... loading ...
چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے گزشتہ روز اسلام آباد ہائی کورٹ میں صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو میں کہا ہے کہ انتخابات کے لیے مذاکرات کرنے پر تیارہیں،لیکن اگر حکومت فوری اسمبلی توڑ کر الیکشن کرانا چاہتی ہے تو ہی بات کریں گے، اگر وہ دوبارہ وہی ستمبر اکتوبر کی بات کرتے ہیں تو کوئی ضرورت نہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست ضمانت سے کی سماعت سے پہلے صحافیوں کے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے عمران خان نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا ’یہاں کوئی آئین بھی ہے؟ وہ آئین توڑنا چاہ رہے ہیں اور ہم آئین پر کھڑے ہیں۔ ہم رول آف لا پر کھڑے ہیں وہ قانون آئین توڑ رہے ہیں توہین عدالت کر رہے ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ اگر 14 مئی کو الیکشن نہیں ہوتے تو آئین ٹوٹ جائے گا۔ اور اگر آئین ٹوٹ گیا تو پھر جس کا بھی زورہو گا اسی کی بات چلے گی۔عمران خان نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ سب فیصلے سپریم کورٹ کے مانے ہیں۔ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہدایت پراس وقت حکومت اور اپوزیشن میں پسِ پردہ جو بات چیت ہو رہی ہے۔ اس میں سردار ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق، پرویز خٹک اور اسد قیصر شامل ہیں۔ سپریم کورٹ کو بھی اٹارنی جنرل نے یقین دلایا تھا کہ حکومت کی جانب سے سیاسی محاذ پر مفاہمت اور بات چیت کی جو کوشش جاری ہے اس میں کچھ وقت درکار ہے۔ اس مرحلے پر جب بات چیت کے پہلے دور میں بات چیت نشستند گفتند اور برخواستند سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا واقعی حکومت اور اپوزیشن مل کر کوئی درمیانی راستہ نکالنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ سیاسی تجزیہ تو یہی کہتا ہے کہ اوّل اس کے امکانات کم ہیں، لیکن اگر اس پسِ پردہ بات چیت کو اسٹیبلشمنٹ کی کسی نہ کسی شکل میں حمایت حاصل ہوگئی تو ایک درمیانی راستہ جولائی میں انتخابات کے طور پر سامنے آسکتا ہے۔ عمران خان پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ اگر جولائی میں عام انتخابات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو وہ مذاکرات کے حامی ہیں، وگرنہ ان مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ اگر عدالتی فیصلے کے باوجود حکومت انتخابات کے لیے تیار نہیں ہوگی تو وہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کی کال دے سکتے ہیں۔ سوال یہ بھی ہے کہ اگر حکومت نے واقعی عام انتخابات کا راستہ اختیار نہیں کیا تو ایسی صورت میں دو صوبائی نگراں حکومتوں کا مستقبل کیا ہوگا، اور کیسے اورکس قانون کے تحت ان کو آگے بڑھایا جاسکتا ہے؟کیونکہ اگر واقعی حکومت اور اپوزیشن میں اتفاق نہیں ہوتا اور عدلیہ بھی اپنے موقف پر قائم رہتی ہے تو ایسی صورت میں محاذ آرائی اور ٹکراؤ کو نہیں روکا جاسکے گا۔ کیونکہ بہرحال عدالت کا فیصلہ اچھا ہو یا برا، اس کو ماننے سے انکار پر ریاستی نظام کو خطرات ہی لاحق ہوں گے، اورایسا کرکے ہم خود لڑائی یا ٹکراؤ کو دعوت دیں گے۔ اسٹیبلشمنٹ کے حق میں بھی یہ نہیں ہوگا کہ حالات ٹکراؤ کے نتیجے میں اس حد تک آگے چلے جائیں کہ واپسی کا راستہ مزید مشکل ہوجائے۔ اس لیے اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ حکومت اور اپوزیشن میں بات چیت کا جو عمل چل رہا ہے اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت اگر ابھی نہیں بھی ہے تو آگے کسی مرحلے پر شامل ہوجائے گی۔