وجود

... loading ...

وجود
وجود

وزیر خارجہ کا دورہ بھارت، امریکا بھارت خوش بلاول بھی خوش!!

هفته 06 مئی 2023 وزیر خارجہ کا دورہ بھارت، امریکا بھارت خوش بلاول بھی خوش!!

پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول زرداری شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارت پہنچ چکے ہیں، ایس سی او کے اس اجلا میں روس، چین، بھارت اور پاکستان کے علاوہ وسطی ایشیا کے 4 ممالک قازقستان، کرغزستان، تاجکستان اور ازبکستان بھی شامل ہیں۔ گوا کے اس اہم اجلاس میں روس کے وزیر خارجہ سرگئی لارؤف اور چین کے وزیر خارجہ کین گانگ شریک ہو رہے ہیں، 12 سال بعد یہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ کا بھارت کا دورہ ہو گا جو ایسے وقت میں ہونے جا رہا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان باہمی تعلقات متعدد متنازع امور کے باعث سرد مہری کا شکار ہیں۔بلاول بھٹو زرداری کی آمد سے کچھ دن قبل انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں پونچھ کے علاقے میں بھارتی سیکورٹی فورسز پر دہشت گردانہ حملے سے دونوں ملکوں کے درمیان پہلے سے ہی سرد فضا اور بھی خراب ہو گئی ہے۔ باہمی تعلقات کے موجودہ تناظر میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تمام تر منفی پہلوؤں کے باوجود بلاول کا بھارت کا دورہ علاقائی تعاون کے تناظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔بلاول زرداری کی آمد سے قبل بھارتی میڈیا میں اس بارے میں بھی بحث ہوئی کہ اس اجلاس کے دوران ان کی بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے باہمی نوعیت کی ملاقات ہو گی یا نہیں۔ ایس جے شنکر نے بلاول سے ملاقات کے بارے میں سوال پر دوٹوک جواب دیا کہ ’پڑوسی ملک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ دہشت گردی اور مذاکرات ساتھ نہیں چل سکتے۔جس سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ بھارت پاکستان کے ساتھ کسی قسم کے مذاکرات کیلئے قطعی تیار نہیں ہے۔پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے ہفتہ وار بریفنگ میں دعویٰ کیا تھا کہ بلاول زرداری بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کی دعوت پر ایس سی او کی وزرائے خارجہ کی میٹنگ میں شریک ہو رہے ہیں اور اس اجلاس میں شرکت ایس سی او کے چارٹر اور عمل کے تئیں پاکستان کا عزم اور اس کی خارجہ پالیسی میں خطے کو دی جانے والی اہمیت کا ثبوت ہے۔گزشتہ ہفتے بھارت کی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’ہم نے سب ہی وزرائے خارجہ کو اس میٹنگ میں شرکت کی دعوت دی ہے۔ ہماری کوشش یہی ہے کہ یہ میٹنگ کامیاب ہو۔بھارت اور پاکستان کے درمیان دہشت گردی کے سوال پر تعلقات کئی برس سے کشیدہ ہیں۔ بھارت شدت پسندی کی کئی بڑی کارروائیوں کے لیے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 ختم کیے جانے کے بعد پاک بھارت تعلقات مزید خراب ہوئے۔پلوامہ حملہ اور اس کے بعد بھارت کی جانب سے بالاکوٹ پر فضائی کارروائی اور اس کے جواب میں پاکستان کا فضائی حملہ اور بھارتی پائلٹ کی گرفتاری کا معاملہ بھی ابھی تک دونوں ممالک کے تعلقات میں زیادہ پرانا نہیں ہو ا۔ پاکستان نے مقبوضہ کشمیر کی پرانی حیثیت بحال ہونے تک بھارت سے کسی طرح کی بات چیت نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا اور تجارتی تعلقات ختم کر دیے تھے جس کے بعد دونوں ملکوں کے ہائی کمشنر میں بھی سفارتی عملہ برائے نام رہ گیا ہے۔ایسے حالات میں بھی بھارت کے معروف دانشور سدھیندر کلکرنی بات چیت پر زور دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کوئی بھی مسئلہ بالآخر مذاکرات سے ہی حل ہونا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ پڑوسیوں میں بات چیت کبھی بند نہیں ہونی چاہیے۔