجود ہے، اس کے باوجود حکومت اور حزب اختلاف دونوں نے نہ صرف مذاکراتی ٹیم کا تعین کیا بلکہ مذاکراتی عمل بھی شروع ہوگیا۔ اسی دوران میں عدالت عظمیٰ میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ایک دن اور ایک تاریخ کا مقدمہ بھی آگیا جبکہ 14 مئی کو پنجاب اسمبلی کے انتخابات کرانے کا عدالت عظمیٰ کا فیصلہ موجود ہے، جس پر عملدرآمد نہیں ہوسکا ہے۔اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذاکرات کو کامیاب بنانے کی کوشش کرتے لیکن صورت حال اس کے قطعی برعکس نظر آرہی ہے۔حکومتی جماعت کے رہنما جس طرح کے بیانات دے رہے ہیں، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اصولی طورپر آئین کے تحت پارلیمان کو قانون ساز ادارہ ہونے کی حیثیت سے تمام اداروں پر فوقیت حاصل ہے، لیکن پارلیمان منتخب سیاست دانوں سے بنتی ہے۔ لیکن فی الوقت ایسا معلوم ہوتاہے کہ سیاست دانوں کی اکثریت زندگی کا کوئی اعلیٰ مقصد نہیں رکھتی۔ بدعنوانی، مفاد پرستی، ہوس دولت و اقتدار روایتی سیاست دانوں کی پہچان بن گیا ہے۔ اس لیے پارلیمان کی بالادستی کے دعوے کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں ہیں۔ اس کے باوجود قومی زندگی کی اصلاح کی اصل ذمے داری سیاست دانوں پر عائد ہوتی ہے۔ ملک اس وقت جس آئینی، سیاسی اور معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے اس سے نکالنے کے لیے سیاست دانوں کو آپس میں بامعنی اور نتیجہ خیز مذاکرات کرنے ہوں گے۔ نئے انتخابات کی تاریخ پر اتفاق رائے کے بغیر موجودہ سیاسی تعطل کا کوئی حل نہیں ہے۔ سیاسی افراتفری اور انتشار کے ہوتے ہوئے معیشت ٹھیک نہیں ہوسکتی۔ قوم کو موجودہ ہیجانی کیفیت اور سیاسی بحران سے نکالنے کا واحد راستہ قومی انتخابات ہیں۔ لیکن کیا پاکستان کے سیاست دان تدبر اور بصیرت کا مظاہرہ کریں گے۔ کیا سیاسی جماعتوں میں کوئی اجتماعی دانش موجود ہے۔
ایک غیرجانبدار سروے رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران سفید پوش طبقے کے مزید 9فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں،اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے مسلسل پیٹرول بم گرانا معمول بن گیا ہے جس سے مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے لوگ زندہ رہنے ک...
٭جن کیسز میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اس میں ان کو حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی، قانون کے مطابق ان کیسز میں تب تک اپیل دائر نہیں ہو سکتی جب تک آپ جیل نہ جائیں٭وکلا عدالت میں درخواست دیں گے کہ نواز شریف جیل میں تھے اور عدالت نے علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے انہیں ملک سے باہر بھیج...
اخباری اطلاعات کے مطابق ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور ترسیل زر میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے معمولی اضافے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر کو خاطر خواہ سہار ا نہیں مل سکا جبکہ ہماری برآمدی مسلسل روبہ زوال ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز حکومت کے دور میں ...
بظاہر نیپرا کا ادارہ بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کی چیکنگ اور عوام کو ان کی زیادتیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کا کام ہی یہ تھا کہ وہ یہ چیک کرے کہ الیکٹرک سپلائی کرنے والی کمپنیاں عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی اور زیادتی تو نہیں کررہی ہیں لیکن نیپرا کی اب تک کی...
وزارت خزانہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ ہونے کا عندیہ دیا ہے، وزارت خزانہ نے مہنگائی میں اضافے کا عندیہ ایک ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ مہنگائی سے بدحال عوام پہلے ہی سڑکوں پرہیں،حکومت نے پے درپے مہنگائی کرکے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، 90فیصد عوام مہنگائی کے سبب زندگ...
اخباری ا طلاعات کے مطابق نگران حکومت نے گیس کے شعبے کے بڑھتے ہوئے سرکولر قرض اور نقصانات عوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ ہفتے گیس کی قیمت میں 50 فیصد سے زائد اضافہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق گیس سیکٹر کا سالانہ 350 ارب روپے کا نقصان اور گردشی قرضے2...
اخباری اطلاعات کے مطابق مغربی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کینسر کا مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔ کینسر جدید طرزِ زندگی کا ایک بھیانک تحفہ ہے اور اطلاعات کے مطابق نوجوانوں پر اس کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ایک تحقیق کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے 30 سال می...
اسٹیٹ بینک نے جولائی 2023 کے اختتام تک حکومت پاکستان کے قرض کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قرض رواں سال جولائی میں 907 ارب روپے بڑھا ہے۔ جولائی 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 61 ہزار 700 ارب روپے تھا۔ حکومت کا قرض ایک مہ...
٭حکومت کے لیے ملکی دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد تیسری سب سے بڑی واجب الادا رقم آئی پی پیز کا بل ہے، اس سال دوکھرب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں٭یہ رقم اقتصادی بحران کے شکار ملک کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے، اسی کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضا...
٭اگست میں حکومت نے پیٹرول لیوی کی آخری حد یعنی 60 روپے فی لیٹر عائد کر دی ہے، پچھلے 15 روز کی کمی پوری کی جائے گی، 15 ستمبر کو قیمت میں مزید اضافے کا امکان ہے٭حکومت سے ڈالر نہیں سنبھل رہا،حکومت مارکیٹ کو بھی کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہی، وزیراعظم کے بیان کے بعد اسٹاک ایکسچینج کریش...
مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کے خلاف گزشتہ روز ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پرکراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ اور بسیں بھی معمول سے کم دیکھنے میں آئی۔ وکلا نے بھی ہڑتال کی حمایت ...
گزشتہ چند دنوں کے دوران بلوچستان کے شہر پشین اور خیبر پختونخوا کے پشاور میں سیکورٹی فورسز سے مقابلوں میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 20 ایسے افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں جن کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ بدھ کو پشاور میں مار...