کیونکہ اسٹیبلشمنٹ سمیت بہت سے فریق ملک میں ایک ہی انتخابات کے حامی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ انتخابات کے نام پر سیاسی ایڈونچر نہ ہوں اور ایک ہی دن پورے ملک میں انتخابات ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں یہ خیال پیدا ہوا ہے کہ اس اہم موقع پر پیپلزپارٹی نے مفاہمت کا جو کارڈ کھیلا ہے اس کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔اسی طرح آصف زرداری کے اس بیان کو بھی مسلم لیگ (ن) میں پسند نہیں کیا گیا کہ ”یہ ہماری حکومت نہیں، ہم اس حکومت کا حصہ ہیں“۔ یعنی اس حکومت کے بوجھ کو پیپلزپارٹی نے قبول کرنے سے انکار کیا ہے۔ پیپلزپارٹی کی صفوں میں یہ خیال زور پکڑ چکاہے کہ ہمیں بلاوجہ مسلم لیگ (ن) کے فیصلوں کے ساتھ کھڑا ہونے کے بجائے اپنی ہی پالیسی تک خود کو محدود رکھنا چاہیے اورمسلم لیگ (ن) کے فیصلوں کا جو بوجھ حکومت پر گررہا ہے اس میں ہمیں حصے دار نہیں بننا چاہیے۔ اس لیے یہ امکان بھی موجود ہے کہ آنے والے کچھ دنوں میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ (ن) میں بھی بہت سے فیصلوں پر فاصلے نظر آئیں جو موجودہ حکومتی اتحاد کے حق میں نہیں ہوگا۔کیونکہ اگر عدالت نے انتخابات کے حق میں فیصلہ دیا تو پیپلزپارٹی اس فیصلے کی سرخ لائن کو عبور نہیں کرے گی اور چاہے گی کہ عدالتی فیصلوں کا احترام کیا جائے۔کیونکہ آصف زرداری کسی بھی طور پر مزاحمت یا اسٹیبلشمنٹ یا عدلیہ مخالف لڑائی کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔دوسری طرف عمران خان سے مذاکرات کے نام پر بھی حکومتی اتحاد تقسیم ہے۔ پیپلز پارٹی اورمسلم لیگ (ن) کے کچھ افراد مذاکرات کے حامی ہیں جبکہ نوازشریف، مریم صفدر اور مولانا فضل الرحمن مذاکرات کی مخالفت کررہے ہیں اوران کا موقف ہے کہ عمران خان سے مذاکرات کا مقصد عمران خان کو ہی مضبوط بنانا ہے۔لیکن یہ بات ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ مذاکرات کا ترپ کا پتا آصف زرداری اور شہبازشریف کے ہاتھ میں ہے، اوریہ دونوں اس وقت اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کے ساتھ ہیں۔ اس لیے جو یہ فیصلہ کریں گے اس کو ہی تقویت ملے گی۔اب جلد یابدیرحکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کے کھیل کا نتیجہ بھی نکل آئے گا،اوراسی کھیل کے دوران یا اختتام پر عدالتی فیصلہ بھی سامنے آجائے گا، اور یہ دونوں فیصلے مستقبل کی سیاست کا نقشہ بھی کھینچ دیں گے کہ قومی سیاست کس طرف جائے گی۔
ایک غیرجانبدار سروے رپورٹ میں انکشاف کیاگیاہے کہ گزشتہ ایک ڈیڑھ ماہ کے دوران سفید پوش طبقے کے مزید 9فیصد لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں،اور بڑھتی ہوئی مہنگائی سے انسانی المیہ جنم لے رہا ہے مسلسل پیٹرول بم گرانا معمول بن گیا ہے جس سے مہنگائی تیزی سے بڑھ رہی ہے لوگ زندہ رہنے ک...
٭جن کیسز میں نواز شریف کو سزا سنائی گئی اس میں ان کو حفاظتی ضمانت نہیں مل سکتی، قانون کے مطابق ان کیسز میں تب تک اپیل دائر نہیں ہو سکتی جب تک آپ جیل نہ جائیں٭وکلا عدالت میں درخواست دیں گے کہ نواز شریف جیل میں تھے اور عدالت نے علاج کی غرض سے چار ہفتوں کے لیے انہیں ملک سے باہر بھیج...
اخباری اطلاعات کے مطابق ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہورہی ہے اور ترسیل زر میں حالیہ مہینوں کے دوران ہونے والے معمولی اضافے کے باوجود زرمبادلہ کے ذخائر کو خاطر خواہ سہار ا نہیں مل سکا جبکہ ہماری برآمدی مسلسل روبہ زوال ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ شہباز حکومت کے دور میں ...