انھوں نے یہ تجویز بھی دی تھی کہ بھارت وزیر خارجہ کو چاہیے کہ گوا کے ساحل پر بلاول کے ساتھ دوستانہ ماحول میں بات چیت کریں تاہم بھارتی وزیر خارجہ نے ان کی یہ تجویز ردی کی ٹوکری میں پھینکنے میں ذرا بھی توقف نہیں کیا،اس سے ظاہر ہے اگر بھارت کے وزیر خارجہ نے بلاول سے ہاتھ ملا کر ان سے بات کربھی لی تو یہ ایک رسمی ملاقات سے زیادہ کچھ نہیں ہوگی، معروف دفاعی تجزیہ کار وں کا بھی خیال ہے کہ بلاول اور جے شنکر کے درمیان کسی باہمی بات چیت کی توقع نہیں کی جا سکتی۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ اس وقت بھارت میں انتخابات کی فضا ہے۔ حکمراں جماعت یہ نہیں چاہے گی کہ پاکستان کے خلاف ملک میں جو سخت بیانیہ بنایا گیا ہے اس میں کسی نرمی کا اشارہ ملے،تاہم تجزیہ کاروں کی اکثریت اس بات پر متفق ہے کہ تمام تر منفی پہلوؤں کے باوجود بلاول کا یہ دورہ علاقائی تعاون کے تناظر میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔کیونکہ شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے اور اس کانفرنس میں بلاول کی شرکت سے دنیا کو یہ پیغام جائے گا کہ پاکستان بھارت سمیت ہر ایک کے ساتھ تعلقات استوار کرنا چاہتاہے۔ دنیا کے بدلتے ہوئے پس منظر اور توازن میں یہ بات اہم ہے کہ دو بڑی طاقتیں روس اور چین اس گروپ کا محور ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ رکن ممالک کے متضاد مفادات اور باہمی اختلافات کے باوجود یہ گروپ مضبوط ہو رہا ہے۔ یہ حقیقت اس فورم کی اہمیت کی عکاس ہے کہ بھارت، پاکستان اور چین جیسے ممالک اپنے باہمی ٹکراؤ اور اختلافات کو پس پشت رکھ کر اس فورم کے تحت پرعزم ہیں۔ایران کے بعد بیلاروس، ترکی، افغانستان جیسے متعدد ممالک اس کی رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں لیکن اس وقت بھارتی میڈیا کی ساری توجہ ایس سی او اجلاس کے دوران بلاول زرداری پر مرکوز رہے گی۔اطلاعات کے مطابق بڑی تعداد میں بھارتی صحافیوں اور ٹی وی چینلوں نے ان سے انٹرویو کے لیے پاکستان ہائی کمیشن کے شعبہ نشرواشاعت سے درخواست کی ہے۔ جس کا ایجنڈا ’محفوظ ایس سی او‘ ہے۔ دو روزہ اجلاس میں آئندہ جولائی میں دلی میں ہونے والے ایس سی او کے سربراہی اجلاس کی تیاری کو بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
پاکستان میں عوام نے ایک ایسے وقت جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے عوام کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے اور پاکستان کے ساتھ کسی طرح کی بات چیت سے انکاری ہے بلاول کے اس دورے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا ہے اور عام طورپر لوگوں کا خیال ہے کہ بھارت کی جانب سے مذاکرات سے انکار کے باوجود بلاول کا اس دورے کااہتمام امریکا کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ اگرچہ اپنی روانگی سے قبل بلاول نے اپنے ایک ویڈیو بیان میں کہا تھا کہ اس دورے پر ان کی تمام توجہ صرف ایس سی او اجلاس پر مرکوز ہو گی لیکن موجودہ حکومت کے وزرا کی تضاد بیانیوں کے سبب عام لوگ اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں اور اس کے پس پشت کوئی اور مقاصد کارفرما ہونے پر مصر نظر آتے ہیں۔ عام لوگوں اور خود پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کا موقف یہی ہے کہ اگر اس اجلاس میں شرک اتنی ہی ضروری تھی تو وزیر خارجہ ویڈیو لنک پر اجلاس میں شرکت کر سکتے تھے لیکن مودی کی محبت میں ان حکمرانوں کے لیے کشمیریوں پر مظالم اور مسلمانوں اور اقلیتوں کے ساتھ ظلم کی کوئی اہمیت نہیں، مودی کو خوش کرنے کے لیے یہ حکمران ہر حد پار کرنے کو تیار ہیں۔ جبکہ انھوں نے پڑوسی ملک افغانستان کے اجلاس کو نظرانداز کیا تھا۔ مگر پاکستان کے کم سن وزیر خارجہ پر کیا موقوف ، موجودہ حکومت ہر اعتبار سے امریکا اور بھارت کو خوش کرنے میں مصروف ہے، اور ایسا کوئی قدم نہیں اُٹھاتی جو مودی کو ناخوش کرے۔ اس لیے بلاول کے اس اقدام سے امریکا اور بھارت تو خوش ہے اور بلاول کی بھی بلے بلے کرانے کی کوششیں جاری ہیں۔


متعلقہ خبریں


متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود - هفته 23 ستمبر 2023

    ایک غیرجانبدار سروے رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران سفید پوش طبقے کے مزید 9فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں،اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے مسلسل پیٹرول بم گرانا معمول بن گیا ہے جس سے مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے لوگ زندہ رہنے ک...

متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود - بدھ 20 ستمبر 2023

٭جن کیسز میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اس میں ان کو حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی، قانون کے مطابق ان کیسز میں تب تک اپیل دائر نہیں ہو سکتی جب تک آپ جیل نہ جائیں٭وکلا عدالت میں درخواست دیں گے کہ نواز شریف جیل میں تھے اور عدالت نے علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے انہیں ملک سے باہر بھیج...

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی وجود - منگل 19 ستمبر 2023

   اخباری اطلاعات کے مطابق ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور ترسیل زر میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے  والے معمولی اضافے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر کو خاطر خواہ سہار ا نہیں مل سکا جبکہ ہماری برآمدی مسلسل روبہ زوال ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز حکومت کے دور میں ...

زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی

نیپرا کا عوام کش کردار وجود - جمعه 15 ستمبر 2023

بظاہر نیپرا کا ادارہ بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کی چیکنگ اور عوام کو ان کی زیادتیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کا کام ہی یہ تھا کہ وہ یہ چیک کرے کہ الیکٹرک سپلائی کرنے والی کمپنیاں عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی اور زیادتی تو نہیں کررہی ہیں لیکن نیپرا کی اب تک کی...

نیپرا کا عوام کش کردار

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ وجود - جمعرات 14 ستمبر 2023

وزارت خزانہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ ہونے کا عندیہ دیا ہے، وزارت خزانہ نے مہنگائی میں اضافے کا عندیہ ایک ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ مہنگائی سے بدحال عوام پہلے ہی سڑکوں پرہیں،حکومت نے پے درپے مہنگائی کرکے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، 90فیصد عوام مہنگائی کے سبب زندگ...

مہنگائی میں مزید اضافے کا خطرہ

گیس کا خسارہ عوام کو منتقل کرنے کا جواز کیا ہے؟ وجود - بدھ 13 ستمبر 2023

اخباری ا طلاعات کے مطابق نگران حکومت نے گیس کے شعبے کے بڑھتے ہوئے سرکولر قرض اور نقصانات عوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ ہفتے گیس کی قیمت میں 50 فیصد سے زائد اضافہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق گیس سیکٹر کا سالانہ 350 ارب روپے کا نقصان اور گردشی قرضے2...