بظاہر نیپرا کا ادارہ بجلی سپلائی کرنے والے اداروں کی چیکنگ اور عوام کو ان کی زیادتیوں سے محفوظ رکھنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس ادارے کا کام ہی یہ تھا کہ وہ یہ چیک کرے کہ الیکٹرک سپلائی کرنے والی کمپنیاں عوام کے ساتھ کوئی ناانصافی اور زیادتی تو نہیں کررہی ہیں لیکن نیپرا کی اب تک کی...
وزارت خزانہ نے گزشتہ روز ایک بار پھر مہنگائی میں اضافہ ہونے کا عندیہ دیا ہے، وزارت خزانہ نے مہنگائی میں اضافے کا عندیہ ایک ایسے وقت میں دیا ہے جبکہ مہنگائی سے بدحال عوام پہلے ہی سڑکوں پرہیں،حکومت نے پے درپے مہنگائی کرکے عوام کو زندہ درگور کردیا ہے، 90فیصد عوام مہنگائی کے سبب زندگ...
اخباری ا طلاعات کے مطابق نگران حکومت نے گیس کے شعبے کے بڑھتے ہوئے سرکولر قرض اور نقصانات عوام کو منتقل کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے آئندہ ہفتے گیس کی قیمت میں 50 فیصد سے زائد اضافہ کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ ایک نجی ٹی وی کے مطابق گیس سیکٹر کا سالانہ 350 ارب روپے کا نقصان اور گردشی قرضے2...
اخباری اطلاعات کے مطابق مغربی ملکوں کی طرح پاکستان میں بھی کینسر کا مرض تیزی سے پھیل رہاہے۔ کینسر جدید طرزِ زندگی کا ایک بھیانک تحفہ ہے اور اطلاعات کے مطابق نوجوانوں پر اس کے اثرات تیزی سے سامنے آرہے ہیں۔ ایک تحقیق کے چونکا دینے والے اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پچھلے 30 سال می...
اسٹیٹ بینک نے جولائی 2023 کے اختتام تک حکومت پاکستان کے قرض کی تفصیلات جاری کر دی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کا قرض رواں سال جولائی میں 907 ارب روپے بڑھا ہے۔ جولائی 2023 کے اختتام پر حکومت کا قرض 61 ہزار 700 ارب روپے تھا۔ حکومت کا قرض ایک مہ...
٭حکومت کے لیے ملکی دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد تیسری سب سے بڑی واجب الادا رقم آئی پی پیز کا بل ہے، اس سال دوکھرب روپے کی ادائیگیاں کرنا ہیں٭یہ رقم اقتصادی بحران کے شکار ملک کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے، اسی کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضا...
٭اگست میں حکومت نے پیٹرول لیوی کی آخری حد یعنی 60 روپے فی لیٹر عائد کر دی ہے، پچھلے 15 روز کی کمی پوری کی جائے گی، 15 ستمبر کو قیمت میں مزید اضافے کا امکان ہے٭حکومت سے ڈالر نہیں سنبھل رہا،حکومت مارکیٹ کو بھی کوئی مثبت پیغام نہیں دے رہی، وزیراعظم کے بیان کے بعد اسٹاک ایکسچینج کریش...
مہنگائی اور بجلی کے زائد بلوں کے خلاف گزشتہ روز ملک بھر میں شٹرڈاؤن ہڑتال کی گئی۔ اس موقع پرکراچی، لاہور اور پشاور سمیت ملک کے مختلف چھوٹے بڑے شہروں میں تمام دکانیں اور کاروباری مراکز بند رہے۔ سڑکوں پر ٹرانسپورٹ اور بسیں بھی معمول سے کم دیکھنے میں آئی۔ وکلا نے بھی ہڑتال کی حمایت ...
گزشتہ چند دنوں کے دوران بلوچستان کے شہر پشین اور خیبر پختونخوا کے پشاور میں سیکورٹی فورسز سے مقابلوں میں 6 دہشت گرد مارے گئے۔ پچھلے ایک ہفتے کے دوران پنجاب کے مختلف شہروں سے لگ بھگ 20 ایسے افراد کی گرفتاری کی اطلاعات ہیں جن کا تعلق مختلف کالعدم تنظیموں سے ہے۔ بدھ کو پشاور میں مار...