گیس کا خسارہ عوام کو منتقل کرنے کا جواز کیا ہے؟

کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافہ وجود - منگل 12 ستمبر 2023

اخباری اطلاعات کے مطابق مغربی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کینسر کا مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔ کینسر جدید طرزِ زندگی کا ایک بھیانک تحفہ ہے اور اطلاعات کے مطابق نوجوانوں پر اس کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ایک تحقیق کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے 30 سال می...

کینسر کے مرض میں تیزی سے اضافہ

پاکستان کا ہربچہ 2 لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض وجود - اتوار 10 ستمبر 2023

اسٹیٹ بینک نے جولائی 2023 کے اختتام تک حکومت پاکستان کے قرض کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قرض رواں سال جولائی میں 907 ارب روپے بڑھا ہے۔ جولائی 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 61 ہزار 700 ارب روپے تھا۔ حکومت کا قرض ایک مہ...

پاکستان کا ہربچہ 2 لاکھ روپے سے زیادہ کا مقروض

بجلی کے ہوشربا بل: قومی بجٹ کا بڑا حصہ ہڑپ کرنے والی نجی پاؤر کمپنیوں کا کیا کردار ہے؟ وجود - جمعرات 07 ستمبر 2023

٭حکومت کے لیے ملکی دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد تیسری سب سے بڑی واجب الادا رقم آئی پی پیز کا بل ہے، اس سال دوکھرب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں٭یہ رقم اقتصادی بحران کے شکار ملک کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے، اسی کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضا...

بجلی کے ہوشربا بل: قومی بجٹ کا بڑا حصہ ہڑپ کرنے والی نجی پاؤر کمپنیوں کا کیا کردار ہے؟

خطرے کی گھنٹی مزید تیز، پیٹرول اور ڈالر 400 عبور کرسکتے ہیں!! وجود - پیر 04 ستمبر 2023

٭اگست میں حکومت نے پیٹرول لیوی کی آخری حد یعنی 60 روپے فی لیٹر عائد کر دی ہے، پچھلے 15 روز کی کمی پوری کی جائے گی، 15 ستمبر کو قیمت میں مزید اضافے کا امکان ہے٭حکومت سے ڈالر نہیں سنبھل رہا،حکومت مارکیٹ کو بھی کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہی، وزیراعظم کے بیان کے بعد اسٹاک ایکسچینج کریش...

خطرے کی گھنٹی مزید تیز، پیٹرول اور ڈالر 400 عبور کرسکتے ہیں!!

مہنگائی کے خلاف کامیاب ہڑتال، حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار وجود - پیر 04 ستمبر 2023

مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کے خلاف گزشتہ روز ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پرکراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ اور بسیں بھی معمول سے کم دیکھنے میں آئی۔ وکلا نے بھی ہڑتال کی حمایت ...

مہنگائی کے خلاف کامیاب ہڑتال، حکمرانوں کے لیے نوشتہ دیوار

کالعدم تنظیموں کی افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں وجود - پیر 04 ستمبر 2023

گزشتہ چند دنوں کے دوران بلوچستان کے شہر پشین اور خیبر پختونخوا کے پشاور میں سیکورٹی فورسز سے مقابلوں میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 20 ایسے افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں جن کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ بدھ کو پشاور میں مار...

کالعدم تنظیموں کی افغانستان سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں

مضامین
وکیل اور وکالت وجود بدھ 27 ستمبر 2023
وکیل اور وکالت

لوٹ مچ گئی ہے کیا؟ وجود بدھ 27 ستمبر 2023
لوٹ مچ گئی ہے کیا؟

حکمرانوں کی کرپشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوا وجود بدھ 27 ستمبر 2023
حکمرانوں کی کرپشن سے مہنگائی میں اضافہ ہوا

عید میلادالنبیۖ وجود منگل 26 ستمبر 2023
عید میلادالنبیۖ

اورنگ زیب عالمگیر ایک بہادر مسلمان مغل حکمران وجود منگل 26 ستمبر 2023
اورنگ زیب عالمگیر ایک بہادر مسلمان مغل حکمران

اشتہار

تجزیے
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!! وجود هفته 23 ستمبر 2023
متوسط طبقہ ختم ہو رہا ہے، کچھ فکر کریں!!

نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟ وجود بدھ 20 ستمبر 2023
نوازشریف کو وطن واپسی پر جیل جانا پڑسکتا ہے۔۔ قانونی مسائل کیا ہیں؟

نیپرا کا عوام کش کردار وجود جمعه 15 ستمبر 2023
نیپرا کا عوام کش کردار

اشتہار

دین و تاریخ
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش وجود هفته 23 ستمبر 2023
سیرتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں سادگی کے نقوش

جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے وجود جمعه 15 ستمبر 2023
جذبہ اطاعت رسول پیدا کیجیے

مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج وجود جمعه 08 ستمبر 2023
مادیت کا فتنہ اور اس کاعلاج
تہذیبی جنگ
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے وجود منگل 15 اگست 2023
سوئیڈش شاہی محل کے سامنے قرآن پاک شہید، مسلمان صفحات جمع کرتے رہے

مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی وجود جمعرات 03 اگست 2023
مسلمانوں کے خلاف برطانوی وزیر داخلہ کی ہرزہ سرائی

کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے وجود پیر 13 فروری 2023
کرناٹک، حجاب پر پابندی، ایک لاکھ مسلمان لڑکیوں نے سرکاری کالج چھوڑ دیے
بھارت
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم وجود منگل 19 ستمبر 2023
سکھ رہنما کے قتل میں بھارت ملوث نکلا، کینیڈا کا بھارتی سفارت کار کو ملک چھوڑنے کا حکم

آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
آسمانی بجلی کا قہر لاکھوں بھارتیوں کو بھسم کرچکا

بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا وجود بدھ 06 ستمبر 2023
بھارتی صدر نے ملک کے نام کے حوالے سے ایک نیا تنازع کھڑا کردیا

چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ وجود پیر 28 اگست 2023
چندریان تھری کی کامیابی پر بھارتی نجومی کا پاگل پن، چاند کو ہندو سلطنت قرار دینے کا مطالبہ
افغانستان
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا وجود بدھ 23 اگست 2023
طالبان نے پاسداران انقلاب کی نیوز ایجنسی کا فوٹوگرافر گرفتار کر لیا

افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی وجود پیر 14 اگست 2023
افغان سرزمین کسی پڑوسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہو گی، امیر متقی

بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام وجود منگل 08 اگست 2023
بیرون ملک حملے جہاد نہیں جنگ ہو گی، ہیبت اللہ اخوند زادہ کا طالبان کو پیغام
شخصیات
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے وجود جمعه 22 ستمبر 2023
صحافی، دانشور اور افسانہ نگار شیخ مقصود الہٰی انتقال کر گئے

معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے وجود جمعرات 07 ستمبر 2023
معروف افسانہ نگار، نثر نگار و مصنف اشفاق احمد کی 19 ویں برسی آج منائی جا رہی ہے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال
ادبیات
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر وجود پیر 25 ستمبر 2023
مارکیز کی یادگار صحافتی تحریر

فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے وجود پیر 11 ستمبر 2023
فیصل آباد کے ریٹائرڈ ایس ایچ او بچوں کی 3500 کتابوں کے مصنف بن گئے

سلیم احمد: چند مسائل و احوال وجود هفته 02 ستمبر 2023
سلیم احمد: چند مسائل و احوال